سیاسی حالات
اورنگ زیب کی سلطنت ایک وسیع علاقے پر محیط تھی۔ اس نے اپنی ساری عمر استحکامِ سلطنت کے لیے تگ و دو میں گزار دی۔ اس کوشش میں وہ جزوی طور پر کامیاب رہا اور سیاسی انتشار کسی قدر دب گیا۔ اورنگ زیب کے جانشین اس وسیع سلطنت کو استحکام دینے میں ناکام رہے، جس کے نتیجے میں مرکزی حکومت کا صوبوں کے انتظام میں عمل دخل کم ہو گیا۔
مرکزی حکومت کی انتظامی کمزوریوں کے باعث صوبوں میں سیاسی خلفشار میں اضافہ ہونے لگا۔ وہ گروہ جو اورنگ زیب کی فوجی قوت اور سیاسی بصیرت کے سامنے دم نہ مار سکتے تھے، انہوں نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دیں۔ یہی نہیں، بادشاہ کے اپنے پروردہ جاگیردار اور امرا بھی اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ اس سے سلطنت کے ہر گوشے میں مرکز سے علیحدگی اور خود مختار ریاستوں کے قیام کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ۔ اودھ، حیدر آباد، بنگال اور کئی علاقوں میں خود مختار مسلم ریاستیں قائم ہو گئیں۔ مرہٹوں نے جنوبی ہندوستان اور شمالی ہندوستان کے چند علاقوں پر اپنا سیاسی اثر قائم کر لیا۔ پنجاب میں سکھوں نے ایک وسیع خود مختار ریاست قائم کر لی۔
مرکزی حکومت سے علیحدگی کے بعد قائم ہونے والی ریاستوں میں جب وسعت پسندی کی خواہش نے غلبہ کیا تو ان کے درمیان مخاصمت شروع ہو گئی۔ اس صورت حال میں فوجی قوت کا یہ عالم تھا کہ پہلے جہاں بادشاہ کے طلب کرنے پر لاکھوں کا لشکر متحد ہو کر اس کی کمان میں آ جاتا تھا، اب اس قوت کی بڑی سے بڑی اکائی ایک ریاست کی مختصر فوج تک محدود ہو گئی تھی۔ بادشاہ کی قوت کا عالم یہ تھا کہ مغلیہ سلطنت کے آخری سالوں میں اس کا حلقہ اثر دہلی کے شاہی قلعہ تک محدود تھا۔
مذکورہ حالات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اورنگ زیب کے بعد مغل قوت ٹوٹ پھوٹ کر کئی چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ یہ تمام اکائیاں آپس کی نا اتفاقیوں کے باعث کسی بھی خارجی خطرے کی صورت میں موثر دفاعی صلاحیت سے عاری تھیں۔ ایسے حالات کسی بھی خارجی قوت کے اثر و نفوذ کے لیے کارآمد ہو سکتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جو اس وقت تک محض ایک تجارتی ادارہ تھی، نے اپنے مقاصد کو تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ انہوں نے مقامی تضادات سے مکمل طور پر فائدہ اٹھایا۔ کمپنی نے مقامی ریاستوں کی باہم لڑائیوں کو ہوا دے کر ان کی قوت کو مزید کمزور کیا۔ اس سے مقامی گروہوں میں قوتِ مزاحمت ختم ہو کر رہ گئی۔
کمپنی بنیادی طور پر سامراجی عزائم کی حامل تھی، اور ان عزائم کے تحت اس کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے تمام اہم وسائل پر اس کا تصرف قائم ہو جائے۔ ان وسائل کو انگلستان منتقل کر کے وہ وہاں کی صنعتی ترقی کے لیے استعمال کرنے کی خواہش مند تھی۔ کمپنی نے اہم پیداواری علاقوں پر قبضے سے اپنے عزائم کی پہلی اینٹ رکھی۔ کمپنی کے مقبوضات کا سن وار خاکہ حسبِ ذیل ہے۔
۱۷۹۲ء تک — بہار بنگال، مدارس اور گھورکھ پور
۱۸۳۵ء تک — یوپی، کرناٹک، میسور، وجیانگر، کیرالہ اور کولہا پور وغیرہ
۱۸۵۶ء تک — اودھ، برار، وسطی ہند، جھانسی، ناگپور، آسام، پنجاب، سندھ وغیرہ۔
ہندوستان میں اپنی مقبوضات بڑھانے کے سلسلے میں انگریزوں نے جو ہتھکنڈے استعمال کیے، ان میں درج ذیل اہم ہیں:
۱۔ مقامی راجاؤں کی باہمی لڑائیوں میں وہ کسی ایک کی پشت پناہی کر کے دوسرے کو شکست دے کر بے یار و مددگار کر دیتے۔ پھر اس کو آسانی سے اپنے زیر تسلط لے آتے۔ اس پالیسی پر عمل کر کے انہوں نے بنگال، میسور، سندھ، پنجاب، اودھ اور بہت سے دوسرے علاقوں کا الحاق1 کر لیا۔
۲۔ چونکہ کمپنی کا بنیادی مقصد ہندوستانی وسائل پیداوار اپنے استعمال میں لانا تھا، اس لیے انہوں نے مقامی سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو اپنی ضرورت کے تحت بدل دیا۔ اس حربے سے سابقہ سیاسی نظام اور اہم حکومتی گروہوں کو غیر موثر بنانا بھی ممکن ہو گیا اور سابقہ حکومتی گروہوں سے مزاحمت کا خطرہ بھی ٹل گیا۔ اس ضمن میں کئی قوانین پر عمل کیا گیا جن میں ایک کے تحت کسی بھی ریاست کے قدرتی وارثوں کو راجگی سے محروم کر دیا گیا۔ اس قانون کا براہ راست اثر ہندو ریاستوں پر پڑا۔ ان میں جھانسی اور کئی دوسری ریاستیں شامل تھیں۔
الحاق شدہ ریاستوں میں انگریزوں نے ’’امدادی نظام‘‘ کی ایک پالیسی بھی شروع کی۔ اس پالیسی کے تحت ان ریاستوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اپنے خرچ پر وہاں پر متعین انگریزی فوج کے انتظام کا ذمہ اٹھائیں۔ اگر کوئی ریاست اپنے مالی حالات کے باعث الحاق کرنے سے معذوری ظاہر کرتی تو اس ریاست کے علاقوں کو کمپنی کے حوالے کرنے پر زور دیا جاتا اور ان علاقوں کی آمدنی سے انگریزی فوج کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ کسی بھی ریاست میں انگریزی فوج کی موجودگی کا مطلب ہر لحاظ سے انگریزوں کی بالادستی کو قبول کرنا ہوتا تھا۔
معاشی حالات
قدیم زمانے میں ہندوستان اپنے کثیر وسائل اور پیداوار کے باعث خود کفیل رہا۔ داخلی طور پر پیداوری تقسیم غیر مساویانہ تھی اور کسان اور مزدور اپنے پیدا کردہ وسائل سے بہت کم حصہ حاصل کر پاتے تھے۔ ان کی پیداوار کا زیادہ حصہ حکومتی گروہ ہڑپ کر جاتے تھے۔ عام لوگ نہایت ادنیٰ معیارِ زندگی رکھتے تھے۔
اورنگ زیب کی وفات کے بعد سیاسی عدمِ استحکام سے اقتصادی بدحالی بھی پیدا ہوئی۔ اس سے عام کسانوں اور مزدوروں کی حالت تو غریبی سے بھی نچلی سطح پر چلی گئی، ساتھ ہی بادشاہوں کے دور میں خوشحال حکومتی گروہ بھی قلاش ہو گئے۔ اس ضمن میں تبدیلی اس طرح ہوئی۔
ا۔ بادشاہوں کی آمدنی میں کمی
بادشاہوں کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ زرعی پیداوار پر محصول تھا۔ زرعی زمینوں پر جاگیرداروں کی وساطت سے کاشت کاری کروائی جاتی اور ان پر جاگیرداروں کا ہی تصرف ہوتا تھا۔ سلطنت میں کچھ اراضی براہ راست بادشاہ کے تصرف میں ہوتی تھی۔
نئی خودمختار ریاستوں کے قیام سے سلطنت کی اراضی میں کمی سے بادشاہ کی آمدنی کم ہوتی گئی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انہیں مکمل طور پر اپنے زیر تصرف زمین پر انحصار کرنا پڑا۔ مگر یہ زمینیں ان کی فوجی، انتظامی اور ذاتی ضروریات کے لیے کافی محاصل مہیا نہ کر سکتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے ایسی زمینوں کو بااثر جاگیرداروں کو بیچ کر یا گروی رکھ کر اپنی ضروریات کو پورا کرنا شروع کر دیا۔ اس طرح انیسویں صدی کے وسط تک ان کی ملکیت محض شاہی قلعہ تک ہی محدود ہو گئی۔
اورنگ زیب کے بعد قائم ہونے والی ریاست کا ابتداء میں اپنے مقامی ذرائع آمدنی پر انحصار تھا۔ آپس کی لڑائیوں کے باعث ان کے فوجی اخراجات بڑھ گئے۔ چونکہ مقامی وسائل محدود تھے۔ اس لیے راجاؤں کو بڑے بڑے تاجروں اور ساہوکاروں سے قرضہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ یہ قرضہ انہیں منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد رہن رکھ کر ہی ملتا تھا۔
بعد ازاں جب انگریزوں نے ریاستوں میں امدادی نظام اور دوسری پالیسیوں کو نافذ کرنا شروع کیا تو پہلے سے قرضے تلے دبی ریاستوں کا کچومر نکل گیا اور انہیں اپنی تمام جائیدادیں ساہوکاروں کے سپرد کرنا پڑیں۔
۲۔ ساہوکاروں کے ایک نئے گروہ کا غلبہ
۱۷۰۷ء سے ۱۸۵۷ء تک جو اقتصادی الٹ پلٹ ہوئی اس میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور اس کے حلیف ساہوکاروں کو خوشحالی حاصل ہوئی۔ ہندو ساہوکاروں کا یہ گروہ ابتداء میں انگریزوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتا تھا اور یہ مختلف علاقوں سے مصنوعات اکٹھی کر کے یا خود تیار کروا کے انگریزوں کے تجارتی مراکز تک پہنچاتا تھا۔ اس کام میں انہیں تجارتی فائدہ ہوا اور ساتھ ہی انگریزوں کی سرپرستی سے انہیں بینکاری (Banking) اور سرمایہ کاری (Financing) کے میدان میں بڑی کامیابیاں ہوئیں۔ اس سلسلے میں جگت سیٹھوں2 کے خاندانوں نے بڑی شہرت حاصل کی۔ ان کا مشرقی ہندوستان میں ہنڈی3 کا کاروبار تھا۔
۳۔ بے روزگاری
اٹھارہویں صدی کے وسط تک ہندوستان کی معیشت اپنی کمزور ترین حالت تک پہنچ چکی تھی۔ صوبائی خود مختاری اور چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے قیام سے آبادی میں روزگار کے لیے نقل مکانی کا رجحان بڑھا۔ اس سے بڑے بڑے شہر اپنی تجارتی حیثیت کھو بیٹھے۔ ان شہروں کی منڈیاں ختم ہو گئیں۔ شمالی ہندوستان میں آگرہ ایک اہم منڈی تھا۔ یہاں ٹیکسٹائل کی مصنوعات کا بہت بڑا مرکز تھا۔ ۱۷۱۲ء تک اس کی یہ حیثیت ختم ہو گئی۔ اسی طرح دہلی اور مرشد آباد کی تجارتی منڈیوں میں مندے کے باعث شمالی ہندوستان کے صنعتی کاریگر اور دست کاریوں کے تاجر قلاش ہو گئے۔ پنجاب میں سکھوں کی شورش کے باعث لاہور کی طرف آنے والے تمام تجارتی راستے مخدوش ہو گئے تھے۔
ہندوستان کے شمالی مشرقی علاقوں، بنگال، بہار اور اڑیسہ میں مرہٹوں کی فوجی کارروائیوں کے باعث یہاں اجناس کی قلت ہو گئی۔ ان علاقوں میں موجود تمام زرعی اور صنعتی ذرائع پیداوار کا کام ٹھپ ہو گیا۔ یہاں ریشم اور سوت کے کاریگر اور تاجران محفوظ مقام کی تلاش میں مشرقی بنگال کی طرف بھاگ گئے۔ چھوٹی چھوٹی بے شمار ریاستوں کے قیام سے تجارتی مال کی نقل و حمل جگہ جگہ محصول دینے سے مال کی قیمت بہت زیادہ بڑھ جاتی جو خریداروں کی قوتِ خرید سے کہیں زیادہ ہوتی تھی۔ اس سے ریاستوں کے درمیان تجارت عملی طور پر نا ممکن ہو گئی تھی۔
ہندوستان کے زرعی میدان میں بھی حالات دگرگوں تھے۔ کمپنی کے نئے ٹیکسوں کے باعث مقامی زمینداروں نے اپنے کسانوں پر دن بدن محصول کی شرح بڑھانا شروع کر دی۔ اس ناقابلِ برداشت معاشی صورت حال میں بہت سے لوگوں نے شہروں کی طرف نقل مکانی شروع کر دی۔ شہروں میں آکر وہ نئی لگنے والی درمیانے درجے کی صنعتوں میں مزدور ہو گئے یا دوسرے شعبوں میں معمولی محنت مزدوری کا کام کرنے لگے۔ اس سے شہروں میں آبادی کا دباؤ بڑھنے لگا اور نئے معاشرتی رویے پیدا ہونے لگے۔
۴۔ کمپنی کے اقتصادی ہتھکنڈے
ان معاشی حالات میں سب سے زیادہ فائدہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو حاصل ہوا۔ اس نے تمام ذرائع پیداوار کو اپنے کنٹرول میں کیا اور ہندوستانی سرمایہ پر اپنا تصرف قائم کر لیا۔ اس ضمن میں کمپنی نے جو ہتھکنڈے استعمال کیے ان کی تفصیل یہ ہے۔
۱۔ کمپنی نے اپنی تجارت کو تحفظ دینے کے لیے تمام انگریزی مصنوعات پر ڈیوٹی کم کر دی اور اس کے مقابلے میں مقامی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کر دیے۔ اس پالیسی سے مقامی مصنوعات کی پیداوار اور کھپت ختم ہو گئی اور انگریزی مصنوعات کی ہندوستان میں اجارہ داری قائم ہو گئی۔ کمپنی کو اپنی ہندوستانی تجارت سے جو سرمایہ حاصل ہوتا تھا، اس کی یہیں سرمایہ کاری کرنے کی بجائے اسے انگلستان منتقل کر دیا جاتا تھا۔ اس سے جہاں ایک طرف ہندوستانی معیشت اپنے سرمائے سے محروم ہو رہی تھی، وہیں ہندوستانی معیشت میں سرمایہ کاری اور وسعت کے امکانات محدود ہو گئے۔ ایسی صورتحال میں روزگار کے متوقع مواقع کم ہو گئے اور مقامی تاجروں، صنعت کاروں اور صنعتی مزدوروں کی ایک کثیر تعداد بے روزگار ہو گئی۔
۲۔ کمپنی کے قائم کردہ نظام میں تمام تر اہم اور کلیدی اسامیوں پر صرف اور صرف انگریزوں کو بھرتی کیا جاتا تھا۔ ان اہلکاروں کو انگلستان کی کرنسی میں بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی تھیں۔ اس سے مقامی معیشت پر دوہرے مضر اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ ایک طرف مقامی لوگوں کو روزگار سے محروم رکھا جاتا تھا اور دوسری طرف کثیر سرمایہ تنخواہوں کی صورت میں باہر منتقل ہو جاتا تھا۔ چونکہ انگریز اہلکاروں کو ان کی نوکری کے دوران ان کی ضروریات کی تقریباً تمام اشیاء مہیا کی جاتی تھیں، اس لیے ان کو ادا کی جانے والی تنخواہیں عام طور پر ان کی بچت کی صورت میں ریٹائرمنٹ یا اس سے پہلے انگلستان منتقل کر دی جاتی تھیں۔ پنشن کی رقوم کی ادائیگی بھی انگلستان میں اُس ملک کی کرنسی میں ادا کی جاتی تھی۔
ہندوستان کی معیشت کی تباہی سے بے روزگاری ویسے ہی بہت زیادہ ہو رہی تھی۔ لوگ کوئی بھی کام کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے پر تیار تھے۔ اس دور میں بہت سے لوگ کسی بھی راجا کی فوج کے سپاہی بھرتی ہو جاتے تھے۔ بعد ازاں انگریزوں نے ایک پالیسی کے تحت جب ریاستوں کو مقامی طور پر فوج کی بھرتی کی ممانعت کر دی تو یکسر سینکڑوں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ واضح رہے کہ یہ لوگ کمپنی کی ملازمت بھی نہ کر سکتے تھے۔
۳۔ تجارت اور صنعتوں پر کمپنی کی اجارہ داری قائم ہو جانے کی وجہ سے، کمپنی اپنی من مانی شرائط پر کاریگروں اور دست کاروں سے مال تیار کرواتی تھی۔ کمپنی کے ایجنٹ منڈی کے مقابلے میں نہایت کم معاوضے اور بہت کم وقت میں مصنوعات تیار کرنے کا کہتے تھے۔ کاریگر اس صورتحال میں سخت نالاں تھے مگر کمپنی کے سامنے اف تک نہ کر سکتے تھے۔ اگر کوئی کاریگر احتجاج کرتا تو اسے سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ چونکہ کاریگروں کا کوئی بھی پرسان حال نہ تھا، انہوں نے اپنے آپ پر مسلط ظلم کی اصل وجہ یعنی ان کے فن کو ہی ختم کر دینا مناسب سمجھا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کاریگروں کو ان کے اعلیٰ فن کی وجہ سے ہی کمپنی کے ظلم سہنا پڑتے تھے۔ اس ضمن میں بنگال کی مشہور ململ کے کاریگروں کا ردعمل بڑا افسوسناک تھا، انہوں نے اپنے انگوٹھے ہی کٹوا دیے جن سے وہ ململ تیار کرتے تھے۔ واضح رہے کہ ان انگوٹھوں سے ہی وہ اپنے روزگار بھی حاصل کرتے تھے۔ اس طرح ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے ان کاریگروں نے اپنے روزگار کے ذریعے کو بھی ترک کر دیا۔
کاریگروں پر ظلم سے ایک اور پہلو جو سامنے آتا ہے، وہ کاریگروں کا صدیوں پرانے فن کو ترک کرنے سے متعلق ہے۔ اس سے نہایت اعلیٰ دست کاریوں کا فن بھی ختم ہونے لگا۔ کاریگروں نے اب کاشت کاری کو بطور پیشہ اختیار کرنا شروع کر دیا۔ کاشت کاری میں غیر ترقی دادہ طریقوں کے رواج کے باعث اس میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کھپانے کی اہمیت اور گنجائش نہ تھی۔ اس سے عام لوگوں کے مسائل مزید بڑھ گئے اور وہ معاشی طور پر سخت پریشان ہو گئے۔
دیہات کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے انگریزوں نے کسی طور پر کوئی بہتر پالیسی نہ اپنائی۔ ۱۷۹۳ء میں ’’دوامی بندوبست‘‘ کے نظام کو کچھ صوبوں میں نافذ کر دیا گیا تھا۔ اس نظام کے تحت زمینوں کی کاشت کی ذمے داری جاگیرداروں کے سپرد کر دی گئی۔ زمینداروں کو مستقل بنیادوں پر ایک رقم بطور مالیہ حکومت کو ادا کرنا ہوتی تھی۔ اس نظام میں حکومت کا براہ راست تعلق اور واسطہ زمینداروں تک محدود تھا۔ زمیندار اپنی مرضی سے کاشت کاروں سے رقم وصول کرتے، اور حکومتی مالیہ ادا کرنے کے بعد بقیہ رقم خود رکھ لیتے تھے۔ اس نظام میں یہ طے نہ کیا گیا تھا کہ زمیندار کسانوں سے زیادہ سے زیادہ کس قدر رقم وصول کریں۔ اس سے زمینداروں کو کھلی چھٹی مل گئی اور وہ کسانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے۔ بعض مقامات پر مالیے کا تعین، زمین کی پیداواری صلاحیت سے مطابقت نہ رکھتا تھا۔ ایسی جگہوں پر کسانوں کو دوہری دھار سے ذبح کیا جا رہا تھا۔
’’دوامی بندوبست‘‘ کے نفاذ اور اس کے تحت زمینداروں کو کھلی چھٹی دینے کا مقصد ان زمینداروں کی کمپنی کے لیے وفاداریاں حاصل کرنا تھا۔ مقامی زمیندار اپنے علاقے میں وہاں کی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں اپنا اثر اور عمل دخل رکھتے تھے۔ ان کے علاقے میں کوئی شخص بھی ان کے سامنے دم نہ مار سکتا تھا۔ کمپنی نے اپنے طاقت اور اثر کو انہی زمینداروں کی معرفت دیہاتی علاقوں کے چھوٹے سے چھوٹے یونٹ تک پھیلایا۔
معاشرتی حالات
انگریز سامراج تھے، اس لیے انہوں نے ہندوستان پر سیاسی و انتظامی کنٹرول کے بعد یہاں کے سرمایہ اور تمام پیداواری ذرائع پر قبضہ کرنے پر اکتفا نہ کیا۔ سامراجیت میں چونکہ کوئی قوم کسی دوسرے ملک یا قوم کو اپنی طاقت اور چالبازوں سے اپنے اثر میں لاتی ہے، اس لیے اسے ہمیشہ مقامی لوگوں کی مزاحمت اور ردعمل کا خوف رہتا ہے۔ مقامی لوگوں کی قوتِ مزاحمت اور ان کے اداروں کو غیر موثر بنانے کے لیے سامراجی قوتیں معاشرتی سطح پر ایسا ماحول استوار کرتی ہیں جس میں مقامی لوگ ایک نفسیاتی خلفشار کا شکار کر دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں وہ اپنے آپ سے، اپنے صدیوں پرانے ریت رواج، اور معاشرتی اداروں سے بے گانہ ہو جاتے ہیں۔ اس سے پوری قوم میں بے عملی کا ایک احساس پیدا ہو جاتا ہے اور ان میں زندگی کرنے کی قوت تک ختم ہو جاتی ہیں۔
انگریزوں نے اپنے سامراجی عزائم کے حصول میں معاشرتی سطح پر جو حربے اپنائے، ان میں سے چند ایک کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
۱۔ انگریزوں کو اعلیٰ ثقافت کے نمائندے کے طور پر پیش کرنا
انگریزوں نے اپنے رویوں اور پالیسیوں سے مقامی لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وہ مقامی لوگوں کے مقابلے میں ایک اعلیٰ تہذیب اور ثقافتی ورثے کے نمائندہ ہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ وہ ہندوستان میں اعلیٰ تہذیبی روایات کے فروغ کے لیے آئے ہیں۔ اس تاثر کے فروغ میں انگریزوں کا بنیادی مقصد زندگی کے ہر شعبے میں انگریز نسل اور اس سے وابستہ لوگوں کی برتری قائم کرنا تھا۔ مقامی لوگ جب ان لوگوں کی برتری کو تسلیم کر لیں گے تو وہ انہی لوگوں کے سیاسی، انتظامی، اور معاشرتی اقدامات کو بھی اعلیٰ سمجھتے ہوئے قبول کر لیں گے۔ اس طرح مجموعی طور پر معاملات حکومت انگریزوں کی مرضی کے مطابق چل سکیں گے۔
نسلی اور تہذیبی برتری کے اس نظریے کے تحت جو معاشرتی تبدیلیاں آئیں، ان میں انگریزوں کے حلیف ایک طبقے کا پیدا ہونا سب سے اہم تھا۔ یہ طبقہ انگریزوں کے حکومتی طبقے سے قرب پیدا کر کے ایک طرف تو ان سے مراعات حاصل کرنے کا خواہش مند تھا، تو دوسری طرف اپنی روایات سے اپنا تعلق توڑ کر اپنے آپ کو انگریزی اندازِ معاشرت کے رنگ میں ڈھالنا چاہتا تھا۔ انگریزوں کو بھی چونکہ ہندوستان میں اپنے ایک حلیف طبقے کی ضرورت تھی اس لیے انہوں نے اس طبقے کو مراعات بھی دیں اور انہیں اپنا سیاسی اور انتظامی اثر پھیلانے میں ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔ بعد ازاں اسی طبقے نے مقامی روایات، لباس اور رسوم و رواج کے بارے میں کمتری کا احساس پیدا کرنے میں ایک مذموم کردار ادا کیا۔
انگریزی تہذیب کی برتری کو انگریزوں کی معاشرت کے حوالے سے اچھالا جاتا تھا۔ اس میں ان کی معاشرت میں استعمال ہونے والی اشیاء کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اب کوئی بھی شخص اپنے آپ کو حکومتی طبقے سے قریب تر لانے یا ان سے ربط و تعلق کے اظہار کے لیے ایسی اشیاء اور لباس استعمال کرتا تھا، جیسا کہ انگریز خود کرتے تھے۔ اس نئے اندازِ معاشرت سے انگریزی مصنوعات کی مانگ بڑھنے لگی۔ عام لوگوں میں مقامی طور پر تیار کردہ چیزوں کے مقابلے میں انگلستان کی تیار کردہ اشیاء کو زیادہ بہتر اور پائیدار سمجھا جانے لگا۔ اس سے ’’ولایتی مال‘‘ کی کھپت بڑھی اور انگریزی صنعتوں کو فائدہ ہوا۔ اس تناظر میں نسلی برتری کے نظریے کو معاشی مفادات کے حصول کے لیے استعمال کیا گیا۔
ہر غاصب اپنی مفتوحہ قوم پر اپنی نسلی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا مقصد سیاسی اور معاشی استبداد کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ تاریخی طور پر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ تہذیب اور ثقافت کا تعلق کسی بھی معاشرے کے حالات اور تاریخی ورثے سے ہوتا ہے، اور اس کی اصلیت کے لیے یہی عناصر بنیادی ہوتے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک علاقے کی ثقافت اور تہذیب کے سرچشمے کسی دوسرے علاقے یا کسی دوسرے گروہ سے متعلق ہوں۔ چونکہ تہذیب اور ثقافت کی استواری اور تشخص میں وہاں کے خاص مزاج اور ورثے کا ہی اہم کردار ہوتا ہے، اس لیے کسی تہذیب یا ثقافت کی دوسری پر برتری یا کمتری ثابت کرنا حقیقت کے خلاف جانے کے مترادف ہے۔ کوئی تہذیب نہ تو اعلیٰ ہوتی ہے اور نہ ہی کم تر۔ رسم و رواج یا اندازِ معاشرت کی بجائے مادی ترقی اور ایجادات وغیرہ کو تقابل کے لیے ایک معیار سمجھا جا سکتا ہے۔ مادی ترقی سے کسی بھی معاشرے کی قوت بڑھتی ہے اور وہ اس ترقی سے دوسرے معاشروں کو متاثر بھی کر سکتا ہے۔
انگریزی تہذیب اپنی مادی ترقی کے اعتبار سے ہندوستانی تہذیب کے مقابلے میں بہتر مقام رکھتی تھی۔ انہوں نے اس برتری کو دوسرے ممالک اور علاقوں پر ایک آلہ استبداد کے طور پر استعمال کیا، اور اس سے ان علاقوں کے وسائل کو نہ صرف اپنے حق میں استعمال کیا بلکہ یہاں کی معاشرت کو ادنیٰ قرار دے کر یہاں کے بسنے والوں میں شدید نفسیاتی اور تہذیبی بحران پیدا کر دیا۔
۲۔ انگریزوں کی تعلیمی پالیسی
انیسویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے ہندوستان میں انگریزی تعلیم کو فروغ دینا شروع کر دیا۔ اس ضمن میں ان کی تیار کردہ پالیسی میں مقامی تعلیم اور اندازِ تربیت کو نہایت منفی انداز میں پیش کیا گیا۔ انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے بارے میں لارڈ میکالے نے ۱۸۳۵ء میں جو رپورٹ پیش کی، اس میں لکھا ہے کہ:
’’انگریزی ادب کی ایک اوسط درجہ کی کتاب، ہندوستانی ادب کے تمام تر ذخیرہ کے مقابلہ میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔’’
۱۸۳۷ء میں فارسی زبان کی سرکاری حیثیت کو ختم کر کے انگریزی کو نافذ کر دیا گیا۔ ایسے اقدامات سے صدیوں پرانا نظام دھڑام سے نیچے گر گیا۔ نئے نظام کے تحت پرانے تعلیم یافتہ لوگ سرکاری طور پر اَن پڑھ قرار دے دیے گئے اور ان کی سرکاری اداروں میں ضرورت ختم ہو گئی۔ چونکہ ہندوستان کی اکثریتی آبادی انگریزوں کے قائم کردہ نظام میں بد سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہو رہی تھی، اس لیے ان کے دلوں میں انگریزوں کے لیے شدید نفرت بھی پل رہی تھی۔ وہ انگریزوں اور انگریزوں سے متعلق کسی بھی چیز کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ان حالات میں فوری طور پر نئے نظام کو قبول کرنا ان کے لیے مشکل تھا۔
نئے نظامِ تعلیم میں انگریزوں نے عیسائی مشنری سکولوں کے قیام کو فروغ دیا۔ ان سکولوں میں عیسائیت کی مذہبی کتب کا مطالعہ لازمی ہوتا تھا اور اسے نصاب کا اہم حصہ تصور کیا جاتا تھا۔ عام لوگ پہلے ہی انگریزوں سے متنفر تھے۔ وہ ایسے سکولوں سے وحشت زدہ ہونے لگے، کیونکہ انہیں صاف نظر آرہا تھا کہ اب ان کے مذاہب بھی محفوظ نہیں رہے ہیں۔ ایسے حالات میں خاص طور پر مسلمانوں میں شدید ردعمل ہوا اور مسلمان علماء نے ان سکولوں میں تعلیم کے خلاف فتوے جاری کر دیے۔
انہی ایام میں حکومت نے کسی بھی سرکاری نوکری کے لیے انگریزی تعلیم کی بنیادی سند کو لازمی قرار دے دیا۔ مسلمانوں کے لیے یہ صورتحال دوہری تلوار کی طرح تھی۔ اگر وہ انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے تو انہیں ان کے خیال کے مطابق اپنی ثقافت اور مذہب سے ہاتھ دھونا پڑتا تھا، وگرنہ دوسری صورت میں بے روزگاری کا زہر حلق سے اتارنا پڑتا تھا۔
۳۔ عیسائیت کی تبلیغ
ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں عیسائیت کے فروغ کے لیے خصوصی کوششیں کی گئیں۔ ۱۸۳۷ء میں ایک خوفناک قحط میں یتیم ہونے والے مقامی بچوں کو عیسائی مشنریوں کے سپرد کر دیا گیا تاکہ وہ ان کی پرورش ایک عیسائی کے طور پر کریں۔ اس کے علاوہ عیسائی مشنری مقامی آبادی کی مالی مشکلات کو بھی عیسائیت کی تبلیغ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے تھے۔
ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہبی قوانین کے مطابق اگر کوئی شخص اپنا مذہب بدل لے تو وہ وراثت کے حقوق سے محروم ہو جاتا تھا۔ انگریزوں نے اس قانون کو بدل دیا اور تبدیلی مذہب سے قانونِ وراثت کو علیحدہ کر کے عیسائی مت کے فروغ کے لیے راہیں صاف کر دیں۔
(ماخوذ از ’’تاریخ پاکستان‘‘ مرتبہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور)
حواشی
(1) الحاق: وسعت پسندی میں عام طور پر دو پالیسیاں اپنائی جاتی ہیں۔ ایک کسی ریاست یا علاقے کا الحاق کرنا، اور دوسرا مکمل طور پر اس پر قبضہ کرنا ہو سکتا ہے۔ قبضے کی صورت میں کوئی بھی خارجی طاقت مقبوضہ علاقے کے تمام تر انتظامی، سیاسی و اقتصادی معاملات کا ذمہ سنبھال لیتی ہے۔ الحاق کی صورت میں خارجی طاقت خاص امور یا مفادات کے علاوہ باقی تمام معاملات مقامی سربراہ مملکت کے پاس رہنے دیتی ہے۔
انگریزوں نے ہندوستان میں اپنی وسعت پسندی میں عام طور پر الحاق کی پالیسی اپنائی۔ وہ کسی بھی ریاست کے حکمران کو اپنے مفادات کے تحت خاص شرائط ماننے پر مجبور کرتے اور وہاں پر اپنا نمائندہ مقرر کر دیتے تھے۔ بظاہر حکومتی معاملات کا ذمہ دار مقامی راجہ ہی ہوتا تھا مگر درحقیقت اس ریاست کے تمام وسائل پر انگریز نمائندے کا ہی حکم چلتا تھا۔ اس طریقے سے انگریز مقامی معاملات میں غیر ضروری طور پر الجھنے کی بجائے صرف اپنے مفادات کے شعبوں تک ہی اپنا عمل دخل محدود رکھتے۔ اس پر ان کی توجہ اور قوت غیر ضروری معاملات میں نہ بٹتی تھی۔
(2) جگت سیٹھ کا مطلب ہے دنیا کا ساہو کار۔ یہ ایک خطاب تھا جو دہلی کے بادشاہ نے ۱۷۲۳ء میں بنگال کے ایک بہت بڑے سیٹھ فتح چند کو دیا تھا۔ اس دور میں اس سیٹھ کی بینکاری کی شاخیں ڈھاکہ اور پٹنہ کے شہروں میں تھیں۔ ان کا مرکزی دفتر مرشد آباد میں تھا۔ اس زمانے کے انگریز اور مقامی مصنف جگت سیٹھوں کی بینکاری کو بینک آف انگلینڈ کے برابر قرار دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان سیٹھوں کی بینکاری کا دائرہ اور سرمایہ بہت وسیع تھا اور یہ حکومت کے مالی معاملات میں بھی اہم حصہ لیتے تھے۔
اس دور میں بنگال میں سونے اور چاندی کی خرید و فروخت، مرشد آباد میں ٹکسال کا قیام، صوبائی حکومت کے ایماء پر زمینداروں سے لگان وصول کرنا، اور تمام دولت کو دوسری کرنسیوں سے تبادلے کے بعد شاہی خزانے میں جمع کرانا، ان کے ذمے تھا۔ دوسرا جگت سیٹھ فتح چند کا پوتا مہتاب چند تھا۔ اس کے علی وردی خان والئ بنگال سے بڑے اچھے مراسم تھے۔ نواب سراج الدولہ نے اس کی مذموم کارروائیوں کی وجہ سے اس کی نہ صرف بے عزتی کی بلکہ اس کو دربار میں آنے سے روک دیا۔ سیٹھ مہتاب چند نے سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں کی سازش میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ مالی امداد بھی کی۔ سراج الدولہ کی موت کے بعد میر قاسم کے دربار میں اسے خاصی پذیرائی حاصل ہوئی مگر میر قاسم اس کی وفاداری کو مشکوک سمجھتا تھا۔ آخر کار اس نے جگت سیٹھ کو ۱۷۶۳ء میں مروا دیا۔
بعد میں بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہونے پر سیٹھوں کا برا حال ہوا۔ کمپنی نے اس پر واجب الادا کروڑوں کے قرضوں کو سیٹھوں کو واپس لوٹانے سے انکار کر دیا۔ اس سے جگت سیٹھوں کے خاندان کو تیزی سے زوال آگیا۔ تاہم بعد کی نسلوں میں جگت سیٹھ کا خطاب چلتا رہا۔ ۱۹۱۲ء میں یہ خطاب بھی واپس لے لیا گیا۔
(3) ہنڈی (Bill of Exchange)، معاشیات کی اصطلاح میں اس سے مراد وہ غیر مشروط تحریری حکم نامہ ہے جس پر صرف اعتماد کی بنیاد پر کوئی فروخت کنندہ واجب الادا رقم لکھتا ہے۔ خریدار مقررہ وقت میں فروخت کنندہ کے کسی اور جگہ نامزد کردہ شخص یا ادارے سے رقم وصول کر لیتا ہے۔ ہنڈی دو قسم کی ہوتی ہے: ایک درشنی اور دوسری مدتی۔ درشنی ہنڈی کی رقم عند الطلب ادا کرنا پڑتی ہے، جبکہ مدتی ہنڈی کی رقم مقررہ میعاد کے بعد واجب الادا ہوتی ہے۔