برصغیر کی غلامی کا پس منظر

بحیرہ عرب کے اور بنگال سے لنکا تک کے پرانے تجارتی راستوں کو یورپی قزاقوں کے ہاتھوں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا تھا۔ یورپی لٹیروں کا مشن یہ تھا کہ عربوں کی تجارت کو ختم کر کے برصغیر اور یورپ کے درمیان براہ راست تجارتی رابطہ قائم کیا جائے اور اپنے ملکوں کی تجارتی ضروریات خود پوری کی جائیں اور خود ہی منافع کمایا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر کی مصنوعات کے خریدار زیادہ تر صرف یورپی تاجر ہی رہ گئے تھے۔ اور ساحلی علاقوں کے دست کاروں، بالخصوص بنگال کے دست کاروں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تھا کہ وہ یورپی تاجروں سے رابطہ قائم کریں۔ یورپی کمپنیوں سے تجارت ملک کی معاشی ضرورت بن چکی تھی۔

یورپی تاجروں کو اپنی خریداری کی قوت کا احساس ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنی معاشی طاقت اور مقامی دست کاروں اور تاجروں کی معاشی کمزوری سے پوری طرح فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے کم سے کم قیمت پر مال خریدا بھی اور جب موقع ملا تو تھوڑی سی قیمت دے کر زبردستی چھینا بھی۔ کم سے کم قیمت پر خریدنا تو ہر خریدار کی خواہش ہوتی ہے لیکن اتنی کم قیمت دینا کہ دست کار خود ہی برباد ہو جائے ایک ظالم اور توسیع پسندانہ نظام کے پیدا کردہ گاہک ہی کر سکتے ہیں جنہیں ان کے نظام نے انسانی اقدار سے سراسر عاری کر دیا ہو۔ ۱۷۲۶ء میں میر قاسم نے ایسٹ انڈیا کے گورنر سے کمپنی کے ملازمین کی یوں شکایت کی:

’’کمپنی کے ملازمین ایک چوتھائی قیمت پر مال چھین کر لے جاتے ہیں۔ یہ رعیت پر جبر و تشدد کرتے ہیں۔ پانچ روپے کے مال کا ایک روپیہ دیتے ہیں۔‘‘

میر قاسم کے حساب کی کمزوری بھی ملاحظہ ہو! اسی زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین نے دست کاروں سے ’’آئندہ سودے‘‘ کرنے شروع کیے۔ ان سودوں میں مال کی فراہمی کی تاریخیں اور قیمت درج ہوتی تھی۔ ان سودوں پر دستخط کرانے کے لیے کمپنی کے ملازمین کے ہاتھ میں کوڑے ہوتے تھے اور جبر و تشدد سے ہی اس ’’معاہدہ‘‘ پر عمل کراتے تھے۔ اس طرح دست کاروں کا مال کمپنی کے لیے وقف ہو جاتا تھا۔ وہ کسی اور کو مال نہیں بچ سکتے تھے۔

رفتہ رفتہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اہم ضروریات کی پوری تجارت کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ اس کے بعد اس نے ملکی ٹیکس کی وصولی میں حصہ بٹوایا۔ پھر اس نے مالیہ وصول کرنا شروع کیا۔ اس کے ملازمین نے خود بھی ذاتی تجارت شروع کی اور رشوت اور دوسری بدعنوانیوں کے ذریعے وہ لوٹ مچائی کہ جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ کمپنی کا جبر و تشدد ایک دم شروع نہیں ہوا تھا۔ نوابوں کے سامنے فرشی سلام کرنے والے غیر ملکی تاجر راتوں رات جابر و ظالم استحصالیے نہیں بن گئے تھے۔ اس عمل میں بیسیوں سال لگے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ بنگال و بہار میں معاشی بربادی مکمل نہ ہو گئی، لاکھوں چرخے بند نہ ہو گئے، کھڈیاں خاموش نہ ہو گئیں اور بادشاہوں، نوابوں اور امرا کے خزانے لٹ نہ گئے۔

کمپنی نے تجارتی ظلم اور دھاندلی کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی کروڑوں روپے کمائے۔ ایسا لگتا ہے کہ جس طرح تجارت انگریزوں کے لیے زندگی و موت کا معاملہ تھی، اسی طرح یہ مقامی نوابوں اور بادشاہوں کی معاشی اور سیاسی ضرورت پوری کرتی تھی۔ مقامی اربابِ حکومت یا ان کے سیاسی حریف انگریزوں سے تجارت جاری رکھنے کے لیے اپنا بہت کچھ انہیں سونپنے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مراعات یافتہ بندگان عالی ازخود اپنی حکومت انگریز کو دینا چاہتے تھے، یا اپنی حکومت کے تحفظ کے لیے لڑائی نہیں کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ انگریز سے تجارت تو قائم رہے، وہ اس کا انتظام کرے اور متعلقہ معاملات خود ہی طے کرے، لیکن سیاسی اقتدار اس کا نہ ہو۔ تاریخی لحاظ سے یہ توقع احمقانہ بھی تھی اور ناممکن بھی۔ حکومت پیداواری نظام قائم رکھنے اور پیداوار کی تجارت کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ سیاسی نظام معاشی نظام کے تابع ہوتا ہے۔ معاشی نظام سیاسی نظام کے تابع کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا پیداوار اور تجارت کی راہ میں جو چیز بھی حائل ہو اس کو ہٹا دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ حکومتوں کو بھی۔

برصغیر کی ساری دریائی اور بسری شاہراہوں پر جگہ جگہ محصول اور ٹیکس وصول کیے جاتے تھے۔ ٹیکس کی وصولی کی کارروائی سے نہ صرف مال کو منزل پر پہنچانے میں دیر ہوتی تھی بلکہ ناجائز وصولیاں بھی کی جاتی تھیں جو منافع میں کمی کا باعث ہوتی تھیں۔ جس طرح آج کل امریکی اور یورپی ٹھیکیدار مقامی حکومت سے بعض ٹیکس معاف کرا لیتے ہیں، اسی طرح ان دنوں انگریز بھی ٹیکس اور محصول معاف کرا لیتے تھے۔ ۱۷۱۷ء میں مغل بادشاہ نے تین ہزار روپے ماہوار کے عوض بنگال، حیدر آباد اور گجرات میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو سارے واجب الادا ٹیکس اور دیگر واجبات معاف کر دیے۔ اسی تین ہزار کے اضافے کے عوض کمپنی کو کلکتہ میں اپنے علاقے میں توسیع کرنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ وہ مزید کئی دیہات کو انگریز آبادی کے ساتھ ملا لے۔ علاوہ بریں بمبئی میں کمپنی کے جاری کردہ سِکے کو سارے ملک میں رائج الوقت سکہ تسلیم کیا گیا۔

انگریزوں نے تجارتی لوٹ کھسوٹ کے علاوہ روپیہ کمانے اور دولت جمع کرنے کے بے شمار طریقے ایجاد کیے ہوئے تھے۔ لوٹ مار اور وصولی کا کوئی طریقہ ایسا نہ تھا جو کمپنی کے ملازمین نے اختیار نہ کیا تھا۔ کمپنی کے سپاہی جب مقامی نوابوں کی پہرہ داری کرنے جاتے تھے تو وہ بھتہ وصول کرتے تھے جو ان کے خرچ سے بہت زیادہ ہوتا تھا۔ آج کل کے سرکاری ملازمین کی طرح اس وقت کے انگریز ملازمین بھی ’’ٹی اے‘‘ بناتے تھے۔ جب سپاہیوں کو دوسرے علاقوں میں جانا پڑتا تھا تو ڈبل بھتہ ملتا تھا۔ بھتہ نہ صرف سپاہی لیتے تھے بلکہ کمپنی کے بڑے بڑے افسر بھی لیتے تھے، حتیٰ کہ خود گورنر جنرل بھی۔

کمپنی کے ملازمین کی تنخواہیں آسمان سے باتیں کرتی تھیں۔ ۱۷۸۵ء اور ۱۷۹۳ء کے درمیان کمپنی کی انتظامیہ کے اخراجات اڑھائی لاکھ پونڈ سے بڑھ کر سوا نو لاکھ پونڈ ہو گئے تھے۔ ایک ہزار پونڈ ماہوار تنخواہ پانے والے ملازمین کی تعداد خاصی تھی۔ کمپنی کے ملازمین، ڈائریکٹر اور دوسرے سارے چھوٹے بڑے عہدے دار بہت رشوت خور اور بدعنوان تھے۔ انہوں نے انگلستان کی پارلیمنٹ کے بعض بااثر ممبروں کو خرید رکھا تھا۔ ان کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ انگلستان کا وزیر اعظم کمپنی کو سرکاری ملکیت میں لینے کے نتائج سے ڈرتا تھا۔ کمپنی کے ملازمین کی تنخواہیں، رشوت، ذاتی تجارت کا منافع اور بھتہ وغیرہ برصغیر سے دولت منتقل کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔ یہ ذریعہ قانونی تھا یا غیر قانونی، جہاں تک کہ برصغیر کا تعلق ہے دولت یہاں سے بہرصورت منتقل ہو جاتی تھی۔

اٹھارویں صدی میں انگلستان میں ہندوستان کی ’’سستی مصنوعات‘‘ کے خلاف احتجاج بہت زور پکڑ گیا کیونکہ مقامی نوزائیدہ صنعتوں کو ہندوستانی مال کی درآمد سے بہت نقصان ہو رہا تھا۔ یہ احتجاج دراصل ۱۶۹۶ء میں شروع ہوا تھا جب انگلستان کے دست کاروں نے ہندوستانی اور چینی مصنوعات کی درآمد کے خلاف بلوے کیے تھے۔ احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہا تا آنکہ ۱۷۰۰ء میں ایشیا سے ریشمی کپڑے اور پھول دار سوتی کپڑے کی درآمد پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس سے ہندوستان کے کاری گروں کی اجرتیں بہت کم ہو گئیں اور ان کی غربت میں بہت اضافہ ہو گیا۔ تاہم تجارتی مقابلہ پھر بھی جاری رہا۔ بنگال اور سورت کا سوتی کپڑا اتنا سستا ہوتا تھا کہ انگلستان کے جولاہے مقامی مارکیٹ میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔

چنانچہ اٹھارویں صدی کے اوائل میں پھر احتجاج ہوا جس کے پیش نظر حکومت نے پہلے تو ہندوستانی کپڑے کی درآمد پر ڈیوٹی لگائی اور پھر ۱۷۲۰ء میں ہندوستانی کپڑا پہننا قانونی طور پر جرم قرار دے دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستانی مصنوعات کی تجارت بند کر کے یہاں سے خام مال دھڑا دھڑ برآمد کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح انگلستان کی پارچہ بانی کی صنعت کو بہت ترقی ہوئی اور وہ سوتی کپڑا درآمد کرنے کی بجائے برآمد کرنے لگا۔ ۱۷۸۶ء اور ۱۷۹۰ء کے درمیان انگلستان سے سوتی کپڑے کی برآمد میں پندرہ گنا اضافہ ہوا یعنی سوتی کپڑے کی برآمد بارہ لاکھ پونڈ سے بڑھ کر ایک کروڑ چوراسی لاکھ پونڈ تک پہنچ گئی۔

انیسویں صدی کا آغاز ہوا تو برصغیر کے ساحلی علاقوں میں مقامی تجارت بالکل تباہ ہو چکی تھی اور اس سے زراعت بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ مقامی تجارت کی تباہی کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ انگلستان میں صنعتی ترقی کے باعث ہندوستانی مصنوعات کی مانگ نہیں رہی تھی، اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بزور قوت اپنی تجارتی اجارہ داری قائم کر لی تھی۔ کمپنی کی دست درازیوں اور فتوحات سے پہلے برصغیر میں مقامی تاجروں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی تھی اور خریدار بھی کم نہیں ہوتے تھے۔ مارکیٹ میں انگریز، فرانسیسی، ولندیزی اور دوسرے غیر ملکی گاہک موجود رہتے تھے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، انگریز کا اثر بڑھتا گیا اور دوسرے غیر ملکیوں کا اثر کم ہوتا گیا۔

بالآخر مارکیٹ میں صرف انگریز رہ گئے اور انگریزوں میں بھی خریدار ایک ہی تھا یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی۔ اس کی اجارہ داری کو اس سے بڑی تقویت پہنچتی کہ مال لے جانے والے جہازوں پر بھی اس کی اجارہ داری تھی۔ صرف کمپنی کے جہاز ہی مال اٹھا سکتے تھے۔ اس طرح فروخت کنندہ اور خریدار کا دو طرفہ لین دین نہ رہا بلکہ یک طرف تجارت ہونے لگی، یعنی کہ خریدنے والا حسبِ مرضی جو دام دیتا تھا وہی بیچنے والے کو لینے پڑتے تھے۔ کمپنی کو اجارہ داری سے بہت فائدہ پہنچا۔ چنانچہ اس نے خام مال کی تجارت کے علاوہ بعض دوسری اشیاء کی تجارت کی اجارہ داری بھی حاصل کر لی۔ شورہ، نمک، افیون کی ساری تجارت کمپنی یا اس کے ملازمین کے ہاتھوں میں چلی گئی۔

کمپنی نے دولت جمع کرنے کے دوسرے راستے بھی اختیار کیے۔ اس نے افیون پر ڈیوٹی میں اضافہ کیا اور کاریگروں کو دوسرے یورپیوں کے لیے کام کرنے سے روکا۔ کمپنی نے ایک ایسا معاہدہ بھی کیا جس کی رو سے نمک پر ڈیوٹی ہندوستانی تاجروں سے چالیس فیصد لی جاتی تھی اور انگریزوں سے نو فیصد۔ بعد میں جب مقامیوں کا کاروبار بند ہو گیا تو ڈیوٹی ’’سب‘‘ کے لیے اڑھائی فیصد کر دی گئی، یعنی کہ انگریز تاجروں کو اس مال کی تجارت میں مزید نفع کی گنجائش دے دی گئی۔

تجارت بنگال کی جان تھی۔ جب اندرونی تجارت میں بھی انگریزوں کا دخل ہو گیا اور ان کے ساتھ اندرونی طور پر تجارت کیے بغیر زندگی ناممکن ہو گئی تو قومی زندگی کے ہر شعبے میں ان کا عمل دخل ہو گیا۔ مثلاً‌ مالیہ کی وصولی میں۔ اس سلسلے میں کمپنی کی دلچسپی محض اس کے ملازمین کے حرص اور طمع کی وجہ سے نہیں تھی۔ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ کمپنی کی ہندوستان کے خام مال میں دلچسپی بڑھ گئی تھی۔ انگلستان میں صنعتی دور کی ابتداء ہو چکی تھی۔ وہاں مشینیں ایجاد ہونی شروع ہو گئی تھیں۔ صنعتی خام مال برصغیر میں دستیاب تھا۔ لہٰذا خام مال کی ضرورت نے انگریزوں کو زمین کی طرف متوجہ کیا۔

زراعت کے نظام میں مالیہ کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ غریب کاشت کار کی پیداوار پر جاگیردار لٹیرے اور ان کے اہل کار اس طرح پڑتے تھے جیسے گوشت پر چیلیں۔ زرعی پیداوار پر بہت سے قانونی اور غیر قانونی ٹیکس تھے۔ غیر قانونی ٹیکسوں کا تذکرہ کیا جا چکا ہے۔ کسان سے قانونی طور پر جو کچھ وصول کیا جاتا تھا وہ مالیہ اور بٹائی کے نام پر ہوتا تھا۔ لیکن درحقیقت جو رقم حکومت کے خزانے میں یا ’’مالک‘‘ کی تجوری میں پہنچتی تھی وہ قانونی ٹیکس سے کہیں زیادہ ہوتی تھی۔ کسان ان وصولیوں کے بوجھ تلے بری طرح پس رہا تھا اور زراعت کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

کمپنی کو نفع اندوزی کے لیے نہ صرف زرعی پیداوار میں دلچسپی تھی بلکہ وہ مالیہ کی وصولی میں بھی حصہ دار بننے کی خواہش مند تھی۔ چنانچہ شاہ عالم نے کلائیو کے مطالبہ کے پیش نظر بنگال کے نواب کی ’’دیوانی حیثیت‘‘ ختم کر دی اور صوبہ کی دیوانی بطور تحفہ ’’تا ابد‘‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دی۔ شاہ عالم کی یہ بخشش محض کاغذی تھی کیونکہ بنگال کے عوام الناس نے تو پہلے ہی سے شاہی دیوان کو ’’کمپنی صاحب بہادر‘‘ کا نام دے رکھا تھا۔ آج کل بھی ہمارے ہاں کلکٹر اور ڈپٹی کمشنر کے نام کے ساتھ جو ’’صاحب بہادر‘‘ کا لقب لگایا جاتا ہے یہ کلائیو کے ماتحتوں کی بنگال و بہار کی کسان رعیت پر ظلم کی کارروائی میں دکھائی گئی ’’بہادری‘‘ کا ورثہ ہے۔

’’دیوانی‘‘ کے ذمے تین ٹیکسوں کی وصولی تھی۔ اول ’’مال‘‘ یعنی زمین کا مالیہ جس میں نمک کا مالیہ بھی شامل تھا۔ دوئم ’’سیر‘‘ یعنی کسٹم، چنگی، ٹول اور دریا عبوری کے ٹیکس۔ اور سوئم ’’بازی جامہ‘‘ یعنی جرمانے، جائیداد پر ٹیکس اور آبکاری کی وصولیاں۔ دیوانی کے ٹیکسوں کی وصولی کا نظام نہایت پیچیدہ تھا۔ اس کی پیچیدگی سے بھی مخصوص مفادات وابستہ تھے۔ ان کی پیچیدگی کی ذرا سی جھلک آج کل کے پٹواری کردار میں نظر آتی ہے۔ ’’دیوانی دیوانہ بنا دیتی ہے‘‘ اور ’’دیوانی مقدمہ جو جیتا، سو ہارا، اور جو ہارا سو مرا‘‘۔ یہ وہ ضرب الامثال ہیں جو اردو زبان میں پاکستان تک پہنچی ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی دیوان بن گئی اور اس نے محمد رضا خان کو نو لاکھ روپیہ سالانہ تنخواہ پر نائب دیوان مقرر کر لیا۔ اس تنخواہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دیوانی کی اہمیت کیا تھی۔

جب مغلیہ سلطنت کے زوال کی رفتار میں اضافہ ہوا تو اسی تناسب سے غریب کاشت کاروں پر ظلم و ستم میں بھی اضافہ ہوا۔ جو کچھ ان سے وصول کیا جاتا تھا اس کا بہت کم حصہ قانونی یا جائز ہوتا تھا۔ اور باقی غیر قانونی یا ناجائز کثیر رقم وصول کرنے والوں، اور ان وصول کرنے والوں سے وصول کرنے والوں کی تجوریوں میں جاتی تھی۔ مالیہ اور دوسرے ٹیکسوں کی وصولی کے حقوق جدی پشتی ہوتے تھے۔ یہ لوگ ظلم کرنے میں ماہر ہوتے تھے۔ مالیہ اور بٹائی کی شرحیں بہت زیادہ تھیں۔ اس لیے غریب کسان پر اتنا بوجھ پڑا کہ زرعی پیداوار میں بہت کمی ہو گئی۔ انگریز مورخین لکھتے ہیں کہ زمیندار اور قانون گو کے سینوں میں ساری زمین و ریاست کے ریکارڈ اور ٹیکسوں کی وصولی کے راز سربستہ تھے جن کو افشا کرانے کی کوشش میں بیسیوں سال لگے لیکن پھر بھی پوری طرح سے کامیابی نہ ہوئی۔ کلکٹری کا نظام اور اراضی کا ’’بندوبست‘‘ اس کوشش کا حصہ تھے۔ ۱۷۷۰ء میں مرشد آباد کا انگریز ریذیڈنٹ بیچر لکھتا ہے کہ

’’جب سے کمپنی کے پاس دیوانی آئی ہے عوام کی حالت بد سے بدتر ہو گئی ہے۔ یہ ملک انتہائی جابر سلطانوں کے زمانے میں بھی خوش حال تھا لیکن اب جب سے اس کے نظم و نسق کی ذمہ داری انگریزوں پر عائد ہوئی ہے یہ مکمل تباہی و بربادی کی طرف جا رہا ہے۔‘‘

ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر میں جو لوٹ مچائی اس میں لندن کی حکومت حصہ دار تھی۔ ۱۷۶۷ء کے بعد کمپنی لندن میں اپنی حکومت کو سالانہ چار لاکھ پونڈ ادا کرنے کی ذمہ دار تھی۔ یہ ادائیگی حکومت کی امداد سے بنگال و بہار پر قبضہ کرنے کے عوض میں ہوتی تھی۔ ذمہ دار انگریز لکھتے ہیں کہ اس طریقے سے انگلستان کی حکومت ہندوستان کی لوٹ مار میں حصہ دار بنی اور اس نے وہاں اپنے ریاستی حقوق منوائے۔

جن علاقوں سے انگریزوں کو بنگال کی طرح کا تجارتی فائدہ نہیں ہوتا تھا وہاں ان کی آمدنی کا ایک ذریعہ سود بھی ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کرناٹک میں انگریزوں نے بظاہر کرائے کے فوجیوں کی حیثیت سے مقامی نواب کے لیے فرانسیسیوں سے لڑائی لڑی۔ نواب کے پاس اس لڑائی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے پیسے نہیں تھے اس لیے پیسے انگریزی کمپنی کے ’’ملازمین‘‘ نے دیے۔ جب لڑائی ختم ہوئی تو نواب پر بائیس لاکھ روپے کا قرضہ تھا۔ سود پہلے تو تیس سے چھتیس فیصد سالانہ تھا لیکن بعد میں پچیس فیصد کر دیا گیا اور پھر پانچ سال بعد مزید کم کر کے دس فیصد کر دیا گیا۔

۱۷۸۳ء میں ایڈمنڈ برک نے، جو انگلستان کی پارلیمنٹ کا ایک بہت بڑا مقرر تھا اور عام طور پر صلح صفائی کی تلقین کرتا رہتا تھا، ایک تقریر کی جو بہت مشہور ہوئی۔ اس تقریر میں اس نے کہا:

’’تاریخ عالم میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سے زیادہ رشوت خور اور تباہی خیز آمریت کی مثال نہیں ملتی۔ کوئی بادشاہ، نواب، یا نواب زادہ بڑا یا چھوٹا، ایسا نہیں ہے جو ہم سے ہندوستان میں ملا ہو اور ہم نے اسے بیچ نہ دیا ہو۔ ہم نے کوئی ایسا معاہدہ نہیں کیا جو توڑا نہ ہو اور کوئی نوابی یا ریاست ایسی نہیں ہے کہ جس نے ہم پر اعتبار کیا ہو اور ہم نے اسے برباد نہ کیا ہو۔‘‘

کمپنی کے ملازمین کے متعلق برک نے کہا:

’’طمع اور لالچ سے بھرپور، جوانی کے نشے میں ان کا ایسا تانتا بندھا ہوا ہے جیسے ایک کے پیچھے دوسری لہر آتی ہے۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ لٹیروں کا لامتناہی سلسلہ چیلوں اور گدھوں کے غولوں کی طرح ہے جو ایسے مردہ شکار کے لیے آرہے ہیں جس کا گوشت پوست ختم ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا شکار انگلستان آجاتا ہے اور ہندوستانیوں کی آہ و بکا اور نالہ و فریاد اس برساتی نالے کی طرح ہے جو سمندر میں جا کر ختم ہو جاتا ہے۔ کیا تم یقین کرو گے کہ ہمارے ان جوان سال ملازمین کا رویہ بادشاہوں کی طرح ہے؟ اگرچہ ان کے عہدوں کے نام سپروائزر، کلکٹر اور جج وغیرہ ہیں لیکن عملاً یہ جابر بادشاہ ہیں۔‘‘

انگریز لٹیرے تجارت اور قزاقی کے لیے آئے تھے۔ یہ سمندروں کے مالک تھے۔ سمندر میں ان کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی تھی۔ انہیں جب دوسری قوموں کے بحری جہاز ملتے تھے تو وہ فوراً‌ لوٹ لیتے تھے۔ انہوں نے خشکی پر شروع میں ’’مراعات‘‘ حاصل کیں۔ جب تک مقامی حکمرانوں کے لیے بیرونی تجارت کی ضرورت نے معاشی دباؤ کی صورت اختیار نہیں کی تھی اس وقت تک ’’مراعات‘‘ ان کے رحم و کرم پر تھیں۔ رفتہ رفتہ بیرونی تجارت کی ضرورت نے معاشی دباؤ کی صورت اختیار کر لی تو مقامی سیاسی حکمران بیرونی خریداروں کے رحم و کرم کے متمنی ہو گئے۔ بادشاہوں اور نوابوں کے روبرو کورنش بجا لا کر تحفے پیش کرنے والے دیکھتے ہی دیکھتے نوابوں کے سرپرست اور بادشاہ کے محافظ بن گئے۔ سراج الدولہ کی شکست کے بعد جب میر جعفر کو ’’نواب‘‘ بنایا گیا تو اس نے کمپنی کو پندرہ لاکھ پونڈ دیے۔ اس رقم میں کلائیو کا ذاتی حصہ بھی تھا۔

ایک اندازے کے مطابق کمپنی اور اس کے ملازمین نے ۱۷۵۷ء سے ۱۷۸۰ء تک بنگال سے تقریبا" چالیس لاکھ پونڈ سٹرلنگ انگلستان بھیجے تھے۔ اس رقم میں میر جعفر اور میر قاسم کو بنگال کے تخت پر بٹھانے کی تقریبا" پچاس لاکھ روپیہ فیس بھی شامل تھی۔ ۱۷۶۵ء میں جب کمپنی نے بنگال و بہار کی دیوانی حاصل کر لی تو اس نے مالیہ کی ساری رقم سونے یا تجارتی مال کی صورت میں انگلستان بھیجنی شروع کر دی۔

انگریزوں نے پہلے تو غریبوں کو لوٹا۔ غریب تباہ ہوئے تو ان کے نواب بھی تباہ ہو گئے۔ پرجا تباہ ہوئے تو راجہ کیسے سلامت رہ سکتا تھا۔ نواب تباہ ہوئے تو ’’سونے کی چڑیا‘‘ ایڈمنڈ برک کے بقول ’’چیلوں اور گِدھوں‘‘ کا لقمہ بن گئی۔ بنارس کے راجہ چیت سنگھ، بیگمات اودھ، فیض اللہ خان اور دوسرے نوابوں اور مہاراجوں کو جس طرح لوٹا گیا اس کے قصوں سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ ان میں سے بعض ’’وارداتیں‘‘ انگریزی عدالتوں اور پارلیمانی تفتیشوں کا مواد بھی بنیں۔ تاہم کمپنی کی لوٹ کی منتقلی کا سلسلہ اس وقت بند ہوا جب بقول شاعر

’’رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو‘‘

۱۷۷۲ء میں انگریزوں کے زیر تسلط کئی علاقے تھے۔ بمبئی تھا جو انگریز بادشاہ سلامت کی ملکیت تھا۔ اسے یہ شہر پرتگال سے جہیز میں ملا تھا۔ بنگال میں انگریزوں کے پاس مدناپور، بردوان اور چٹاگانگ تھے۔ انہیں ان کا مالیہ معاف تھا۔ کلکتہ اور چوبیس پرگنہ کے علاقے میں کمیٹی کی حیثیت ’’زمیندار‘‘ کی تھی۔ نواب اس سے مالیہ وصول کرتا تھا۔ بنگال، بہار اوڑیسہ کے علاقے ایسے تھے جن کی ’’دیوانی‘‘ کمپنی نے حاصل کر رکھی تھی۔ مدراس میں انگریزوں کے محدود حقوق تھے جو انہوں نے ایک معاہدے کے تحت مقامی راجہ سے حاصل کیے تھے۔ اگلے ستر اسی سال میں کمپنی رفتہ رفتہ پورے ہندوستان کی مالک بن گئی۔ اتنے وسیع و عریض برصغیر پر کمپنی کی فتوحات کے مفصل ذکر کی ضرورت نہیں۔ البتہ اتنا ذکر غیر مناسب نہیں ہو گا کہ ۱۷۷۵ء میں کلائیو نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ مغلیہ سلطنت اس کے ہاتھ میں ہے اور برصغیر میں کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کا مقابلہ کر سکے۔ کلائیو کو یہ یقین تھا کہ فرانسیسی، ولندیزی یا کوئی بھی دوسری یورپی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی حیرت انگیز آسانی سے پورے برصغیر پر حاوی ہو گئی۔

سائنسی تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی غلامی کی بنیادی وجہ ملک کے معاشی زوال میں مضمر تھی۔ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں میں خانہ جنگی ہوئی تو برصغیر کے سیاسی اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔ بہت سے شہزادوں، نوابوں، راجوں اور مہاراجوں نے دہلی سے ناطہ توڑ کر آزاد ریاستیں قائم کر لی تھیں۔ مہاراشٹر میں مرہٹے اور پنجاب میں سکھ طاقتور اور آزاد ہو گئے تھے اور جنوب میں حیدر آباد، میسور، کرناٹک کی آزاد ریاستیں قائم ہو گئی تھیں۔

اس طوائف الملوکی کی اصل وجہ یہ تھی کہ مغلوں نے جو جاگیر دارانہ نظام قائم کیا تھا، اس میں کوئی ترمیم و اصلاح نہ ہونے کے باعث اس کے پرخچے اڑ گئے تھے۔ ہر طرف سیاسی لاقانونیت اور معاشی افراتفری کا دور دورہ تھا۔ دیہاتی علاقوں میں کسان بغاوتیں کر رہے تھے اور شہروں میں لوٹ مار مچی ہوئی تھی۔ انگریزوں نے اس صورت حال میں دو تین اندرونی تضادات سے فائدہ اٹھایا۔ غریب کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان تضاد نے معاندانہ صورت اختیار کر لی تھی اور اس طرح جاگیرداروں کا اقتدار بہت کمزور ہو چکا تھا۔ دہلی کی مرکزی حکومت کمزور ہونے کے باعث علاقائی منصب داروں کے باہمی تضاد نے بہت شدت اختیار کر لی تھی اور وہ ایک دوسرے کے علاقے کو ختم کرنے کے لیے آپس میں لڑتے تھے۔ نیز تاریخی وجوہ کی بنا پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تضاد کی نوعیت بھی دشمنانہ ہو گئی تھی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے انڈونیشیا میں ولندیزیوں کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے پہلے تو ہندوستانی سپاہیوں کی فوج بھرتی کی اور پھر متذکرہ تضادات سے فائدہ اٹھا کر پورے برصغیر کو ہندوستانیوں ہی کے ذریعے فتح کر لیا۔

یہ فتح عیسائیت کی فتح نہیں تھی بلکہ یہ فتح اس بورژوا جمہوری انقلاب کی فتح تھی جو سترہویں صدی میں انگلستان میں آچکا تھا۔ یہ شکست اسلام کی شکست نہیں تھی بلکہ اس جاگیرداری نظام کی شکست تھی جس نے حالات کے ساتھ بدلنے سے انکار کر دیا تھا اور جو ہر تبدیلی اور ترقی کی راہ میں حائل تھا۔ اس شکست میں تجارت کے زوال کا بھی بڑا حصہ تھا۔ بحیرہ عرب اور خلیج بنگال کے راستے کٹ جانے کے بعد انگریزوں کے ہاتھ میں تجارت کی اجارہ داری آگئی تھی، اور ان کے تعلقات براہ راست ہندوستان کی پیداواری طاقتوں یعنی دست کاروں اور کسانوں سے قائم ہو گئے تھے۔ جن علاقوں میں یہ تعلقات زیادہ بڑھے ان علاقوں کا سیاسی ڈھانچہ سب سے پہلے زمین پر آگرا۔ جن علاقوں سے انگریزوں کے تجارتی تعلقات نہیں تھے وہ انگریزوں کی جھولی میں سب سے آخر میں پڑے۔

مغلوں کے زوال پذیر جاگیردارانہ نظام اور انگریزوں کے ترقی پذیر صنعتی نظام کے درمیان تصادم میں اول الذکر کی ہار اور ثانی الذکر کی جیت ناگزیر تھی اور ایسا ہو کر رہا۔ نئے اور پرانے نظاموں کی ٹکر کے نتیجے میں معاشرت، ثقافت اور سیاست میں بنیادی تبدیلیاں آئیں۔ جاگیردار اور امراء اور ان کی رعیت کے درمیان، مراعات یافتہ مسلمان اقلیت اور محکوم ہندو اکثریت کے درمیان، ٹیکس وصول کرنے والی نوکر شاہی اور ٹیکس دینے والے عوام الناس کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور اس بنا پر ایک نئے معاشرتی عمل نے جنم لیا۔

برصغیر کے غریب عوام الناس کے لیے نئے حکمرانوں کا آنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ قبل از میں بادشاہ اور صوبائی حکمران اکثر بدلتے رہتے تھے۔ لیکن معاشی نظام پرانا ہی رہتا تھا اور عوام الناس کی زندگی درہم برہم نہیں ہوتی تھی۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ انگریز کا آنا محض ایک دوسرے بادشاہ کا آنا نہیں تھا۔ انگریز کے آنے کا نتیجہ معاشی نظام کی تبدیلی کی صورت میں نکلا اور یہ تبدیلی ہی برصغیر میں دوسری کئی قسم کی تبدیلیوں کی وجہ بنی۔

اگر نادر شاہ یا احمد شاہ ابدالی ہندوستان میں مغلوں اور مرہٹوں کی جگہ خود تخت پر بیٹھ جاتے تب بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے وجود سے جو معاشی تبدیلی شروع ہوئی تھی، اس کے دور رس سیاسی نتائج نکلتے، کیونکہ پرانے معاشرتی و معاشی نظام کی تباہی کے باعث سیاسی غلامی برصغیر کا مقدر بن چکی تھی۔ البتہ یہ ممکن تھا کہ برصغیر کی معاشی اور سیاسی شکست اس انداز میں نہ ہوتی جیسے کہ ہوئی، بلکہ اس طرح ہوتی جیسے کہ انیسویں صدی میں چین کی مانچو سلطنت کی ہوئی تھی۔

جب برصغیر کی دست کاری کی مصنوعات کی منڈیاں انگلستان کے صنعتی انقلاب کی وجہ سے غائب ہو گئیں، جب ہندوستان زرعی پیداوار کا درآمدی ملک بن گیا، اور جب یہ وسیع و عریض ملک چھوٹے سے انگلستان کے صنعتی مال کی منڈی بن گیا تو اس کی پس ماندگی یقینی ہو گئی۔ اس کے لیے اٹھارویں اور انیسویں صدی کے صنعتی انقلاب اور سرمایہ داری نظام پر مبنی ہمہ جہت ترقی کی گاڑی نکل چکی تھی۔

انگریزوں کی آمد سے پہلے روئی اور خام ریشم اور دوسری زرعی اشیاء دست کاروں کے ہاتھوں فروخت ہوتی تھیں اور ان سے تیار کردہ مال باہر بھیجا جاتا تھا۔ انگریزوں کے لیے خام مال کی منڈی بننے کے بعد مقامی معیشت نے یہ صورت اختیار کی کہ ہندوستان میں صرف خام مال پیدا کیا جائے اور اسے انگلستان بھیجا جائے اور انگلستان سے صنعتی مال درآمد کیا جائے۔ پہلا نظام اس نئے نظام سے ایسے ہی مختلف تھا جیسے گھوڑا گاڑی سٹیم انجن سے مختلف ہوتی ہے، یا جیسے تلوار رائفل سے مختلف ہوتی ہے۔ جس سیاسی طاقت نے دوسرا نظام پہلے نظام پر ٹھونسا، وہ سٹیم انجن اور رائفل کی طاقت تھی، تلوار اور گھوڑا گاڑی اس کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتے تھے۔

(ماخوذ از ’’شاہراہِ انقلاب‘‘)

(اپریل ۱۹۹۷ء)

اپریل ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۲

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندانِ ولی اللّٰہی کی دینی خدمات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد
مولانا نجم الدین اصلاحی

امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے دور کے سیاسی حالات
ڈاکٹر محمد مظہر بقا

ایسٹ انڈیا کمپنی
پروفیسر غلام رسول عدیم

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا
میڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں برصغیر کی معاشی تباہی
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

برصغیر کی غلامی کا پس منظر
ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

بنگال کا آخری مسلمان فرمانروا نواب سراج الدولہ شہید
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کی یلغار کے سامنے آخری چٹان: سلطان ٹیپو شہیدؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

شہدائے بالاکوٹؒ اور ان کی جدوجہد
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

آخری مغل تاجدار، بہادر شاہ ثانی
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرائضی تحریک اور حاجی شریعت اللہؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرنگی اقتدار کے بعد متحدہ ہندوستان دارالحرب ہے: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ایک اہم فتویٰ
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter