ایسٹ انڈیا کمپنی

مشرق و مغرب کے تجارتی روابط تو صدیوں سے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں مشرق سے سیاہ مرچ، چاول، کپاس، نیل، ادرک، گرم مسالے، ناریل، پوست اور گنا مغرب کو جاتے اور اونی کپڑا، تانبا، لوہا اور اون کی مصنوعات کی تجارت، اونٹوں، خچروں پر ایشیائے کوچک، ایران اور افغانستان کے راستے عمل میں لائی جاتی۔

پرتگیزی ایسٹ انڈیا کمپنی

مگر 1498ء میں جب پرتگالی جہاز ران واسکوڈے گاما راس امید کا چکر کاٹ کر ہندوستان کے مغربی ساحل پر کالی کٹ کی بندرگاہ پر اترا تو مغرب کے تجارتی رویوں میں خاصی تبدیلی آگئی۔ کالی کٹ کے راجہ زمورف (Zamoorau) نے شاہ پرتگال کے نام خیر سگالی اور تجارتی اموال کے تبادلے کا خط بھیجا تو اس سے راستہ اور بھی ہموار ہو گیا۔ اقتصادی منافع اور سیاسی استحکام کے لیے پرتگیزیوں نے مشرقی علاقوں میں اپنے حریف عرب تاجروں کو ہر طرح نیچا دکھانے کی کوشش کی۔ عرب تاجر افریقہ، ہندوستان، جزائر ملوکا اور چین تک مال لے کر بحیرہ احمر اور خلیج فارس کی راہ مصر، ترکی، ایران کے راستے یورپ میں مال لے جاتے۔ یہ پرتگیزیوں کے سب سے بڑے حریف تھے۔

اگلے سو سال میں پرتگیزی سوداگر مشرقی منڈیوں پر پوری طرح چھا گئے، مختلف مقامات پر قلعہ بندیاں کیں۔ تجارتی کوٹھیاں بنائیں اور خوب نفع کمایا۔ 1503ء میں کوچین میں پہلا قلعہ بنایا۔ 1510ء میں البقرق نے گوا (Goa) پر قبضہ کر لیا۔ جسے پرتگیزی مقبوضات کا صدر مقام بنا دیا گیا۔ 1511ء میں ملاکا پر قبضہ کیا۔ 1518ء میں کولمبو پر قابض ہوئے۔ 1522ء میں جزائر ملوکا پر قبضہ کیا۔ 1535ء میں دیو (Diu) میں قلعے کی تکمیل کی۔ 1559ء میں دمن پر قبضہ جما لیا۔ سولہویں صدی کے آخر میں وہ ملاکا اور ارمز جیسی آبناؤں میں اتنے با اختیار ہو گئے تھے کہ دوسری اقوام کو پاسپورٹ لینے پر مجبور کرنے لگے۔ کوئی دوسرا تجارتی قافلہ ان کی راہ داری کے بغیر گزر نہیں سکتا تھا۔

سترھویں صدی کے آغاز میں انگریز، ولندیزی اور فرانسیسی بھی اس میدان میں کود پڑے تاہم دوسرا دور ولندیزیوں کا ہے۔

ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی

1600ء میں ولندیزیوں نے پرتگیزیوں کو جزائر ملوکا، انڈونیشیا، ملایا اور لنکا سے نکال باہر کیا اور بلا شرکت غیرے بحیرہ چین اور مشرق بعید کے تجارتی ناکوں پر قابض ہو گئے۔ اس کا بانی جان پیٹرزوں کوئن (Jaun, Pieterszoon Coen) بڑا زور دار آدمی تھا۔ 1669ء میں جب ولندیزی ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے عروج پر تھی اس کے پاس 40 جنگی جہاز، 150 تجارتی جہاز، 10000 فوجی سپاہی تھے۔ 1602ء سے 1696ء تک کمپنی 12% سے %63 تک حصص پر منافع ادا کرتی۔ ہر بیس سال بعد کمپنی کے منشور کی تجدید کی جاتی۔ حکومت ہالینڈ کو اس سے بے پناہ اقتصادی منافع ہوئے۔

تاہم 18ویں صدی کے آتے آتے اندرونی خلفشار اور انگریزی و فرانسیسی قوتوں کے چڑھتے سیلاب کے سامنے ولندیزی بے بس ہو کر رہ گئے۔ 1724ء میں کمپنی کی اقتصادی حالت بے حد پتلی ہو گئی۔ 1798ء میں (Batavian Republic) جمہوریہ بٹاویہ (موجودہ انڈونیشیا) نے کمپنی کی تمام املاک کو اپنے قبضے میں کر لیا، یوں ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی ختم ہو گئی۔

فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی

1664ء فرانسیسی تجارتی مفاد پرستوں کے لیے ایک فال ثابت ہوا۔ اس سال شاہ فرانس لوئی چہار دہم (Luis xiv) کے وزیر مالیات جین بیپٹسٹ کولبرٹ (Baptiste Colbert) نے فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی۔ پہلا تجارتی مرکز سورت میں قائم کیا گیا۔ 1676ء میں ساحل کارومنڈل پر مدراس کے جنوب میں پانڈیچری کی بندرگاہ کو سب سے اہم تجارتی مرکز بنایا گیا۔

1719ء میں سکاٹ لینڈ کے ایک سرمایہ کار جان لا (John Law) کے زیرسرکردگی امریکی اور افریقی نوآبادیاتی کمپنیوں کو ملا کر بڑی ہند کمپنی (Compagnie dee Indes) بنائی گئی۔ اگرچہ دوسرے ممالک میں یہ کمپنی فروغ نہ پا سکی تاہم ڈوما اور ڈویلے جیسے سربراہوں کی سرکردگی میں (1735ء سے 1754ء تک) ہندوستان میں کمپنی نے بے حد فروغ حاصل کیا۔ 1751ء میں انگریز جرنیل رابرٹ کلائیو نے ارکاٹ میں فرانسیسیوں کو شکست دے کر ان کی سرگرمیوں کو محدود کر دیا۔ تاہم 1716ء میں جب پانڈپچری انگریزوں نے چھین لیا تو کمپنی کی ہمت ٹوٹ گئی۔ 1769ء میں ایک فرانسیسی شاہی فرمان سے کمپنی کی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں۔ 1785ء میں ایک نئی فرانسیسی کمپنی نے تجارتی حقوق حاصل کر لیے۔ مگر انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سامنے اور انقلابِ فرانس کے پیش نظر 1794ء میں کمپنی توڑ دی گئی۔

انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی

برصغیر میں اگر کسی قوم نے سلب و نہب اور غصب و استحصال کی مکروہ مثالیں قائم کیں تو وہ انگریز تھے جو ’’آگ لینے آئی اور گھر والی بن بیٹھی‘‘ کے مصداق تدریجاً‌ تجارتی غرض سے اقتدار و حکومت تک پہنچے۔ اگرچہ مشرق کی طرف مغربی استحصالیوں کی نگاہیں ایسی لگیں کہ ان میں سے کوئی بھی پیچھے ہٹنا نہیں چاہتا تھا۔ ڈنمارک، جرمنی، سویڈن، پرتگال، سپین، ہالینڈ، فرانس، انگلستان سب نے للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھا، مگر آخر میں صرف انگلستان ہی میدان میں رہ گیا۔ پرتگیزی، ولندیزی، فرانسیسی اگرچہ مختلف ادوار اور مختلف مناطق میں تجارتی لوٹ مار کرتے رہے مگر انگریز ان سب سے بازی لے گیا۔ تجارت کو استعماری حربے کے طور پر استعمال کیا اور نوآبادیاتی استحصال سے عرصہ دراز تک برصغیر کا ظالم جونکوں کی طرح خون چوستا رہا۔

ملکہ الزبتھ (1558ء تا 1603ء) نے اپنی حکومت کے آخری ایام میں 31 دسمبر 1600ء میں ایک تجارتی کمپنی کو  The Governor and Comany of Merchants of England Trading to the East Indies کے نام سے اجازت نامہ دیا۔ کمپنی کا ایک گورنر اور 24 افسروں پر مشتمل بورڈ آف ڈائریکٹرز تھا، جو اس کے حصے داروں میں سے چنے جاتے تھے۔ انہوں نے ابتداءً‌ (11-1610ء) میں بمبئی میں ڈیرے جمائے۔

1609ء میں شاہ انگلستان جیمز اول (1603ء - 1625ء) کمپنی کو دوسری مغربی کمپنیوں بالخصوص ولندیزیوں، پرتگیزیوں اور فرانسیسیوں سے مقابلے کی اجارہ داری بخش دی۔

1639ء میں کمپنی میں راجہ چندر اگری سے مدراس خرید لیا اور ایک مضبوط قلعہ بنالیا جسے قلعہ سینٹ جارج (Fort Saint George) کہتے تھے۔

بمبئی انگریزوں سے پہلے پرگیزیوں کے پاس تھا۔ جیمز دوم (1685ء - 1688ء) نے 1662ء میں پرتگال کی شہزادی سے شادی کی تو شاہ پرتگال نے بمبئی بیٹی کو جہیز میں دیا۔ 6 سال بعد 1668ء میں شاہ نے بمبئی کا علاقہ کمپنی کو 10 پونڈ سالانہ کرائے پر دے دیا۔ یہ نہایت عمدہ بندرگاہ تھی۔ بعد ازاں سورت کے ساتھ ساتھ کمپنی نے بمبئی کو مضبوط تجارتی کوٹھی بنا لیا۔

جہاں تک کلکتہ کا تعلق ہے، کہا جاتا ہے شاہ جہاں (1627ء - 1658ء) کی بیٹی چراغ کے پاس سے گزری، لباس کے ساتھ جسم بھی جل گیا۔ سورت میں مقیم ایک انگریز ڈاکٹر کو بلایا جس نے کامیاب علاج کیا۔ شہنشاہانہ انداز میں ڈاکٹر سے پوچھا مانگو کیا مانگتے ہو۔ اس نے کہا میری قوم کو بنگال میں تجارتی مراعات دی جائیں۔ بادشاہ نے اجازت دے دی۔ انگریزوں نے دریائے گنگا کے دہانے پرہگلی میں فیکٹری (تجارتی مرکز) قائم کر لی۔ کچھ عرصہ بعد اگرچہ حکومتِ دہلی نے ان کی سرگرمیوں کو مشتبہ سمجھ کر اس فیکٹری کو بند کر دیا، مگر جلد ہی انگریزوں نے گنگا کے دہانے کے قریب تین گاؤں خرید لیے، جن میں ایک کالی گھاٹ تھا جو بعد میں کلکتہ کے نام سے مشہور ہوا۔ 1700ء میں یہاں فورٹ ولیم قائم کیا گیا۔ اس کے علاوہ مشرقی گھاٹ پر مدراس کے جنوب میں Saint David Fort بنایا اور ایک تجارتی مرکز بمقام مسولی پٹم بنا لیا گیا۔ ان مراکز کو انگریزی فیکٹریاں اور تجارتی کوٹھیاں کہتے تھے۔

(1650ء - 1655ء) میں کمپنی نے دوسری انگریز حریف کمپنیوں کو اپنے اندر مدغم کر لیا۔ چارلس دوم (1660ء - 1685ء) کے زمانے میں کمپنی کو بہت با اقتدار بنا دیا گیا۔ 1689ء میں مدراس، بنگال اور بمبئی کی پریزیڈنسیوں کی انتظامی تشکیلِ نو کی گئی۔ 1698ء میں حکومتِ انگلستان نے کئی دوسری تجارتی کمپنیوں کو اجازت دے دی کہ وہ ایک (New Company) بنا لیں۔ تاہم 1702ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ایک قانون بنا کر نئی اور پرانی دونوں کمپنیوں کو ملا کر Company of Merchants of England Trading to the East Indies کا نام دیا۔ اس مقصد کے لیے منشور میں ترامیم کی گئیں۔

جب رابرٹ کلائیو نے 1751ء میں فرانسیسیوں کو ارکاٹ میں شکست دے کر ان کی کمر ہمت توڑ دی تو انگریزی ایسٹ انڈیا کمپنی کی دھاک بیٹھ گئی۔ بنگال میں علی وردی خان کا بیس سالہ نواسہ سراج الدولہؒ اسلامی حکومتِ ہند کی نگاہوں کا مرکز تھا۔ اس نے انگریزوں کو کلکتہ میں قلعہ بندیوں سے روکا تو کمپنی نشہ دولت و اقتدار میں مست تو تھی ہی، بڑا متکبرانہ جواب دیا۔ اس پر مرشد آباد اور کلکتہ کے درمیان پلاسی کے مقام پر 23 جون 1757ء کو گھمسان کا رَن پڑا۔ میر جعفر غدار انگریز کمان دار لارڈ کلائیو کے ساتھ مل گیا۔ نواب سراج الدولہؒ کو شکست ہوئی۔ میر جعفر کے بیٹے میرن نے اپنے ناپاک ہاتھوں سے اسے جام شہادت پلایا۔ اس کے صلے میں میر جعفر کو مرشد آباد کا نواب بنا دیا گیا۔

جعفر از بنگال و صادق از دکن
ننگِ ملت، ننگِ دین ننگِ وطن

اس نے پلاسی کی جنگ میں کامیاب ہونے پر انگریزوں کو 20 پرگنے کا علاقہ بخش دیا۔ ٹیکس معاف کر دیے۔ اس غدار کو 1661ء میں حکومت سے ہٹا دیا گیا۔ اس کے داماد میر قاسم کو برسر اقتدار لایا گیا مگر وہ بھی انگریزی خواہشات زراندوزی پوری نہ کر سکا۔ اس نے شجاع الدولہ نواب اودھ اور دہلی کے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی (1759ء-1806ء) سے مدد طلب کی۔ بکسر کے مقام پر 1764ء میں میجر منرو اور اتحادی افواج (میر قاسم، شجاع الدولہ اور شاہ عالم) کے درمیان سخت معرکہ ہوا۔ جس میں اتحادیوں کو شکست ہوئی۔

ادھر کلائیو (1765-1767ء) بنگال کا گورنر بنا کر انگلستان میں دوبارہ بھیجا گیا۔ معاہدہ الٰہ آباد کے نام سے ایک معاہدہ ہوا۔ شجاع الدولہ کو اودھ واپس دے دیا گیا۔ مگر تاوانِ جنگ وصول کیا گیا۔ شاہ عالم کو دو آبہ (جمنا اور گنگا کا درمیانی علاقہ دے دیا گیا) 25 لاکھ سالانہ الاؤنس دیا جانے لگا۔ اس کے عوض شاہ عالم ثانی نے انگریزوں کو دیوانی کا حق دے دیا۔ یعنی بنگال، بہار، اڑیسہ کے سارے محاصل کمپنی وصول کرنے لگی۔ یوں ان تجارت کے بھیس میں سیاسی و معاشی استحصالیوں نے ہندوستان کی اقتصادی شہ رگوں پر اپنے خونی پنجے گاڑ دیے۔

ادھر پانڈیچری میں 1761ء میں فرانسیسیوں کو شکست دینے کی وجہ سے اب تاجروں کے بھیس میں انگریز غاصب پوری طرح ہمہ مقتدر بن بیٹھے تھے۔ 1773ء میں حکومت انگلستان نے انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے اور ملک پر باقاعدہ حکومت کے لیے ایک گورنر جنرل کا تقرر کر دیا۔ وارن ہیسٹنگز (Warran Hastings) ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بنا۔ 1787ء میں انڈیا ایکٹ کی رو سے برطانوی حکومت میں ایک محکمہ قائم کر دیا گیا۔ اس محکمے کا کام یہ تھا کہ برطانوی حکومت کمپنی کے ہندوستانی معاملات کا سیاسی، فوجی اور مالی انتظام کرے۔ 1813ء میں حکومتِ برطانیہ نے کمپنی کی ہندوستانی تجارت کی اجارہ داری ختم کر دی۔ 1833ء میں چینی تجارت کی اجارہ داری بھی ختم کر دی گئی۔

1799ء تک کمپنی تجارتی مقاصد سے کہیں آگے گزر کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کر رہی تھی۔ جس قوت سے انگریز خوفزدہ تھا وہ میسور کی ریاست تھی، اس میں پے بہ پے چار جنگیں لڑی گئیں۔ پہلے سلطان حیدر علیؒ دین و وطن کی آبرو کے لیے برسرِ پیکار رہا۔ بعد ازاں اس کا عظیم فرزند فتح علی ٹیپوؒ نبرد نبرد آزما ہوا۔ میسور کی چوتھی جنگ میں انگریز نے بمبئی اور مدراس کی اپنی ساری عسکری طاقت سرنگا پٹم میں ڈال دی۔ جنرل ہیرس (Harris)،  جنرل ویلزلی (Wellsely) اور جنرل بیرڈ (Baird) نے اپنی تمام فوجی قوتیں جنگ میں جھونک دیں۔ 

بقول اقبال ’’ترکش ما را خدنگ آخرین‘‘ (سلطان فتح علی ٹیپوؒ) مردانہ وار لڑا۔ وہ عزم و ہمت کی تصویر بنے کھلا میدانِ جنگ چھوڑ کر سرنگا پٹم میں محصور ہوا مگر آخر لڑتے لڑتے جال جان آفریں کے سپرد کر دی۔ یہ کمپنی کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اسی دن انگریز جنرل پکار اٹھا تھا۔ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد ہندوستان براہ راست تاجِ برطانیہ کے تحت آگیا۔ اور ساری حکومتی ذمہ داریاں برطانوی بادشاہت نے خود سنبھال لیں تو کمپنی کے 2400 فوجی ملازمین کو انگریزی فوج میں ضم کر دیا گیا۔ یکم جنوری 1874ء کو کمپنی مکمل طور پر ٹوٹ گئی اور  [1873] East Indies Stock Dividend Redemption Act کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔

(اپریل ۱۹۹۷ء)

اپریل ۱۹۹۷ء

جلد ۸ ۔ شمارہ ۲

پچاس سالہ تقریبات اور ہمارا قومی طرزِ عمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

خاندانِ ولی اللّٰہی کی دینی خدمات
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

ولی اللّٰہی خاندان کی سیاسی جدوجہد
مولانا نجم الدین اصلاحی

امام ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے دور کے سیاسی حالات
ڈاکٹر محمد مظہر بقا

ایسٹ انڈیا کمپنی
پروفیسر غلام رسول عدیم

ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار پر کیسے قبضہ کیا
میڈیا

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مطبوعات

شماریات

Flag Counter