فرنگی اقتدار کے بعد متحدہ ہندوستان دارالحرب ہے: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ایک اہم فتویٰ

سوال:

حضرات علمائے کرام اور مفتیان اسلام کی خدمت میں عرض ہے کہ بہت سے احکامِ شرعیہ اس پر موقوف ہیں کہ دارالاسلام اور دارالحرب میں امتیاز کیا جاوے جیسا کہ حضرات علماء پر مخفی نہیں۔

پس اس مسئلہ میں حضرات علمائے عصر کیا فرماتے ہیں کہ بلادِ ہندوستان جو آج کل ہر طرح سے نصاریٰ کے تسلط و حکومت میں ہیں، احکامِ شرعیہ میں ان کو دارالحرب قرار دیا جائے گا یا دارالاسلام؟ بینوا توجروا

الجواب:

پہلے یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ کسی ملک اور کسی شہر کے دارالاسلام یا دارالحرب ہونے کا مدار اس پر ہے کہ اس پر غلبہ اہلِ اسلام کا ہے یا کفار کا۔ بناءً‌ علیہ جو شہر مسلمانوں کے زیر حکومت ہے وہ دارالاسلام کہلائے گا جیسا کہ جامع الرموز میں ہے:

دار الاسلام ما يجرى فيہ حكم امام المسلمين وكانوا فيہ آمنین و دارالحرب ما خافوا فيہ من من الكافرين (انتہی)
’’دارالاسلام وہ ملک ہے جس میں مسلمانوں کے امام کا حکم چلتا ہو، اور مسلمان اس میں مامون ہوں۔ اور دارالحرب وہ ہے جس میں مسلمان کفار سے اپنے جان و مال کا خوف رکھتے ہوں۔‘‘

اور در مختار میں ہے:

سئل قارى الھدایۃ عن البحر الملح امن دارالحرب او الاسلام اجاب انہ لیس من احد القبیلتین لانہ لا قھر لا حد علیہ (انتہی)
’’قاری الہدایہ سے سمندر کے متعلق دریافت کیا گیا کہ وہ دارالحرب میں داخل ہے یا دار الاسلام میں، تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ دونوں میں سے کسی میں بھی داخل نہیں کیونکہ اس پر کسی کا (مکمل) قبضہ نہیں ہے۔‘‘

اس عبارت کے نقل کرنے سے ہماری غرض یہ ہے کہ کسی ملک کا دارالاسلام یا دارالحرب ہونے کا مدار صرف اسلام یا کفر کے غلبہ پر ہے۔ اور اگرچہ سمندر کے بارے میں قول راجح یہی ہے کہ وہ دارالحرب میں داخل ہے، لیکن ہر ایسے مقام کو جو اہلِ اسلام و کفار دونوں کا (برابر درجہ میں) مقہور ہو، دارالاسلام ہی کہا جائے گا۔ کیونکہ قاعدہ مشہور ہے ’’الاسلام یعلو ولا یعلیٰ‘‘ (یعنی اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا) اسی کا مقتضی ہے۔ مگر اس مقام کو دارالاسلام اسی شرطِ مذکور کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ بعض حکامِ اسلام کا قبضہ اور تسلط اس جگہ ہو۔ ورنہ محض اس بناء پر کہ اس ملک میں مسلمان آباد ہیں یا وہ کفار کی اجازت سے شعائرِ اسلامیہ کو ادا کر سکتے ہیں، اس ملک کو دارالاسلام نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ کسی ملک میں محض مسلمانوں کے آباد ہونے اور باذنِ کفار شعائرِ اسلامیہ کو ادا کر سکنے کا کوئی اعتبار نہیں۔ اسی طرح کسی ملک میں کفار کا آباد ہونا یا شعائرِ کفر کا مسلمانوں کی اجازت یا ان کی غفلت سے وہاں ظاہر کرنا اس ملک کے دارالاسلام ہونے میں کوئی فرق پیدا نہیں کرتا۔ اس لیے کہ ان دونوں صورتوں میں غلبہ ان لوگوں کا نہیں پایا جاتا، اور مدارِ حکم غلبہ پر ہی ہے، محض وجود یا ظہور پر نہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کفار اہلِ ذمہ دارالاسلام میں مسلمانوں کی اجازت سے آباد رہتے ہیں اور اپنے شعائر کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ مگر دارالاسلام اپنے حال پر دارالاسلام ہی رہتا ہے۔ اسی طرح مسلمان دارالحرب میں جاتے ہیں، اور اپنے شعائر کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مگر صرف اتنی بات سے وہ ملک دارالحرب ہونے سے خارج نہیں ہو جاتا۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ فخرِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ سے پہلے جب کہ مکہ مکرمہ دارالحرب تھا، عمرہ قضا میں صحابہ کرامؓ کی ایک بڑی جماعت کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور جماعت و نماز و عمرہ وغیرہ شعائرِ اسلام کو اعلام کے ساتھ ادا فرمایا اور اتنی بڑی جماعت آپ کے ساتھ تھی کہ کفار کو مقہور و مغلوب کر سکتی تھی۔

چنانچہ (عمرہ قضا سے پہلے) غزوہ حدیبیہ میں اس قدر لشکر کے ساتھ یہ عزم ہو چکا تھا کہ مکہ پر چڑھائی کر دی جائے۔ (مگر پھر جب واقعات کی تحقیق سے حضرت عثمان غنیؓ کے قتل کی خبر غلط ثابت ہوئی تو اس عزم کو چھوڑ دیا گیا۔ الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس قدر لشکر اپنے ساتھ رکھتے تھے جو کفارِ مکہ کو مغلوب کر سکتا تھا) مگر چونکہ یہ (مکہ کا داخلہ) اور شعائرِ اسلام کا اظہار باذنِ کفار تھا اس لیے ان تین روز میں مکہ معظمہ کو بحکم دارالاسلام نہیں سمجھا گیا بلکہ وہ بدستور دارالحرب رہا۔ کیونکہ یہ قیامِ مکہ اور اظہارِ اسلام اجازت کی بناء پر تھا، غلبہ کی بناء پر نہ تھا۔

خلاصہ یہ ہے کہ قاعدہ کلیہ اس بات میں یہ ہے کہ دارالحرب وہ ہے جو مقہورِ کفار ہو، اور دارالاسلام وہ جو مقہورِ اہلِ اسلام ہو۔ (مثلاً‌ دارالکفار میں کفار یا دارالحرب میں مسلمان بلاغلبہ و قہر آباد ہوں)

اور جس ملک پر دونوں فریق (اہلِ اسلام اور کفار) کا تسلط ہو وہ بھی دارالاسلام ہی سمجھا جائے گا۔ اس قاعدہ اور اصل کلی کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے۔ کیونکہ تمام مسائل متعلقہ اس سے نکلتے ہیں اور اس باب کی تمام جزئیات اسی اصل کلی پر دائر ہیں۔

دار الحرب پر مسلمانوں کا قبضہ

اس کے بعد ایک اور بات سن لینا چاہیے، وہ یہ کہ جو ملک اصل سے دارالحرب و دارالکفر تھا، پھر مسلمانوں نے اس پر غلبہ پا لیا اور احکامِ اسلامی کو وہاں جاری کر دیا، اس کے متعلق تمام علماء کا اتفاق ہے کہ وہ ملک اب دارالاسلام ہو گیا۔ کیونکہ اس میں مسلمانوں کا غلبہ اور قہر متحقق ہو گیا۔ اور اگرچہ کسی حیثیت سے کفارہ کا بھی کچھ غلبہ وہاں باقی ہو، تاہم بحکم ’’الاسلام يعلو ولا یعلیٰ‘‘ یہ ملک باتفاق دارالاسلام ہو گیا جیسا کہ پہلے اس کو واضح کر دیا گیا ہے۔

اور اس کے بعد یہ ظاہر کر دینا ضروری ہے کہ اگر مسلمانوں کا داخلہ اور احکامِ اسلامیہ کا اجراء اس ملک میں غلبہ کے ساتھ نہ ہو تو اس ملک کے دارالحرب ہونے میں کوئی فرق پیدا نہ ہوگا۔ ورنہ جرمن اور روس اور فرانس اور چین وغیرہ جو نصاریٰ یا بت پرستوں کے قبضہ میں ہیں، سب کے سب دارالاسلام کہلانے کے مستحق ہو جائیں گے۔ اور ساری دنیا میں کہیں دارالحرب کا نام و نشان نہ رہے گا۔ کیونکہ تمام ممالک کفار میں مسلمان باذنِ کفار احکامِ اسلامیہ کو ادا کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ دنیا کو بحالت موجودہ دارالاسلام قرار دینا بالکل باطل ہے۔

دار الاسلام پر کفار کا قبضہ

اور جو ملک یا شہر دارالاسلام تھا پھر سب پر کفار نے غلبہ کر لیا، اگر وہاں سے اسلام کا غلبہ بالکل زائل ہو گیا تو وہ ملک اب دارالحرب کے حکم میں ہو گیا۔ اور اگر کفار کا غلبہ تو ہوا مگر بعض حیثیات سے اس میں اسلام کا غلبہ بھی باقی ہے، تو اس کو اب بھی دارالاسلام ہی کہا جائے گا نہ کہ دارالحرب۔ اتنی بات پر سب ائمہ کا اتفاق ہے۔

البتہ اس میں کلام ہے کہ غلبۂ اسلام کے بالکل زائل ہو جانے کی حد کیا ہے۔ سو اس میں صاحبین یعنی امام ابویوسف و محمد رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں کہ جب کفار نے علی الاعلان احکامِ کفر کو جاری کر دیا، اور مسلمان اپنے غلبہ و قدرت سے بلا اجازت کفار احکامِ اسلام کو جاری نہیں کر سکتے تو غلبۂ اسلام بالکل مرتفع ہو گیا اور یہ ملک بحکم دارالحرب ہو گیا۔

البتہ اگر دونوں فریق یعنی اہلِ اسلام و کفار اپنے اپنے احکام کو اپنے اپنے غلبہ اور قدر سے علی الاعلان جاری کرتے ہوں تو ابھی تک اس سے غلبۂ اسلام بالکلیہ زائل نہیں ہوا اور اس ملک کو دارالحرب نہیں کہہ سکتے۔ اور جب کہ کفار اپنے احکام کو غلبہ و تسلط کے ساتھ علی الاعلان جاری کرتے ہوں اور مسلمان بلا ان کی اجازت کے اپنے احکام علی الاعلان جاری رکھنے پر قدرت نہ رکھیں تو وہاں غلبۂ اسلام بالکل مرتفع اور زائل ہو گیا۔

اور قیاس اسی کا مقتضی ہے جو حضرات صاحبین فرماتے ہیں، کیونکہ جب کفار اس طرح مسلط ہو گئے کہ احکامِ کفر اپنے غلبہ سے علی الاعلان جاری کرتے ہیں، اور اہلِ اسلام اس قدر عاجز و مغلوب ہو گئے کہ اپنے احکام جاری نہیں کر سکتے، اور احکامِ کفر کو جو کہ اسلام کے لیے عار اور ننگ ہیں دور نہیں کر سکتے، تو اب کون سا درجہ اسلام کا باقی ہے کہ اس ملک کو دارالاسلام کہا جائے؟ بلکہ اس صورت میں تسلط اور غلبۂ کفار انتہا کو پہنچ گیا اور یہ ملک بالفعل دارالحرب ہو گیا۔

آئندہ جو کچھ ہونا مقدر ہے وہ ہو رہے گا۔ مگر اس وقت اس کے دارالحرب اور مقہورِ کفار ہونے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رہا اور قدیم دارالحرب کی طرح کفار کا مغلوب و مقہور ہو گیا، جیسا کہ بالکل ظاہر ہے۔ لیکن امامِ اعظم ابوحنیفہؒ نے نظرِ دقیق سے بطور استحسان کے یہ فرمایا ہے کہ جب تک غلبۂ اسلام کے آثار میں سے کوئی چیز پائی جاتی ہے یا استیلاءِ کفار میں ایسا ضعف محسوس ہو کہ مسلمانوں پر اس کا زائل کر دینا مشکل نہ ہو، اس وقت تک اس ملک پر دارالکفر ہونے کا حکم نہیں کرنا چاہیے۔ اسی بناء پر امام اعظمؒ نے اس ملک کے دارالحرب ہونے کے لیے دو شرائط زائد فرما دیں:

شرطِ اول

یہ کہ جس دارالاسلام پر کفار نے تسلط کیا ہے، وہ درالحرب کے ساتھ متصل ہو۔ اس کے اور دارالحرب کے درمیان کوئی ملک یا شہر دارالاسلام حائل نہ ہو۔ کیونکہ اس طرح دارالحرب کے ساتھ اتصال اور دارالاسلام سے انقطاع کی وجہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اب یہ ملک پوری طرح سے کفار کے قبضہ میں چلا گیا اور تسلط اور غلبہ ان کا مستحکم ہو گیا، اور ان کے ہاتھوں سے چھڑانا اس کا مشکل ہو گیا۔

اور یہ مسئلہ اس کی نظیر ہے کہ اگر کفار مسلمانوں کے مال پر استیلا و تسلط کر لیں تو اس کی دو صورتیں ہیں:

ایک یہ کہ اس مال کو اپنے مُلک میں لے جا کر مکمل قبضہ کریں۔ اس صورت میں تو یہ مال ان کی مِلک میں داخل سمجھا جائے گا۔

اور دوسری صورت یہ ہے کہ ہنوز اس مال کو اپنے مُلک میں نہیں لے گئے اور احراز و قبضہ مکمل نہیں ہوا تو اس وقت تک اس کے مالک کی مِلک اس سے منقطع نہیں ہوئی، اور کفار کی مِلک میں داخل نہیں ہوا۔ جیسا کہ تمام کتبِ فقہ میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے۔ ہدایہ میں ہے:

واذا غلبوا علیٰ اموالنا واحرزوھا بدارھم ملكوھا (انتہی)
’’اور جب کفار ہمارے اموال پر غالب آجائیں اور ان کو اپنے ملک میں لے جائیں تو وہ ان اموال کے مالک ہو جاتے ہیں۔‘‘

اور فرمایا ہے :

غیران الاستیلاء لا یتحقق الا بالاحراز بالدار لانہ عبارۃ عن الاقتدار علی المحل حالا ومالا۔
’’مگر استیلاءِ کفار اس وقت تک متحقق نہیں ہوتا جب تک وہ ان اموال کو اپنے مُلک میں نہ لے جائیں کیونکہ استیلاء کی حقیقت یہ ہے کہ کسی محل پر قبضہ بالفعل بھی ہو اور (بظاہر اسباب) وہ قبضہ باقی بھی رہ سکے۔‘‘

پس اسی طرح اگر کسی زمین یا کسی شہر پر کفار کا استیلاء و مکمل تسلط اس طرح ہو گیا کہ اس کا احراز دارالحرب کے ساتھ ہو گیا، اور احراز کی صورت زمین کے بارہ میں یہی ہو سکتی ہے کہ اس کا اتصال دارالحرب کے ساتھ ہو جاوے اور دارالاسلام سے منقطع ہو جاوے، تو اس صورت میں وہ مُلک بالکلیہ مقہورِ کفار ہو گیا۔ اور جب تک ایسا نہ ہو تو اس پر استیلاءِ اہلِ اسلام باقی سمجھا جائے گا۔ اگرچہ استیلاء و تسلط ضعیف ہی ہو اور بحکم ’’الاسلام یعلو ولا یعلیٰ‘‘ اس کا مقتضی یہ ہو گا کہ یہ ملک دارالاسلام باقی رہے۔

پس خلاصہ اس شرط کا بھی وہی غلبۂ کفار اور مغلوبیتِ اہلِ اسلام ہے جو ابتداء میں بطور قاعدہ کلیہ کے بیان کر دیا گیا ہے۔

شرطِ دوم

امام اعظمؒ کے نزدیک یہ ہے کہ حاکمِ اسلام نے جو امان مسلمانوں کو بسببِ اسلام کے اور کفار رعایا کو بسببِ ذمی ہونے کے دے رکھا تھا وہ امان زائل ہو جاوے، کہ کوئی شخص اس سابقہ امان کی وجہ سے اب اپنے جان و مال پر مامون نہ رہے۔ یعنی جیسا کہ حاکم مسلم کے امن دے دینے کی وجہ سے سب بے خوف تھے، کسی کو اس کی مجال نہ تھی کہ کسی کے جان و مال پر ظلم کرے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ ایسا امن بدون حاکم مسلم کے غلبہ اور قوت و شوکت کے حاصل نہیں ہو سکتا۔ پس اب یہ امان باقی نہ رہے، بلکہ بے کار ہو جاوے، اور باعثِ امن صرف وہ امان ہو جو غالب آنے والے کفار اپنے قانون کے موافق دیں۔ پس ظاہر ہے کہ جب تک حاکم مسلم کے امن کی وجہ سے موذی کا خوف رفع ہوتا رہے تو غلبہ و شوکت اس حاکم مسلم کا باقی سمجھا جائے گا۔ اور جب یہ کچھ باقی نہ رہے بلکہ کافر متغلب کے امن ہی پر نظر رہ جائے تو امانِ اول زائل ہو گیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک علی الاعلان اجراء سے احکامِ کفر کے بعد جب یہ دو شرطیں بھی پائی جائیں، اس وقت من کل الوجوہ غلبۂ کفار مانا جائے گا، اور غلبۂ اہلِ اسلام کو زائل و مرتفع سمجھا جائے گا۔ اس وقت ناچار اس ملک پر دارالحرب ہونے کا حکم کیا جائے گا۔

اہلِ عقل کو اس سے بھی معلوم ہو گیا کہ اس قول کا مدار بھی صرف قہر و غلبہ پر ہے، جس کی توضیح ابتداء میں بضمن قاعدہ کلیہ کر دی گئی ہے۔

اس کے بعد فقہاء کی روایات و عبارات سننی چاہئیں کہ ان میں سے بعض سے بندہ کی تقریر مذکور کی دلیل حاصل ہو گی اور بعض سے اس مسئلہ کے متعلق روایات کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔

عالمگیری میں ہے:

قال محمد فی الزیادات انما یصیر دارالاسلام دارالحرب عند ابی حنیفۃ بوجوہ احدہا اجراء احکام الکفر علیٰ سبیل الاشتہار و ان لا یحکم فیہا بحکم الاسلام والثانی ان تکون متصلۃ بدار الحرب لا یتخلل بینہما بلدۃ من بلاد الاسلام الثالث ان لا یبقی مسلم او ذمی آمنا بامانہ الاول الذی کان ثابتا قبل استیلاء الکفار للمسلم باسلامہ وللذمی بعقد الذمۃ وصورۃ المسئلۃ علیٰ ثلثۃ اوجہ اما ان یغلب اہل الحرب علی دار من دورنا او ارتد اہل مصر وغلبوا واجروا احکام الکفر او نقض اہل ذمۃ العہد وتغلبوا علیٰ دارہم ففی کل ہذا لا تصیر دار حرب الا بثلث شرائط وقال ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ ومحمد رحمۃ اللہ علیہ بشرط واحد لا غیر وہو اظہار احکام الکفر وہو القیاس (انتہی)
’’امام محمدؒ نے زیادات میں فرمایا ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دارالاسلام کا دارالحرب ہوتا چند وجوہ پر ہے: ایک یہ کہ احکامِ کفر کا علی الاعلان جاری کرنا اس طور پر کہ اسلام کے احکام حکم نہ رہیں (یعنی ان کے مطابق فیصلے نہ کیے جائیں)۔ اور دوسرے یہ کہ وہ دارالحرب کے ساتھ متصل ہو جاوے۔ ان کے درمیان کوئی شہر دارالاسلام کا حائل نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ کوئی مسلمان اور کوئی ذمی کافر اپنے اس امانِ سابق کے ساتھ مامون و محفوظ نہ رہ سکے جو اس کو غلبۂ کفار سے پہلے بحیثیت مسلمان یا بحیثیت عہدِ ذمہ کے حاصل تھا۔ اور صورت دار الحرب بننے کی تین ہیں: ایک یہ کہ اہلِ حرب ہمارے دارالاسلام پر غالب آجائیں۔ دوسرے یہ کہ (معاذ اللہ) کسی شہر کے مسلمان مرتد ہو کر شہر پر غالب آجائیں اور احکامِ کفر جاری کر دیں۔ تیسرے یہ کہ ذمی کافر جو مسلمانوں کی رعایا بن کر رہتے تھے، عہد شکنی کر کے باغی ہو جاویں اور دارالاسلام پر غالب آجائیں۔ لیکن ان تمام صورتوں میں دارالاسلام اس وقت تک دارالحرب نہ ہو گا جب تک تین شرطیں (مذکورہ) نہ پائی جاویں۔ اور امام ابو یوسفؒ و محمدؒ فرماتے ہیں کہ صرف ایک شرط متحقق ہونے سے دارالحرب کا حکم کر دیا جائے گا اور وہ شرط یہ ہے کہ احکامِ کفر کو علی الاعلان جاری کر دیں اور قیاس اسی کا مقتضی ہے۔‘‘ الخ

اور جامع الرموز میں ہے:

فاما صیرورتہا دارالحرب فعندہ بشرائط احدہا اجراء احکام الکفر اشتہاراً‌ بان یحکم الحاکم بحکمہم ولا یرجعون الیٰ قضاۃ المسلمین کما فی البحر والثانی اتصال بدار الحرب بحیث لا یکون بینہما بلدۃ من بلاد الاسلام ما یلحقہم المدد منہا۔ الخ
’’لیکن دارالاسلام کا دارالحرب ہو جانا، سو یہ امام اعظمؒ کے نزدیک تین شرطوں پر موقوف ہے: ایک اجراءِ احکامِ کفر علی الاعلان اس طرح کہ حکامِ وقت کفار کے حکم کو جاری کریں اور لوگ مسلمان قاضیوں کی طرف مراجعت نہ کر سکیں، جیسا کہ بحر الرائق میں مذکور ہے۔ دوسرے اس کا دارالحرب کے ساتھ ایسا متصل ہو جانا کہ کوئی شہر اسلامی شہروں میں سے درمیان میں حائل نہ رہے جس سے مسلمانوں کو مدد پہنچ سکے۔‘‘

جامع الرموز کی اس روایت سے دو امر واضح ہوئے:

اول یہ کہ احکامِ اسلام کے جاری کرنے سے مراد یہ ہے کہ غلبہ اور قوت کے ساتھ احکامِ اسلام جاری کیے جائیں (نہ کہ مطلقاً‌ ادائے جماعت و جمعہ باذنِ کفار) کیونکہ جامع الرموز کی عبارت میں ہے: ’’یحکم بحکمہم ولا یرجعون الیٰ قضاۃ المسلمین‘‘ یعنی قضاۃِ مسلمین کو کسی قسم کی شوکت وقعت نہ رہے کہ لوگ ان کی طرف رجوع کر سکیں۔ اسی طرح مسلمانوں کا دارالحرب میں احکامِ اسلام کا جاری کرنا اسی صورت میں اس کو دارالاسلام بنا سکتا ہے جب کہ یہ اجرا اور احکام علی الاعلان اپنے غلبہ و تسلط کے ذریعہ ہو جیسا کہ بالکل ظاہر ہے۔ بہرحال حکمِ اسلام اور حکمِ کفر دونوں بطریقِ غلبہ معتبر ہیں نہ کہ محض ادا بطریقِ اظہار۔

دوسری بات جامع الرموز کی عبارت سے یہ مستفاد ہوئی کہ دارالحرب کے ساتھ متصل ہونے کی جو شرط امام صاحبؒ کے نزدیک ضروری ہے، اس کا مطلب بھی وہی قوت و غلبہ ہے۔ کیونکہ دارالحرب کے ساتھ متصل ہو جانے کی صورت میں مسلمانوں کو مدد نہیں پہنچ سکتی ہے۔ بخلاف اس صورت کے کہ دارالحرب سے انقطاع ہو تو مسلمانوں کو استخلاص دارالاسلام میں پہنچنے کا احتمال قریب ہے۔ اس لیے ابھی تک قوتِ اسلام کو باقی سمجھا جائے گا۔

اور خزانہ المفتین میں ہے کہ کوئی دارالاسلام اس وقت تک دارالحرب نہیں بن سکتا جب تک کہ اس میں احکامِ کفر علی الاعلان جاری نہ ہو جائیں، اور وہ ملک دارالحرب کے ساتھ متصل نہ ہو جائے کہ اس کے اور دارالحرب کے درمیان کوئی شہر بلاد مسلمین میں سے باقی نہ رہے۔ اور یہ کہ کوئی مسلمان یا ذمی رعایا امانِ سابق کے ساتھ اب مامون و محفوظ نہ رہ سکے۔ بلکہ ہر مسلمان اور ذمی کو اس ملک میں بسر کرنا، بغیر امان دینے کفار کے، نہ ہو سکے۔ الخ

اور فتاویٰ بزازیہ میں ہے، سید امامؒ فرماتے ہیں کہ آج کل جو شہر کفار کے قبضہ میں ہے بلا شبہ وہ ابھی تک دارالاسلام ہیں کیونکہ ان میں احکامِ کفر ظاہر نہیں ہوئے بلکہ قضاۃ و حكام وہاں مسلمان ہیں۔

تو اب یہ دیکھنا چاہیے کہ عبارتِ مذکورہ میں ان شہروں کے دارالاسلام ہونے پر دلیل لائے ہیں کہ حکام و قضاۃ وہاں مسلمان ہیں جس کی وجہ سے احکامِ اسلام امن میں بدستورِ سابق باقی ہیں۔ دلیل میں یہ نہیں فرمایا کہ لوگ یہاں نماز پڑھتے ہیں اور جمعہ قائم کرتے ہیں۔ کیونکہ اجرائے احکام سے مراد وہی اجراء ہے جو بطور غلبہ و شوکت کے ہو، نہ یہ کہ اپنے دین کے مراسم و شعائر کو حاکم کافر کی رضا و اجازت سے ادا کیا جائے۔ اور در مختار میں ہے:

’’معراج الدرایہ میں مبسوط سے نقل کیا ہے کہ وہ شہر جو کفار کے قبضہ میں ہیں دارالاسلام ہیں دارالحرب نہیں۔ کیونکہ انہوں نے ان شہروں میں احکامِ کفر جاری نہیں کیے بلکہ وہاں ایسے حکام اور قاضی موجود ہیں جن کو مسلمانوں نے منتخب کر کے حاکم بنایا ہے اور وہ ان کی بضرورت و بلا ضرورت اطاعت کرتے ہیں۔ اور ہر ایسا شہر جس میں مسلمانوں کی طرف سے کوئی والی مقرر ہو اس کے لیے اقامتِ جمعہ و شعائرِ اسلامیہ اور حدود و قصاص اور احکام و قضاۃ کا مقرر کرنا سب جائز ہیں۔ کیونکہ ان پر امیر مسلم حاکم ہے۔ اور اگر خود کفار ہی نے کسی مسلمان کو حاکم بنا دیا تب بھی مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ اس کی زیر حکومت جمعہ وغیرہ قائم کریں اور مسلمانوں کے اتفاق و راضی سے قاضی بن سکتا ہے۔ اور (دارالحرب کے) مسلمانوں پر واجب ہے کہ کوئی والی مسلم تلاش کریں اور اپنے معاملات کا رجوع اس کی طرف کریں۔ (انتہی)‘‘

اور اسی معراج الدرایہ میں ہے کہ میں کہتا ہوں کہ اس سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ ملک شام میں جو پہاڑ ’’ایتم اللہ‘‘ اور اس کے متعلقہ بعض شہر ہیں سب کے سب بلادِ اسلام ہیں کیونکہ ان کے حکام اگرچہ قوم دروز یا نصاریٰ ہیں لیکن وہ سب ہمارے مسلم حکام کے تابع ہیں اور ان کی طرف سے قضاۃ و حکام مقرر ہیں، اور چاروں طرف سے بلادِ اسلام ان کے اس طرح محیط ہیں کہ جب ہمارے حکام و اولوالامر چاہیں تو وہاں اپنے احکام نافذ کر سکتے ہیں۔ انتہی۔

ان دونوں روایتوں سے واضح ہو گیا کہ غلبۂ کفار کے بعد کسی ملک کے دارالاسلام باقی رہنے کے لیے جو اجراءِ احکامِ اسلام شرط ہے، اس سے یہی مراد ہے کہ بطریقِ غلبہ و شوکت احکامِ اسلام جاری ہو سکتے ہوں۔ اسی طرح دارالحرب میں احکامِ اسلام کا اجراء جب اس کے دارالحرب ہونے کو زائل کر سکتا ہے جب کہ یہ اجرائے احکام بطریقِ غلبہ و قوت ہو، نہ یہ کہ دارالحرب کا حاکم اپنی اجازت سے احکامِ اسلام جاری کرا دے۔

حاصل یہ ہے کہ امام اعظمؒ کے نزدیک مذکورہ سابقہ تینوں شرطوں سے اور صاحبین کے نزدیک شرطِ واحد یعنی اجراءِ احکامِ اسلام سے مقصود ایک ہی چیز ہے، یعنی وجودِ غلبہ اور قوت اگرچہ بعض وجوہ سے ہو۔ لیکن علماء اسلام میں کوئی شخص بھی اس کا قائل نہیں کہ کفار کے ملک میں اگر کوئی شخص ان کی صریح اجازت سے یا ان کی چشم پوشی کی وجہ سے شعائر اسلام کا اظہار کرے تو یہ ملک دارالاسلام ہو جائے گا۔ حاشا وکلا۔ کیونکہ ایسا خیال بالکل تفقہ سے دور ہے۔

حالتِ ہندوستان

اور جب یہ مسئلہ (کلی طور پر) متحقق ہو چکا تو اب ہندوستان کی حالت پر خود غور کر لیں کہ اس جگہ کفار نصاریٰ کے احکام کا اجراء کس قوت و غلبہ کے ساتھ ہے کہ اگر کوئی ادنیٰ کلکٹر یہ حکم کر دے کہ مساجد میں جماعت ادا نہ کرو تو کسی امیر و غریب کی مجال نہیں کہ ادا کر سکے۔ اور یہ جو کچھ ادائے جمعہ و عیدین اور عمل (بعض) قواعد شرطیہ پر جو کچھ ہو رہا ہے محض ان کے قانون کی وجہ سے کہ انہوں نے یہ حکم جاری کر دیا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب میں زاد ہے، کسی کو اس سے مزاحمت کا حق حاصل نہیں۔

اور سلاطینِ اسلام کا دیا ہوا امن جو یہاں کے رہنے والوں کو حاصل تھا اب اس کا کہیں نام و نشان نہیں۔ کون عقل مند کہہ سکتا ہے کہ ہمیں جو امن شاہ عالم نے دیا ہوا تھا آج بھی ہم اسی امن کے ذریعے مامون بیٹھے ہیں۔ بلکہ امنِ جدید کفار سے حاصل ہوا ہے اور اسی نصاریٰ کے دیے ہوئے امن کے ذریعہ تمام رعایا ہندوستان میں قیام پذیر ہے۔ لیکن اتصال بدار الحرب، سو یہ ممالک و اقالیمِ عظیمہ کے لیے شرط نہیں بلکہ گاؤں اور شہر وغیرہ کے لیے شرط ہے، جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہاں سے مدد پہنچنا آسان ہے۔

اور اگر کوئی کہے کہ اگر شاہِ کابل یا شاہِ روم کی طرف سے مدد پہنچ جائے تو کفار کو ہندوستان سے نکال سکتے ہیں، مگر حاشا وکلا یہ بالکل صحیح نہیں بلکہ ان کا اخراج ہندوستان سے سخت مشکل ہے۔ بہت بڑے جہاد اور عظیم الشان سامانِ جنگ کو چاہتا ہے۔ بہرحال تسلط کفار کا ہندوستان پر اس درجہ میں ہے کہ کسی وقت بھی کفار کا تسلط کسی دارالحرب پر اس سے زیادہ نہیں ہوتا۔ اور شعائرِ اسلامیہ جو مسلمان یہاں ادا کرتے ہیں وہ محض ان کی اجازت سے ہے، ورنہ مسلمانوں سے زیادہ عاجز رعایا کوئی نہیں ہے۔ ہندوؤں کو بھی ایک درجہ کا رسوخ حکومت میں حاصل ہے، مسلمانوں کو وہ بھی نہیں۔ البتہ ریاست ٹونک اور رامپور اور بھوپال وغیرہ، کہ وہاں کے حکام باوجود مغلوبِ کفار ہونے کے اپنے احکام کو جاری رکھتے ہیں، ان کو دارالاسلام کہا جا سکتا ہے جیسا کہ درمختار وغیرہ کی روایاتِ سابقہ سے مستفاد ہوتا ہے۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔

بنده رشید احمد گنگوہی


(ماخوذ از تالیفاتِ رشیدیہ، مطبوعہ ادارہ اسلامیات لاہور)


(اپریل ۱۹۹۷ء)

اپریل ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۲

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندانِ ولی اللّٰہی کی دینی خدمات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد
مولانا نجم الدین اصلاحی

امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے دور کے سیاسی حالات
ڈاکٹر محمد مظہر بقا

ایسٹ انڈیا کمپنی
پروفیسر غلام رسول عدیم

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا
میڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں برصغیر کی معاشی تباہی
شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ

برصغیر کی غلامی کا پس منظر
ڈاکٹر حافظ مبشر حسین

بنگال کا آخری مسلمان فرمانروا نواب سراج الدولہ شہید
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

ایسٹ انڈیا کمپنی کی یلغار کے سامنے آخری چٹان: سلطان ٹیپو شہیدؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

شہدائے بالاکوٹؒ اور ان کی جدوجہد
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

آخری مغل تاجدار، بہادر شاہ ثانی
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرائضی تحریک اور حاجی شریعت اللہؒ
شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا

فرنگی اقتدار کے بعد متحدہ ہندوستان دارالحرب ہے: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کا ایک اہم فتویٰ
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter