عبادت کا ایک طریقہ زکٰوۃ ہے۔ زکٰوۃ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے معبود کی خوشنودی کی خاطر مال و دولت خرچ کرنے کی تکلیف برداشت کرنے کو تیار ہو جائے۔ اس طرح معبود کی خاطر غلاموں کو آزاد کرنا اور ذبیحہ کی قربانی دینا بھی زکٰوۃ کے ملحقات میں سے ہیں۔ جب آدمی کو کوئی تکلیف ومصیبت پیش آتی ہے اور اس کو دور کرنے کے لیے اپنے معبودِ حقیقی کی طرف گھبرا کر رجوع کرتا ہے تو پہلے بارگاہِ اقدس میں صدقہ یا اعتاق یا قربانی پیش کرتا ہے۔
زکٰوۃ کی بہترین صورت یہ ہے کہ وہ اموال میں حق معلوم اور حصہ مقرر ہو، یا شرع اس کی تحدید و تعیین کرے۔انسان کے اموال و املاک میں بنیادی چیزیں یہ ہیں:
- نقدین (سونا چاندی)
- مویشی
- اشیاء تجارت، اور
- زراعت اور کھیتی باڑی
ان اموال میں نصاب کا تعین بھی ضروری ہے جس کی مقدار اتنی قلیل بھی نہ ہو جس کے نکالنے میں تکلیف و حرج ہو، اور نہ اتنی زیادہ ہو کہ لوگوں کے پاس اس مقدار کے نصاب کا اکٹھا ہو جانا بہت نادر ہو۔ اسی طرح میعاد کا بھی خیال رکھنا چاہیئے، اس میں بھی اوسط میعاد ملحوظ رکھنی ہو گی۔ یہ سب کچھ اس لیے ضروری ہے کہ صاحبِ مال سے زکٰوۃ لینے کا کام آسان ہو جائے اور اس کے فوائد زیادہ سے زیادہ رہیں۔
(البدور البازغۃ مترجم ص ۳۰۸)