مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں بعض ایسی اہم شخصیتیں بھی پیدا ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے زمانے کے عام رجحانات سے ہٹ کر اپنی روش علیحدہ بنائی ہے۔ انہی تاریخ ساز شخصیتوں میں سے ایک شاہ ولی اللہؒ بھی ہیں، رحمۃ اللہ علیہ وعلیٰ آباء و ابناء، جنہوں نے ’’فک کل نظام‘‘1 کی بشارت سے سرفراز ہو کر وجدانی اور فکری طور پر ایک ممتاز روش اختیار کی۔ شاہ صاحبؒ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے زمانے کی سیاسی، معاشرتی اور علمی حالات کا اجمالی خاکہ سامنے ہو تاکہ اس زمانے کی عام روش اور شاہ صاحبؒ کی خاص روش کا امتیاز واضح ہو سکے۔
سیاسی حالات
شاہ صاحبؒ نے حسبِ ذیل گیارہ بادشاہوں کا زمانہ پایا2۔
(۱) عالمگیر، محی الدین محمد اورنگ زیب (یکم ذی القعدہ ۱۰۶۸ھ / ۳۰ جولائی ۱۶۵۸ء)
(۲) شاہ عالم (اول)، بہادر، قطب الدین محمد (۲۸ ذی القعدہ ۱۱۱۸ھ / ۳ مارچ ۱۷۰۷ء)
(۳) جہاندار شاہ، معز الدین (۱۹ محرم ۱۱۲۴ھ / ۲۸ فروری ۱۷۱۲ء)
(۴) فرخ سیر، معین الدین احمد (۲۳ ذی الحجہ ۱۱۲۴ھ / ۹ جون ۱۷۱۳ء)
(۵) رفیع الدین، شمس الدین محمد، ابوالبرکات (۸ ربیع الثانی ۱۱۳۱ھ / ۲۸ فروری ۱۷۱۹ء)
(۶) شاہ جہاں ثانی، شمس الدین محمد، رفیع الدولہ (۱۹ رجب ۱۱۳۱ھ / ۷ جون ۷۱۹اء)
(۷) محمد شاہ، روشن اختر، ناصر الدین (۲۵ ذی القعدہ ۱۱۳۱ھ / ۹ اکتوبر ۱۷۱۹ء)
(۸) احمد شاہ، بہادر، مجاہد الدین (۲۷ ربیع الثانی ۱۱۶۱ھ / ۲۷ اپریل ۱۷۴۸ء)
(۹) عالمگیر ثانی، عز الدین، محمد (۲ شعبان ۱۱۶۷ھ / ۵ جون ۱۷۵۴ء)
(۱۰) شاہ جہاں ثالث (۲۰ ربیع الثانی ۱۱۷۳ھ / ۳۰ نومبر ۱۷۵۹ء)
(۱۱) شاہ عالم ثانی، جلال الدین محمد (۴ جمادی الاولیٰ ۱۱۷۳ھ / ۲۵ دسمبر ۱۷۵۹ء)
بادشاہتوں میں انقلاب
شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی وفات سلطنت مغلیہ کے انحطاط اور ہندوستان کی سیاسی اور معاشرتی تباہ حالی کا نقطہ آغاز تھی۔ اورنگ زیب کی وفات کے وقت شاہ صاحب کی عمر تقریباً چار سال تھی اور شاہ عالم ثانی کی حکومت کو ابھی تقریباً ڈھائی سال ہی گزرے تھے کہ شاہ صاحبؒ کا انتقال ہو گیا۔ اورنگ زیب اور شاہ عالم ثانی کے درمیان جتنے بادشاہ بھی گزرے ان میں سے پورے اختیار کے ساتھ اطمینان سے حکومت کا موقع کسی کو بھی میسر نہ ہوا، اور محمد شاہ کے سوا کوئی معتد بہ عرصہ تک بھی حکومت نہ کر سکا۔ بیشتر یا تو قید ہوئے یا قتل کیے گئے۔ جہاندار شاہ قتل ہوا، فرخ سیر اندھا کر کے قید اور پھر قتل کیا گیا۔ رفیع الدرجات چار ماہ بھی حکومت نہ کر سکا تھا کہ مرگیا۔ رفیع الدولہ کی حکومت بھی تقریباً چار ماہ رہی۔ احمد شاہ اندھا کر کے قید کیا گیا اور عالمگیر ثانی قتل ہوا۔ اس تیزی کے ساتھ اور اس نہج پر بادشاہتوں کی تبدیلی سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہیں کہ یہ سلطنت مغلیہ کی جانکنی کا عالم تھا۔
مرکز کی کمزوری، اندرونی طوائف الملہ کی اور بیرونی حملوں کو دعوت دیتی ہے، چنانچہ مرکز دہلی کی کمزوری سے اندرون ملک صوبیداروں نے خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ بنگال اور بہار پر علی وردی خان نے قبضہ کر لیا، اودھ پر برہان الملک اور صفدر جنگ قابض ہو گئے، روہیل کھنڈ اور دوآبے میں روہیلے اور بنگش متصرف ہو گئے، اور نظام الملک نے دکن میں اپنی حکومت قائم کر لی۔ مرہٹوں، جاٹوں اور سکھوں کو بھی سر اٹھانے بلکہ حکومتیں قائم کرنے کے مواقع مل گئے۔ بیرونی طاقتوں میں سے پہلے نادر شاہ اور اس کے بعد ابدالی نے حملے کیے اور بنگال میں انگریزوں نے قدم جما لیے۔
تورانی اور ایرانی امراء کی مخاصمت
غوریوں سے لودھیوں تک تمام حکمران خانوادے سنی حنفی تھے۔ مغل شہنشاہ ہمایوں کے بعد سے، جس نے سوریوں کے مقابلے میں ایرانیوں کی مدد سے فتح حاصل کی تھی، ہندوستان کی ملکی سیاست میں ایرانی دخیل ہو گئے۔ رفتہ رفتہ ان کا اقتدار بڑھا اور تورانی اور ایرانی دو مختلف بلکہ متحارب گروہ بن گئے اور ان کے باہمی نزاعات مرکز کو کمزور سے کمزور تر کرتے گئے۔ مولانا مناظر احسن لکھتے ہیں:
’’سارے فتنوں کی بنیاد اگر سچ پوچھئے تو ہندوستان میں بھی وہی مسئلہ رہا جس سے ہر جگہ حتیٰ کہ پہل صدی ہجری میں فتنوں کی ابتدا ہوئی تھی یعنی وہی شیعیت اور سنیت کا جھگڑا۔‘‘3
بقول جادو ناتھ سرکار ’’آخری مغلیہ دور کی تاریخ انہی دو گروہوں کے جنگ و جدال کی تاریخ ہے۔‘‘4
سادات بارہہ
سادات بارہہ نے فرخ سیر کے برسراقتدار آنے کے بعد سے محمد شاہی عہد تک سلطنت مغلیہ کو نو سال تک نقصان پہنچایا اور اپنا اقتدار بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے تورانیوں کے مقابلے میں قوت اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے مرہٹوں تک سے معاہدہ کیا۔ یہ وطناً ایرانی نہ سہی، چونکہ مسلکاً شیعہ تھے اس لیے ان کا سہارا بھی ایرانی گروہ کی تقویت کا سبب بنا اور ایرانیوں کی طاقت اتنی مستحکم ہو گئی کہ وہ عالمگیر ثانی تک دربار پر چھائے رہے۔5
روہیلے
روہیلے جو کابل و قندھار پر نادر شاہ کے تسلط کی وجہ سے ہندوستان میں پناہ لے کر رفتہ رفتہ دو آبہ میں روہیل کھنڈ بنا چکے تھے، انہوں نے خصوصیت کے ساتھ ابدالی کے حملہ کے بعد نجیب الدولہ روہیلہ کے امیر الامراء ہو جانے کی وجہ سے حکومت میں بہت دخل حاصل کر لیا تھا۔ بقول ہاشمی فرید آبادی ’’یہ ایک اور جنگ جو بے قابو عنصر تھا جس نے آئندہ سلطنت کی بوسیدہ عمارت کی اینٹیں اکھاڑنے اور اسے ملبہ کا ڈھیر بنانے میں حصہ لیا۔‘‘6
مرہٹہ تحریک
جنوبی ہند کی مرہٹہ تحریک، سیواجی کی سرکردگی میں ابتدا ہی سے سیاسی تحریک تھی۔ اس کا رخ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تھا اور ان کا مقصد ہندوستان کو پراچین تہذیب کی طرف لے جانا تھا7۔ مرہٹوں نے اورنگ زیب کے بعد، جس نے پچیس سال کی کوشش میں ان کی مرکزیت ختم کر دی تھی، پھر سر اٹھایا۔ امراء نے باہمی عناد اور فریق مخالف کو شکست دینے کی خاطر مرہٹوں سے امداد لی، اس سے ان کے حوصلے اور بڑھے اور جنوب مغربی علاقوں پر قبضہ کر لینے کے بعد رفتہ رفتہ ان کا اقتدار دہلی کے گرد و نواح تک پہنچ گیا۔ انہوں نے اگست ۱۷۵۷ء میں جاٹوں کی مدد سے دہلی پر حملہ کیا اور نجیب الدولہ کو مجبور ہو کر صلح کرنی پڑی۔ پھر مرہٹوں نے اپریل ۱۷۵۸ء میں لاہور پر قبضہ کر لیا۔ ۹ ذی الحجہ ۱۱۷۳ھ (۳ اگست ۱۷۶۰ء) کو مرہٹوں کے سپہ سالار بھاؤ نے لال قلعہ پر قبضہ کر لیا اور شاہی حرم سرا کے ساتھ ساتھ سلطنت کے تمام کارخانے ان کے تصرف میں آگئے8۔ لیکن مغلیہ تخت پر بسواس راؤ کے بٹھائے جانے کو ابدالی سے جنگ کا فیصلہ ہونے تک ملتوی کر دیا9۔ بالآخر ابدالی نے ۱۴ جنوری ۱۷۶۱ء میں پانی پت کے میدان میں ان کا خاتمہ کیا۔ تقریباً دو لاکھ مرہٹوں کے ساتھ ساتھ بھاؤ اور بیسواس راؤ بھی مارے گئے10۔
مرہٹوں کے حالات شاہ صاحبؒ کے قلم سے
مرہٹوں کے حالات بیان کرتے ہوئے شاہ ولی اللہؒ احمد شاہ ابدالی کو لکھتے ہیں:
’’غیر مسلموں میں ایک قوم مرہٹہ نامی ہے … ان کا ایک سردار ہے۔ اس قوم نے اطراف دکن میں کچھ عرصہ سے سر اٹھایا ہے اور تمام ملک ہندوستان پر اثرانداز ہے۔ شاہان مغلیہ میں سے بعد کے بادشاہوں نے عدم دور اندیشی، غفلت اور اختلاف فکر کی بنا پر ملک گجرات مرہٹوں کو دے دیا، پھر ناسمجھی اور غفلت کی وجہ سے ملک مالوہ بھی ان کے سپرد کر دیا اور ان کو وہاں کا صوبہ دار بنا دیا۔ رفتہ رفتہ قوم مرہٹہ قوی تر ہوتی گئی اور اکثر بلاد اسلام ان کے قبضہ میں آگئے۔ مرہٹوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں دونوں سے باج لینا شروع کر دیا اور اس کا نام چوتھ (یعنی آمدنی کا چوتھا حصہ) رکھا۔
دہلی اور نواح دہلی میں مرہٹوں کا تسلط اس وجہ سے نہ ہو سکا کہ دہلی کے رؤسا بادشاہان قدیم کی اور یہاں کے وزراء اور امراء، امرائے قدیم کی اولاد ہیں۔ ناچار مرہٹوں نے ان لوگوں سے ایک گونہ مروت کا معاملہ کرتے ہوئے عہد و پیمان کر لیا اور رواداری کا سلسلہ جاری کر کے طرح طرح کی چاپلوسی سے دہلی والوں کو اپنی طرف سے امن و امان دے کر چھوڑ دیا۔
دکن پر بھی مرہٹوں کا قبضہ اس وجہ سے نہ ہو سکا کہ نظام الملک مرحوم کی اولاد نے بڑی بڑی تدبیریں کیں، کبھی مرہٹوں کے درمیان پھوٹ ڈلوا دی، کبھی انگریزوں کو اپنا رفیق بنا لیا، اور برہان پور، اورنگ آباد، بیجا پور جیسے بڑے بڑے شہروں پر نظام الملک کی اولاد قابض رہی۔ البتہ اطراف و نواحی کو مرہٹوں کے لیے چھوڑ دیا۔ المختصر سوائے دہلی اور دکن کے خالص طور پر مرہٹوں کا تسلط ہے۔
قوم مرہٹہ کا شکست دینا آسان کام ہے بشرطیکہ غازیان اسلام کمر ہمت باندھ لیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قوم مرہٹہ خود قلیل ہیں لیکن ایک گروہ کثیر ان کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ اس گروہ میں سے ایک صف کو بھی اگر درہم برہم کر دیا جائے تو یہ قوم منتشر ہو جائے گی اور اصل قوم اس شکست سے ضعیف ہو جائے گی۔ چونکہ یہ قوم قوی نہیں ہے اس لیے اس کا تمام تر سلیقہ ایسی کثیر فوج جمع کرنا ہے جو چونٹیوں اور ٹڈیوں سے بھی زیادہ ہو۔ دلاوری اور سامان حرب کی بہتات ان کے یہاں نہیں ہے۔ الغرض قوم مرہٹہ کا فتنہ ہندوستان کے اندر بہت بڑا فتنہ ہے۔ حق تعالٰی بھلا کرے اس شخص کا جو اس فتنہ کو دبائے11۔‘‘
سکھ تحریک
یہ تحریک شمال مغرب سے اٹھی۔ ابتداءً یہ ایک مذہبی فرقہ تھا جس کے پہلے مرشد بابا نانک نویں صدی کے آخر اور دسویں صدی کے اوائل میں گزرے ہیں۔ شہزادہ خسرو کی امداد کی وجہ سے جہانگیر نے ان کے پانچویں گرو ارجن کے ساتھ سختی کی اور اسی وقت سے یہ فرقہ درویشی چھوڑ کر سیاست کے میدان میں نکل آیا۔ عالمگیر کے عہد میں گرو شیخ بہادر نے بغاوت کی اور مارے گئے12۔
گرو گوبند کے جانشین بندا بیراگی کے زمانے سے اس تحریک کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑی شدت پیدا ہو گئی۔ اس نے سرہند سے لوٹ مار کا آغاز کیا اور اس پر قبضہ کرنے کے بعد سہارنپور اور سلطان پور تک کے پہاڑی علاقوں کو لوٹتا رہا۔ شہزادہ رفیع الشان نے اسے شکست دی اور بندا فرار ہو کر روپوش ہو گیا۔13
فرخ سیر کے زمانے میں بندا پھر نمودار ہوا اور نہتی رعایا پر پہلے سے زیادہ ظلم توڑے۔ بالآخر لاہور کے صوبیدار عبد الصمد خان تورانی نے اس کا قصہ تمام کیا14۔
مسلمانوں سے سکھوں کو بڑی دشمنی تھی۔ باواز بلند اذان نہیں ہونے دیتے تھے۔ مسجدوں کو اپنے تحت لے کر ان میں گرنتھ پڑھتے تھے اور اس کا نام مست گڑھ رکھتے تھے15۔
جاٹ
جاٹ دلی اور آگرہ کے درمیان آباد تھے اور متھرا اور دلی کی سڑک پر گویا ان کی عملداری تھی۔ عہد زوال میں وہ جب چاہتے اس سڑک کو ناقابل گزر بنا دیتے تھے۔ شاہ صاحبؒ کے ایک مکتوب16 میں جانوں کا حال تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔
جاٹوں کا حال شاہ صاحبؒ کے قلم سے
شاہ صاحبؒ احمد شاہ ابدالی کو جانوں کے حالات سے مطلع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’غیر مسلموں کی ایک قوم جاٹ ہے جس کی بودوباش دہلی و آگرہ کے درمیان ہے۔ یہ دونوں شہر بادشاہوں کے لیے دو حویلیوں کے مانند رہے ہیں۔ مغل بادشاہ کبھی آگرہ میں رہتے تھے تاکہ ان کا دبدبہ اور رعب راجپوتانہ تک پڑے، اور کبھی دہلی میں فروکش ہوتے تھے کہ ان کی شوکت و ہیبت سہرند اور نواحی سہرند تک اثر ڈالے۔
دہلی اور آگرہ کے درمیان کے مواضعات میں قوم جاٹ کاشتکاری کرتے تھے۔ زمانہ شاہجہاں میں اس قوم کو حکم تھا کہ گھوڑوں پر سوار نہ ہوں، بندوق اپنے پاس نہ رکھیں اور اپنے لیے گڑھی نہ بنائیں۔ بعد کے بادشاہوں نے ان کے حالات سے غفلت اختیار کر لی اور اس قوم نے فرصت کو غنیمت جان کر بہت سے قلعے تعمیر کر لیے اور اپنے پاس بندوق رکھ کر لوٹ مار کا طریقہ شروع کر دیا۔ اورنگ زیب اس وقت دکن میں قلعہ بیجاپور کے فتح کرنے میں مشغول تھا۔ دکن ہی سے ایک فوج جاٹوں کی تادیب کے لیے اس نے روانہ کی اور اپنے پوتے کو فوج کا سردار مقرر کیا۔ رئیسان راجپوتانہ نے اس شہزادے کی مخالفت کی، لشکر میں اختلاف واقع ہوا، جاٹوں کی تھوڑی سی عاجزی پر اکتفا کر کے فوج شاہی واپس ہو گئی۔
محمد فرخ سیر کے زمانے میں اس جماعت کی شورش پھر جوش میں آئی۔ قطب الملک وزیر نے زبر دست فوجیں ان کی طرف بھیجیں، چورامن جو اس قوم کا سردار تھا، بعد جنگ صلح پر راضی ہو گیا، اس کو بادشاہ کے سامنے لائے اور تقصیرات کی معافی دلوائی، یہ کام بھی خلاف مصلحت عمل میں آیا۔
پھر عہد محمد شاہ میں اس قوم کی سرکشی حد سے تجاوز کر گئی اور چورامن کا چچازاد بھائی سورج مل اس جماعت کا سردار ہو گیا اور فساد کا راستہ اختیار کیا۔ چنانچہ شہر بیانہ، جو کہ اسلام کا قدیم شہر تھا اور جہاں پر علماء و مشائخ سات سو سال سے اقامت پذیر تھے، اس شہر پر قہراً و جبراً قبضہ کر کے مسلمانوں کو ذلت و خواری کے ساتھ وہاں سے نکال دیا۔ اس کے بعد سرکشی برابر بڑھتی گئی۔ بادشاہوں اور امیروں کے اختلاف و غفلت کی بنا پر کوئی بھی اس جانب متوجہ نہ ہوا۔ اگر بالفرض ایک امیر اس کی تنبیہ کا قصد کرے تو سورج مل کے کارکن دوسرے امرا کی جانب رجوع کرتے ہیں اور اس طرح بادشاہ کے مشورے کو پلٹ دیتے ہیں۔ پسر محمد شاہ کے عہد میں صفدر جنگ ایرانی نے خروج کیا اور سورج مل سے سازش کر کے پرانی دہلی پر حملہ کر دیا اور تمام باشندگان شہر کہنہ کو لوٹ لیا۔
پسر محمد شاہ نے شہر کے دروازوں کو بند کر کے جنگ توپخانہ شروع کی، محض خدا کے فضل سے صفدر جنگ اور سورج مل دو تین ماہ کے بعد ناکامیاب واپس ہوئے اور صلح و موافقت کی داغ بیل ڈالی۔ چونکہ بادشاہ کے آدمی جنگ سے تھک چکے تھے اس لیے انہوں نے صلح کو غنیمت شمار کیا، اس کے بعد سے سورج مل کی شوکت ترقی پا گئی۔ دہلی سے دو کوس کے فاصلہ سے لے کر آگرہ کے آخر تک طول میں اور میوات کی حدود سے فیروز آباد و شکوہ آباد تک عرض میں سورج مل قابض ہو گیا۔ کسی کی طاقت نہیں کہ اذان و نماز جاری کر سکے۔
ایک سال ہوا کہ قلعہ الور جو کہ تمام میوات کی خبر گیری کے لیے ایک جائے بلند تھی، سورج مل اس کو بھی اپنے قبضہ میں لے آیا۔ ارکان سلطنت میں سے کسی کی مجال نہ ہوئی کہ وہ اس کام سے روک دیتا۔
ہندوستان کے محصولات سات آٹھ کروڑ سے کم نہیں ہیں بشرطیکہ غلبہ و شوکت موجود ہو ورنہ ایک کوڑی بھی ملنی مشکل ہے جیسا کہ اس وقت دیکھا جا رہا ہے جس علاقہ پر جاٹ قابض ہیں، وہ ایک کروڑ روپیہ محصول کی جگہ ہے … جاٹوں کی شوکت کو درہم برہم کرنا بھی تدبیر کے نزدیک آسان کام ہے۔ انہوں نے جو علاقے اپنے قبضہ میں کر لیے ہیں، وہ ان کے نہیں ہیں بلکہ غصب کیے ہوئے ہیں۔ ان کے مواضع کے مالک ابھی تک زندہ موجود ہیں۔ اگر کوئی صاحب شوکت و عدالت بادشاہ مہربانی کا ہاتھ ان مالکوں کے سر پر رکھے تو وہ لوگ سورج مل کے مقابلے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘17
جاٹوں کے ہاتھوں دہلی کے لوٹے جانے کا ذکر شاہ صاحبؒ نے اپنے ایک اور مکتوب میں بھی کیا ہے۔ حافظ جار اللہ (پنجابی) کو لکھتے ہیں:
’’دہلی میں ایک حادثہ عظیم واقع ہوا۔ قوم جاٹ نے دہلی کے شہر کہنہ کو لوٹا اور حکومت اس فساد و شرارت کو دفع کرنے سے عاجز رہی۔ انہوں نے مال لوٹے، عزت و ناموس کو برباد کیا، اور مکانات کو آگ لگائی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے کو بمع اہل و عیال و مکانات کے ان کے دستِ ستم سے محفوظ رکھا … اور یہ لوٹ مار کا حادثہ اوائل رجب ۱۱۶۱ھ میں ہوا اور آخر شعبان تک باقی رہا18۔‘‘
نادر شاہ کا حملہ
مرکز کی کمزوری کی وجہ سے اندرون ملک تو طوائف الملوکی اور انتشار کی یہ حالت تھی، اور بیرونی حملوں کی صورت یہ تھی کہ نادر شاہ نے ۱۷۳۹ء میں حملہ کیا۔ صوبیداروں کی خودمختاری اور مرہٹہ سکھ اور جاٹوں کی سرکشی نادری حملہ کے بعد مرکز کی کمزوری ہی کا نتیجہ تھے۔ سید برادران کے خاتمہ کے بعد ایرانی گروہ کی حالت چونکہ کمزور پڑ گئی تھی اس لیے کہتے ہیں کہ انہوں نے نادر کو حملہ کی دعوت دی تھی19۔
نادر شاہ، محمد شاہی عہد میں ۹ ذی الحجہ کو دلی میں داخل ہوا۔ دوسرے دن عید الاضحیٰ کے خطبہ میں محمد شاہ کے ساتھ نادر شاہ کا نام آتے ہی شہر میں کہرام مچ گیا۔ شہریوں نے نادر شاہ کے سپاہیوں کے ساتھ کچھ بدسلوکی کی اور نادر کو قتل عام اور غارت گری کا موقع مل گیا۔ عید قربان کے تیسرے یا چوتھے روز نادر نے قتل عام کی چنگیزی سنت ادا کی۔ قتل عام تو آٹھ نو گھنٹے جاری رہا جس میں کم از کم تیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ آدمی مارے گئے لیکن لوٹ مار کا سلسلہ کئی ہفتوں تک جاری رہا20۔ دلی کے شرفا نے نادر سے خوف زدہ ہو کر جوہر کی رسم کا ارادہ کر لیا تھا لیکن شاہ صاحبؒ نے انہیں واقعہ کربلا، اور اس کے مصائب کے باوجود اہلِ بیت کا جوہر جیسی کوئی غیر اسلامی حرکت نہ کرنا یاد دلا کر روکا۔21
نادر شاہی حالات شاہ صاحبؒ کے قلم سے
احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملہ کی دعوت دیتے اور اسے نصیحت کرتے ہوئے شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں:
’’خدا سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ نادر شاہ کی طرح عمل ہو، کہ وہ مسلمانوں کو زیروزبر کر گیا اور مرہٹہ اور جاٹ کو سالم و غانم چھوڑ کر چلتا بنا۔ نادر شاہ کے بعد سے مخالفین قوت پکڑ گئے اور لشکر اسلام کا شیرازہ بکھر گیا اور سلطنت دہلی بچوں کا کھیل بن گئی۔ پناہ بخدا اگر قوم کفار اسی حال پر رہے اور مسلمان ضعیف ہو جائیں تو اسلام کا نام بھی کہیں باقی نہ رہے گا۔ ‘‘22
احمد شاہ ابدالی کے حملے
احمد شاہ ابدالی (وفات ۲۰ رجب ۱۱۸۶ھ / ۲۳ اکتوبر ۱۷۷۲ء) نے ۱۷۴۷ء سے ۱۷۶۹ء تک نو بار ہندوستان پر حملے کیے۔ ۱۷۶۰ء میں اس نے جو حملہ کیا اس کا سبب خود ہندوستان کے لوگوں کی دعوت تھی جو مرہٹوں سے تنگ آچکے تھے23۔ شاہ ولی اللہؒ نے بھی حملہ کی دعوت دی تھی24۔ شاہ صاحبؒ نے حملہ کی دعوت دیتے ہوئے ابدالی کو جو خط لکھا ہے وہ ان کے اعلیٰ سیاسی تدبر کی ناقابل انکار شہادت ہے۔ شاہ صاحبؒ نے اگرچہ اپنے خطوط میں احمد شاہ ابدالی کو یہ نصیحت بھی کی تھی کہ مسلمانوں کو لوٹا نہ جائے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کی فوجوں نے دہلی کا بلا امتیاز ہندو مسلم خوب لوٹا۔ شاہ صاحبؒ اس کا ذکر اپنے ایک مکتوب میں اس طرح کرتے ہیں کہ:
’’الحمد للہ کہ اس حادثہ عامہ میں عافیت نصیب ہوئی۔ اس محلہ کو معلوم نہیں ہوا کہ مخالف کی فوج آئی تھی یا نہیں۔ نہ تو لوٹ ڈالنے والوں کی لوٹ سے کوئی اذیت پہنچی اور نہ اس تاوان و جرمانہ (تعزیری ٹیکس) سے جو حویلیوں پر ڈالا گیا تھا، کوئی زیر بار ہوا۔ سابق میں عالمگیر نے جو کچھ کہہ دیا تھا کہ اس فتنہ میں تم کو سلامتی رہے گی، وہ بھی ظہور میں آیا۔ اکثر کی جائیدادوں کی سندیں (دستاویزیں) ضبط ہو گئیں مگر میری سند کہ دستخط کر کے مجھ کو واپس کر دی گئی ہے۔ اس وقت احمد شاہ ابدالی درانی جنگ جاٹ کی طرف متوجہ ہے، جو کچھ وقوع میں آئے گا بعد کو لکھا جائے گا۔ اہل شہر اپنے قتل ہونے سے تو محفوظ رہے لیکن دولت کا مادہ فاسدہ جن لوگوں کے مزاج میں پیدا ہو گیا تھا اس کا تنقیہ پورے طور پر ہو گیا۔ چنانچہ عبرت کی چیز ہے کہ لوگ جاہ و حشمت میں جس قدر زیادہ تھے، قید و ضرب کی سزا بھگتنے میں بھی وہی آگے آگے رہے، مگر جس کو اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھنا چاہا وہ محفوظ رہا25۔‘‘
انگریزوں کی عملداری
مختلف مذکورہ حالات کی وجہ سے مرکز اور مسلمانوں کی کمزوری کے نتیجہ میں ۱۱۷۰ھ / ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ کے مقابلہ میں میر جعفر کی غداری سے انگریزوں نے پلاسی کا معرکہ جیتا اور بنگال پر قابض ہو گئے۔
یہ تھے اس دور کے سیاسی حالات جنہیں شاہ ولی اللہؒ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور جن میں انہوں نے اپنی دینی بصیرت اور قوت تدبر سے کام لے کر تحفظ ملت اسلامیہ کی خاطر عملی حصہ بھی لیا۔
حواشی
- تفہیمات ج ۲ ص ۱۲۰
- راقم الحروف نے ان کی تاریخوں کے سلسلہ میں جیمس برگس کی کتاب The Chronology of Modern India پر اعتماد کیا ہے۔ صفحات ۱۰۴، ۱۴۹، ۱۵۳، ۱۵۴، ۱۶۰، ۱۶۰، ۱۸۸، ۱۹۷، ۲۱۲، ۲۱۳ بالترتیب۔
- الفرقان، شاہ ولی اللہ نمبر ص ۱۷۳، مناظر احسن
- Fall of the Moghal Empire v. 2 p. 2
- تاریخ مسلمانان پاک و بھارت ج ۲ ص ۲۵
- ایضاً ج ۲ ص ۳۸
- الفرقان ص ۱۳۱
- سیر المتاخرین ج ۳ ص ۹۱۲
- تاریخ مسلمانان پاک و بھارت ج ۲ ص ۵۱
- ایضاً ج ۲ ص ۳۸
- سیاسی مکتوبات، مکتوب دوم (ترجمہ) ص ۹۹۔۱۰۱
- تاریخ مسلمانان پاک و بھارت ج ۲ ص ۶، ۷
- ایضاً ص ۸، ۹
- ایضاً ج ۲ ص ۲۵
- حیات طیبہ ص ۱۳۱
- سیاسی مکتوبات (ترجمہ) ص ۱۰۴
- ایضاً
- ایضاً ص ۱۵۳
- تاریخ مسلمانان پاک و بھارت ج ۲ ص ۲۸
- ایضاً ص ۳۴۔۳۶
- الفرقان ص ۱۸۱، مناظر احسن بحوالہ ملفوظات
- سیاسی مکتوبات (ترجمہ) ص ۱۰۶
- سیر المتاخرین ج ۳ ص ۹۱۲
- سیاسی مکتوبات (ترجمہ) ص ۴۵۔۵۸
- سیاسی مکتوبات (مکتوب دوم) ترجمہ ص ۱۲۹، ۱۳۰