آخری مغل تاجدار، بہادر شاہ ثانی

(۲۷ شعبان ۱۱۸۹ھ / ۲۴ اکتوبر ۱۷۷۵ء — ۱۳ جمادی الاولیٰ ۱۲۷۹ھ / ۷ نومبر ۱۸۶۲ء) ابو المظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی، خاندانِ مغلیہ کا آخری بادشاہ اور اردو کا ایک بہترین شاعر اکبر شاہ ثانی کا دوسرا بیٹا جو لال بائی کے بطن سے تھا۔ اس کا سلسلہ نسب گیارہویں پشت پر شہنشاہ بابر سے ملتا ہے۔ دہلی میں پیدا ہوا۔

۱۱۵۲ھ / ۱۸۳۷ء کو قلعہ دہلی میں اس کی تخت نشینی کی رسم ادا کی گئی۔ اس کا اقتدار صرف لال قلعے یا قلعہ معلی دہلی کی چار دیواری کے اندر تک محدود تھا اور اس کی حیثیت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک وظیفہ خوار کی سی تھی۔ کمپنی سے اسے ایک لاکھ روپیہ ماہانہ بطور وظیفہ ملتا تھا۔ اور دوسری جاگیروں اور شہر کے چند مکانات سے بادشاہ کی آمدنی ڈیڑھ لاکھ روپے سالانہ تھی۔

بعض معاملات کی بناء پر جن میں ولی عہدی کا بھی ایک اہم معاملہ تھا، بہادر شاہ اور انگریزوں کے درمیان عداوت پیدا ہو گئی تھی۔ تقریباً اسی زمانے میں ۱۱ مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ کی ہندوستانی فوج نے انگریزوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے عَلمِ آزادی بلند کیا اور انگریز افسروں کو تہ تیغ کر کے دہلی چلے آئے۔ یہاں آکر ان حریت پسندوں نے بہادر شاہ کو اپنا سربراہ بنا لیا اور انگریز کے خلاف معرکہ آراء ہونے کی تیاری کرنے لگے۔

بہادر شاہ چونکہ انگریزوں سے پہلے ہی نالاں تھے اور وہ یہ بھی سمجھتا تھا کہ اس کے انتقال کے بعد برائے نام بادشاہت کا عہد نامہ بھی ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ اس نے مغلیہ خاندان کی عظمت پارینہ کے دوبارہ احیاء کے لیے اور ہندوستان کو غیر ملکیوں کے استحصال سے بچانے کے لیے ان حریت پسندوں کی قیادت کو قبول کر لیا اور ہندوستان کے تمام روساء اور والیان ریاست کو غیر ملکی حکمرانوں کو ملک بدر کرنے کے لیے متحدہ اقدامات کرنے کے لیے لکھا۔

بادشاہ کی اس دعوت پر بعض زمینداروں اور رئیسوں نے لبیک کہی اور بعض نے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ اگرچہ بہادر شاہ کی بادشاہت کا دہلی میں اعلان کیا جا چکا تھا لیکن پھر بھی حریت پسند لشکریوں پر بادشاہ کا مکمل قبضہ نہیں تھا اور یہ فوج نوجوان شہزادوں اور بالخصوص مرزا مغل کے زیر اثر تھی۔ دہلی میں حریت پسندوں نے انگریزوں کا بڑی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا۔ غدارانِ وطن و قوم کے سبب وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ رہے۔

۶ ستمبر کو انگریزی فوج حریت پسندوں کو شکست دینے کے بعد دہلی پر قابض ہو گئی۔ مسلمان سپہ دار بخت خان بھاگ کھڑا ہوا اور بہادر شاہ نے مرزا الٰہی بخش کے بہکانے پر (جو شاہی خاندان ہی کا ایک فرد تھا لیکن درپردہ انگریزوں سے ملا ہوا تھا) بخت خان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ کیونکہ الٰہی بخش کے ساتھ مل کر انگریزوں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ کسی طرح جلد سے جلد بہادر شاہ کو گرفتار کر لیا جائے تاکہ جنگِ آزادی کا خاتمہ ہو سکے۔ ورنہ بخت خان کی معیت میں بادشاہ دیر تک آزادی کی جنگ جاری رکھ سکتا تھا۔ چنانچہ بہادر شاہ نے مقبرہ ہمایوں میں پناہ لی اور انگریزوں نے اس کی اطلاع پاتے ہی مقبرے کا محاصرہ کر لیا۔

۲۲ ستمبر کو بہادر شاہ نے جان بخشی کے وعدے پر اپنے آپ کو انگریزوں کے حوالے کر دیا۔ انگریز میجر ہڈسن نے سوائے جوان بخت شہزادے اور زینت محل شہزادی کے باقی سب شہزادوں کو قتل کرا دیا اور سرجان لارنس نے بادشاہ کو ایک سال تک ذلت و خواری کے ساتھ قید رکھا۔ ۱۸۵۸ء میں لارنس نے بادشاہ پر بغاوت کا جھوٹا مقدمہ چلایا اور بالآخر ۷ اکتوبر ۱۸۵۸ء میں بہادر شاہ کو قید کر کے رنگون بھیجوا دیا گیا۔ بادشاہ کے ساتھ اس کی دو بیویاں، شہزادہ جواں بخت اور چند متعلقین کو رہنے کی اجازت دی گئی۔ بہادر شاہ نے رنگون ہی میں انتقال کیا اور وہیں دفن ہوا۔

مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ مغل بادشاہوں میں بہادر شاہ زیادہ مہذب، شائستہ اور نیک تھا۔ بقول چارلس مٹکاف، وہ شہزادوں میں سب سے زیادہ قابل احترام اور سب سے زیادہ لائق شہزادہ تھا۔ اس کے دربار کی تہذیب سارے ملک کی تہذیب کے لیے ایک نمونہ سمجھی جاتی تھی۔ چونکہ بہادر شاہ میں تعصب نام کو نہ تھا، اس وجہ سے وہ ہر قوم و ملت کے لوگوں میں مقبول تھا۔

بہادر شاہ ایک اچھا شاعر تھا۔ تخلص ظفر تھا۔ محمد ابراہیم ذوق سے اصلاح لیتا تھا۔ مرزا غالب اس کے درباریوں میں سے تھے۔ اردو ادب میں بہادر شاہ ظفر کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ بہادر شاہ کا کلام بڑا پرسوز ہے اور خاص طور پر جو غزلیں اس نے اپنی جلا وطنی اور قید کے زمانے میں کہی ہیں بہت زیادہ پُردرد ہیں۔ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر شاہ اعلیٰ درجے کا خطاط اور ماہر موسیقی بھی تھا۔ عمارتوں کی تعمیر اور باغوں کی ترتیب کے بارے میں اس کا ذوق سلجھا ہوا تھا۔ سارا دن لکھنے پڑھنے اور تلاوت کلام پاک میں گزارتا تھا۔ اس کی تصانیف میں ’’شرح گلستان‘‘ اور اردو کے چار دیوان بہت زیادہ مقبول ہیں۔

(ماخوذ از شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا)


(اپریل ۱۹۹۷ء)

اپریل ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۲

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندانِ ولی اللّٰہی کی دینی خدمات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد
مولانا نجم الدین اصلاحی

امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے دور کے سیاسی حالات
ڈاکٹر محمد مظہر بقا

ایسٹ انڈیا کمپنی
پروفیسر غلام رسول عدیم

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا
میڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں برصغیر کی معاشی تباہی
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

برصغیر کی غلامی کا پس منظر
ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

بنگال کا آخری مسلمان فرمانروا نواب سراج الدولہ شہید
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کی یلغار کے سامنے آخری چٹان: سلطان ٹیپو شہیدؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

شہدائے بالاکوٹؒ اور ان کی جدوجہد
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

آخری مغل تاجدار، بہادر شاہ ثانی
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرائضی تحریک اور حاجی شریعت اللہؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرنگی اقتدار کے بعد متحدہ ہندوستان دارالحرب ہے: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ایک اہم فتویٰ
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter