توکل کا مفہوم اور اس کے تقاضے

الاستاذ السید سابق

حافظ مقصود احمد

(الاستاذ السید سابق کے اس مضمون کا ترجمہ ہمارے رفیق محترم حافظ مقصود احمد صاحب مرحوم نے بطور خاص ”الشريعۃ“ کے لیے کیا تھا۔ آج حافظ صاحب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں، آمین (ادارہ)

اللہ تعالیٰ پر توکل کا مطلب یہ ہے کہ اسی کی ذات پر بھروسہ کریں، اسی پر اعتماد کریں، تمام کام اسے تفویض کریں، ہر حال میں اسی سے مدد مانگیں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ اس کی قضا نافذ ہو کر رہے گی اور ضروریات زندگی مثلاً کھانا پینا، پہننا، رہنے کے لیے مکان کا ہونا، دشمن سے بچاؤ کی تدبیر کرنا یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کرتے آئے ہیں۔ اور توکل کا محل قلب ہے۔ امام قشیریؒ فرماتے ہیں:

” ظاہر میں حرکت اور کوشش قلب کے توکل کے منافی نہیں، جبکہ دل میں یہ یقین ہو کہ تقدیر خدا تعالیٰ کا فعل ہے۔ اگر مطلوب شئی نہ مل سکی تو اس کی تقدیر سے ہے اور میسر آ گئی تو یہ اس ذات کی میسر کردہ ہے۔ فان تعسر شیئ فبتقدير، وان تیسر شیئ فبتیسیرہ“۔

انسانی زندگی رنج و الم اور تکالیف سے ہر آن دوچار ہوتی ہے۔ اب اگر انسان ان تکالیف کو دور کرنے کے لیے جدوجہد نہ کرے تو اس کی زندگی بے معنی ہو کر رہ جائے اور دل و جان کو سکون تبھی ملے گا جب اس کا بھروسہ خدا تعالیٰ پر ہو گا، اس کی ذات سے اسے حسن ظن ہو گا، اسی پر اس کا اعتماد ہوگا اور اپنے تمام امور کو اسی کے سپرد کر دے۔

حدیث قدسی میں ہے: ”انا عند ظن عبدی بی وانا معہ حين یذكرنی“

اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل انسانی ضرورت ہے۔ اس سے نہ عالم مستغنی ہو سکتا ہے نہ جاہل، نہ مرد نہ عورت، نہ حاکم نہ محکوم، نہ چھوٹا نہ بڑا۔ ان سب کی حاجات کو وہی ایک ذات پوری کر سکتی ہے، جسے قدرت کامل حاصل ہے۔ تکلیف و حاجت کسی طرف سے بھی ہو وہی ایک ذات ان کی معین و مددگار ہے۔

توکل کی دعوت

اسلام کا مطالعہ کرنے والا محسوس کرے گا کہ توکل کی دعوت بڑے صریح الفاظ میں دی گئی ہے۔ فرمان خداوندی ہے:

وتوكل على الحي الذي لا يموت۔ (الفرقان: ۵۸)
’’اس زندہ ذات پر توکل کرو جسے موت نہیں۔‘‘

ایمان کے ثمرات میں سے ایک ثمرہ تو کل بھی ہے۔

وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔ (پ:۱۳، ابراہیم: ۱۱)
’’اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والوں کے دین دنیا کے تمام امور کا تکفل وہ خود کرتا ہے۔‘‘
ومن يتوكل على الله فهو حسبہ۔ (الطلاق: ۱۳)
’’جو اللہ پر بھروسہ کرے گا تو اللہ اس کے لیے کافی ہے۔‘‘

توکل تمام انبیاءؑ و رسلؑ کا طریقہ ہے۔ وہ سب خدا تعالیٰ کو ہی اپنا ملجا و ماویٰ سمجھتے رہے اور اسی پر بھروسہ کرتے رہے۔ ان کی زبانی قرآن فرماتا ہے کہ وہ ہمیشہ یہی کہتے رہے:

وما لنا ألا نتوكل على الله وقد هدانا سبلنا ولنصبرن على ما اذيتمونا وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون۔ (ابراہیم: ۱۱)
’’ہم بھلا خدا پر توکل کیوں نہ کریں، حالانکہ اسی نے ہمیں ہدایت دی۔ البتہ ہم تمہاری ایذاؤں پر صبر ہی کریں گے اور بھروسہ کرنے والوں کو خدا پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے۔‘‘

غزوہ احد کے بعد جب دشمن پھر مجتمع ہوگئے اور انہیں یہ کہہ کر ڈرایا گیا کہ مشرکین تم پر حملہ کے لیے اکٹھے ہو گئے ہیں تو اس حال میں ان کا سوائے خدا کے کسی پر بھروسہ نہ تھا۔ ان کی اس کیفیت قلبی کی اللہ تعالیٰ نے قدر افزائی فرمائی اور دشمن کو ان سے ہٹا دیا اور خوش خبری کا سماں بندھ گیا۔ قرآن فرماتا ہے:

یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ وَّ اَنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌ اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْم الْوَكِیْلُ فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ (آل عمران: ۱۷۱ تا ۱۷۴)

یعنی لوگوں کے ڈرانے پر وہ ڈرتے نہیں، بلکہ ان کا جواب ”حسبنا الله ونعم الوکیل“ ہوتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان حسن الظن بالله من عبادة الله۔ (ابوداؤد، ترمذي و الحاكم)
’’بے شک خدا تعالیٰ سے حسن ظن رکھنا بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی ہے۔‘‘

ابو ہریرہ رضی الله عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں:

يدخل الجنۃ اقوام افئدتهم مثل افئدة الطیر۔
’’کہ جنت میں بہت سے ایسے لوگ بھی جائیں گے جن کے سینے پرندوں جیسے ہوں۔ پوچھا، اس کا مطلب کیا ہے؟ تو فرمایا کہ یہ متوکل لوگ ہوں گے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

لو انكم تتوكلون على الله حق توكلہ لرزقكم كما يرزق الطیر تغدو خماصا وتروح بطانا۔ (ترمذی)
’’اگر تم اللہ تعالیٰ پر اس طرح تو کل کرو جو توکل کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق ملے جس طرح پرندوں کو رزق ملتا ہے کہ صبح خالی پیٹ گھر سے نکلو تو شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹو۔‘‘

یعنی جس طرح پرندے خالی پیٹ نکلتے ہیں، ان کے پوٹ میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور دن کے آخر میں جب وہ واپس لوٹتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے رزق سے ان کے پیٹ بھرے ہوتے ہیں۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا تو ان کا آخری کلمہ تھا: ”حسبنا الله ونعم الوکیل“ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آگ سے نجات عطا فرمائی۔ اسے ان کے لیے ٹھنڈا اور سلامتی والا بنا دیا۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم غزوہ ذات الرقاع میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ راہ میں ایک سایہ دار درخت کے قریب پڑاؤ ڈالا اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کے لیے چھوڑ دیا۔ آپ اس کے نیچے استراحت فرمانے کے لیے لیٹ گئے اور آپ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اچانک ایک مشرک آگیا اور اس نے وہ تلوار پکڑ لی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر پوچھا آپ مجھ سے ڈر گئے؟ فرمایا نہیں! کہنے لگا اب بتائیے کون آپ کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ“ آپ نے اس اعتماد سے لفظ اللہ کہا کہ وہ مشرک خود ڈر گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی۔ اب وہ تلوار آپؐ نے اُٹھا کر پوچھا اب بتاؤ کون تمہیں مجھ سے بچا سکتا ہے؟ وہ کہنے لگا کوئی اچھی بات فرمائیے میں مان لوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا تو گواہی دے۔ کہنے لگا یہ تو میں نہیں کہہ سکتا، البتہ میرا وعدہ ہے کہ میں نہ خود کبھی آپ سے لڑوں گا اور نہ ہی اس قوم کا ساتھ دوں گا جو آپ سے لڑے گی۔ چنانچہ آپﷺ نے اس کو چھوڑ دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو کہنے لگا ”جئتکم من عند خیر الناس“ میں اس شخص کے پاس سے آیا ہوں جو انسانوں میں سب سے بہتر ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ توکل تمام مسلمانوں کا شعار بن جائے۔ اس لیے اپنی امت کو مختلف اوقات کی دعائیں تعلیم فرمائیں، مثلاً صبح و شام کی دعا، گھر سے نکلتے وقت کی دعا یا بستر پر جانے کی دعا۔ مطلب یہ کہ ہر حرکت کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف نفس متوجہ رہے اور قلب یادِ خدا میں بیدار رہے۔

ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے نکلتے تو یہ دُعا پڑھتے ”باسم اللہ توکلت علی اللہ اللهم إني أعوذ بك أن أضل أو أضل او ازل او ازل أو أظلم أو أظلم أو أجهل أو يجهل علي“ (ابو داؤد اور نسائی نے روایت کی)

انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا جس نے گھر سے نکلتے وقت یہ کلمات پڑھے: ”باسم اللہ توکلت علی اللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ“ تو اسے جواب میں کہا جاتا ہے ”ھدیت و کفیت ووقیت و تنحی عنك الشیطان“ (ابو داؤد، نسائی اور ترمذی نے روایت کی ہے)

حضرت ابی الدرداء رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جو شخص ہر روز صبح و شام سات دفعہ یہ کلمات پڑھے: ”حسبی اللہ لا الہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم“ تو اللہ تعالیٰ اس کے دنیا اور آخرت کی تمام مشکلات کا کفیل ہو جاتا ہے۔

طلق بن حبیب کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور ابو درداءؓ کے کہنے لگا۔ ابو درداء! تمہارا گھر جل گیا ہے۔ آپ نے سن کر فرمایا: یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ خدا کی قسم میں نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص یہ کلمات پڑھے گا اسے شام تک کوئی مصیبت لاحق نہیں ہوگی اور جو شام کو پڑھے گا تو صبح تک کسی مصیبت سے دوچار نہیں ہوگا۔ وہ کلمات یہ ہیں:

اللهم أنت ربي، لا إله إلا أنت، عليك توكلت، وأنت رب العرش العظيم، ما شاء الله كان، وما لم يشأ لم يكن، لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم، أعلم أن الله على كل شيء قدير، وأن الله قد أحاط بكل شيء علما، اللهم إني أعوذ بك من شر نفسي، ومن شر كل دابة أنت آخذ بناصيتها، إن ربي على صراط مستقيم۔

بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ چلو میرے ساتھ۔ چنانچہ وہ اٹھے اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی ان کے گھر گئے۔ وہاں جا کر دیکھا کہ ارد گرد کے تمام مکان جل چکے ہیں لیکن ابودرداءؓ کا مکان صحیح و سالم تھا۔

حضرت براء رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت فرمائی کہ جب تو سونے لگے تو نماز والا وضو کر کے دائیں کروٹ پر لیٹ کر کہو:

اللهم اسلمت نفسى اليك ووجهت وجهي اليك وفوضت امري اليك والجأت ظهرى اليك رغبة ورهبة اليك لا ملجأ ولا منجى منك الا اليك امنت بكتابك الذي انزلت، وبنبيك الذي ارسلت۔

اور پھر فرمایا کہ اگر تو مر گیا تو دین فطرت پر تیری موت ہوگی۔ لہٰذا تیرے آخری کلمات یہی ہونے چاہئیں۔

توکل اور اسباب

اسباب کا اختیار کرنا اللہ تعالیٰ پر توکل کے منافی نہیں ہے، بلکہ تو کل اس وقت تک صحیح ہی نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ اسباب کو اس کام کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ کیونکہ مسبب الاسباب نے انہیں کام کے ساتھ مربوط کیا ہے اور نتائج انہی اسباب کے اختیار کرنے پر موقوف رکھے ہیں۔ ویسے بھی انسان فطری طور پر اسباب کے اختیار کرنے پر مجبور ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس بات کا مکلف بھی بنایا ہے۔ اسباب کا اختیار نہ کرنا خلافِ فطرت ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے منافی بھی۔ اس نے اپنی کتاب میں جا بجا حکم فرمایا ہے:

فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ۔ (ملک: ۱۰)
خذوا حذركم فانفروا ثبات او انفروا جميعا۔ (نساء: ۲۱)
واعدوا لهم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخيل۔ (انفال: ۶۰)
و تزودوا فان خیر الزاد التقوى۔ (البقره: ۱۹۷)

لوط علیہ السلام کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے گھر والوں کو بچا کر لے جانا چاہتے ہو تو

فاسر باهلك بقطع من الليل۔ (ہود : ۸۰)

اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا:

فاسر بعبادي ليلاانكم متبعون۔ (دخان : ۲۳)

یوسف علیہ السلام کے قصے میں بھائیوں کا رویہ اور ان کے والد کا ان سے بچاؤ کی تدبیر کرنا قرآن میں اس طرح مذکور ہے:

يا بنی لا تقصص رؤياك على إخوتك فيكيدوا لك كيدا۔ (يوسف : ۷)

اور فرمایا:

يا بنی لا تدخلوا من باب واحد وادخلوا من ابواب متفرقۃ۔ (یوسف ۶۷)

بیماری کے سلسلہ میں علاج کرنا، دوا کا استعمال کرنا اور اسباب کا اختیار کرنا دین کے اوامر میں سے ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ايها الناس تداووا ان الله ما وضع داءً الا جعل لہ شفاء۔
’’اے لوگو! دوا کو استعمال کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے ایسی کوئی مرض پیدا نہیں کی، جس کی شفا نہ بنائی ہو۔‘‘

خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سید المتوکلین تھے، لیکن بایں ہمہ ہر کام کے کرنے میں پوری کوشش فرماتے اور جب دشمن سے سامنا ہونا ہوتا تو اس کے مقابلے کے لیے پوری طرح تیاری کرتے اور دشمن پر کا میابی حاصل کرنے کے تمام اسباب مجتمع فرماتے۔ روزی کمانے کے لیے محنت کرتے اور تندہی سے کام کرتے تھے اور دوسروں کو بھی محنت کی ترغیب دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مقصد کو حاصل کرنے کے جو اسباب پیدا فرمائے ہیں انہیں کبھی ترک نہ فرماتے، کیونکہ دنیاوی حیات کے لیے جو اسباب اس نے پیدا فرمائے ہیں ان کا ترک کرنا خود اپنے ہاتھوں تباہی خریدنے کے مترادف ہے۔

مثلاً ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ارادہ کیا کہ اپنی اونٹنی کو باندھے بغیر ہی مسجد کے دروازے پر چھوڑ آئے۔ آپؐ سے پوچھتا ہے یا رسول اللہ! میں اپنی اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اسے خدا کے بھروسے پر کھلا چھوڑ دوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے باندھ کر خدا کے بھروسے پر چھوڑ دو۔

پس معلوم ہوا کہ توکل اسباب کے اختیار کیے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لہٰذا سنت اللہ اور اس کے قوانین کے مطابق پہلے عمل کرنا ہوگا، پھر اسی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے کام اس کے سپرد کرنا ہوگا۔ بعد ازاں نتیجہ اسی ذات پر چھوڑنا ہوگا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وللہ غیب السموات والارض والیه یرجع الامر کله فاعبده و توکل علیہ۔ (هود: ۱۲۳)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو دیکھا جن کا یہ خیال تھا کہ اسباب کا ترک کر دینا ہی توکل ہے۔ لہٰذا انہوں نے عمل کو چھوڑ رکھا تھا اور سستی اور عجز و درماندگی میں پڑے ہوئے تھے۔ امیر المومنینؓ نے ان سے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ کہنے لگے ہم متوکل لوگ ہیں۔ آپؓ نے فرمایا تم جھوٹ کہتے ہو، تم متوکل ہرگز نہیں۔

توکل تو یہ ہے کہ آدمی کھیت میں دانہ بوئے اور خدا پر بھروسہ کرے (کہ و ہی اس دانہ کو اگائے گا، فصل کو پکائے گا اور ہمیں غلہ بہم پہنچائے گا۔)

جو شخص کوشش اور عمل کو ترک کر دے اس امید پر کہ اس کی مطلوبہ چیز اسے حاصل ہو جائے گی، اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو بغیر پروں کے ہوا میں اڑنا چاہتا ہے یا بلا نکاح چاہتا ہے کہ اس کے اولاد ہو جائے یا بغیر پیٹرول کے گاڑی چل جائے یا بغیر بوئے فصل اُگ آئے۔ نعم ما قال ؎ 

ترجو النجاة ولم تسلك مسالكها 
إن السفینۃ لا تجرى على اليبس
”ترسم کہ تو میرانی زورق بہ سراب اندر“   
’’چاہتا ہے نجات اگر، اسباب مہیا کر‘‘


دین و حکمت

(اکتوبر ۱۹۹۱ء)

اکتوبر ۱۹۹۱ء

جلد ۳ ۔ شمارہ ۱

جناب وزیر اعظم! زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئے!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

کتب حدیث کی انواع
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

حصولِ علم کے لیے ضروری آداب
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

قادیانی مکر و فریب کے تاروپود
حسن محمود عودہ

ذاتِ لازوال
ظہور الدین بٹ

توکل کا مفہوم اور اس کے تقاضے
الاستاذ السید سابق

انسانی بدن کے اعضا اور ان کے منافع
حکیم محمد عمران مغل

تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

انسان کی ایک امتیازی خصوصیت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

علماء اور سیاستداں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

مدرسہ نصرۃ العلوم کے فارغ التحصیل طالب علم کا اعزاز و امتیاز
ادارہ

تلاش

Flag Counter