سرجری کے بغیر آج کے دور میں ایک اچھا معالج بننا بہت مشکل ہے، مگر سرجری کو سمجھنے کے لیے منافع الاعضاء کا علم ہونا اس سے بھی ضروری ہے۔ بلکہ پرانے معالجوں نے سرجری کو آسان بنانے کے لیے منافع الاعضا کی شاخ کی بنیاد رکھی۔ چنانچہ منافع الاعضا سے پتا چلتا ہے کہ آدمی کا جسم ایک ایسے شہر سے ملتا جلتا ہے جس کا نظم و نسق اعلیٰ درجہ کا ہو۔ جیسے ایک شہر میں بہت سے محلے ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح جسم میں بھی الگ الگ عضو اور حصے قدرت نے بنائے ہیں، گویا یہ الگ الگ محلے اور بستیاں ہیں۔ پھر ایک محلہ میں کئی مکان ہوتے ہیں، اسی طرح ہر عضو میں گھر کی طرح خلیے ہوتے ہیں، جس سے وہ بنا ہوا ہوتا ہے۔ ان گھروں میں زندگی کے اجزاء رہائش پذیر ہیں جو مل جل کر اپنا اپنا کام کرتے رہتے ہیں، جس سے سارے شہر (جسم) کا کام بھی چلتا ہے۔ پھر ہر محلہ (یعنی عضو) کی اپنے کام کی تقسیم مقرر ہے اور تمام تقسیم شدہ کاموں کے چلنے سے سارے شہر (جسم) کا کام بخوبی چلتا رہتا ہے۔ پھر سب کی بھلائی کے لیے ایک اور نظام بھی اللہ تعالیٰ نے شہر (جسم) میں قائم کیا ہے، یعنی زندگی کی کھیتی کے لیے آبیاری کا نظام قائم کر کے نہریں پورے شہر (جسم) میں بچھا دیں (خون) ، اس خون سے بذریعہ نالیاں (نسیں) پورا شہر (جسم) سیراب ہوتا رہتا ہے۔ ہر محلہ سے کوڑا کرکٹ لے جانے کے لیے سڑکیں (رگیں) تعمیر کی گئی ہیں، تاکہ گندا مواد بروقت ٹھکانے لگایا جا سکے۔ جب سارے شہر کی گندگی ایک گٹر (بڑی آنت) میں جمع ہو جاتی ہے جو کہ گندا نالے کا کام دیتا ہے تو وہاں سے سارے شہر کی گندگی باہر پھینکی جاتی ہے۔ گندی نالی سے اگر گندگی باہر نہ نکل سکے تو تمام شہر (جسم) میں بیماریاں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ تاہم گندہ نالہ بھرنے سے پہلے ایک مددگار نظام بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ نوبت یہاں تک نہ پہنچ سکے، یعنی تمام شہر میں جابجا سوراخ بن دیے گئے جنہیں مسام کہا جاتا ہے (بال کی جڑ کے سوراخ) ، ان سوراخوں سے شہر بھر کی گندگی باہر کی جانب (جسم کی بیرونی کھال) دھکیل دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شہر (جسم) کی دیواروں میں جا بجا منہ کھلے رہتے ہیں۔ شہری آبادی کے رئیس اعلیٰ (دماغ) کے لیے خصوصاً اور عام طبقہ (تمام اعضا) کے لیے تازہ ہوا اور آکسیجن کی آمدورفت کے لیے ایسا چھلنی نما راستہ بنایا گیا ہے کہ آنکھ سے نظر نہ آنے والا ذرہ بھی وہاں سے اندر نہیں گھس سکتا (ناک کے اندر باریک بالوں کی موجودگی) ، چنانچہ ناک کے راستے تازہ ہوا اہل محلہ کے مکینوں (جسمانی اعضا) کو ہر لمحہ میسر آتی رہتی ہے۔ پورے شہر میں بجلی کے تاروں کی طرح باریک جال بچھا دیا گیا ہے، جو آن واحد میں ڈپٹی کمشنر (یعنی دماغ) کو ٹیلی فون کر کے ہنگامی حالت کا اظہار کر دیتا ہے اور یوں دماغ اپنی مسلح افواج (نسوں کے ذریعہ) کو دشمن (بیماری) کی سرکوبی کے لیے بھیج دیتا ہے۔ سارے شہر (جسم) کے منتظمین کا ہیڈ کوارٹر دماغ ہے۔ بوقت ضرورت دماغ انہیں تیز ترین سواری (ریڑھ کی ہڈی میں نسوں کا جال) پر بٹھا کر شہر کے دور دراز حصوں میں پہنچا دیتا ہے، جہاں دنگا فساد یا بغاوت ہو رہی ہو۔
اکتوبر ۱۹۹۱ء
جلد ۳ ۔ شمارہ ۱
جناب وزیر اعظم! زخموں پر نمک پاشی نہ کیجئے!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
کتب حدیث کی انواع
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
حصولِ علم کے لیے ضروری آداب
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
قادیانی مکر و فریب کے تاروپود
حسن محمود عودہ
ذاتِ لازوال
ظہور الدین بٹ
توکل کا مفہوم اور اس کے تقاضے
الاستاذ السید سابق
انسانی بدن کے اعضا اور ان کے منافع
حکیم محمد عمران مغل
تعارف و تبصرہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
انسان کی ایک امتیازی خصوصیت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ
علماء اور سیاستداں
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ
مدرسہ نصرۃ العلوم کے فارغ التحصیل طالب علم کا اعزاز و امتیاز
ادارہ