میرے معزز بزرگو! برطانوی قوم اور اشخاص میں اگرچہ نیک دل، انصاف پسند، انسانی سچی ہمدردی رکھنے والے، صادق الوعد، شریف النفس لوگ بھی ہیں مگر افسوس کہ عام لوگ بالخصوص اصحابِ اقتدار و حکومت مندرجہ ذیل اخلاق و اعمال کے مجسمے ہیں جس کو مسٹر جارج الین اینڈانو (Mr. George Alan Andano) نے کتاب میں بطور اقتباس شائع کرایا ہے:
’’موجودہ تمدن کا سارا لب لباب منافقت ہے لوگ اپنا عقیدہ ظاہر کرتے ہیں لیکن عملاً اپنی جانیں تک مال پر قربان کرتے رہتے ہیں۔ زبانوں پر آزادی کا دعوی رہتا ہے لیکن جو لوگ آزادی کے علم بردار ہوتے ہیں انہیں کو سزائیں ملتی ہیں۔ (دعویٰ مسیح کی پیروی کا ہے اور اطاعت مسولینی (Mussolini) وغیرہ کی کی جا رہی ہے) عزت کے الفاظ عصمت کے متعلق استعمال کیے جاتے ہیں لیکن عملی زندگیاں حرام کاری اور آتشک کے لیے وقف ہیں۔ زبانی داد سچائی کی دیتے ہیں لیکن عملاً اقتدار اور اختیار کی کرسیوں پر بددیانتوں کو ہی بٹھائے ہوئے ہیں۔ زبانوں پر اخوت کے نعرے ہیں لیکن جو بھائی ان کی جنگ یا وطنیت یا قومیت کے بدمستانہ جلوسوں میں شریک نہیں ہوتے ان کے لیے جیل خانہ ہے یا جلا وطنی یا بندوق کی گولیاں۔‘‘ (سچ نمبر ش 4 ص 246 جنوری ش 193)
بالخصوص ہندوستانیوں کے ساتھ تو ان کا معاملہ ہر زمانے میں نہایت شرمناک اور تعجب خیز رہا ہے۔ وارن ہیسٹنگز (Warren Hastings) لکھتا ہے:
’’انگریز ہندوستان میں آکر بالکل نیا انسان بن جاتا ہے، جن جرائم کی وہ اپنے ملک میں جرات کر ہی نہیں سکتا، ہندوستان میں اس کے ارتکاب کے واسطے انگریز کا نام جواز کا حکم رکھتا ہے۔ اس کو سزا کا خیال تک نہیں ہو سکتا۔‘‘
ٹمس سڈہسٹم لکھتا ہے:
’’میں ہمیشہ سے دیکھتا ہوں کہ بمقابلہ اور قوموں کے انگریز ممالک غیر میں سب سے زیادہ چیرہ دستی کرتے ہیں اور ہندوستان میں یہی واقعہ پیش آرہا ہے۔‘‘
مسٹر ہولٹ مکنزی (Mr. Holt Mackenzie) 1830ء میں لکھتا ہے:
’’یہ عمل نہایت حیرت انگیز ہے کہ ہندوستانیوں کے ساتھ نیک دلی انگریزوں کا برتاؤ بھی حقارت آمیز رہا ہے جو فی الحقیقت نہایت نیک نیت تھے کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کسی حکومت کی مثال ایسی نہ ملے گی جس نے مکمل طور پر اپنے مطلق العنان جبروت کو سول انتظامات کے ذریعے سے (اگر اس کو سول کہہ سکتے ہیں) منوایا ہو جو درحقیقت حربی ہے۔‘‘
لارڈ میکالے (Lord Macaulay) لکھتا ہے:
’’زمانہ سابق کے تمام ایشیائی اور یورپین ظالموں کی غیر انصافیاں، سپریم کورٹ (عدالت عالیہ) کے انصاف کے مقابلہ میں برکت معلوم ہوتی ہیں۔‘‘
میلکم لوئس (Malcolm Louis) حج عدالتِ عالیہ مدراس و ممبر کونسل لکھتا ہے:
’’ہم نے ہندوستانیوں کی ذاتوں کو ذلیل کیا۔ ان کے قانونِ وراثت کو منسوخ کیا۔ بیاہ شادی کے قواعد کو بدل دیا۔ مذہبی رسم و رواج کی توہین کی۔ عبادت خانوں کی جاگیریں ضبط کر لیں۔ سرکاری کاغذات میں انہیں کافر لکھا۔ امراء کی ریاستیں ضبط کر لیں۔ لوٹ کھسوٹ سے ملک کو تباہ کیا۔ انہیں تکلیف دے کر مال گزاری وصول کی۔ سب سے اونچے خاندان برباد کر کے انہیں آوارہ گرد بنا دینے والے بندوبست کیے۔‘‘ (ہندوستان کی سیاسی ترقی ص 3)
سر تھامس منرو (Sir Thomas Munro) اپنی رپورٹ میں لکھتا ہے:
’’وضعِ قانون میں ان کا (ہندوستانیوں کا) کوئی حصہ نہیں اور قوانین کے عمل درآمد میں ان کو بہت کم دخل ہے۔ باستثناء چند نہایت چھوٹے عہدوں کے وہ کسی بڑے عہدے تک خواہ وہ فوجی ہوں یا سول، کسی بڑے عہدے تک نہیں پہنچتے، وہ ہر جگہ ایک ادنیٰ قوم کے فرد سمجھے جاتے ہیں، تمام فوجی اور دیوانی عہدے جو کچھ بھی اہمیت رکھتے ہیں اب یورپیوں کے قبضہ میں ہیں جن کا پس انداز روپیہ خود ان کے ملک کو چلا جاتا ہے۔‘‘ ( ح خ 1 ص 14)
لارڈ میکالے لکھتا ہے (Macaulay's Essays of Wareen Hastings):
’’ہندوستان کے لوگ انگریزوں کے مقابلہ میں اگرچہ بہت غریب ہیں تاہم جو تکلیف و تاخیر اور خرچ انگریزی قانون کی وجہ سے پیش آتا ہے، وہ اس کو ان نقائص کے مقابلے میں جو اس قانون کے غیر ملکی ہونے کی وجہ سے اس میں موجود ہیں، زیادہ اہم نہیں سمجھتے۔ ان کی فطرت، ان کی عزت، ان کے مذہب، ان کی عورتوں کی عفت کے قومی محسوسات کو اس بدعت کا سامنا کرنا پڑا۔ مال کی کارروائیوں میں پہلا قدم جو اٹھایا گیا وہ یہ تھا کہ مال گزاری کی بقایا میں لوگ گرفتار کیے جانے لگے۔ در آں حالیکہ معزز ہندوستانی کے لیے گرفتاری محض نظر بندی نہ تھی بلکہ بدترین ذاتی بے عزتی تھی۔ ہر مقدمہ کی ہر منزل پر حلف لیے جانے لگے۔ درآں حالیکہ معزز ہندوستانیوں کے نزدیک یورپ کے فرقہ کویکر سے (جو قسم کو معیوب سمجھتا ہے) یہ طریقہ زیادہ تکلیف دہ تھا۔ مشرقی ممالک میں معزز گھرانوں کے زنان خانہ میں غیر آدمی کا داخل ہوتا یا عورتوں کے چہرے کو دیکھ لینا ناقابل برداشت زیادتی سمجھی جاتی ہے اور اس کو موت سے بھی زیادہ خوفناک خیال کیا جاتا ہے اور جس کا انتقام صرف خونریزی سے لیا جا سکتا ہے۔ بنگال، بہار اور اڑیسہ کے نہایت معزز خاندانوں کو اس قسم کی بے عزتیوں کا سامنا ہوا۔ اگر ہمارے ملک میں دفعتاً ایک ایسا قانون نافذ کر دیا جائے جو ہمارے لیے ایسا ہی نیا ہو جیسا کہ ہمارا قانون ایشیائی رعایا کے لیے ہے، تو یہ خیال کرنے کی بات ہے کہ ہمارے ملک کی اس وقت کیا حالت ہو جائے گی۔ اگر ہمارے ملک میں یہ قانون نافذ ہو کہ کسی شخص کی قسم کھا لینے سے کہ اس کا قرضہ ہم پر ہے، اسے یہ حق ہو جائے گا کہ وہ معزز اور مقدس ترین اشخاص اور پردہ نشین خواتین کی ہتک کر سکے، ایک افسر کے بید لگائے جا سکیں، ایک پادری کو کٹہرے میں ٹھونسا جا سکے، شریف عورتوں کے ساتھ اس طریقہ سے سلوک کیا جا سکے کہ جس کا نتیجہ واٹ ٹائلر (Watt-Tyler) جیسا بلوہ ہو (انگلستان میں 1381ء میں رچرڈ (Mr. Richard) نے ہر بالغ مرد اور عورت پر ایک نیا ٹیکس لگایا تھا جس کی مقدار ایک شلنگ فی کس تھی، اس پر کاشت کاروں نے عظیم الشان بلوہ کر دیا تھا۔ اس کا سردار واٹ ٹائر (Watt-Tyler) تھا) تو اس وقت ملک کی جو حالت ہو جائے گی اس کے تصور سے دل کانپتا ہے۔‘‘ الخ (ح خ 1 ص 16)
سر جان شور (Sir John Shore) 1833ء میں لکھتا ہے (اس کا تعلق بنگال سول سروس سے رہا تھا):
’’انگریزوں کا بنیادی اصول یہ رہا ہے کہ ہر صورت سے تمام ہندوستانی قوم کو اپنی اغراض کا غلام بنایا جائے، ان پر محصولات اتنے لگا دیے ہیں کہ اضافہ کی گنجائش نہیں چھوڑی ہے۔ یکے بعد دیگرے جو صوبہ ہمارے تصرف میں آیا ہے اس کو مزید وصولیابی کا میدان بنا لیا گیا ہے۔ اور ہم نے اس بات پر ہمیشہ فخر کیا ہے کہ دیسی والیانِ ملک جتنا وصول کرتے تھے اس سے ہماری آمدنی کس قدر زیادہ ہے۔ ہر وہ عہدہ و عزت اور منصب جس کو قبول کرنے کے لیے ادنیٰ سے ادنی انگریز کو آمادہ کیا جا سکتا ہے، ہندوستانیوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔‘‘ (ح خ 1 ص 27)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ برطانوی قوم جو کہ 1600ء میں تجارت کرنے کے لیے ہندوستان میں آئی تھی اس نے آہستہ آہستہ وہ وہ وحشیت اور بربریت کے سفاکانہ طریقے اختیار کیے جو کہ نہ صرف ظلم و ستم کے انتہائی مظاہرات تھے بلکہ وہ انسانیت کے لیے بدنما اور شرمناک دھبے بھی تھے۔ یہ شرمناک اطوار 700ء سے 1757ء تک ننگے طور سے بذریعہ تجارت لوٹ کھسوٹ اور تسلط کی صورت میں ظاہر ہوتے رہے۔ چنانچہ 1766ء میں جماعت ڈائریکٹران نے رپورٹ میں لکھا کہ:
’’ہمارے نزدیک اندرونِ ملک کی تجارت سے جو کثیر دولت حاصل کی گئی ہے وہ انتہائی درجہ کے ظالمانہ اور جابرانہ طریقوں کے استعمال کا نتیجہ ہے اور جس کی نظیر کسی زمانہ اور ملک میں نہ ملے گی۔‘‘
لارڈ کلایو (Lord Clive) کہتا ہے:
’’رشوت خوری اور زیادہ ستانی کا منظر بجز بنگال کے کسی ملک میں دیکھا یا سنا نہیں۔‘‘
لارڈ میکالے لکھتا ہے:
’’اس طریقے سے بے شمار دولت بہت جلد کلکتہ میں جمع ہو گئی۔ درآں حالیکہ تین کروڑ انسان حد درجہ برباد کر دیے گئے۔ بے شک ان لوگوں کو مظالم میں رہنے کی عادت تھی۔ مگر وہ مظالم اس قسم کے نہ تھے۔ کمپنی کی چھوٹی انگلی انہیں سراج الدولہ کے چٹھے سے زیادہ معلوم ہوتی تھی۔‘‘
1762ء میں نواب بنگال نے انگریز گورنر کو مندرجہ ذیل الفاظ لکھے تھے:
’’کمپنی کے ملزمان رعایا اور سوداگروں کا مال چوتھائی قیمت پر لے لیتے ہیں اور اپنے ایک روپیہ کے سامان کی قیمت ان سے پانچ روپے وصول کرتے ہیں۔‘‘
لارڈ میکالے لکھتا ہے:
’’کمپنی کے عیوب میں محض ظلم ہی نہ تھا بلکہ ظلم سے ایسے خراب نتائج پیدا ہوتے تھے جیسا کہ دولت مند بننے کے بے اصول حرص سے پیدا ہوتے ہیں۔‘‘
انہیں کو سر ولیم ڈِگبی (Sir William Digby) پراسپرس برٹش انڈیا (British India Prosperous) میں مندرجہ ذیل الفاظ میں لکھتا ہے:
’’جو کمی 1901ء میں ہمارے طریقہ حکومتِ ہند میں دکھائی دیتی ہے جہاں تک کہ ہندوستانیوں کا تعلق ہے اور جو کچھ غیر معمولی غربت ہندوستانی براعظم میں پھیل رہی ہے وہ ہمارے اس طرزِ حکومت کا نتیجہ ہے جو نیک نیتی سے مگر غلطی سے پہلے شروع کی گئی اور اب تک بحال رکھی گئی وہ اصولِ حکومت تین قسم کے ہیں۔ اول تسلط بذریعہ تجارت یعنی ہندوستان کی دولت اعلانیہ سمیٹنا ننگے طور سے، 1700ء سے 1757ء تک۔‘‘
برطانوی قوم نے ابتداء ابتداء میں اگرچہ ایماندارانہ طریقے پر تجارت کی مگر فروغ ہونے پر وہ انسانیت کی حدود سے نکل کر درندے بن گئے اور جو کچھ نہ کرنا چاہیے تھا کر گزرے۔ یہاں تک کہ اس ہوسِ دولت نے حرصِ ملک گیری اور بادشاہت تک پہنچا دیا۔ اور 1757ء میں انہوں نے بدعہدیوں اور بے وفائیوں کی شرمناک صورت میں پلاسی کی جنگ چھیڑ دی اور غداروں کی ناپاک کارروائیوں کے ذریعے سے کامیاب ہو گئے۔ اب کیا تھا؟ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو گیا۔ چاروں طرف ظلم و استبداد کا شور مچ گیا، دولت سمیٹنے اور مظالم کا شکار کرنے میں کوئی ظاہرہ بھی حائل نہ تھا۔ ہر چیز پر اپنا قبضہ جما لیا گیا اور ہر طرح پر ہندوستانی خوشحالی اور فارغ البالی کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ دولت کے دریا انگلستان کو بہنے لگے اور افلاس و نکبت کی ہلاک کرنے والی آندھیاں ہندوستان پر چاروں طرف سے آنے لگیں۔
بروکس (Mr. Brooks) اس زمانے کے متعلق کہتا ہے:
’’یہ مالامال خزانے کروڑوں آدمیوں کی صدیوں کی کمائی انگریزوں نے ہتھیا کر لندن اسی طرح بھیج دی جس طرح روم نے یونان اور پولش کے خزانے اٹلی بھیج دیے تھے۔ ہندوستانی خزانے کتنے قیمتی تھے کوئی انسان بھی اس کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ کروڑوں اشرفیاں ہوں گی۔ اتنی دولت اس وقت کی مجموعی یورپین دولت سے بہت زیادہ تھی۔‘‘
سر جان شور کہتا ہے:
’’لیکن ہندوستان کا عہدِ زریں گزر چکا ہے۔ جو دولت کبھی اس کے پاس تھی اس کا جزوِ اعظم ملک کے باہر کھینچ کر بھیج دیا گیا، اس کے قوائے عمل اس بدعملی کے ناپاک نظام نے معطل کر دیے ہیں جس نے لاکھوں نفوس کی منفعت کو چند افراد کے فائدہ کی خاطر قربان کردیا۔‘‘
لارڈ میکالے کہتا ہے کہ:
’’دولت کے دریا انگلستان کو بہتے چلے جاتے تھے۔‘‘
سر جان سیلیون کہتا ہے:
’’ہمارا طرزِ حکومت اسفنج کے مانند گنگا کے دھارے سے ہندوستانیوں کی دولت کو چوس لیتا ہے اور دریائے ٹائمز کے کنارے نچوڑ دیتا ہے۔‘‘
صوبہ بنگال پر تسلط جمانے اور اس کی لوٹ کھسوٹ کے بعد ملک گیری کا مزے دار خون انگلستانی درندوں کے منہ ایسا لگا کہ یکے بعد دیگرے صوبہ جات ہند زیر تسلط لائے جانے لگے اور اس قبضہ اور تسلط میں کسی عہد و میثاق اور کسی قسم کے عدل و انصاف کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ جو کچھ بھی برطانوی اصحابِ اقتدار اور کمپنی کے گورنر اور حکام کر بیٹھیں وہی عدل تھا، وہی حق تھا، وہی رعایا پروری تھی، وہی انسانیت تھی۔ اسی زمانے کے متعلق دوسرے دور کا بیان کرتا ہوا سر ولیم ڈِگبی لکھتا ہے:
’’دوئم تسلط بذریعہ اطاعت بالجبر یعنی ہندوستان انگلینڈ کے لیے ہے۔ آغاز سے انجام تک یہ دور 1758ء سے 1832ء تک رہا۔‘‘
اس دور میں ایک طرف تو کمپنی اور اس کے ملازمین تجارت کرتے اور تاجرانہ حرص و آز کو ہر ہر طرح سے کامیاب بنانے کی کوشش کرتے تھے، اور دوسری طرف وہ مالکانہ اقتدار اور شاہانہ تسلط رکھتے تھے۔ سرجان شور 1787ء میں اپنی ایک یادداشت میں لکھتا ہے:
’’کمپنی کے لوگ ایک طرف تو تاجر اور دوسری طرف وہ حکمراں۔ اول الذکر حیثیت میں وہ ملک کی تجارت پر قابض ہیں اور ثانی الذکر حیثیت میں وہ مالگزاری وصول کرتےہیں۔‘‘
نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوستان بری طرح برباد و تباہ ہوا، اس کے تمام ذخائر چھین لیے گئے، اس کے تمام قدرتی چشمے اپنے تصرف میں لے لیے گئے، اس کی ہر قسم کی رفاہیت اور برتری بدتر بنا دی گئی۔ ان سب کارناموں کی تفصیل آپ حضرات کے سامنے پیش کرنا نہیں چاہتے اور نہ ہم اس مقام میں ان عہود و مواثیق کی تفاصیل لانا چاہتے ہیں جن کو گورنرانِ کمپنی ہندوستانی بادشاہوں اور نوابوں سے اس عرصہ کرتے رہے اور پھر یکے بعد دیگرے توڑتے اور ان کو پامال کرتے رہے۔ تاریخ ان بدعہدیوں اور سیاہ کارناموں سے بھری ہوئی ہے جن کو تاریخِ برطانیہ یا اس کے بڑے بڑے ذمہ دار اشخاص نے مرتب کر کے اعلان کیا اور پھر ان کو نہایت بے حیائی اور چالاکی سے شرمناک طریقہ پر توڑا اور پامال کیا۔
(ماخوذ از خطباتِ صدارت، مطبوعہ مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)