ہندوستان میں خاندان شاہ ولی اللہؒ کی دینی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ یہ آپ کا خاندان ہی ہے جس نے قرآن پاک کے علم کو مقامی زبان میں پھیلایا۔ خود شاہ ولی اللہؒ نے سب سے پہلے ’’فتح الرحمٰن‘‘ کے نام سے قرآن پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا اور اس کے ساتھ مختصر حاشیہ بھی تحریر کیا، اس کے علاوہ اس کا مقدمہ بھی لکھا۔ اصول تفسیر پر آپ کی کتاب ’’الفوز الکبیر‘‘ بے نظیر چیز ہے، قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے راہنما کی حیثیت رکھتی ہے، اور آج بھی تمام دینی مدارس اور یونیورسٹیوں میں ایم اے (اسلامیات) کی جماعتوں کو پڑھائی جاتی ہے۔ فہم قرآن سے متعلق آپ نے نہایت بلند پایہ اصول مرتب کیے ہیں۔
آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے قرآن پاک کے آخری دو پاروں اور سورۃ البقرہ کے نصف تک کی تفسیر فارسی زبان میں لکھی۔ آپ نابینا ہو گئے تھے اس لیے بولتے جاتے تھے اور آپ کے شاگردان رشید اس کو قلمبند کرتے تھے۔ اپنی وفات تک اس سے زیادہ تفسیر کا کام نہیں کر سکے۔ آپ ہفتہ میں ایک روز قرآن پاک کا درس بھی دیا کرتے تھے۔ یہ درس بھی لوگوں نے لکھے۔ آج کل طبع شدہ نسخے نہیں ملتے۔ تاہم قلمی نسخے کہیں موجود ہیں۔ واللہ اعلم۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ کے دوسرے بیٹے شاہ رفیع الدینؒ نے قرآن پاک کا سب سے پہلا اردو ترجمہ کیا۔ یہ تحت اللفظ ترجمہ ہے جو عام پڑھا جاتا ہے۔ مختلف اشاعتی اداروں مثلاً تاج کمپنی، انجمن حمایت اسلام وغیرہ نے اس ترجمہ کے بے شمار ایڈیشن شائع کیے ہیں۔ آپ قرآن پاک کا درس بھی دیا کرتے تھے جس کو آپ کے شاگردان نوٹ کر لیا کرتے تھے۔ آپ کی وفات کے چالیس پچاس سال بعد یعنی آج سے سوا سو سال پہلے صرف سورۃ البقرہ والا حصہ شائع ہوا جو کہ تفسیر رفیعی کہلایا۔
آپ کے تیسرے بیٹے شاہ عبد القادرؒ نے قرآن پاک کا بامحاورہ اردو ترجمہ کیا ہے، اس میں بعض مشکل الفاظ بھی آئے ہیں جو محاورتاً استعمال ہوئے ہیں۔ حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاریؒ فرمایا کرتے تھے کہ اسیری کے دوران شاہ عبد القادرؒ کا اردو ترجمہ پڑھ رہا تھا کہ ’’اللہ الصمد‘‘ کا ترجمہ ’’نرادھار‘‘ نظر سے گزرا۔ چونکہ یہ ہندی زبان کا لفظ ہے۔ اس لیے میں اپنے سمجھ نہیں سکا۔ جیل میں موجود ایک بہت بڑے پنڈت سے میں نے اس لفظ کا معنی دریافت کیا تو وہ کہنے لگا تم کیوں پوچھتے ہو، پہلے بتاؤ کہ یہ لفظ کہاں آیا ہے؟ میں نے کہا پہلے تم اس کا معنی بتاؤ۔ چنانچہ اس پنڈت نے بتایا کہ نرادھار سنسکرت زبان کا لفظ ہے اور یہ اس ذات کے لیے بولا جاتا ہے جس کی طرف سب چیزیں محتاج ہوں اور وہ کسی کا محتاج نہ ہو۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاہ صاحبؒ نے ایسے ایسے عجیب و غریب مگر بالکل صحیح الفاظ اپنے ترجمہ میں استعمال کیے ہیں۔
آپ نے دہلی کی کنگ ایڈورڈ روڈ پر واقع اکبری مسجد میں بارہ سال اعتکاف کیا تھا۔ بعد میں اس مسجد کو انگریزوں نے نیست و نابود کر دیا۔ یہ ترجمہ آپ نے اسی اعتکاف کے دوران لکھا تھا، ساتھ تھوڑا تھوڑا حاشیہ بھی ہے۔ اس ترجمہ کو شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ نے نسبتاً آسان زبان میں منتقل کیا ہے۔ اور یہ کام آپ نے مالٹا جیل میں اسیری کے زمانہ میں انجام دیا۔ شاہ صاحبؒ کے زمانہ میں اردو زبان بھی ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی اور اس میں ابھی اتنا تسلسل نہیں تھا۔ دو سال کے عرصہ میں اردو زبان کافی ترقی کر چکی تھی۔ لہٰذا شیخ الہندؒ نے شاہ صاحبؒ کے اردو ترجمہ کو آسان بنا دیا اور آج کل اس کی اشاعت عام ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ کے سب سے چھوٹے اور چوتھے بیٹے شاہ عبد الغنیؒ ہیں۔ آپ نے درس و تدریس کے ذریعہ تو دین کی بہت خدمت کی ہے مگر آپ کی کوئی مستقل کتاب نہیں ہے۔ البتہ آپ کے صاحبزادے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے قلم اور تلوار دونوں سے جہاد کیا۔ آپ کی کتابیں بھی موجود ہیں۔ اور آپ نے انگریزوں اور سکھوں کے خلاف عملی جہاد میں بھی حصہ لیا اور پھر بالا کوٹ کے مقام پر جام شہادت نوش فرمایا۔
اورنگ زیب عالمگیرؒ
شاہ ولی اللہ ۱۷۰۳ء میں پیدا ہوئے جب کہ اورنگ زیب عالم گیرؒ ۱۷۰۷ء میں وفات پا گئے۔ یہ اپنے خاندان کے واحد بادشاہ تھے جنہوں نے پچاس سال تک ہندوستان پر حکومت کی۔ کابل سے لے کر برما تک کا وسیع علاقہ ان کی سلطنت میں شامل تھا۔ عالمگیرؒ کے انچاس سال تو لڑائیوں میں گزر گئے۔ انہیں صرف ایک سال امن و امان کا ملا۔ انہوں نے مغلیہ سلطنت کو مستحکم کرنے کی از حد کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ آپ کی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے کئی بادشاہ تخت نشین ہوئے، حضرت شاہ ولی اللہؒ نے دس بادشاہوں کو مسند اقتدار پر آتے دیکھا۔ مگر ان میں سے کوئی بھی لائق ثابت نہ ہوا۔ سلطنت کمزور ہوتی چلی گئی اور انگریزوں کو مداخلت کرنے کا موقع مل گیا اور آخر انہوں نے ہندوستان میں پاؤں جما لیے۔
اورنگ زیب عالم گیرؒ بڑے متدین آدمی تھے مگر انگریزوں نے انہیں خوب بد نام کیا۔ انہوں نے عالمگیرؒ کو ایک ظالم بادشاہ کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اور یہاں تک مشہور کیا کہ عالم گیر اس وقت تک ناشتہ نہیں کرتا جب تک ہزاروں ہندوؤں کو قتل نہیں کروا دیتا تھا۔ خدانخواستہ ایسا ہوتا تو ہندوستان میں کوئی ہندو باقی نہ رہتا۔ آپ نے پچاس سال حکومت کی اور ہندو دارالسلطنت دہلی میں بھی موجود تھے۔ آپ نے بعض سکھوں اور مرہٹوں کے ساتھ لڑائی کی کیونکہ شورش پسند تھے مگر آپ نے کسی پر ظلم نہیں کیا۔ شریعت کا پابند پکا سچا مسلمان تھا۔ جہاں حق و انصاف کا تقاضا ہوا اپنے بھائی کو معاف نہیں کیا۔ آپ کے بھائی نے شہزادی کے زمانہ میں ایک غریب شخص کے بچے کو ناحق قتل کر دیا تھا۔ وہ شہزادہ ہونے کی وجہ سے گرفت میں نہ آسکا۔ جب عالمگیرؒ کا دور آیا تو اس بچے کے باپ نے مقدمہ دائر کر دیا اور دادرسی چاہی۔ باقاعدہ مقدمہ چلا۔ قتل کا ثبوت فراہم ہوا اور پھر قصاص میں شہزادے کو سزائے موت ہوئی۔ عالمگیرؒ اس کردار کا آدمی تھا۔