جب روح اللہ، کلمۃ اللہ حضرت عیسٰی المسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر کسی جماعت، حلقے یا مجلس میں ہوتا ہے تو ان کی حیات و وفات کی متنازعہ حیثیت اور اس سے متعلقہ بحث طلب امور کا زیربحث آجانا ایک لازمی امر ہے خصوصًا یہ کہ کیا حضرت مسیحؑ نے رفع الی السماء سے قبل وفات پائی یا کہ نہیں۔ چنانچہ یہ مسئلہ عیسائی اور مسلم حضرات کے درمیان ہمیشہ سے متنازعہ ہے اور تب تک رہے گا جب تک کہ (اہلِ اسلام کے عقیدہ کے مطابق) حضرت عیسٰیؑ نزول کے بعد صلیب کو نہیں توڑ دیتے (بخاری جلد اول ص ۴۹۰ باب نزول عیسٰی ابن مریمؑ)۔
ازروئے قرآن حضرت عیسٰیؑ کی وفات قبل از رفع ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ قرآن پاک نے اس کی شدت سے نفی کی ہے۔ چنانچہ سورہ المائدہ میں ہے
وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوْہُ
یعنی انہوں نے نہ تو ان کو قتل کیا اور نہ سولی دی۔
جبکہ عیسائی پادری صاحبان کہتے ہیں کہ سورہ آل عمران کی مندرجہ ذیل آیت سے عیسٰیؑ کی وفات قبل از رفع ثابت و متحقق ہے
اِذْ قَالَ اللہُ یَا عِیسٰی اِنّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسٰیؑ میں تجھے پورا (یعنی روح و بدن سمیت) لینے والا ہوں یعنی تجھے اپنے آسمان کی جانب اٹھانے والا ہوں۔
عیسائی پادری ’’متوفی‘‘ سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات ثابت کرتے ہیں لیکن ان کا یہ دعوٰی درست نہیں ہے کیونکہ اس آیت سے قطعًا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسٰیؑ نے آسمان پر جانے سے قبل موت کا مزہ چکھا بلکہ علامہ آلوسیؒ (المتوفی ۱۲۷۰ھ) کی تصریح ہے کہ
فالکلام کنایۃ عن عصمتہ من الاعداء۔ (روح المعانی ج ۱ ص ۱۵۸)
’’پس کلام کنایہ ہے اس سے کہ وہ دشمنوں (کی سازش) سے بچ گئے۔‘‘
اور علامہ نیشاپوریؒ ’’غرائب القرآن‘‘ میں آیت توفی کے تحت فرماتے ہیں:
یا عیسٰی انی متوفیک الی متمم عمرک و عاصمک من ان یقتلک الکفار الآن بل ارفعک الی سمائی واصونک من ان یتمکنوا من قتلک۔ (ج ۳ ص ۲۰۶)
’’اے عیسٰی! بے شک میں تجھے پورا لینے والا ہوں یعنی تیری عمر کو پورا کرنے والا ہوں اور تجھے اس سے بچانے والا ہوں کہ کفار اب تجھے قتل کر دیں بلکہ میں تجھے اپنے آسمان کی طرف اٹھاؤں گا اور تجھے بچاؤں گا اس سے کہ یہ (یہودی) تجھے قتل کر سکیں۔‘‘
صاحبِ کشاف (زمحشریؒ) اور صاحبِ مدارک کی رائے میں متوفی بمعنی مستوفی اجلک کے ہے۔ چنانچہ ان دونوں تفسیروں میں صراحت ہے کہ:
’’ممیتک حتف انفک لا قتیلا بایدیہم۔ (کشاف ج ۱ ص ۳۶۶ و مدارک ج ۱ ص ۲۵۵)
’’میں تجھے تیری طبعی موت ماروں گا، ان کے ہاتھوں تو قتل نہ ہو گا۔‘‘
قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ اس مسئلہ پر بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
والظاھر عندی ان المراد بالتوفی ’’ھو الرفع الی السماء بلا موت‘‘۔ (مظہری ج ۲ ص ۵۶)
’’میرے نزدیک یہی ظاہر ہے کہ توفی سے مراد آسمان کی طرف بغیر موت کے چڑھ جانا ہے۔‘‘
امام قرطبیؒ کی رائے بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسٰیؑ کو بغیر وفات اور نیند کے اٹھا لیا (قرطبی بحوالہ روح المعانی)۔
قدماء مفسرینؒ میں سے امام ابن جریر طبریؒ اس آیت کے تحت متعدد اقوال نقل کر کے فرماتے ہیں:
واولی ھذہ الاقوال بالصحۃ عندنا قول من قال معنی ذلک انی قابضک من الارض ورافعک الی۔ (طبری ج ۳ ص ۲۰۴)
قرآن کریم کے علاوہ احادیث و روایات سے بھی حضرت عیسٰیؑ کا بغیر موت کے عروج ثابت ہے۔ چنانچہ صاحب روح المعانی روایت نقل کرتے ہیں کہ
قال رسول اللہ للیھود ان عیسٰی لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ۔ (روح المعانی ج ۱ ص ۱۵۸)
’’رسول اللہؐ نے یہود سے فرمایا کہ بے شک عیسٰیؑ نہیں مرے اور بے شک وہ تمہاری طرف قیامت کے دن سے پہلے لوٹنے والے ہیں۔‘‘
الغرض علماء نے توفی کے مختلف معانی بیان کیے ہیں لیکن کسی کے قول سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت عیسٰیؑ نے قبل از رفع وفات پائی۔ ہاں عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت تفاسیر میں ملتی ہے جس میں متوفیک کا معنی ممیتک کیا گیا ہے لیکن علامہ آلوسیؒ اور علامہ نیشاپوریؒ نے اس کو ’’قیل‘‘ کے ساتھ نقل کیا ہے جس سے اس کا ضعف معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں اس صورت میں بھی کوئی قباحت لازم نہیں آتی کیونکہ ضروری نہیں کہ موت رفع سے پہلے متحقق ہو حتٰی کہ حضرت قتادہؒ کی رائے یہ ہے کہ آیت میں تقدیم و تاخیر ہے اور تقدیر یوں ہے:
انی رافعک الی و متوفیک یعنی بعد ذلک۔
یہ قول تفاسیر میں منقول ہے (دیکھئے روح المعانی ج ۱ ص ۱۵۸ و درمنشور ج ۲ ص ۳۶ و ابن کثیر ج ۱ ص ۳۶۶)۔ اور یہ قول عین عرب کے محاورے اور لغت کے مطابق ہے جیسا کہ نحو اور اصول فقہ کی معتبر کتابوں میں تصریح ہے کہ ’’واو‘‘ ترتیب کے لیے نہیں ہے۔ چنانچہ اس جگہ کافیہ کی عبارت مع شرح ملّا جامی کے مرقوم ہوتی ہے:
فالواو للجمع مطلقا لا ترتیب فیھا فقولہ لا ترتیب فیھا بین المطعوف والمطعوف علیہ بمعنی انہ لا یتمم ھذا الترتیب منھا وجودًا او عمدًا۔
اور اصولِ فقہ کی مشہور کتاب نورالانوار میں ہے:
فالواو لمطلق العطف من غیر تعرض لمقازتہ ولا ترتیب یعنی ان الواو لمطلق الشرکۃ۔
اسی طرح ’’المنجد‘‘ میں جو کہ ایک کیتھولک عیسائی کی تصنیف ہے لکھا ہے ’’معناھا مطلق الجمع‘‘۔
اس کے علاوہ متن متین اور حسامی کے علاوہ متعدد تفاسیر میں بھی یہ قاعدہ قرآنی بیان کیا گیا ہے اور رضی میں بادلائل بحث کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ واو ترتیب کے لیے نہیں ہے۔ اس لیے ’’متوفیک و رافعک‘‘ میں اگر توفی معنی موت لیا جائے تو بھی اس کا رفع سے پہلے ہونا ضروری نہیں ہے اور اس سے رفع الی السماء سے پہلے حضرت عیسٰیؑ کی وفات پر استدلال درست نہیں ہے۔ لیکن اس معقول تاویل کے باوجود مفسرینؒ نے اس کو پسند نہیں فرمایا جیسا کہ اوپر گزر چکا کہ آلوسیؒ اور نیشاپوریؒ نے اس کو ’’قیل‘‘ کے لفظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔ تو اس طرح یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن پاک سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات ثابت نہیں ہے اور جو لوگ مذکورہ عقیدہ رکھتے ہیں قرآن پاک نے ان کے بارے میں فیصلہ سنا دیا ہے: