(۲۰ ذی الحج ۱۱۶۳ھ / ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء — ۲۹ ذی قعدہ ۱۲۱۳ھ / ۴ مئی ۱۷۹۹ء)
ہندوستان کی سلطنت میسور کا آخری فرمانروا شیر میسور نواب حیدر علی کا بیٹا۔ تحریک آزادئ ہندوستان کا پہلا شہید۔ دیون ہلی کے مقام پر پیدا ہوا۔ والدہ کا نام فاطمہ فخر النساء تھا۔ حیدر علی نے نرینہ اولاد کی آرزو میں آرکاٹ کے مشہور بزرگ ٹیپو مستان دلی کے مزار پر دعا مانگی تھی۔ اس لیے بیٹے کا نام اسی بزرگ کے نام پر رکھا۔ کہا جاتا ہے کہ ٹیپو کا اصل نام فتح علی تھا، لیکن تاریخ سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ اس کا نام فتح علی تھا یا اس کی کنیت ابوالفتح تھی۔ البتہ اس کے ایک بیٹے کا نام فتح حیدر ضرور تھا۔
’’تاریخِ حمید خان‘‘ کے مصنف محب الحسن خان کی روایت کے مطابق ۱۷۶۷ء میں نظام دکن نے ٹیپو کو ’’فتح علی خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ ’’نشانِ حیدری‘‘ کے مولف حسین کرمانی کے بقول حیدر علی نے ایک وفد ٹیپو کی سرکردگی میں دکن روانہ کیا تھا جہاں ٹیپو کو ’’نصیب الدولہ‘‘ کا خطاب ملا۔
بچپن ہی سے ٹیپو جری، محنت کش اور صاحبِ لیاقت تھا۔ اسلامی علوم کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، فرانسیسی، اردو، تامل، کمنٹری جیسی زبانوں پر بہت جلد عبور حاصل کر لیا۔ نیز اس زمانے کے فنونِ سپہ گری شمشیر زنی تیر افگنی، نیزه بازی تفنگ اندازی، تیرا کی وغیرہ میں بھی کما حقہ مہارت حاصل کر لی تھی۔ اور سنِ بلوغ تک پہنچتے پہنچتے ٹیپو سلطان حرب و ضرب کے آداب اور رزم و پیکار کے انگریزی طریقوں سے بھی واقف ہو چکا تھا۔
۱۷۶۵ء میں ٹیپو سلطان فوجی زندگی میں پہلی بار ہمارے سامنے آتا ہے جب وہ حیدر علی خان کے ساتھ مالابار پر حملہ آور ہوتا ہے۔ یہاں اس نے صرف دو تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ دشمن کے ایک بڑے لشکر کو حراست میں لے لیا، جس پر حیدر علی نے خوش ہو کر اسے اپنی محافظ فوج میں شامل کر لیا اور جاگیر عطا کی۔
۱۹ جون ۱۷۶۷ء کو ٹیپو سلطان مدراس اور اس کے مضافات پر چھاپے مار رہا تھا۔ اس وقت انگریز پہلی بار میسور میں حیدر علی پر حملہ آور ہوئے تھے۔ یہاں سے وہ واپس لوٹتے ہوئے ترماپور اور دانم باڑی کی تسخیر میں والد کا ہاتھ بٹاتا رہا۔ نیز آبنور کے محاصرے میں بھی شریک رہا۔
جب انگریزوں نے منگلور (بندر کوٹریال) پر قبضہ کر لیا تو ٹیپو سلطان کو ان کے مقابلے کے لیے بھیجا گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے حیدر علی بھی وہاں پہنچا۔ یہاں انہوں نے عجب چال چلی۔ بیگار میں پکڑے بیس ہزار افراد کو لکڑی کی بندوقیں دے کر انگریزی توپ خانے کے سامنے کھڑا کر دیا اور خود ٹیپو سلطان مورچوں پر حملہ آور ہوا۔ اس محاذ پر فتح یابی کے بعد حیدر علی مدراس کی طرف روانہ ہو گیا اور ۴ اپریل ۱۷۶۹ء کو حکومتِ مدراس کو صلح نامہ پر مجبور کر دیا۔ اس سے دیسی ریاستوں میں کمپنی کا وقار گر گیا اور انہوں نے خود کو مضبوط اور مستحکم محسوس کیا۔
حیدر علی انگریزوں سے نمٹ کر واپس آیا تو مرہٹہ فوجیں ترمبک راؤ کی قیادت میں میسور کے دروازوں پر دستک دے رہی تھیں۔ ساونور اور کڑپہ کے سردار بھی ان کے ساتھ تھے۔ اس مرحلے پر ٹیپو سلطان کو حکم ملا کہ وہ مرہٹوں کی رسد کو تباہ کرے۔ چنانچہ اس نے مرہٹوں کے عقب میں موجود تمام کنوؤں اور تالابوں میں زہر ڈلوا دیا اور کھیت رونڈ ڈالے۔ اب حیدر علی نے بھی مرہٹوں کے عقب پر چھاپہ مارنا چاہا۔ مرہٹوں کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے پلٹ کر جنگ شروع کر دی۔ مشیروں کی رائے کے خلاف حیدر علی سرنگا پٹم کی طرف فرار ہو گیا۔ اس افراتفری میں ٹیپو اپنے باپ سے جدا ہو گیا جس سے مرہٹوں نے فائدہ اٹھایا اور ٹیپو کی گرفتاری کا اعلان کر دیا جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔ ٹیپو دو دن جانثاروں کے ساتھ بھیس بدل کر سرنگا پٹم پہنچ گیا اور دونوں باپ بیٹا ایک ماہ تک وہاں محصور رہے۔ ترمبک راؤ تینتیسویں دن محاصرے سے تنگ آگیا اور وہاں سے اٹھ کر نجاور کی طرف چلا گیا۔
۱۷۷۲ء میں مرہٹوں کے پیشوا مادھو راؤ کی وفات کے بعد دربار پونا کی اندرونی کشمکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حیدر علی نے دریائے تنگ بھدر اور کرشنا کے درمیانی علاقے مرہٹوں سے چھین لیے۔ ان میں اکثر مہمات میں ٹیپو بھی شریک رہا۔
۱۷۸۰ء میں انگریزوں سے دوبارہ جنگ چھڑ گئی۔ حیدر علی اور سلطان ٹیپو نوے ہزار فوج کے ساتھ کرناٹک جا پہنچے۔ انگریز سپہ سالار ہیکٹر منرو کانجی ورم پہنچ کر کرنل بیلی کا انتظار کر رہا تھا جو سامانِ رسد و اسلحہ کے ساتھ گستور سے آرہا تھا۔ ٹیپو سلطان کو بہلی پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ سلطان نے بیلی کو کانجی ورم سے پندرہ میل پرے بری طرح شکست دے کر قید کر لیا۔ بیلی کی شکست کے بعد اعتراف کیا گیا کہ یہ شدید ترین ضرب تھی جو ہندوستان میں انگریزی قوت پر لگی۔
ادھر حیدر علی نے منرو پر حملہ کرنے کے بجائے آرکاٹ کا محاصرہ کر لیا۔ ٹیپو بھی مدد کو پہنچا اور شہر فتح ہو گیا۔ پھر ٹیپو سلطان آبنور اور بعض دوسرے قلعے مسخر کر کے اگست ۱۷۸۱ء میں واپس آرکاٹ پہنچا۔ جہاں سے ۱۷۸۲ء میں اسے نجاور بھیج دیا گیا۔ یہاں اس نے کرنل بریتھویٹ کو شکست فاش دی۔
عقب سے خبر ملی کہ انگریزی فوجیں ساحل مالابار پہنچ رہی ہیں۔ چنانچہ سلطان فوراً پلٹا اور پال گھاٹ کا محاصرہ کر لیا۔ انگریز اس کے پہنچنے سے پہلے ہی پال گھاٹ خالی کر کے پونانی پہنچ گئے۔ ٹیپو سلطان نے پونانی کا بھی محاصرہ کر لیا مگر ابھی وہ حملہ نہ کر پایا تھا کہ حیدر علی کے انتقال کی خبر ملی۔
حیدر علی نے ۷ دسمبر ۱۷۸۲ء کو وفات پائی۔ سرداروں نے فوراً مہا مرزا خان کو ٹیپو سلطان کی طرف بھیج دیا اور میت کو غسل دے کر تابوت میں رکھا اور مناسب پہرے کے ساتھ کولار کی طرف بھیج دیا۔ نیز چھوٹے بیٹے عبد الکریم کو عارضی طور پر مسند نشین کر دیا۔
۱۱ دسمبر ۱۷۸۲ء کو ٹیپو سلطان کو خبر ملی اور وہ اسی وقت روانہ ہو گیا۔ ۲۵ دسمبر ۱۷۸۲ء کو وہ چمکور پہنچ گیا جہاں اس کا لشکر ٹھہرا ہوا تھا۔ اس نے تمام ماتمی رسوم کی ممانعت کر دی اور ۲۰ محرم ۱۱۹۷ھ / ۲۶ دسمبر ۱۷۸۲ء کو خاموشی کے ساتھ مسند نشینی کی رسم ادا ہوئی۔
تخت نشینی کے وقت سلطان کی سلطنت دکن میں شمالی طرف دریائے کرشنا، جنوبی سمت ریاست ٹراونکور، مشرق میں مشرقی گھاٹ، اور مغرب میں ساحلی سمندر تک پھیلی ہوئی تھی۔ آبادی، زرخیزی اور حسنِ انتظام کی بدولت یہ ایک شاندار سلطنت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزوں کے علاوہ مقامی ہمسائے مرہٹے اور نظام حیدر آباد اس علاقے کو ہتھیا لینے کی فکر میں تھے۔ مگر دوسری طرف اس علاقے کا فرمانروا ایک ایسا سلطان تھا جو نہ صرف موروثی طور پر جری اور مجاہد تھا بلکہ دورِ شہزادگی میں بھی عزم و حوصلے اور تدبر کی داد لے چکا تھا۔
حکومت سنبھالتے ہی ٹیپو سلطان نے سب سے پہلا کام اپنی فوج کو منظم کرنے کا کیا۔ اس نے باقاعدہ رجمنٹیں مقرر کیں اور ماہوار تنخواہ مقرر کر دی۔ اس سے پہلے ہندوستان میں ماہوار تنخواہ کا تصور بھی نہ تھا۔ اس نے فرانسیسی افسروں کی خدمات حاصل کیں تاکہ فوج کو یورپی نمونے پر منظم کیا جا سکے۔ عام روایت کے مطابق ٹیپو سلطان کی باقاعدہ فوج ایک لاکھ کے قریب تھی۔
انگریزوں نے جنرل میتھیوز کی سرکردگی میں ازسرنو مالابار پر حملہ کر دیا اور بڈنور کے حاکم ایاز خان نے نہ صرف شہر و قلعہ بلکہ پورا صوبہ بڈنور اس شرط پر انگریزوں کے حوالے کر دیا کہ اس کی حکومت بدستور اس کی تحویل میں رکھی جائے۔ سلطان کو خبر ہوئی تو اس نے لطف علی بیگ کو دفاع کی غرض سے بھیجا۔ اس وقت تک انگریز ایاز خان سے سمجھوتے کے مطابق بڑے علاقے پر قابض ہو چکے تھے۔ لطف علی بیگ نے باقی علاقے کو بچانے کی کوشش کی لیکن انگریزوں کی قوت کے سامنے اس کی ایک نہ چلی۔ فتح کے بعد انگریزوں نے وہاں انتہائی دردناک مظالم روا رکھے۔
یہ خبریں سلطان تک پہنچیں تو وہ بگولے کی طرح اٹھا اور انگریزوں پر چھا گیا۔ اس نے ایک ہی حملے میں بڈنور پر قبضہ کر لیا۔ یہاں وہ بنگلور پہنچا اور اس کا محاصرہ کر لیا۔ انگریز جنرل کیمبل نے ۲ اگست ۱۷۸۳ء کو صلح نامہ پر دستخط کر دیے۔
ہر طرف سے شکست و ہزیمت اٹھا کر انگریزوں نے میسور میں سازشوں کا آغاز کر دیا۔ سرنگاپٹم میں ہندو راجا کو گدی پر بٹھانے کی سازش کرائی گئی۔ لیکن ٹیپو سلطان کی تدبیروں کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور نتیجتاً ۱۱ مارچ ۱۷۸۴ء کو انگریزوں اور سلطان کے مابین ایک معاہدے پر دستخط ہو گئے جس کی رو سے فریقین نے مفتوحہ علاقے واپس کر دیے اور اسیرانِ جنگ چھوڑ دیے۔
انگریزوں سے فارغ ہو کر سلطان نے مرہٹوں اور نظام کے ساتھ اتحاد کی ہر کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ادھر نظام اور مرہٹوں کے درمیان اس امر پر اتفاق ہو گیا کہ میسور کی سابقہ ریاست چھوڑ کر باقی تمام سلطانی مقبوضات کو چھین کر باہم تقسیم کر لیا جائے۔ ایک جھڑپ کے بعد دونوں فروری ۱۷۸۷ء میں سلطان کے ساتھ صلح کر لینے پر مجبور ہو گئے۔ طے پایا کہ دونوں طاقتیں انگریزوں کے خلاف سلطان کو مدد دیں گی۔
اسی زمانے میں سلطان نے بادشاہ کا لقب اختیار کیا جسے دونوں ہمسایہ ممالک نے تسلیم کیا۔ خطبے میں مغل حکمرانوں کی جگہ اپنا نام شامل کرایا۔ نیا روپیہ جاری کیا۔ انتظامی معاملات درست کیے۔ نیا آئینِ حکومت نافذ کیا۔ سرنگاپٹم میں مسجد اعلیٰ کی تعمیر اختتام کو پہنچی۔ سن ہجری کی جگہ سن محمدی جاری کیا جو آغازِ نبوت سے شروع ہوتا تھا۔ مہینوں کے نئے نام رکھے اور ملک بھر میں مختلف صنعتیں جاری کروائیں۔
سلطان نے فرانس کے دستورِ جمہوریت سے متاثر ہو کر اس کا عملی نفاذ اپنے ہاں بھی کرنا چاہا اور دفاعی اور خارجی امور کے علاوہ دیگر تمام تر اختیارات مجلس وزراء کو سونپ دیے۔ جس کا میر (وزیر اعلیٰ) یعنی صدر الصدور میر صادق کو بنایا۔
۱۷۸۴ء میں سلطان نے عثمان خان کو سفیر بنا کر قسطنطنیہ بھیجا تھا۔ وہاں سے حوصلہ افزا جواب آیا تو غلام علی خان لنگڑے، شاہ نور اللہ، لطف علی بیگ، اور محمد حنیف کو ایک سفارت روانہ کیا۔ جسے قسطنطنیہ کے بعد فرانس اور پھر انگلستان بھی جانا تھا۔ مگر یہ سفارت صرف ترکی ہی سے واپس لوٹ آئی۔ سلطانِ ترک نے خلیفہ ہونے کی حیثیت سے ٹیپو سلطان کے لیے پروانہ سلطان بھجوایا۔ اسی طرح سلطان نے کریم خان زند حاکمِ ایران، زمان شاہ درانی حاکمِ افغانستان، اور شاہ فرانس کے پاس بھی الگ الگ سفارتیں بھجوائیں۔
اس وقت لارڈ کارنوالس گورنر جنرل بن کر ہندوستان آیا۔ اس نے آتے ہی تمام معاہدوں سے انحراف کرنا شروع کر دیا۔ اس نے اندازہ لگا لیا کہ ٹیپو سلطان کو شکست دیے بغیر انگریزی حکومت قائم کرنے کے خواب کی تعبیر حاصل کرنا ممکن نہیں۔ مگر فوجی و عددی برتری کے باوجود ابھی تک وہ سلطان کو شکست سے آشنا نہ کر سکے تھے۔ یہ دیکھ کر کارنوالس نے سازشوں کا ایک جال بچھانا شروع کر دیا۔
مرہٹوں اور نظام کے ساتھ انگریزوں کی گفت و شنید جاری تھی کہ ٹراونکور کے راجہ نے انگریزوں کی شہ پر سلطانی علاقے کوچین پر قبضہ کر لیا۔ اسی دوران میں ٹراونکور نے ولندیزیوں سے دو قلعے جیاکوٹہ اور کرنگانور خرید لیے جو دفاعی لحاظ سے میسور کی سرحد پر اہم حیثیت رکھتے تھے۔ کارنوالس نے اس سودے پر ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا تھا۔ اور ولندیزی گورنر نے بھی اس میں اپنی عدمِ واقفیت کا اظہار کیا۔
ان حالات میں ۱۴ دسمبر ۱۷۸۹ء کو جب سلطان نے اپنی سرحدوں کا جائزہ لیا تو اس نے ایک خط راجہ کو لکھا کہ دونوں قلعے اسے واپس دے دیے جائیں۔ نیز کوچین کا علاقہ بھی واپس کر دیا جائے۔ راجہ کے غیر ذمہ دارانہ جواب پر سلطان نے اس کی گوشمالی کرنے کے لیے کچھ فوج بھیجی، جس کے ساتھ راجہ کی فوجوں کی چھوٹی سی جھڑپ ہوئی۔
جولائی ۱۷۹۰ء میں مدراس کے گورنر نے کارنوالس کی ہدایت کے مطابق سلطان کو لکھا کہ جھگڑے کے تصفیہ کے لیے کمشنر مقرر کیے جائیں۔ سلطان نے اتفاق کیا اور کہا کہ بہتر ہے کمشنر اس کے پاس بھیج دیے جائیں۔ جب میڈوز گورنر بنا تو اس نے کمشنر بننے سے انکار کر دیا۔ سلطان نے اپنے سفیر بھیجنا چاہے تو اسے بھی نہ مانا اور کہلا بھیجا کہ صلح چاہتے ہو تو تاوان ادا کرو۔
بعد کے واقعات کچھ بھی ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں نے ٹراونکور کے واقعہ کو بہانہ بنا کر تیسری بار میسور پر حملہ کر دیا۔ ابتدا میں جنرل میڈوز نے فوج کی کمان سنبھالی۔ اس نے جنوبی سمت سے میسور پر حملہ کر دیا۔ مئی سے دسمبر ۱۷۹۰ء میں سرنگاپٹم کا محاصرہ کر لیا۔ مگر چیچک پھوٹ پڑنے کی وجہ سے محاصرہ اٹھانے پر مجبور ہو گیا۔
ابھی کارنوالس محاصرہ اٹھا کر پلٹا ہی تھا کہ مرہٹے اس کی مدد کو آگئے۔ اور یوں فروری ۱۷۹۲ء میں اس نے دوبارہ سرنگاپٹم کا محاصرہ کر لیا۔ سامانِ رسد کی موجودگی میں اسے محاصرے کی طوالت کا کوئی خوف نہ تھا۔ ادھر سلطانی فوج ہر قسم کی کمک سے محروم ہو چکی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب انگریز چاہتے تو سلطان میسور کا خاتمہ کر سکتے تھے۔ مگر ٹیپو سلطان کا دبدبہ ان پر اس قدر طاری ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کو مصالحت کا پابند بنانے ہی میں عافیت سمجھی۔
اس مصالحت میں طے پایا کہ:
ا۔ سلطان نصف سلطنت اتحادیوں (انگریز، مرہٹے اور نظام) کے حوالے کر دے۔
۲۔ تین کروڑ تیس لاکھ پگوڈے کی رقم تاوان دے۔ اس میں سے ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ کی رقم فوری ادا کی جائے باقی رقم فی الفور ادا کر دی جائے۔
۳۔ تمام اسیرانِ جنگ رہا کر دیے جائیں۔
۴۔ معاہدے کی شرطیں پوری ہونے تک سلطان کے دو بیٹے بطور یرغمال اتحادیوں کے پاس رہیں۔
اس معاہدے سے سلطان پر سیاسی، معاشی اور انتظامی طور پر سخت ضرب لگی۔ اندازہ لگانے کی بات ہے کہ جس ملک کا مالیہ اڑھائی کروڑ ہو، وہ نصف ملک بھی ہاتھ دے اور تین کروڑ سے زیادہ تاوان بھی دے۔ اس کی معاشی حالت کیسی ہو جائے گی۔ اس کے باوجود سلطان نے ہمت نہ ہاری۔ اس کی اولوالعزمی میں کوئی فرق نہ آیا اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ جفاکشی کے ساتھ انتظامِ سلطنت میں لگ گیا۔ سرکشوں کو سزا دی۔ وفاداری سے حلف لیا۔ زراعت کی حوصلہ افزائی کی اور فوج کو ازسرنو مستحکم کیا اور صرف پانچ ہی برس کی انتھک محنت سے ملکی معیشت کو سنبھالا دے دیا۔
اس دوران میں سلطان کی سیاسی اور فوجی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ تجارت اور صنعت کے علاوہ اس نے فرانس کے ساتھ کئی فوجی معاہدے بھی کیے۔ اس وقت نپولین مصر فتح کر چکا تھا۔ اس نے جو خط ٹیپو سلطان کو لکھے، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایران کے راستے ہندوستان آنا چاہتا تھا تاکہ یہاں انگریزوں سے نمٹ سکے۔
اس خط سے انگریز بھی آگاہ تھے۔ ابتداء میں تو وہ خاموش رہے مگر جب مرہٹوں اور نظام کی طرف سے انہیں مکمل معاونت کا یقین ہو گیا تو انگریز گورنر ولزلی نے سلطان کو تہدید آمیز خطوط لکھنے شروع کیے۔
سلطان کی دوربین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ ہندوستان پر مسلمانوں کی حکومت ختم ہونے والی ہے۔ مسلمان آپس کی سرپھٹول کے باعث کمزور ہو چکے تھے اور سات سمندر پار کی ایک قوم اپنے پنجے اس سر زمین میں گاڑ رہی ہے۔ اگر اس قوم کا مقابلہ نہ کیا گیا تو بہت جلد ہندوستان جیسا زرخیز علاقہ انگریزوں کے قبضے میں چلا جائے گا جو یہاں سے دولت کو ہر روپ میں انگلستان پہنچا دیں گے۔
مگر افسوس کہ سلطان اپنے محل اور دربار میں ہونے والی سازشوں کو نہ سمجھ سکا۔ بزعم خود اس نے فرانسیسی طرز کی جمہوریت نیو ڈال دی۔ مگر یہ نہ دیکھا کہ یہ زمین بھی موزوں ہے یا نہیں۔ میر صادق، پورنیا اور قمر الدین خاں جیسے وزراء اختیارات کو ناجائز طور پر استعمال کرتے رہے تھے۔ وہ فوری فوائد کے لالچ میں درپردہ انگریزوں سے ملے ہوئے تھے اور حکومت کو مناصب کے بڑے بڑے عہدوں کی امید میں سلطان کا ہر راز ان تک پہنچا دیتے تھے۔
جب سلطان کے دل میں ان سازشوں کے متعلق شکوک کی جگہ گھیری تو اس نے تمام عہدے داروں کو مسجد اعلیٰ سرنگاپٹم میں بلا کر وفاداری اور ایمانداری کا حلف لیا۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ انگریزوں کی سازشیں عروج پر پہنچ چکی تھیں۔ اور ولزلی سلطان کو جنگ کی دھمکی دے چکا تھا۔
جولائی ۱۷۹۸ء میں ولزلی نے جنرل ہیرس کو حکم دیا کہ سلطان سے گفت و شنید ختم کر دی جائے اور سرنگاپٹم کا محاصرہ کر لیا جائے۔ سلطان کو علم ہوا تو اس نے سفیر کے ذریعے بات چیت پر آمادگی ظاہر کی مگر اس کا جواب یہ ملا کہ اب جنرل ہیرس ہی سے بات چیت ہو سکتی ہے۔
فروری ۱۷۹۹ء میں جنرل ہارس نے پیش قدمی شروع کر دی۔ ۲۲ اپریل ۱۷۹۹ء کو اس نے سرنگاپٹم پر گولہ باری سے پیشتر مصالحت کا ایک مسودہ سلطان کی خدمت میں دستخط کرنے کے لیے بھیج دیا۔ جس میں انتہائی ذلت آمیز شرائط درج تھیں۔ یعنی نصف سلطنت چھوڑ دی جائے۔ دو کروڑ تاوان دیا جائے جن میں سے ایک کروڑ فوراً ادا کیا جائے۔ چار بیٹے اور چار جرنیل بطور یرغمال دیے جائیں۔ یہ جواب چوبیس گھنٹے کے اندر مانگا گیا تھا۔
سلطان ایسی ذلت آمیز شرائط پر صلح نہ کر سکتا تھا۔ اس کا مقولہ تھا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘۔ امید افزا جواب نہ ملنے پر جنرل ہیرس نے قلعہ پر گولہ باری شروع کرا دی۔ سلطان کی فوج نے اس گولہ باری کا پوری مستعدی سے جواب دیا۔ مگر سلطانی وزراء غداری کی قسم کھائے بیٹھے تھے، انہوں نے گولہ بارود میں مٹی اور سن ملوا دیا۔
مئی کی صبح انگریزی افواج نے سرنگا پٹم کے گرد موجود دریائے کاویری کا دو سو گز پاٹ پار کر کے فصیل کے ایک شگاف پر حملہ کیا۔ سلطان نے خود وہاں دفاعی فوج متعین کی تھی مگر عین اس وقت پورینا نے محافظ فوج کو تنخواہ تقسیم کرنے کے بہانے بلا لیا۔ یوں انگریزی فوج بلا تکلف اندر داخل ہو گئی۔
دوپہر کا وقت تھا ٹیپو سلطان مورچوں پر سے چکر لگا کر سائبان تلے آکر بیٹھا تھا۔ کھانا سامنے دھرا تھا۔ ابھی لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ ایک جاں نثار سید غفار کے شہید ہونے کی اطلاع ملی۔ پتا چلا کہ انگریزی فوج قلعہ میں آگئی ہے۔ سلطان نے یہ کہہ کر کھانے سے ہاتھ اٹھا لیا ’’ہم بھی عنقریب جانے والے ہیں۔‘‘
اس وقت انگریزی فوج اندر آچکی تھی۔ سلطان ڈڈی دروازے کی طرف بڑھا، چند جاں نثار اس کے ساتھ تھے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ قلعہ سے باہر نکل کر کسی اور مقام پر پناہ لی جائے۔ لیکن میر صادق نے باہر نکل کر دروازہ بند کرا دیا اور خود شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ایک جاں نثار نے اس کی غداری کو بھانپ لیا اور پیچھے دوڑ کر تلوار کے ایک ہی وار سے اس کی گردن اڑا دی۔
اب سلطان ہر طرف سے انگریزی فوج میں گھر چکا تھا۔ اس کے باوجود اس کی تلوار اپنے جوہر دکھا رہی تھی۔ سلطان کے دو زخم لگ چکے تھے۔ تیرے زخم نے نڈھال کر دیا۔ وفاداروں نے اٹھا کر پالکی میں ڈالنا چاہا لیکن ایک ہجوم نے انہیں پرے دھکیل دیا۔ سلطان زخموں سے چور زمین پر گر پڑا۔ ایک انگریز سپاہی نے آگے بڑھ کر اس کی بیش قیمت پیٹی اتارنا چاہی۔ ابھی سلطان میں زندگی کی رمق اور غیرت کا جوش باقی تھا۔ فوراً تلوار کا وار کیا اور سپاہی کو کاٹ کر پرے پھینک دیا۔ ایک اور سپاہی یا شاید اسی سپاہی نے پستول کے وار سے سلطان کو شہید کر دیا۔
۵ مئی کو انگریزوں نے سلطان کی میت کو حیدر علی کے پہلو میں پورے اعزاز کے ساتھ دفن کر دیا۔ اس کی دو بیویاں تھیں اور بارہ بیٹے تھے جو اس کے بعد حراست میں لے کیے گئے۔
۶ مئی تک سرنگاپٹم میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ محل کے علاوہ عوام کے گھروں سے کروڑوں اربوں پونڈ مالیت کی اشیاء اٹھائی گئیں۔ ہزاروں لاکھوں افراد شہید ہوئے اور اس لوٹ مار کو روکنے کے لیے خود انگریز جرنیلوں نے اپنے کئی سپاہیوں کو پھانسی پر چڑھایا۔
اس وقت بڑا شہزادہ فتح حیدر سرنگاپٹم سے باہر تھا۔ اس کے ساتھیوں نے جنگ جاری رکھنے کا مشورہ دیا۔ مگر انگریزوں کے ساتھ ساتھ پورنیا نے تخت دلانے کا یقین دلایا۔ چنانچہ اس نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ بعد میں لارڈ ولزلی اپنے عہد سے پھر گیا اور سلطان شہید کے شہزادوں کو دو لاکھ چالیس ہزار پگوڈا کا وظیفہ دے کر میسور کی گدی پر قدیم راجا کے لے پالک بیٹے کو بٹھا دیا۔ شہزادوں کو پہلے ویلور میں نظر بند کیا گیا اور بعد ازاں کلکتے منتقل کر دیا۔
ٹیپو سلطان ایک بہت بڑا مجاہد اور پکا مسلمان تھا۔ نمازِ صبح کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرتا اور سارا دن باوضو رہتا۔ خود عالم تھا اور اہلِ علم کی قدردانی کرتا تھا۔ اس کا کتب خانہ ہندوستان کے بڑے کتب خانوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کے اوضاع اور اطوار پسندیدہ اور مثالی تھے۔ حیا داری کا یہ عالم تھا کہ حمام میں بھی کپڑا باندھ کر نہاتا۔ اس نے کبھی ایسا کپڑا نہ باندھا جس سے جسم شرعی حدود میں ننگا ہوتا یا جس میں نماز ناجائز ہوتی۔ آخری دور میں سبز رنگ کی دستار پہنتا تھا۔ مکروہات اور منہیات سے اس نے ہمیشہ پرہیز کیا۔
تمام فرامین پر اپنے ہاتھ سے بسم اللہ لکھتا اور نیچے دستخط کرتا۔ شجاعت اور بہادری میں اس کا کوئی ہم سر نہ تھا۔ شیر اس کا پسندیدہ جانور تھا۔ شاید اسی لیے انگریزوں نے اسے شیرِ میسور ہی کا لقب دیا تھا۔ اسلامی حمیت اس میں بدرجہ اتم تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تعصب سے بھی پاک تھا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ پورنیا جیسے ہندو اس کے وزراء میں شامل تھے۔
ٹیپو سلطان بے حد اختراع پسند تھا۔ سن محمدی، نئے سکوں، نئی وضع کے اسلحے، قواعد و ضوابط، وغیرہ کا اجراء اس کی اختراع پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اسے اپنی ریاست اور عوام سے بے حد محبت تھی اور ہمیشہ ان کی فلاح و بہبود میں لگا رہتا۔ اگرچہ اس کا زیادہ تر وقت میدانِ جنگ میں گزرا، اس کے باوجود اسے جتنا بھی وقت ملا، اسے اس نے عوام کی فلاح کے لیے صَرف کیا۔ کسانوں کو مالیہ معاف کیا۔ سرکاری زمین پٹے اور ملکیت پر کاشت کے لیے دی۔
تہذیب و تمدن کی ترقی کے لیے بہتر اقدامات کیے۔ اس سے پہلے ہندو عورتیں عام طور پر سر و سینہ کھولے پھرتی تھیں۔ اس نے حکم دیا کہ کوئی عورت کُرتے اور اوڑھنی کے بغیر باہر نہ نکلے۔
وہ مذہبی شعائر کا سختی سے پابند تھا۔ رمضان میں پورا ملک روزوں کا احترام کرنا۔ اس نے گدی نشینوں اور مجاوروں کو نذر و نیاز لینے سے منع کر دیا۔ نیز لوگوں کو اپنے سامنے احتراماً جھکنے سے بھی منع کر دیا۔
حکومت کے لیے اس نے مختلف محکمے قائم کیے جو تعداد میں ننانوے تھے۔ ہر محکمے کا ایک امیر مقرر کیا۔ توشے خانے کو دو حصوں جنس اور نقد میں تقسیم کیا۔ بحریہ کا مستقل محکمہ قائم کیا۔ فوجی قواعد کے لیے کتاب لکھوائی، فنِ جہاز سازی پر توجہ دی۔ مقناطیسی پہاڑوں سے جہازوں کو بچانے کے لیے لوہے کی جگہ تانبے کے پیندے کا استعمال ٹیپو سلطان ہی کی ایجاد ہے۔
تجارتی و صنعتی ترقی کے لیے ہندوستان میں پہلا قدم ٹیپو سلطان ہی نے اٹھایا۔ ریشم کی صنعت اسی کی مرہونِ منت ہے۔ اسے گنے، گندم، جو اور پان کی کاشت سے خصوصی دلچسپی تھی۔ درختوں میں چیڑ، سال، ساگوان، سپاری، صندل اور ناریل لگانے پر زور دیتا تھا۔ شہتوت کے درختوں پر ریشم کے کیڑے پالنے کے لیے بڑے بڑے باغات لگوائے۔
ان تمام امور سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان ایک ایسا مسلمان، غیور، مجاہد، باہمت، جری، قابل اور منتظم حکمران تھا جس کی مثال تاریخ بہت کم پیش کر سکے گی۔ مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد وہ جنگِ آزادی کا پہلا ہیرو اور پہلا شہید تھا۔ زندگی بھر وہ انگریزوں کا دشمن رہا اور اس نے ان کے غلبے سے ملک کو بچانے کے لیے مقصد کی خاطر جان دے دی۔ دشمن پر اس کا رعب اور دبدبہ اتنا تھا کہ عرصہ دراز تک انگریز مائیں اپنے بچوں کو ٹیپو کا نام لے کر ڈراتی رہیں۔
(ماخوذ از شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا)