شہادت کا آنکھوں دیکھا حال
کمانڈر عابد فردوسیؒ، حاجی عمران عدیلؒ، مطیع الرحمانؒ اور رفقاء

عدیل احمد جہادیار

افغانستان کے شہر خوست کے جنوب کی طرف واقع پہاڑی سلسلہ میں طورہ غاڑہ کے قریب ایک غار میں بڑی بڑی پگڑیوں والے کچھ لوگ بیٹھے تھے۔ غار کے باہر ہر دس پندرہ منٹ کے بعد ایک ڈاٹسن یا جیپ آ کر رکتی اور اس میں سے کچھ افراد نکل کر غار کی طرف بڑھتے۔ ان لوگوں کو دیکھ کر غار کے باہر کھڑے کلاشنکوفوں سے مسلح پہرہ دار ان کو راستہ دے دیتے۔ ڈاٹسنوں اور جیپوں میں آنے والے حضرات خوست جنوبی کے افغان مجاہدین کے کمانڈر تھے اور یہ سب یہاں پر دشمن پر حملہ کرنے کی پلاننگ کرنے کے لیے اکٹھے ہو رہے تھے۔ اسی اثنا میں ایک نیلے رنگ کی ڈبل سیٹر ڈاٹسن اور ایک سرخ پک اپ ڈاٹسن غار کے قریب آ کر رکی۔ ڈبل سیٹر سے لانبے قد کی بڑی سی پگڑی باندھے ایک پر رعب شخصیت نمودار ہوئی۔ یہ خوبصورت چہرے اور گھنی داڑھی والے بزرگ خوست جنوبی کے ہردلعزیز اور تحصیل درگئی کے فاتح مولانا پیر  محمد روحانی صاحب تھے۔ ان کے ساتھ ان کے باڈی گارڈوں کا ایک دستہ بھی تھا۔ سرخ ڈاٹسن پر حرکت الجہاد الاسلامی کی حربی کونسل کے نائب صدر اور کمانڈر نصر اللہ منصور لنگڑیال صاحب تھے۔

مولانا پیر محمد کی آمد پر شورٰی کی کارروائی شروع ہوئی، یہ شورٰی تحصیل درگئی کی فتح (جو کہ مولانا پیر محمد صاحب کی قیادت میں فتح ہوئی تھی) کے بعد اب خوست شہر پر ایک اجتماعی حملہ کرنے کا پروگرام بنانے کے لیے ہو رہی تھی۔ اس شورٰی میں افغانستان میں جہاد کرنے والی تمام تنظیموں کے سرکردہ افراد شرکت کر رہے تھے۔ اتحادِ اسلامی کی طرف سے مولانا پیر محمد روحانی (امیر عمومی قرارگاہ جنوبی)، حزبِ اسلامی (خالص) کی طرف سے مولانا طور، حزبِ اسلامی (حکمت یار) کی طرف سے انجینئر فیض محمد، دیگر کماندانوں میں بادشاہ گل، کمانڈر ڈاکٹر نصرت اللہ، حرکت الجہاد الاسلامی کی طرف سے کمانڈر نصر اللہ لنگڑیال شرکت کر رہے تھے۔

مختلف مشوروں کے بعد طے پایا کہ ۲۹ ستمبر بروز جمعہ کو حملہ کیا جائے اور پہلے حملہ میں شیخا میر علاقہ داری اور اس کی اردگرد کی پوسٹوں پر حملہ ہو اور ان کی فتح کے بعد اس سے آگے واقع پوسٹوں پر یورش کی جائے۔ اس میں اسلحہ کی تقسیم، توپوں کے نصب کرنے کی جگہ اور اہداف بھی زیرغور آئے اور پھر ان کی تقسیم اور توپ خانہ کے اہداف بھی مقرر کیے گئے۔ حملہ ۲۹ ستمبر کی صبح فجر کے وقت شروع ہونا تھا۔ پہلے دو گھنٹے توپ خانہ نے گولہ باری کرنی تھی پھر ایکشن گروپ نے حملہ کرنا تھا۔ ایکشن گروپ میں ہر کمانڈر چالیس چالیس آدمی دے رہا تھا، یہ سب طے کرنے کے بعد سب اپنے اپنے مراکز کی طرف روانہ ہو گئے۔

۲۸ ستمبر ۱۹۸۹ء نسبتًا گرم دن تھا۔ تحصیل درگئی (جو کہ فتح ہو چکی ہے) کی بستی کے سرے پر واقع اونچے پہاڑوں کی ڈھلوان کی طرف جہاں چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں واقع ہیں وہاں ایک بڑے لاغاٹ (برساتی نالے) کے دائیں ہاتھ ایک پہاڑی کی کھوہ میں دو خیمے لگے ہوئے تھے، یہ خیمے حرکت الجہاد الاسلامی کا عارضی مرکز تھے۔ یہ مرکز یشرا میں اس جگہ پر واقع تھا جہاں سے ایک سڑک نیچے میدان خوست کو جاتی ہے اور ایک علاقہ باڑی کی طرف جاتی ہے۔ ایک خیمے میں مجاہدین جمع تھے اور کماندار نصر اللہ لنگڑیال صاحب جنگ کے لیے مجاہدین کا چناؤ کر رہے تھے۔ چونکہ مولانا پیر محمد اور حرکت کا مرکز ایک ہی ہے اس لیے جنگ کے لیے بیس ساتھی حرکت کے ہونے تھے اور بیس مولانا پیر محمد صاحب کے۔ جناب کماندار صاحب نے مجاہدین سے کہا کہ وہ ساتھی ہاتھ کھڑا کریں جو جہانداد غنڈ کی پہلی فتح یا دوسری فتح میں شامل رہے ہیں۔ موجود ساتھیوں کی اکثریت ان جنگوں میں حصہ لے چکی تھی اس لیے بہت سے ساتھیوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ 

کماندار صاحب ساتھیوں کا چناؤ کرنے لگے اور مجاہد ظہیر کاشمیری سے کہا کہ وہ ساتھیوں کے نام لکھیں۔ انیس ساتھیوں کے جب نام لکھے جا چکے تو اب ایک ساتھی کا نام رہ گیا۔ کماندار صاحب کشمکش میں تھے کہ کس کا نام لکھیں کہ ایک ساتھی نے کہا کہ بھائی عمران عدیل کا نام تو آپ نے لکھا نہیں، وہ جہانداد غنڈ کی پہلی فتح میں شریک تھے اور انہوں نے ہی سب سے پہلے غنڈ کے اندر داخل ہو کر نعرہ فتح مارا تھا اور اذان دی تھی۔ کماندار صاحب نے پوچھا عمران کہاں ہے؟ تو ساتھیوں نے کہا کہ وہ باہر ہیں۔ کماندار صاحب نے ظہیر کاشمیری سے کہا کہ اس کا نام بھی لکھو۔ تشکیل مکمل ہوئی تو کماندار صاحب نے جنگ کے بارے میں ہدایات دیں اور ان سے کہا کہ گروپ کمانڈر عابد فردوسی صاحب! آپ جنگ کے امیر ہوں گے اور ساتھیوں سے کہا کہ اپنی مکمل تیاری کر لیں کسی وقت بھی روانگی کا آرڈر مل سکتا ہے اور رائفلوں وغیرہ کو صاف کر لیں اور کارتوس وغیرہ بھائی رحمت سے لے لیں۔

اس کے بعد تمام ساتھی اپنی اپنی تیاری کرنے لگے، کئی ساتھی غسل کرنے اور نئے کپڑے پہنے لگ گئے اور بعض ساتھی اپنی رائفلیں صاف کرنے لگے، ہر مجاہد میں جوش اور ولولہ کا ایک نیا منظر دکھائی دے رہا تھا۔ بھائی احسان اللہ کاشمیری غسل کر رہے تھے، راقم نے ان کے پاس جا کر کہا کہ بھائی احسان کیوں شہید یا زخمی ہونے کا سامان کر رہے ہو تو انہوں نے کہا کہ اسی لیے ہی تو آئے ہیں۔ راقم نے یہ جملہ مذاق میں اس لیے کہا تھا کہ اکثر محاذ پر دیکھنے میں آیا ہے کہ جو ساتھی اہتمام کے ساتھ تیار ہو کر جاتے ہیں یعنی غسل کر کے اور سر پر تیل لگا کر پگڑی باندھ کر آنکھوں میں سرمہ ڈال کر اور کپڑوں پر خوشبو لگا کر دلہا بن کر جب جاتے ہیں تو ان شہادت کے متوالوں کی مراد بر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ پھر ان کو اپنی بارگاہ میں قبول کر لیتے ہیں، شہادت یا زخمی ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں بلکہ یہ تو محاذ کا ایک مشاہدہ ہے۔

۲۸ ستمبر عشاء کے وقت مولانا پیر محمد روحانی صاحب تشریف لائے، ان کے ہمراہ تقریباً‌ تیس مجاہدین تھے اور دو گاڑیاں ان کے ہمراہ تھیں۔ تمام ساتھی چلنے کے لیے تیار تھے۔ ایک ڈاٹسن لیے ظہیر کاشمیری بھی موجود تھے۔ انہوں نے اس گاڑی پر مجاہدین کو باڑی پہنچانا تھا۔ مولانا پیر محمد روحانی صاحب نے ساتھیوں کو کچھ ہدایات دیں اور چلنے کا حکم فرمایا۔ تمام ساتھی ڈاٹسن پر سوار ہونے لگے۔ ڈاٹسن پر سامان بھی کافی لدا ہوا تھا اس لیے تمام ساتھیوں کا اس میں سمانا مشکل ہو رہا تھا اس لیے بھائی شبیر سے کہا گیا کہ وہ جیپ بھی تیار کریں اور کچھ ساتھیوں کو اس پر لے جائیں۔ جیپ بھی تیار کر لی گئی اور پھر تمام ساتھی ایک دوسرے سے ملنے لگے، اور جانے والے ساتھی اور رہ جانے والے ساتھی ایک دوسرے سے کہا سنا معاف کروانے لگے۔ آخر تمام ساتھی دعا کے بعد مرکز سے روانہ ہوئے۔

رات بے حد سیاہ تھی اور آسمان کہیں کہیں سے ابر آلود تھا۔ دور نیچے میدان میں دشمن کی توپیں اور مشین گنیں چل رہی تھیں۔ دشمن تمام دن اور رات اس خوف سے کہ کہیں مجاہدین اچانک اس پر حملہ نہ کر دیں اپنی پوسٹوں کے اردگرد مسلسل توپیں اور گنیں چلاتا رہتا ہے۔ اب جس جگہ سے مجاہدین نے باڑی کی طرف جانا تھا وہ راستہ تھا تو چھپا ہوا لیکن اگر رات کے اندھیرے میں یہاں گاڑیوں کی ہیڈ لائٹیں روشن کی جاتیں تو گولہ باری اور بمباری کا شدید خطرہ تھا۔ اس وقت بھی ایک طیارہ نیچے میدان میں جہاں والیم پوسٹ پر (جو کہ فتح ہو چکی ہے) اتحادِ اسلامی اور حرکت کے مجاہدین موجود تھے بمباری کر رہا تھا۔ راستہ بہت خطرناک تھا اس لیے کہ اردگرد دشمن نے بارودی سرنگیں بچھا رکھی تھیں۔ یہ راستہ بھی کماندار نصر اللہ لنگڑیال نے دیگر مجاہدین کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔

خیر رات تین ساڑھے تین بجے کے قریب مجاہدین باڑی پہنچ گئے۔ یہاں پر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد مجاہدین کے گروپوں کو ملا کر تشکیل کی گئی۔ حملہ علاقہ داری شیخامیر اور اس کے اردگرد کی پوسٹوں پر تھا۔ اسی طرح شہر خوست کے شمال مغرب کی طرف سے بھی دوسرے مجاہدین نے حملہ کرنا تھا۔ مجاہدین آرام کرنے کے بعد دشمن کی طرف چل پڑے۔ رات کا وقت تھا اور ان لوگوں کو اسی اندھیرے میں دشمن کے نزدیک ہونا تھا۔ ان مجاہدین کو سفر کی وجہ سے نیند کا موقع بھی نہیں ملا تھا لیکن یہ اللہ کے سپاہی محمد عربیؐ کے غلام جانیں ہتھیلیوں پر رکھ کر دشمن کی طرف بڑھنے لگے۔ انہوں نے دشمن کے بالکل نزدیک پہنچ کر مورچے سنبھالنے تھے اور اس کے بعد پھر مجاہدین کے توپ خانے نے دشمن پر گولہ باری کرنی تھی اور اس طرح اس توپ خانے نے مجاہدین کی پیش قدمی کے ساتھ اردگرد کی دوسری پوسٹوں کو مصروف کرنا تھا۔

ان مجاہدین نے نمازِ فجر راستہ میں ادا کی اور پھر دشمن سے نزدیک ہونے لگے حتٰی کہ دشمن سے دو اڑھائی سو میٹر کے فاصلہ پر پہنچ گئے۔ یہاں پہنچ کر یہ لوگ رک گئے کیونکہ ریکی گروپ (ترصد گروپ) کے مطابق آگے بارودی سرنگیں تھیں، ان کے یہاں پہنچنے کے کچھ دیر بعد مجاہدین کے توپ خانے سے اکا دکا میزائل اور توپ کے گولے فائر ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ جب میزائل اور گولے ہدف پر لگنے لگے تو پھر ایک دم اکٹھے بارہ بارہ میزائل چھوڑے جانے لگے۔ اسی طرح توپوں کے گولے بھی چلنے لگے۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ مجاہدین کی طرف سے فائر ہونے کے بعد دشمن کی طرف سے بھی ٹینک کے گولے اور BM13 میزائل فائر ہونے لگے۔ اسی طرح شہر خوست کے شمال مغرب میں بھی یہی حال تھا۔ ادھر گولے چل رہے تھے میزائل پھٹ رہے تھے اور یہاں ایکشن گروپ کے ساتھی ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے اور کئی ساتھی ذکر اللہ میں مشغول تھے۔ کسی ساتھی مجاہد کے چہرے سے ایسا محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ خوفزدہ یا پریشان ہے۔

اسی اثنا میں اس ایکشن گروپ کے عمومی کمانڈر نے ایک مجاہد کو بارودی رسی ڈالنے کو کہا۔ مجاہدین اس وقت ایک لاغاٹ (برساتی نالہ) میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ مجاہد اپنے دو تین دیگر ساتھیوں کے ساتھ بارودی رسی، جو کہ مائن فیلڈ (بارودی سرنگ) کو ناکارہ کرتی ہے، لے کر اس برساتی نالے کے سرے پر چڑھا تو ایک زور دار دھماکہ ہوا، اس مجاہد کا پاؤں مائن پر آ گیا تھا اور وہ دھماکہ مائن پھٹنے کا تھا۔ مائن پر پاؤں آنے کی وجہ سے اس مجاہد کا پنڈلی کے قریب سے پاؤں کٹ گیا اور وہ زخمی ہو گیا۔ زخمی کو فورً‌ا نیچے لاغاٹ میں لایا گیا اور مرہم پٹی کی گئی۔ اس وقت اس کو پیچھے منتقل کرنا مشکل تھا اس لیے اس کو یہیں پر لٹا دیا گیا۔ مجاہدین اور دشمن کی طرف سے گولہ باری ایک دوسرے پر شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی تھی۔ خوست کے اس علاقے میں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے آگ سی لگ گئی ہو۔

دونوں طرف سے گولہ باری ہو رہی تھی کہ اتنے میں ایک میزائل مزاحمتی گروپ والے مجاہدین کے درمیان گرا اور پھر دھوئیں اور مٹی کا ایک بادل سا چھا گیا۔ جب یہ دھواں اور مٹی کچھ کم ہوئے تو ایک لرزہ خیز منظر سامنے تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے جو مجاہدین ٹھیک ٹھاک تھے ان میں سے کئی اب خاک و خون میں لت پت تھے۔ ابھی مجاہدین سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ یکے بعد دیگرے دو میزائل اور مجاہدین کے درمیان میں آ کر لگے، پھر تو ہر طرف ایک کہرام سا مچ گیا۔ ہر طرف زخمی اور شہید پڑے تھے۔ پہلے ہی میزائل سے حرکت کے دو مجاہد گروپ کمانڈر عابد فردوسی اور بھائی عمران عدیل شہید ہو گئے۔ دوسرے میزائل سے بھائی مطیع الرحمٰن بھی شہید ہو گئے۔ لاغاٹ میں ہر طرف خون ہی خون تھا، وہ نالہ جو کبھی پانی سے بہتا تھا اب بلامبالغہ شہیدوں اور زخمیوں کے لہو سے بہہ رہا تھا۔ میزائل لگنے سے پینتیس کے قریب مجاہدین شہید اور پچاس کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

اب دشمن پر حملہ تو کیا نہیں جا سکتا تھا اس لیے جو ساتھی بچ گئے تھے انہوں نے زخمیوں اور شہیدوں کو پیچھے منتقل کرنا شروع کر دیا۔ ان شہیدوں اور زخمیوں کو منتقل کرنا بھی کوئی آسان بات نہ تھی جیسے ہی مجاہدین زخمیوں اور شہیدوں کو نکالنے لگے دشمن کی پوسٹوں کے برجوں پر نصب مشین گنیں گرجنا شروع ہو گئیں اور پھر طیارے بھی بمباری کے لیے پہنچ گئے لیکن اس سب کے باوجود مجاہدین نے ہمت نہ ہاری اور ایک ایک کر کے تمام شہیدوں اور زخمیوں کو پیچھے منتقل کر لیا گیا۔ حرکت کے تین مجاہدین زخمی ہوئے تھے جن میں احسان اللہ کشمیری اور بھائی نیاز (متعلم مدرسہ امدادیہ فیصل آباد) کو کافی شدید زخم آئے تھے۔ ان کو باڑی ہی کے راستے میرانشاہ بھیج دیا گیا اور شہداء کو گاڑیوں میں لاد کر مرکز یشرا لایا گیا۔

ہر ساتھی غمگین تھا اور زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ کاش یہ ساتھی شہید نہ ہوتے بلکہ میں ان کی جگہ شہید ہو جاتا۔ شہداء میں

  • بھائی عابد فردوسی حرکت الجہاد الاسلامی کے بہت ہی فعال ترین اور پرانے مجاہد تھے۔ وہ ۱۹۸۶ء میں محاذ پر تشریف لائے اور شہادت تک اکثر وقت محاذ پر رہے۔ جنوری ۱۹۸۹ء میں ایک معرکہ میں زخمی بھی ہوئے تھے، کئی مہینے جلال آباد میں حرکت کے ساتھیوں کی کمان بھی کی، قرآن کے حافظ تھے اور بہت اچھی قراءت کرتے تھے۔
  • اسی طرح بھائی حاجی عمران عدیل اچھڑیاں ضلع مانسہرہ کے رہنے والے تھے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر صاحب کے نواسے اور مدیر الشریعہ مولانا زاہد الراشدی کے بھانجے تھے، تقریبًا ایک سال سے حرکت الجہاد الاسلامی کے جیالے مجاہدین کے ساتھ شاملِ پیکار تھے۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت جلد ترقی حاصل کر لیتے ہیں۔ بھائی عمران عدیل بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔ فروری میں جہانداد کی پہلی فتح کی شدید لڑائی میں شریک تھے اور جہانداد پوسٹ میں سب سے پہلے داخل ہو کر انہوں نے نعرۂ فتح بلند کیا تھا اور اذان دی تھی۔
  • تیسرے بھائی مطیع الرحمٰن تھے، ان کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا اور انہوں نے اسی سال المرکز الخالد زبیر شہید سے جنگی تربیت لی تھی۔ شہید مطیع الرحمٰن کو ان کی وصیت کے مطابق مولانا عبد الرحمٰن شہید کی قبر مبارک کے قریب وہیں یشرا میں دفنا دیا گیا۔

بھائی عمران عدیل شہید اور بھائی عابد فردوسی شہید کو ان کے گھروں میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا۔ شہید عابد فردوسی کے ساتھ راقم نے ان کے گھر فیصل آباد جانا تھا اور بھائی شہید عمران عدیل کے ساتھ بھائی سید احمد صاحب نے جانا تھا۔ میرانشاہ سے ہم اکٹھے بنوں تک گئے۔

جب یہ حضرات جنگ کے لیے جا رہے تھے تو بھائی عمران عدیل مجھ سے ایک عجیب طرح سے ملے اور فرمایا عدیل بھائی! کہا سنا معاف کر دینا۔ حالانکہ اور ساتھی بھی مجھے جاتے ہوئے ملے اور انہوں نے بھی تقریباً‌ یہی الفاظ کہے تھے لیکن جب بھائی عمران نے یہ الفاظ کہے تو نجانے کیوں میرے دل نے کہا کہ یہ ضرور شہید ہوں گے۔ اور جنگ والے دن میں اکثر ان کی سلامتی کی اور زندگی کی دعا مانگتا رہا لیکن ہوتا تو وہ ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔

بنوں پہنچ کر میں نے عمران شہید والی گاڑی رکوائی کیونکہ اب ہمارے راستے جدا جدا تھے، میں نے تابوت کھولا تو ایک نہایت ہی اچھی خوشبو محسوس کی۔ میں نے ان کی پیشانی پر ہاتھ رکھا اور پیشانی پر سے ان کے بال ہٹائے تو مجھے ان کی پیشانی، باوجود ان کے ۱۲ گھنٹے پہلے شہید ہونے کے، گرم محسوس ہوئی۔ اللہ اللہ، جب ان کو اٹھا کر یشرا مرکز میں ہم لائے تھے تو بھی اس وقت ان سے اور دوسرے دونوں شہداء سے خوشبو آ رہی تھی۔ یہ خوشبو اور گرم ماتھا یہ کہہ رہے تھے کہ ؎

بنا کردند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقاں پاک طینت را

مشاہدات و تاثرات

(فروری ۱۹۹۰ء)

فروری ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۲

عالمِ اسلام میں جہاد کی نئی لہر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سیرتِ نبویؐ کی جامعیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

عصمتِ انبیاءؑ کے بارے میں اہلِ اسلام کا عقیدہ
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ

علومِ قرآنی پر ایک اجمالی نظر
مولانا سراج نعمانی

سخت سزائیں اور کتب و اُمم سابقہ
محمد اسلم رانا

تحریک نفاذ فقہ جعفریہ ۔ نفاذ اسلام کی جدوجہد میں معاون یا رکاوٹ؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نصابِ تعلیم کی تشکیلِ جدید ۔ کیوں اور کیسے؟
مولانا سعید احمد پالنپوری

استحکامِ پاکستان کی ضمانت
مولانا سعید احمد سیالکوٹی

کیا حضرت عیسٰیؑ کی وفات قرآن سے ثابت ہے؟
حافظ محمد عمار خان ناصر

اقبالؒ — تہذیبِ مغرب کا بے باک نقاد
پروفیسر غلام رسول عدیم

شہادت کا آنکھوں دیکھا حال
عدیل احمد جہادیار

آپ نے پوچھا
ادارہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

زکٰوۃ کا فلسفہ اور حقیقت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

امام ولی اللہ کا پروگرام اور روسی انقلاب
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کی تعمیر کا آغاز
ادارہ

تلاش

Flag Counter