لوگ بالعموم یہ جانتے ہیں کہ روسی انقلاب فقط ایک اقتصادی انقلاب ہے، ادیان اور حیاتِ اخروی سے بحث نہیں کرتا۔ ہم ان روسیوں کے پاس بیٹھے ہیں اور ان کے خیالات و افکار ہم نے معلوم کیے ہیں اور ہم بتدریج اور آہستہ آہستہ نرمی اور لطافت سے امام ولی اللہؒ کا پروگرام، جو انہوں نے حجۃ اللہ البالغۃ میں پیش کیا، ان روسیوں کے سامنے رکھا تو انہوں نے اسے نہایت ہی مستحسن خیال کیا اور ہم سے پوچھنے لگے کہ کیا کوئی ایسی جماعت اس وقت ہے جو اس پروگرام پر عمل کرتی ہو؟ جب ہم نے نفی میں جواب دیا تو انہوں نے بہت افسوس کیا اور کہنے لگے کہ اگر کوئی جماعت اس پروگرام پر عمل کرنے والی ہوتی تو ہم ان کے ساتھ شامل ہو جاتے اور ہم بھی ان میں داخل ہو کر ان کا مذہب اختیار کر لیتے، اور یہ بات ہمارے لیے آسان بنا دیتی ہماری ان مشکلات کو جنہوں نے ہمارے پروگرام کو کسانوں میں نافذ کرنے سے روک رکھا ہے۔
یہ ان روسیوں کی بات کا بلا کم و کاست اور بغیر تحریف کے خلاصہ ہے۔ اس کے بعد یقین ہوا کہ یہ لوگ ہمارے قرآنی پروگرام کو قبول کرنے کی طرف مجبور ہوں گے اگرچہ ایک زمانہ کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ ہم آج کے دور میں عالمی تحریکوں میں سے کسی تحریک کو ایسا نہیں پاتے کہ وہ قرآنی تعلیمات کے خلاف اور مناقض ہو جس طرح انقلابی روس کی تحریک قرآنی پروگرام کے مناقض اور مخالف ہے۔ اور باوجود اس کے وہ بھی مجبور اور مضطر ہیں کہ قرآن اور اس کے پروگرام کی طرف رجوع کریں، باقی تحریکات کا کیا پوچھنا! اور اس چیز نے میرے ایمان میں زیادتی اور قوت پیدا کر دی کہ ہدایت و فلاح قرآن کے نزول کے بعد قرآن کے اتباع پر ہی موقوف ہے۔
(الہام الرحمٰن ص ۷۰)