تحصیلِ علم میں مشغول حضرات کے لیے بعض آداب و ضروریات کا بیان مقصود ہے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا فرمان ملاحظہ ہو:
قل هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون إنما يتذكر أولو الألباب۔ (زمر: آیت ۹)
’’اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) !آپ کہہ دیجئے کیا برابر ہیں وہ لوگ جو جانتے ہیں (یعنی جو صاحب علم ہیں) اور وہ لوگ جو نہیں جانتے (یقیناً یہ برابر نہیں ہو سکتے) بے شک نصیحت تو وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و خرد ہیں۔‘‘
حقیقتِ حال یہ ہے کہ زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصود اور نصب العین انسان کے سامنے ضرور ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور مہمل بات ہوگی اور پھر اس کے ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے کہ زندگی جدوجہد و تحصیل علم سے ہی پوری ہو سکتی ہے ؎
زندگی جہد ست و استحقاق نیست جز بعلم انفس و آفاق نیست (اقبال)
اور انسانیت ہمیشہ علم کی روشنی میں ہی ترقی کرتی ہے، اس کے بغیر ترقی کا تصور ہی ممکن نہیں۔ چنانچہ امام بخاریؒ صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
انما العلم بالتعلم۔
’’علم بغیر سیکھنے کے نہیں آتا۔‘‘
علم سیکھنا پڑتا ہے کہ خود بخود نہیں آتا۔ خود بخود جو عالم بن بیٹھتے ہیں وہ نوابت (خود رو) اور اکثر گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے رہتے ہیں۔ علم جس طرح عمل کے لیے ایک آلہ اور ذریعہ ہے، اسی طرح یہ خود مقصود بالذات شیئ بھی ہے، خصوصاً وہ علم جو ضروریاتِ دین اور حقائق الٰہیہ سے تعلق رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے نمایاں وصف جو آپ نے اپنی ذات مبارکہ کے لیے خود فرمایا ہے وہ ”انما بعثت معلما“ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے معلم بنا کر بھیجا ہے اور آپﷺ کی سب سے بڑی خواہش ”رب زدنی علما“ (اے پروردگار! میرے علم میں ہر آن اضافہ فرما) ہی رہی ہے۔ اربابِ علم کا مرتبہ اور شان حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے ”العلماء ورثۃ الأنبیاء“ علماء حق درحقیقت انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔
ہمارے اسلاف کرام نے علم کی بلندیوں کو سر کیا اور اس کے ساتھ کسی جائز کسب و ہنر سے اباء نہیں کیا۔ ہماری تاریخ کے صدہا قابل فخر رجال علم ہیں، حصاف (جوتے کے ٹانکے لگانے والا) حلوائی سقطی (کباڑیوں کا کام کرنے والا) مغازل (سوت کاتنے والے) اسکاف (موچی) جصاص (چونے کا کام کرنے والا) وغیرہ سینکڑوں ہزاروں ایسے امام اور ارباب علم ہیں جن کے آگے بڑے بڑے ملوک و امراء کی گردنیں ادب و احترام سے خم ہو جاتی ہیں۔ دین اور اہل دین اور مدارس دینیہ (مدارس عربیہ) پر انتہائی غربت کا دور ہے، ہر متعلم اور فکر مند انسان پر ذمہ داریوں کا احساس کس قدر ضروری ہے ؎
فانصر بھمتک العلوم واھلھا ان العلوم قلیلۃ الانصار (شوقی)
’’اپنی ہمت و پوری توجہ سے علوم اور اہل علوم کی مدد کرو، کیونکہ علوم کے مددگار بہت تھوڑے ہیں۔‘‘
مدارس دینیہ اور درسگاہیں اسلامی قلعے ہیں اور دین کی آخری پناہ گاہیں۔ دین پر غربت کا دور دورہ ہے۔ ان قلعوں کو بہت سے غلط کار ہاتھوں نے بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کا احساس نہیں کر سکتے تو پھر خدا ہی حافظ ہے۔ علم دین کی ہمہ گیر وقعت اور اس پر عمل اور اس کے لیے باطنی اخلاص اور دیگر ضروری عوامل کا اس کے ساتھ ہونا بہت ضروری امر ہے۔
متعلمین کے لیے سب سے پہلے تصحیح نیت ضروری اور اہم کام ہے، تاکہ وہ خود بھی اور دوسرے بھی ان سے فائدہ اٹھا سکیں اور اس میں مندرجہ ذیل باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
(الف) خروج من الجہل: علم کا مقصد یہ ہے کہ انسان جہالت کی تاریکی سے باہر نکل آئے اور علم کی روشنی میں سفرِ حیات طے کرے۔ حضرت علیؓ کا قول ہے:
اللھم انی اعوذ بک من ان اقول فی العلم بغیر علم۔
’’اے اللہ ! میں تیری ذات کے ساتھ پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں علم کے سلسلہ میں بغیر علم کے کوئی بات کہوں۔‘‘
(ب) نفع الخلائق: علم سے مقصد یہ ہو کہ اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
خیر الناس من ینفع الناس۔
’’انسانوں میں بہتر انسان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے۔‘‘
اور یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
اعزل الاذى عن طريق المسلمین۔
’’مسلمانوں کے راستے سے تکلیف دینے والی باتوں کو ہٹاؤ۔‘‘
(ج) احیاء العلم: علم کو زندہ کرنا اہم مقصد ہے۔ علم کو ترک کرنے سے ضیاعِ علم ہوتا ہے۔ ایک اثر میں آتا ہے:
تعلموا العلم قبل ان یرفع ورفعہ ذھاب العلماء۔
’’علم کو سیکھ لوقبل اس کے کہ وہ اٹھا لیا جائے اور علم کا اٹھایا جانا یہ ہے کہ اچھے علماء نہ رہیں۔‘‘
(د) نیۃ العمل: علم سے عمل کرنے کی نیت اور ارادہ ہو، کیونکہ بزرگان دین کا قول ہے:
العلم بلا عمل وبال و العمل بلا علم ضلال۔
’’علم بغیر عمل کے وبالِ جان ہے اور عمل بغیر علم کے گمراہی و ضلالت ہے۔‘‘
(۲) اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی طلب بھی مقصود ہو۔ علم سے محض تحصیلِ دنیا ہی غرض نہ ہو۔
(۳) تحصیل علم کے دوران ہر متعلم کے لیے جس چیز کا اہتمام سب سے زیادہ ضروری ہے وہ نماز ہے۔ اس کا خاص اہتمام لازم ہے۔ حضرت امیر المومنین عمرؓ فرماتے ہیں:
ان من اھم امورکم عندی الصلوة۔ (موطا)
’’تمہارے سب کاموں میں سے اہم کام میرے نزدیک نماز ہے۔‘‘
ترکِ صلوٰۃ سے حرمانِ علم ہوگا، علم کا حقیقی فائدہ ایسا شخص حاصل نہ کر سکے گا۔
(۴) علم میں بخل بھی روانہیں۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے مرفوعاً
”تناصحوا فی العلم ولا یکتم بعضکم بعضا فان خیانۃ الرجل فی علمہ اشد من خیانۃ مالہ وان اللہ سائلکم عنہ“
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علم میں ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کرو اور تم سے بعض بعض سے چھپائیں نہیں، کیونکہ کسی شخص کی خیانت علم میں زیادہ شدید ہے بہ نسبت اس کی خیانت کے مال میں اور بے شک اللہ تعالیٰ تم سے اس کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔‘‘
اور حضرت عبداللہ بن مبارکؒ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص علم میں بخل کرے گا تو تین آفتوں میں سے کسی نہ کسی میں مبتلا ہوگا۔ پہلی آفت یہ ہے کہ وہ مر جائے گا (اور علم سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا) دوسری آفت یہ ہے کہ سلطان جائر (یعنی ظالم و جابر حکمران) کے فتنہ میں مبتلا ہوگا۔ تیسرا فتنہ یہ ہے کہ علم کو بھول جائے گا۔
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان کہ جس سے کوئی علم کی بات پوچھی گئی اس نے اس کو ظاہر نہ کیا جبکہ ضرورت مند کو اس کی ضرورت تھی تو قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ (ترمذی)
(۵) احترام واجب: اکابر و اسلاف، استاذ و معلم، مسجد اور کتاب کا ادب ضروری ہے۔ اگر ان کا ادب نہیں کرے گا تو علم کی برکت سے محروم ہوگا ؎
قم للمعلم وفہ تبجیلا کاد المعلم ان یکون رسولا (شوقی)
’’کھڑے ہو استاذ اور معلم کا ادب بجا لاؤ۔ معلم تو رسولؐ کا نائب اور جانشین ہے۔‘‘
کتاب کو زمین پر نہ پھینکیں۔ علم اور کتاب کی عزت کر۔ بیت الخلاء وغیرہ سے نکل کر بغیر وضو یا کم از کم بغیر ہاتھ دھوئے کتاب کو نہ چھوئے ؎
با ادب شو با ادب بے ادب محروم ماند از فضل رب
(۶) لایعنی باتوں میں مشغولیت علم کے طلب گاروں کے لیے بہت مضر اور مہلک ہے۔ اگر ممکن ہے تو فارغ وقت میں حالاتِ وقت کا مطالعہ کرے، اخبارات و رسائل، کتب وغیرہ دیکھے جس سے ذہنی نشوونما ہوتی ہے اور فکری بالیدگی انسان میں پیدا ہوتی ہے۔
(۷) مجادلہ فی العلم مکروہ ہے، اس سے بہت بچنے کی کوشش کرے اور اثناء تعلیم کسی کے ساتھ خصومت و جدال نہ کرے۔ ویسے بھی عند اللہ جھگڑالو انسان پسندیدہ نہیں ہوتے۔ ”الالد الخصام“ منافق کی صفت میں آیا ہے۔ الاجدل متعصب لوگوں کے بارے میں وارد ہوا ہے۔
(۸) ہر ایک طالب علم کو اپنی نظر میں وسعت پیدا کرنی چاہیے اور جیسا کہ بزرگان دین کا قول ہے ”أصل المنافرة العجب“ خود پسندی تنافر کا سبب بنتی ہے۔ جس سے خصومت اور منازعت پیدا ہوتی ہے۔ منازعت کی صورت میں رفق و نرمی اختیار کرے۔ اگر تواضع اختیار کرے گا تو ائتلاف و مودت پیدا ہو گی، جیسا کہ بزرگوں نے کہا ہے ”اصل الاتحاد التواضع“ اتحاد و اتفاق کی اصل تواضع و انکساری ہے۔
طالب علم حتی الوسع لوگوں کے ساتھ مخالطت کم کرے۔ یہ چیزیں عائق عن العلم یعنی علم حاصل کرنے سے روکنے والی ہیں۔
(۹) کم سے کم گزران پر راضی ہونا بھی ضروری ہے، لیکن اکل و شرب و نوم یعنی کھانے پینے اور نیند میں بقدر ضرورت حظ نفس کو ترک نہ کرنا چاہیے، لیکن صیانتِ علم ضروری ہے، جیسا کہ دارمی کے اثر میں آتا ہے:
ای شیئ اخرج العلم عن قلوب العلماء قال الطمع۔
’’کہ علماء کے قلوب سے علم کو کس چیز نے نکالا ہے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ طمع اور لالچ نے علم کو ان کے قلوب سے نکالا ہے۔‘‘
(۱۰) طلباء کے لیے سبق کا تکرار بہت ضروری امر ہے، اپنے ساتھیوں کے ساتھ یا اکیلا۔ جیسا کہ حدیث میں صحابہ کرامؓ کے بارے میں وارد ہوا ہے:
یحدثنا و نحن نتذاکر بیننا۔ (الحديث)
’’کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے حدیث بیان فرماتے تھے اور پھر ہم لوگ آپس میں اس کا تکرار و مذاکرہ کرتے رہتے تھے۔‘‘
مفسرین کرامؒ نے بھی اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
يا يحيى خذ الكتب بقوة اى بالدرس بجذ و مواظبۃ۔
’’حضرت یحییٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے یحییٰ! پکڑ اس کتاب (تورات) کو مضبوطی سے، اس کو پڑھو پڑھاؤ پوری کوشش اور ہمیشگی سے۔‘‘
”الدرس هو الغرس“ درس زمین میں پودا گاڑنے کو بھی کہا جاتا ہے۔ ابن ابی شیبہ اور بیہقی کی یہ روایت مشہور ہے:
اٰفۃ العلم النسیان۔
’’ کہ علم کے لیے آفت فراموش کر دینا ہے۔‘‘
(۱۱) محنت کی شدید ضرورت ہے۔ مطالعہ کی کثرت جس قدر ممکن ہو جیسا کہ حضرت امام ابویوسفؒ کا قول ہے:
العلم لا یعطیک بعضہ حتی تعطیہ کلک۔
’’یعنی علم تجھ کو اپنا بعض حصہ بھی نہیں دے گا جب تک تم پورے کے پورے اپنے آپ کو اس کے سپرد نہ کر دو۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
لا یضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی۔
’’بے شک اللہ تعالیٰ تم سے کسی مرد یا عورت کے عمل اور اس کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔‘‘
امام یحییٰ ابن ابی کثیرؒ جو تابعین میں سے تھے محدثین نے ان کا یہ کلام نقل کیا ہے:
میراث العلم خیر من میراث الذھب والنفس الصالحۃ خیر من اللؤلؤ ولا یستطاع العلم براحۃ الجسم۔
’’علم کی میراث سونے (یعنی مال) کی میراث سے بہتر ہے اور ایک صالح نفس موتیوں سے زیادہ قیمتی اور بہتر ہے اور علم حاصل نہیں کیا جا سکتا جسم کی راحت کے ساتھ۔‘‘
جب کہ کوئی شخص اپنے جسم کو مشقت میں نہیں ڈالے گا اور محنت نہیں کرے گا علم سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا۔
امام شعبیؒ کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اقصائے شام سے یمن تک ایک کلمہ کے لیے سفر کرے تو اس کا یہ سفر ہر گز ضائع نہ ہوگا۔
(۱۲) تنظیم کا خیال رکھنا طلبہ کے لیے ازحد ضروری ہے، بدنظمی نہ اللہ کے نزدیک اچھی ہے نہ مخلوق کے نزدیک۔ ہمیشہ تنظیم و ڈسپلن سے رہنا ضروری ہے۔
(۱۳) وقت کی قدر و قیمت کو پہچاننا طالب علم کے لیے ضروری ہے۔ حضرت امام شافعیؒ کا یہ قول مشہور ہے:
الوقت سيف قاطع۔
’’وقت ایک قاطع تلوار کی طرح ہے۔‘‘
؎ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
؎ غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی گردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹا دی
شہری یا مقامی لوگوں کے ساتھ تعلق بہت کم رکھیں یا بالکل نہ رکھیں۔
(۱۴) مجالس علم سے فائدہ اٹھانا: طلباء کے لیے ضروری ہے کہ ہمیشہ مجالس اربابِ علم سے فائدہ اٹھاتے رہیں۔ ایک اثر میں آتا ہے:
من نام عند المجلس فقد خاب من رحمۃ اللہ و کان حبیب الشیطان۔
’’جو علم کی مجلس میں سو گیا تو یقیناً اللہ کی رحمت سے ناکام ہوا اور شیطان کا دوست بنا۔‘‘
(۱۵) تقریر و تحریر کی مشق: طلباء کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوران تعلیم تقریر کی مشق بھی کرتے رہیں اور تحریر میں بھی کوشاں رہیں۔ ان دونوں میں کوتاہی کے نتائج سخت مضر ہیں۔
(۱۶) علوم جدیدہ کی طرف بھی بقدر ضرورت رغبت رکھنا ضروری ہے۔ دیکھو حضرت عمرؓ نے یہ فرمایا ہے:
تعلموا من النجوم مقدار ما تعرفون بہ امر قبلتکم و تعلموا من انساب ما تصلون بہ ارحامکم۔
’’ستاروں اور نجوم کے احوال میں سے سیکھنا تمہارے لیے ضروری ہے جس سے تم اپنے قبلہ کی سمت کو صحیح طریق سے پہچان سکو اور انساب (تاریخ) میں سے اتنا حصہ بھی تمہارے لیے سیکھنا ضروری ہے جس سے تم صلہ رحمی کر سکو (اپنے قریب و بعید اعزہ و اقرباء کو پہچان سکو، جن کے ساتھ صلہ رحمی کرنی اور ان کا حق ادا کرنا تمہارے لیے ضروری ہے)‘‘
(۱۷) جب اذان ہو جائے تو فوراً اٹھ کھڑے ہوں، خواہ مسجد میں ہوں یا کمرہ میں سبق کا تکرار کر رہے ہوں یا کسی اور شغل میں مصروف ہوں۔ ہر قسم کے اشغال سے برخاست ہو کر صرف نماز کی فکر کریں۔ جب مسجد میں لوگ نماز پڑھ رہے ہوں اونچی آواز سے ہرگز تکرار نہ کریں۔ لڑائی جھگڑا اور بداخلاقی کی کوئی بات بھی طلباء کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔ پر امن زندگی کے عادی بن کر اور مہذب انسانوں کی طرح رہیں اور اگر کسی کے ساتھ منازعت یا مخاصمت ہو جائے تو خود بخود فیصلہ نہ کرنے لگ جائیں، یہ بد تہذیبی کی بات ہے۔ جس ادارہ میں آپ رہتے ہیں اس ادارہ کے مہتمم، ناظم، صدر یا کسی ذمہ دار ممبر کے سامنے اس کی شکایت کریں اور اس کا فیصلہ حاصل کریں۔ اگر اسباق میں کوئی شکایت ہو تو ادارہ کے مقرر کردہ ناظم تعلیمات یا سربراہ سے رابطہ قائم کر کے اس کو حل کریں۔
بغیر مطالعہ کے سبق نہ پڑھیں۔ ایک دفعہ پڑھنے کے بعد تکرار کرنا اور پڑھتے وقت غور سے سمجھنے کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے۔
زائد وقت میں کوئی کمال حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ کھیل و تفریح کے بجائے خارجی مطالعہ کریں۔ کوئی زبان سیکھیں، خط کی اصلاح کریں یا اگر قرآن مجید کے الفاظ درست نہیں ادا کر سکتے تو اس کے لیے کوشش کریں۔ لہو و لعب تو شیطانی کام ہیں اور دنیا کی کافر قوموں کا شیوہ ہے، اسلام اور دین کے ساتھ اس کو کوئی مناسبت نہیں۔ جسمانی ورزش یا دفاعی مشق کرنا یہ اور چیز ہے۔
بغیر شرعی ثبوت کے کسی پر اتہام نہ لگائیں۔ تہمتیں لگانا یہ مومن کا کام نہیں۔ جس مسجد، مدرسہ یا ادارہ میں آپ رہتے ہیں اس کے سامان کی حفاظت آپ کے ذمے لازم ہے۔ یہ قومی اور ملی امانت ہے، کتابیں ہوں یا کوئی اور سامان اس کی حفاظت آپ کے ذمہ ضروری ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:
المکر والخدیعۃ والخیانۃ فی النار۔
’’مکر، دھو کہ، خیانت یہ سب دوزخ میں لے جانے کا باعث ہیں۔‘‘ (الحدیث)
دو چیزیں ایسی ہیں جو علم کے لیے انتہائی خطرناک اور مضر ہیں۔ ایک عملی سیاست میں حصہ لینا، اس سے ہمیشہ گریز کرنا چاہیے اور دوسرا معاصی اور گناہ سے بچنا بھی ضروری ہے ؎
شکوت الی وکیع سوء حفظی فاوصانی الی ترک المعاصی
امام شافعیؒ کہتے ہیں میں نے امام وکیعؒ کے سامنے اپنے حافظے کی کمزوری کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ گناہ ترک کر دو۔
آداب معاشرت کے سلسلہ میں طلباءِ دین کے لیے رہنا سہنا، اکل و شرب، قیام و قعود، اپنے کمرے اور مکان کی صفائی، برتن، کپڑے، لباس کی صفائی، وضو اور طہارت کا پوری طرح اہتمام کرنا، مسواک کا اہتمام، کتب و سامان کی حفاظت، گالی گلوچ سے بچنا، قوت برداشت اور حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنا، امانت، دیانت، صدق و سچائی، بڑوں کا احترام، چھوٹوں پر شفقت نہایت ضروری امور ہیں۔
من لم یؤقر کبیرنا ولم یرحم صغیرنا فلیس منا۔
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جس نے ہم سے بڑوں کا احترام نہ کیا اور چھوٹوں پر رحم نہ کیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
ایک دوسرے کے جذبات کا احترام ضروری ہے انجمن سازی و اجتماعیت سے، اگر یہ مضر نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ طلباء اس میں انجمن تشکیل دے کر صدر، ناظم وغیرہ مقرر کر کے اپنے علمی اشتغالات کو ترقی دے سکتے ہیں۔
طلباء کرام کو اپنا مقصود ہر وقت اپنے سامنے نگاہ میں رکھنا چاہیے۔ لیکن دین اس سے بھی اہم ہے، اس کا ہر وقت خیال رکھیں۔ لوگوں کے ساتھ نہایت خوش اخلاقی سے پیش آئیں اور لوگوں کے حسن ظن کو جو وہ اہل علم و اہل دین کے لیے اپنے دلوں میں رکھتے ہیں ہرگز ضائع نہ کریں۔ عوام کے سامنے ہرگز ایسی بات نہ کریں جس سے وہ متنفر ہو جائیں اور بلا ضرورت بازاروں میں گھومنا یقیناً شرفاء کا کام نہیں ہے۔ تحصیلِ علم کا اصلی وقت زندگی کا ابتدائی دور ہوتا ہے، حضرت عمرؓ کا فرمان ہے:
تعلموا قبل ان تسودوا۔
’’کسی ذمہ داری کے پڑ جانے سے پہلے پہلے علم حاصل کر لو۔‘‘
دین و ضروریات دین سے با خبر ہو نا، صدق و امانت کو اپنا شعار بنانا، ادب کو قائم رکھنا اور اپنے صحیح اعتقاد و نظریات پر قائم رہنا بہت ضروری امر ہے ؎
اس دور میں سب مٹ جائیں گے ہاں رہ جائے گا وہ جو قائم اپنی راہ پر اور پکا اسی ہٹ کا
علم وفضل کی دستار کو تھامنا بڑا مشکل کام ہے۔ جب تعلیمی اداروں سے فارغ ہو کر یہ حضرات عوام کے سامنے جاتے ہیں تو اس دستار کو تھامنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اسی کو لوگ اچھالتے ہیں ؎
بزمِ جہاں میں سنبھل کے رکھنا قدم جہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں
علم صحیح کی روشنی نیت صادق اور عمل صالح کے ساتھ اگر آپ میدان عمل میں پہنچیں گے تو یقیناً آپ کی پذیرائی ہو گی۔ ورنہ قدم قدم پر آپ کو احساس ہوگا کہ ؎
علم در تحصیل دانش رفت و نادانم ہنوز کارواں بگذشت و من در فکر سامانم ہنوز
سچائی ہی ایک ایسی چیز ہے جو عوائق کا مقابلہ کر سکتی ہے۔
الصدقُ سیف اللہ ما وضع علی شیئ الا قطعہ۔
’’سچائی ایک اللہ تعالیٰ کی ایسی تلوار ہے جس پر اس کو دیکھیں/ رکھیں گے اس کو کاٹ دے گی۔ اس کے سامنے کوئی چیز ٹک نہیں سکتی۔‘‘
آپ کو پورا اندازہ ہو گا کہ عزت نفس اور صیانتِ علم کس قدر مشکل امور ہیں۔ اسی لیے دانش وروں نے کہا ہے کہ ؏
یک ذره درد دل از علم فلاطون بہ
ناکامیوں اور محرومیوں کے وقت آپ کا بڑا امتحان ہوگا۔ اگر آپ نے اپنے آپ کو عوام کے لیے مفید بنایا اور خلق خدا کو نفع پہنچایا اور غم کی حقیقت سے آپ باخبر ہوئے تو زندگی کی دشوار گزار گھاٹیاں بھی آپ سر کر لیں گے اور آپ کو اس کا ہرگز افسوس نہیں ہوگا کہ زندگی کی خوش حالیوں اور اسباب زیست کی فراوانی اور عیش و تنعم سے آپ محروم ہیں۔ یہ حیات استعمار تو بہرحال گزر جائے گی ؎
زندگی سو سال ہو کہ اک پل گزر جاتی ہے شانے پر کمبلی ہو یا شال گزر جاتی ہے مالداروں کی باقبال گزر جاتی ہے اور ہم غریبوں کی بہرحال گزر جاتی ہے (امجد)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی حضرت معاذ بن جبلؓ نے علم کی حقیقت و اصلیت سے اس طرح روشناس کرایا ہے:
عليكم بالعلم فان طلبہ لله۔ ۔ ۔ ۔ الى مایھم۔
(ترجمہ) ”حضرت معاذ نے کہا ہے کہ علم کو اپنے اوپر لازم پکڑو، کیونکہ اس علم کا طلب کرنا اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت ہے اور اس علم کو پہچاننا خشیت یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ہے اور علم سے بحث کرنا جہاد ہے اور اس علم کو کسی ایسے شخص کو پڑھانا جو اس کو نہیں جانتا صدقہ ہے اور اس علم کا باہم مذاکرہ کرنا تسبیح ہے اور اسی علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پہچانا جا سکتا ہے اور اسی کی عبادت کی جا سکتی ہے اور اسی علم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی بزرگی و عظمت اور اس کی توحید کو معلوم کیا جا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس علم کے ذریعہ بہت سی اقوام کو بلند کر دیتا ہے اور ان کو دوسرے لوگوں کے لیے قائد اور پیشوا بنا دیتا ہے اور لوگ ان کے ساتھ ہدایت پاتے ہیں اور ان کی رائے کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ “
یہ تمام دینی علوم کی خصوصیات ہیں جس کے ذریعہ خدا شناسی و خود شناسی انسان کو نصیب ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعہ انسان خدا تعالیٰ کے حقوق اور انسانوں کے حقوق ادا کرنے کا اہل بن سکتا ہے اور تمام انسانیت کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور فلاح دارین حاصل کر سکتا ہے۔ والله الموفق والمعين