جناب وزیر اعظم! زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئے!

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز پرائم منسٹر سیکرٹریٹ اسلام آباد میں پندرہویں قومی سیرت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ

’’نفاذِ اسلام ہمارا مشترکہ خواب ہے اور اس کی عملی تعبیر ہماری مشترکہ آرزو ہے۔ اس کے لیے ہمیں مشترکہ جدوجہد کرنی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ

’’ہمیں منزل اس وقت ملے گی جب سیاست دین کے تابع ہو گی نہ کہ دین سیاست کے۔‘‘ (بحوالہ نوائے وقت لاہور ۔ ۲۴ ستمبر ۱۹۹۱ء)

نفاذِ اسلام کے حوالہ سے وزیر اعظم کا یہ ارشاد اس قدر حقیقت پسندانہ ہے کہ اس پر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن یہ روایت قومی سطح پر ہماری بدنصیبی کا حصہ بن چکی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمران جب کسی سیرت کانفرنس، علماء کانفرنس، مشائخ کانفرنس، یا مذہبی تقریب کے سٹیج پر ہوتے ہیں تو اپنے روز مرہ کے معاملات، سرکاری پالیسیوں، حکومتی فیصلوں اور گروہی طرز عمل کے دائروں سے وقتی طور پر نکل کر ایسے تخیلاتی ماحول میں پہنچ جاتے ہیں جس کا ان کی عملی زندگی سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اور جب اس تخیلاتی فضا سے باہر آ کر اپنے عملی ماحول میں داخل ہوتے ہیں تو ان سٹیجوں پر کہی گئی باتوں کی فائیل آئندہ کسی ایسے ہی سٹیج کے لیے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا یہی دوہرا کردار قوم کے لیے مسلسل عذاب کا باعث بنا ہوا ہے لیکن اس میں تبدیلی کے سرِدست کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

میاں محمد نواز شریف کی حکومت نفاذِ اسلام کے وعدہ کے ساتھ برسرِ اقتدار آئی ہے لیکن سینٹ کے منظور کردہ علماء کے متفقہ پرائیویٹ شریعت بل کے ساتھ جو حشر اس حکومت کے ہاتھوں ہوا ہے وہ نفاذِ شریعت کی جدوجہد کے باشعور کارکنوں کو ایک لمبے عرصے تک نہیں بھولے گا۔ لیکن ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ سرکاری شریعت بل کو پارلیمنٹ سے منظور کراتے ہوئے اس کی دفعہ ۳ میں قرآن و سنت کی بالادستی کو ’’سیاسی نظام اور حکومتی ڈھانچے کے متاثر نہ ہونے‘‘ کے ساتھ مشروط کر کے قرآن و سنت کی بالادستی کا جو مذاق اڑایا گیا ہے اس کی سیاہی ابھی خشک نہیں ہوئی کہ وزیر اعظم سیاست کو دین کے تابع کرنے کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔

کیا ہم جناب وزیر اعظم سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ جب پارلیمنٹ میں سرکاری شریعت بل کے ذریعہ قرآن و سنت کی بالادستی کو محدود کرنے اور سود کو تحفظ دینے کے اقدامات ہو رہے تھے اس وقت ان کی ’’سیاست کو دین کے تابع کرنے‘‘ کی یہ سوچ کون سے ڈیپ فریزر میں منجمد پڑی تھی؟

معاف کیجئے! قوم اور دینی حلقے نفاذِ اسلام کے حوالہ سے حکمرانوں سے قطعی طور پر مایوس ہو چکے ہیں اور انہیں اس سلسلہ میں حال یا ماضئ قریب کے حکمرانوں سے کسی خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔ اب ہماری ان سے صرف یہ درخواست ہے کہ ’’نفاذِ اسلام کو مشترکہ خواب قرار دینے‘‘ اور ’’سیاست کو دین کے تابع کرنے‘‘ جیسی خوشنما اور دلفریب باتیں کر کے دلوں کے زخم نہ کریدیے اور ان زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئیے، آپ کا اس ملک کے عوام اور دینی حلقوں پر یہی سب سے بڑا احسان ہو گا۔

علماء اور دینی کارکنوں کا قتلِ عام

گزشتہ دنوں جھنگ میں مولانا سید صادق حسین شاہؒ فاضل دیوبند اپنے چار رفقاء سمیت وحشیانہ فائرنگ کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کر گئے۔ لاہور میں سپاہ صحابہؓ کے جلسہ میں بم کے دھماکے سے چار کارکن شہید ہو گئے۔ اور نوائے وقت کے بزرگ کالم نویس میاں عبد الرشید کو ان کی رہائشگاہ پر فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

علماء اور دینی کارکنوں کے قتل کا یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری ہے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ، مولانا احسان اللہ فاروقیؒ، مولانا حبیب الرحمٰن یزدانیؒ، مولانا حق نواز جھنگویؒ، مولانا ایثار القاسمیؒ، میاں اقبال حسینؒ، مولانا عبد الصمد آزاد، اور حافظ عتیق الرحمٰن سلفی جیسے حضرات اس قتلِ عام کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن فضا میں سازش کی بو سونگھ لینے والی پنجاب پولیس ابھی تک ان علماء اور دینی کارکنوں کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیے کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکی۔

ہم جھنگ اور لاہور کے شہداء کی مغفرت اور بلندئ درجات کے لیے دلی دعا کے ساتھ ان کے پسماندگان کے ساتھ رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں اور حکمرانوں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے ہوئے متوجہ کرتے ہیں کہ قاتلوں کی گرفتاری اور علماء و دینی کارکنوں کے مسلسل قتل عام کی روک تھام کے لیے سنجیدگی کے ساتھ پیشرفت کیے بغیر امنِ عامہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور بھارت کے ممتاز عالمِ دین حضرت مولانا معراج الحقؒ گزشتہ دنوں انتقال کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ انہوں نے ساری زندگی علومِ دینیہ کی تعلیم و تدریس میں بسر کی اور بے شمار تشنگانِ علوم کو سیراب کیا۔

پاکستان کے ممتاز طبیب اور صاحبِ قلم جناب حکیم آزاد شیرازیؒ کا بھی گزشتہ دنوں انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے حلقہ کے خاص آدمیوں میں سے تھے اور ساری عمر اہلِ حق کے ساتھ وابستہ رہے۔

اللہ تعالیٰ مرحومین کو جنت الفردوس میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں، آمین۔

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

(اکتوبر ۱۹۹۱ء)

اکتوبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱

جناب وزیر اعظم! زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئے!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کتب حدیث کی انواع
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حصولِ علم کے لیے ضروری آداب
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

قادیانی مکر و فریب کے تاروپود
حسن محمود عودہ

ذاتِ لازوال
ظہور الدین بٹ

توکل کا مفہوم اور اس کے تقاضے
الاستاذ السید سابق

انسانی بدن کے اعضا اور ان کے منافع
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسان کی ایک امتیازی خصوصیت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

علماء اور سیاستداں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مدرسہ نصرۃ العلوم کے فارغ التحصیل طالب علم کا اعزاز و امتیاز
ادارہ

تلاش

Flag Counter