بنگال کا آخری مسلمان فرمانروا نواب سراج الدولہ شہید

اصل نام مرزا محمد تھا۔ اس کے نانا نواب علی وردی خان نے جو ان دنوں بنگال، بہار اور اڑیسہ کے ناظم اعلیٰ تھے، انہیں سراج الدولہ کا لقب دیا جس کے بعد وہ اپنے نام کی بہ نسبت لقب سے زیادہ مشہور ہوا۔ اس کی تعلیم و تربیت نہایت خوبصورت اور بہترین انداز سے ہوئی۔ نواب وردی علی خان کا اپنا کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے اس نے سراج الدولہ کی اپنی اولاد کی طرح پرورش کی۔

۱۱۶۱ھ / ۱۷۴۸ء میں سراج الدولہ کے باپ کو دربھنگے کے پٹھانوں نے مار دیا جس کے بعد علی وردی خاں نے اسے بہار کا ناظم مقرر کر دیا اور مرنے سے پہلے ہی سراج الدولہ کی ولی عہدی کا اعلان بھی ۹ اپریل ۱۷۵۶ء کو کر دیا۔

نواب علی وردی خان کی وفات کے بعد سراج الدولہ تخت نشین ہوتے ہی اپنے چچا صولت جنگ کے بیٹے شوکت جنت پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوا۔ شوکت جنگ ان دنوں پورینہ کا فوج دار تھا اور خود کو بنگال، بہار اور اڑیسہ کا ناظم سمجھتا تھا لیکن انگریز نے شوکت جنگ کی پشت پناہی کی، جس کے باعث سراج الدولہ نے فورٹ ولیم کی جانب ہی رجوع کیا۔ اس وقت تک یورپین لوگوں کو بنگال میں اپنے مقبوضہ علاقوں کی قلعہ بندی کا حق نہیں تھا۔ لیکن انگریزوں نے کلکتے کے قلعہ کو اپنے قبضہ میں لانے کے بعد وہاں فوجی نوعیت کے سخت انتظامات جاری رکھے۔ انہی دنوں ڈھاکہ کے دیوان کے بیٹے کرشن داس کو بھی انگریزوں نے اپنی پناہ میں رکھا ہوا تھا۔ حالانکہ اس پر سرکاری خزانہ سے ۵۳ لاکھ روپیہ خرد برد کرنے کا الزام تھا۔

نواب سراج الدولہ نے اس موقع پر فورٹ ولیم کے گورنر کے پاس اپنا ایلچی بھیجا اور مطالبہ کیا کہ فورٹ ولیم کونسل قلعہ بندی میں مزید اضافہ فوری طور پر روک دے، ’’مرہٹہ خندق‘‘ جو شہر کے اردگرد تیار کی گئی ہے، اسے بند کر دے اور کرشن داس کو واپس بھیج دے۔ لیکن انگریزوں نے اس کے یہ تینوں مطالبات ماننے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد نواب نے ہگلی کی بندرگاہ سے انگریزوں کے جہاز روانہ ہونے پر پابندی لگا دی اور فوج کے ایک دستے کو قاسم بازار فیکٹری کا محاصرہ کرنے کے لیے بھیج دیا جس نے اپنا کام احسن طریقے سے انجام دیا۔

۳ جون کو نواب سراج الدولہ خود بھی ہگلی کی بندرگاہ کے پاس پہنچ گیا۔ چنانچہ ورلبھ رام نے ولیم واٹس کو نواب کے سامنے پیش ہونے کے لیے خط لکھا جس کے بعد وہ سراج الدولہ کے پاس حاضر ہوا۔ نواب نے انگریزوں کی روش پر اسے سرزنش کی۔ اس پر واٹس نے مصالحانہ اختیار کیا اور نواب کے تمام مطالبات مان لیے۔ لیکن کمپنی نے ان مطالبات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ڈریک نے فوج کو تیار کر کے سکھ ساگر اور قلعہ تھانہ کی طرف بھیج دیا۔ اس فوج نے دونوں جگہ نواب کی فوجوں سے شکست کھائی۔

اس کے بعد ۱۶ جون کو نواب خود تیس ہزار سپاہیوں کی معیت میں فورٹ ولیم کے سامنے آگیا۔ دونوں فوجوں میں زبردست معرکہ ہوا۔ انگریزی دستے پسپا ہوئے اور انگریزوں نے اپنے بیوی بچوں کو جہاز پر سوار کرا کر فرار کرا دیا۔ خود ڈریک بھی بھاگ نکلا۔ اس کے بعد ڈریک کی جگہ ہال ویل نے لے لی، اور نواب کے ساتھ صلح کرنے کا اعلان کر دیا۔

چنانچہ ۲۰ جون کو انگریزوں کی تمام فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس طرح نواب سراج الدولہ کی فوجیں بآسانی فورٹ ولیم میں داخل ہو گئیں۔

فورٹ ولیم کی فتح حاصل کر چکنے کے بعد ۱۶ اکتوبر ۷۵۶اء کو سراج الدولہ نے راجہ رام نرائن کی مدد سے شوکت جنگ کو منہاری کے مقام پر شکست دی۔ اس جنگ میں شوکت جنگ مارا گیا۔ اس کے بعد سراج الدولہ کی فوجوں نے کلکتہ اور پورنیہ کا علاقہ بھی فتح کر لیا لیکن اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اسی دوران مدراس سے کرنل کلائیو اور واٹسن بری اور بحری فوج لے کر مختلف علاقوں پر قبضہ کرنے لگے۔ راجہ مانک رام نے بھی انگریزوں کے خلاف مزاحمت نہ کی۔ اس طرح انہیں کلکتہ پر قبضہ کرنے میں آسانی ہو گئی۔ جب نواب نے کلکتہ کا رخ کرنا چاہا تو میر جعفر، ورلبھ رام اور جگت سیٹھ جیسے غداروں نے انگریزوں کو خفیہ پیغامات پہنچانے شروع کر دیے۔ دوسری جانب سے احمد شاہ ابدالی کے حملے کی اطلاع بھی نواب کو پریشان کرنے کے لیے کافی تھی۔

چنانچہ نواب سراج الدولہ نے فروری ۱۷۵۷ء کو معاہدہ علی نگر پر دستخط کر دیے جس کی رو سے بنگال کے تمام مقبوضات دوبارہ کمپنی کو واپس مل گئے، اس کے علاوہ تاوان کے طور پر انگریزوں کو سکہ سازی اور قلعہ بندیوں کے حقوق بھی دے دیے۔ لیکن اس کے باوجود یہ صلح عارضی ثابت ہوئی اور پانچ ماہ کے بعد ہی یہ معاہدہ ختم ہو گیا۔ اس زمانے میں یورپ میں جنگ شروع ہو چکی تھی جو سات سال تک جاری رہی۔ انگریزوں نے نواب کی مرضی کے خلاف فرانسیسی مقبوضات پر خود قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد کچھ فرانسیسی نواب کے پاس پناہ کے لیے آگئے۔ جنہیں انگریزوں نے واپس مانگا، نواب نے انہیں دینے سے انکار کر دیا۔

اس دوران میں انگریزوں نے میر جعفر سے سازباز مکمل کر لی تھی۔ چنانچہ نواب کے ساتھ انگریزوں کی جنگ تقریباً‌ ناگزیر ہو چکی تھی اور ۱۳ جون کو کلائیو نے شمالی علاقوں پر حملہ کر بھی دیا۔ نواب سراج الدولہ نے کسی مزاحمت کے بغیر قتوہ انگریزوں کے حوالے کر دیے۔ نواب نے بھاگیرتی ندی کے پاس ہی ۵۰ ہزار پیدل، ۱۸ ہزار سوار فوج، پچاس توپوں کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا۔ فوج کا بیشتر حصہ غدارِ اعظم میر جعفر کے ماتحت تھا۔ نواب نے انگریزوں کی فوج کو گھیرے میں لے لیا لیکن گھیرے میں رہنے والی فوج میر جعفر کے ساتھ تھی جو خفیہ طور پر انگریزوں سے مل چکا تھا۔ اس لیے جنگ شروع ہوتے ہی بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ نواب کا معتمد اور حقِ نمک ادا کرنے والا ساتھی میر مدن لڑتے لڑتے شہید ہو گیا۔ شام تک نواب کو میر جعفر کی غداری کا بھی علم ہو گیا تھا، چنانچہ وہ اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ نکلا اور مرشد آباد پہنچ گیا۔ میر جعفر نے انگریزوں کا استقبال کیا اور پلاسی کی یہ مشہور جنگ اپنے بھیانک انجام کو پہنچی۔ اس لڑائی کے بعد میر جعفر نے نواب سراج الدولہ کو گرفتار کر کے نہایت اذیتیں دے کر شہید کر دیا۔

(ماخوذ از شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا)


(اپریل ۱۹۹۷ء)

اپریل ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۲

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندانِ ولی اللّٰہی کی دینی خدمات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد
مولانا نجم الدین اصلاحی

امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے دور کے سیاسی حالات
ڈاکٹر محمد مظہر بقا

ایسٹ انڈیا کمپنی
پروفیسر غلام رسول عدیم

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا
میڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں برصغیر کی معاشی تباہی
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

برصغیر کی غلامی کا پس منظر
ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

بنگال کا آخری مسلمان فرمانروا نواب سراج الدولہ شہید
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کی یلغار کے سامنے آخری چٹان: سلطان ٹیپو شہیدؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

شہدائے بالاکوٹؒ اور ان کی جدوجہد
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

آخری مغل تاجدار، بہادر شاہ ثانی
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرائضی تحریک اور حاجی شریعت اللہؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرنگی اقتدار کے بعد متحدہ ہندوستان دارالحرب ہے: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ایک اہم فتویٰ
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter