ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد

جاننے والے جانتے ہیں کہ ہر دور میں مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی مشکلات کا علاج باوجود تقویٰ و طہارت شان حضرات علماء نے کیا ہے، کیونکہ علماء کسی خاص نسل یا خاص ملک کے لیے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اگر ایک آدمی کو اپنی تن پروری کے سوا کی فکر نہ ہو، اس کو ہم ذی عقل حیوان سے زیادہ حیثیت نہیں دے سکتے۔ جو شخص یا جماعت محض اپنا گھر بچانے کی فکر تو کرے، مگر دوسری قوموں کی بربادی پر ٹس سے مس نہ ہو، ایسے آدمی کو آدمی کہنا انسانیت کے قانون میں جرم ہے۔

حاملین قرآن اور مجاہدین نے قرآن کی روشنی میں انسانیت کی غیر طبعی تقسیم کو منسوخ کیا ہے اور تنگ خیالی کے طلسم کو توڑ کر فرض شناسی کے ایک وسیع عالم کی راہیں کھول دی ہیں۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ عمر بن عبد العزیزؓ اور امام ابوحنیفہؓ اپنے اپنے زمانوں میں نہ صرف علم و فضل کے امام رہے بلکہ دینی سیاست کے مقتضیات کے مطابق دنیا کی رہنمائی اور حجروں سے نکل کر میدانوں کی جادہ پیمائی اور نبرد آزمائی ان کا اہم کارنامہ ہے۔ قاضی ابو یوسف کے دربار سے امام شعبی کا قیصر روم کی طرف سفیر ہو کر جانا، علامہ ابن حزم کا پانچویں صدی ہجری میں وزارت کے بار خطیر کو برداشت کرنا، شیخ عبد القادر جیلانی و ابن عربی کا باوجود استغراق و تبتل اپنے زمانے کے سلاطین کے احکامات پر تنقید کرنا، اور امت کی ضرورتوں کے پیش نظر زمین و آسمان کو ایک کر دینا، امام رازی اور خواجہ اجمیری کا غوری کے ساتھ اشتراک عمل کرنا، تاریخ کی اہم روداد ہے۔

دور کیوں جائیے، خود ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ذات گرامی کو جو حیثیت ہر اعتبار سے حاصل ہے، وہ اب تک کسی عالم ربانی کو حاصل نہ ہو سکی۔ آپ کے ہم عصر سلاطین مغلیہ میں عالمگیر سے لے کر گیارہویں تاجدار شاہ عالم تک کا زمانہ آپ کی آنکھوں کے سامنے گزرا ہے اور کم و بیش احمد شاہ ابدالی کے سات حملے ہندوستان پر آپ ہی کی زندگی میں ہوئے ہیں۔ کیا آپ ایسے تارک دور میں گوشہ نشین ہو گئے تھے؟ ہرگز نہیں، بلکہ احمد شاہ ابدالی کا ہندوستان آنا، نجیب الدولہ کا امیر الامراء ہو جانا، سب شاہ ولی اللہ کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا۔

شاہ ولی اللہ دہلوی کے سیاسی مکتوبات کا دوسرا خط ارباب سیاست کو پڑھنا چاہیے کہ شاہ صاحب نے کس طرح سیاسی انتشار اور زوال کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے اور سیاسی بصیرت کے ساتھ سمجھا اور سمجھایا ہے، شاہ صاحب ہی کا کام تھا کہ اس زمانہ کی مختلف سیاسی طاقتوں سے کام لے کر ہندوستان کی فضا سے سیاسی بد امنی، قتل و غارت گری، فتنہ اور مفسدانہ عناصر کی بیخ کنی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا۔ بقول مولانا خلیق احمد نظامی، پانی پت کا میدان کارزار حقیقت میں شاہ ولی اللہ صاحب کا سجایا ہوا تھا۔ اگر سلطنت مغلیہ میں تھوڑی سی بھی جان ہوتی تو وہ جنگ پانی پت کے نتائج سے فائدہ اٹھا کر اپنے اقتدار کو ہندوستان میں پھر کچھ صدیوں کے لیے قائم کر سکتی تھی۔

اس کے ساتھ شاہ ولی اللہ اور احمد شاہ ابدالی، انگریزوں سے بے خبر نہ تھے بلکہ وہ خطرہ محسوس کر رہے تھے کہ کہیں مغل بادشاہ کے تساہل سے انگریزوں کو اپنا اقتدار قائم کرنے کا موقع نہ مل جائے، جس کے روک تھام کی تدبیریں کیں اور بہار سے شاہ عالم ثانی کا یہی بلانا اسی لیے تھا کہ وہ انگریزوں کے اثر سے نکل آئے اور دہلی آکر اپنی طاقت کا استحکام کر لے۔ یہ تھے حکیم الامت اور امام شریعت و طریقت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ۔

تحریک آزادئ ہند کا آغاز اور سیدنا حضرت شاہ ولی اللہؒ و شاہ عبد العزيزؒ

پوری صدی گزر جانے کے بعد یہ سوال پیدا ہوا کہ دارالاسلام ہندوستان پر جب انگریزی حکومت نے تغلب کیا تو سب سے پہلا کون شخص تھا جس نے قانون اسلام کی پیروی کرتے ہوئے ہندوستان کو دوبارہ دارالاسلام بنانے کی سعی کی؟ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اورنگزیب کے بعد جب ہندوستان کی حکومت کو گھن لگنا شروع ہوا تو سیدنا شاہ ولی اللہؒ ہی نے پوری فراست ایمانی اور سیاست دانی کا ثبوت دیتے ہوئے اسباب و علل پر بحث فرمائی اور حکومت، امراء، وزراء اور سوسائٹی کے دوسرے طبقات کو مخاطب کر کے ایک پروگرام دیا، جس کا متن سیدنا سلیمان صاحبؒ کے الفاظ میں یہ ہے:

’’ہندوستان پر اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہوئی کہ عین تنزل اور سقوط کے آغاز میں شاہ ولی اللہؒ کے وجود نے مسلمانوں کی اصلاح و دعوت کا ایک نیا نظام مرتب کر دیا تھا۔‘‘ (مولانا سندھیؒ کے افکار و خیالات پر ایک نظر ص ۹)

اس متن کی شرح مولانا موصوف ہی سے سننے کے لائق ہے:

’’دلی میں اسلامی حکومت کا آفتاب جب غروب ہو رہا تھا تو اس کے مطلع سے اسلام کا ایک اور آفتاب طلوع ہو رہا تھا، یہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا خانوادہ تھا۔ سچ یہ ہے کہ حضرت شاہ صاحبؒ کی پیشین گوئی کے مطابق اس کے بعد جس کو ملا اس دروازے سے ملا۔ ہندوستان میں رد بدعات کا ولولہ، ترجمہ قرآن پاک کا ذوق، صحاح ستہ کا درس، شاہ اسماعیلؒ اور مولانا سید احمد بریلویؒ کا جذبہ جہاد، فرق باطلہ کی تردید کا شوق، دیوبند کی تحریک، ان میں سے کون چیز ہے جس کا سررشتہ اس مرکز سے وابستہ نہیں۔‘‘ (حیات شبلی ص ۲۹۸)

چنانچہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ جب ہندوستان میں اورنگزیب کے بعد یہاں کی حکومت میں ابتری پیدا ہوئی تو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف اس کو محسوس کیا بلکہ اس کے اسباب و علل پر بڑی دیدہ دری اور جامعیت کے ساتھ بحث کی، اور ان کی اصلاح کس طرح ہو سکتی ہے؟ اس کی طرف حکومت کو، امراء اور وزراء کو، عمّال اور سوسائٹی کے دوسرے طبقات کی توجہ دلائی۔ اور پھر آپ کے بعد شاہ عبد العزیزؒ کے زمانے میں دہلی کے حالات اور زیادہ بگڑے اور ’’حکومت شاہ عالم از دہلی تا پالم‘‘ کی مثل صادق نظر آنے لگی، انگریزوں کا اقتدار اور ان کا ظلم و ستم اور اس کے بالمقابل لال قلعہ کے بادشاہ کی طاقت وقوت کا اضمحلال روز افزوں ہو گیا، تو شاہ عبد العزیزؒ نے دہلی کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ خاص دہلی کے متعلق ارشاد ہے:

’’دریں شہر حکم امام المسلمین اصلاً‌ جاری نیست و حکم رؤسا نصاریٰ بے دغدغہ جاری است و مراد از اجراء احکام کفر ایں ست کہ در مقدمہ ملک داری و بندوبست رعایا و اخذ خراج و باج و عشور اموال تجارت و سیاست قطاع الطریق و فصیل مقدمات و سزائے جنایات کفار بطور خود حاکم باشند ۔‘‘
ترجمہ: ’’امام المسلمین کا حکم اس شہر میں بالکل جاری نہیں ہے اور بڑے بڑے عیسائیوں کا حکم بے دغدغہ جاری ہے اور احکام کفر کے اجراء سے مقصد یہ ہے کہ ملک داری رعایا کا بندوسبت، خراج اور بلاج کا وصول کرنا، کسٹم ڈیوٹی لینا، رہزنوں کو سزا دینا، یہ تمام معاملات یہ لوگ خود ہی کرتے ہیں۔ (فتاویٰ عزیزی جلد اول ص ۱۶)

آگے چل کر فرماتے ہیں کہ:

’’کوئی مسلمان یا ہندو ان سے پروانہ امن لیے بغیر دہلی یا اس کے اطراف و جوانب میں نہیں آسکتا۔‘‘

اس فتویٰ سے دو باتیں روز روشن کی طرح واضح ہیں:

  1. حضرت شاہ صاحبؒ نے انگریزوں کے خلاف جو ظلم و ستم کی شکایت کی ہے، اس میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کا ذکر کیا ہے کہ دونوں شہر دہلی اور اس کے نواح میں امن کا پروانہ حاصل کیے بغیر نہیں آسکتے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ شاہ صاحب انگریزوں کے مظالم سے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ہندوؤں کی بھی گلو خلاصی چاہتے تھے۔
  2. شاہ صاحب کسی ملک کے دارالاسلام ہونے کے لیے اس میں محض مسلمانوں کی آبادی کو کافی نہیں سمجھتے۔ بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری جانتے ہیں کہ مسلمان باعزت طریقے پر رہیں اور ان کے شعائر مذہبی کا احترام کیا جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اگر کسی ملک میں سیاسی اقتدار اعلیٰ کسی غیر مسلم جماعت کے ہاتھوں میں ہو لیکن مسلمان بھی بہرحال اس اقتدار میں شریک ہوں اور ان کے مذہبی شعائر کا احترام کیا جاتا ہو تو وہ ملک شاہ صاحب کے نزدیک قطعاً‌ دارالاسلام ہو گا اور از روئے شرع مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ اس ملک کو اپنا ملک سمجھ کر اس کے لیے ہر نوع کی خیر خواہی اور خیر اندیشی کا معاملہ کریں۔

اس فتاوی کی تائید علماء جونپور کے فتوے سے بھی ہوتی ہے جس کو مولانا طفیل احمد مرحوم نے ڈاکٹر ہنٹر کے حوالے سے لکھا ہے (ملاحظہ ہو مدینہ، ستمبر ۴۸ء)۔ اس فتوے کے بعد دو ہی راہیں رہ گئی تھیں، یا تو جہاد کیا جائے یا بصورت عدم استطاعت ہجرت اختیار کی جائے۔

۱۲۰۱ھ - ۱۲۴۶ھ — ۱۷۸۶ء - ۱۸۳۱ء

یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ حضرت سید احمد شہید بریلویؒ اور ان کے ساتھیوں نے جس دینی تجدید و انقلاب کی کوشش کی تھی، اس کی داغ بیل شاہ ولی اللہؒ اور شاہ عبد العزیزؒ نے بہت پہلے ڈال دی تھی۔ ان بزرگوں نے علم کو بنیادی حیثیت دی تھی اس لیے بہتوں کو ان کے کاموں کے سمجھنے میں غلط فہمی ہو گئی، حالانکہ بات صاف تھی کہ جو انقلاب صحیح علم کے بعد لایا جاتا ہے وہ بہت پائیدار اور ناقابل تسخیر ہوتا ہے۔ کیونکہ امامت، نیابت، خلافت، اصلاح و تجدد کا رشتہ ہمیشہ علم سے وابستہ رہا ہے، اور جو طبقہ گروہ علم کی صفت میں بڑھ جاتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے، اگرچہ اس کی کامیابی میں دیر بھی ہو جائے مگر وہ کامیاب کہا جائے گا۔

حضرت شاہ صاحبؒ کی دعوت نے ہندوستان میں فروغ حاصل کیا، چنانچہ نظری و مذہبی اور علمی اعتبار سے اس کی جڑیں مضبوط بنیادوں پر قائم رہیں، جن کو ہندوستان کا سیاسی انقلاب اپنی جگہ سے نہ ہلا سکا۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شاہ صاحبؒ یا سید احمد شہیدؒ کی تحریک سیاسی حیثیت سے ناکام رہی، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بات نیند میں کہہ دی ہے۔ ناکامی اصول کی خرابی کا نام ہے، جب اصول صحیح ہیں تو پھر ناکامی اور شکست کے کیا معنی؟ صحیح اصول کو نہ تو تاریخ میں کبھی شکست ہوئی ہے اور نہ ہوگی، کیونکہ افراد یا جماعت کی غلطی سے جو وقتی شکست ہو جایا کرتی ہے، اس کو تم اپنی بولی میں شکست کہہ لو مگر وہ شکست و ہزیمت ہے نہیں۔

اس فرق کو سمجھ لینے کے بعد یہ تاریخی حقیقت کبھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ حضرت سید احمد شہیدؒ کا مقصدِ جہاد ہندوستان سے ہندو اور مسلمانوں کو کمپنی بہادر کے اقتدار سے نجات دلانا تھا۔ مگر ہندوستان کی یہ بدقسمتی تھی کہ پنجاب کے مسلمانوں کی زبوں حالی سے رنجیت سنگھ سے مقابلہ کرنا پڑا اور بالاکوٹ میں شربت شہادت پی کر ملک کے اندر ایسی روح پیدا کر دی جو اب تک کام کر رہی ہے۔ انگریز بہادر سید صاحبؒ کے اس منصوبے سے خوف زدہ تھا اور جب معلوم ہو گیا کہ نزلے کا رخ سکھوں کی طرف ہے تو اس راہ میں سہولتیں بھی پیدا کر دیں۔ سید صاحبؒ کے مقصد کو نہ سمجھنے کی بنا پر بعض مدعیان اصلاح و تجدد کو دانستہ یا نادانستہ طور پر دھوکا ہوا۔ اور ایک الگ راہ پیدا کر کے امت کے اندر انتشار و تشتت کے ساتھ اکابر امت کے کاموں کی تحقیر و تذلیل بڑے پیمانے پر شروع کر دی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

سید صاحبؒ کا اصل مقصد چونکہ ہندوستان سے انگریزی تسلط و اقتدار کا قلع قمع کرنا تھا، جس کے باعث ہندو اور مسلمان دونوں ہی پریشان تھے، اس بنا پر آپ نے اپنے ساتھ ہندوؤں کو بھی شرکت کی دعوت دی اور اس میں صاف صاف انہیں بتا دیا کہ آپ کا واحد مقصد ملک سے پردیسی لوگوں کا اقتدار ختم کر دینا ہے۔ اس کے بعد حکومت کس کی ہوگی، اس سے آپ کو غرض نہیں ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں سرحد ریاست گوالیار کے مدار المہام اور مہاراج دولت رائے سندھیہ کے وزیر اور برادر نسبتی راجہ ہندو رائے کو آپ نے جو خط تحریر فرمایا ہے، وہ غور سے پڑھنے کے قابل ہے۔ (ملاحظہ ہو یکم ستمبر ۴۸ء مدینہ بجنور)

(ماخوذ از دیباچہ مکتوبات شیخ الاسلام مولانا مدنیؒ)

(اپریل ۱۹۹۷ء)

اپریل ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۲

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندانِ ولی اللّٰہی کی دینی خدمات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد
مولانا نجم الدین اصلاحی

امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے دور کے سیاسی حالات
ڈاکٹر محمد مظہر بقا

ایسٹ انڈیا کمپنی
پروفیسر غلام رسول عدیم

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter