اشتراکیت کا فلسفہ کیا ہے؟
سوال: اشتراک کا فلسفہ کیا ہے اور یہ سب سے پہلے کس نے پیش کیا؟ (محمد غفران، اسلام آباد)۔
جواب: اشتراک کا فلسفہ یہ ہے کہ چونکہ دنیا میں انسانوں کے درمیان زیادہ تر جھگڑے زمین، مال اور عورت کی وجہ سے ہوتے ہیں اس لیے یہ تینوں چیزیں کسی کی شخصی ملکیت نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ تینوں تمام انسانوں کے درمیان کسی تعیین کے بغیر مشترک ملکیت ہیں۔ یہ فلسفہ سب سے پہلے پارسیوں (مجوسیوں) کے ایک راہنما مزدک نے پیش کیا اور کہا کہ ایک شخص جو کچھ کماتا ہے وہ اس کی ذاتی ملکیت نہیں بلکہ سب لوگوں کی مشترک ہے۔ اسی طرح کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر مرد ہر عورت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ظہورِ اسلام کے بعد اسی فلسفہ کو عباسی خلیفہ معتصم باللہ کے دور میں بابک خرمی نے دوبارہ پیش کیا اور زن، زر اور زمین کو مشترک ملکیت قرار دے کر اس کا پرچار شروع کر دیا لیکن خلیفہ معتصم باللہ نے اسے قتل کرا دیا۔ موجودہ دور میں انفرادی ملکیت کی نفی کا یہ فلسفہ منظم شکل میں سب سے پہلے کارل مارکس نے پیش کیا اور اسے ’’کمیونزم‘‘ کا نام دیا۔ روس، چین اور مشرقی یورپ کے اشتراکی انقلاب اسی فلسفہ پر برپا ہوئے لیکن کہیں بھی کارل مارکس کا فلسفہ اصلی شکل میں نافذ نہ کیا جا سکا بلکہ ’’سوشلزم‘‘ کے نام سے اس کے قریب قریب ایک جبری نظام ان ممالک پر مسلط کر دیا گیا مگر وہ بھی اب دم توڑ رہا ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہؓ اور معراجِ جسمانی
سوال: بعض حضرات کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج جسمانی کی قائل نہ تھیں، اس کی کیا حقیقت ہے؟ (عبد الغفور، اوکاڑہ)
جواب: یہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان ہے کیونکہ خود حضرت عائشہؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کا واقعہ روایت کرتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سدرۃ المنتہٰی کے پاس حضرت جبریل علیہ السلام کو اصلی شکل میں دیکھا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ میں اس امر پر اختلاف تھا کہ معراج کے اس سفر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی بلاحجاب زیارت کی ہے یا نہیں؟ حضرت عائشہؓ اس کی قائل نہیں تھیں اور ان کا ارشاد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سدرۃ المنتہٰی کے پاس اللہ تعالیٰ کی نہیں بلکہ حضرت جبریل علیہ السلام کی اصلی شکل میں زیارت ہوئی تھی، جیسا کہ صحیح مسلم ج ۱ ص ۹۸ میں یہ روایت منقول ہے۔
باقی رہی بات معراج جسمانی کی تو جب حضرت عائشہؓ سدرۃ المنتہٰی تک جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے، جبریل علیہ السلام کو اصلی صورت میں دیکھنے اور اللہ تعالیٰ کی بے حجاب زیارت نہ ہونے کا موقف پیش کر رہی تھیں تو ان کی طرف معراج جسمانی کے انکار کی نسبت کیسے درست ہو سکتی ہے؟
ربوہ کا معنٰی کیا ہے؟
سوال: بعض علماء کی طرف سے ربوہ کے نام کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ربوہ کا معنٰی کیا ہے اور اس مطالبہ کا پسِ منظر کیا ہے؟ (عبد السلام، فیصل آباد)
جواب: ربوہ عربی زبان میں اونچے ٹیلے کو کہتے ہیں اور قرآن کریم میں حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حوالہ سے ’’ربوہ‘‘ کا لفظ مذکور ہے کہ ’’وَاٰوَیْنَاھُمَآ اِلٰی رَبْوَۃٍ‘‘ ہم نے ان دونوں کو اونچے ٹیلے پر جگہ دی۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا چونکہ دعوٰی یہ ہے کہ وہ خود عیسٰی بن مریم ہے اور احادیث رسولؐ میں مسیحؑ اور عیسٰیؑ کی دوبارہ تشریف آوری کی جو بشارت دی گئی ہے وہ اس کے بارے میں ہے، اس لیے قیامِ پاکستان کے بعد قادیانیوں نے ایک سازش کے تحت اپنے نئے ہیڈکوارٹر کا نام ’’ربوہ‘‘ رکھ دیا تاکہ ناواقف لوگ جب قادیانیوں کے ہیڈکوارٹر ربوہ کا نام قرآن کریم میں دیکھیں گے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے حوالہ سے ربوہ کا تذکرہ ہو گا تو مرزا غلام احمد قادیانی کے بارے میں دھوکہ کا شکار ہو جائیں گے۔
چنانچہ عملًا ایسا ہو بھی رہا ہے۔ افریقی ممالک میں جہاں قادیانیوں کی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہے، جب علماء اسلام وہاں جا کر قادیانیت کی تردید کرتے ہیں تو بہت سے سادہ لوح لوگ ان سے جھگڑتے ہیں کہ ’’ربوہ‘‘ کا ذکر تو خود قرآن کریم میں ہے، تم اس کی تردید کیوں کرتے ہو؟ اسی وجہ سے علماء اسلام حکومتِ پاکستان پر اس بات کے لیے زور دیتے ہیں کہ ربوہ کا نام سرکاری طور پر تبدیل کر دیا جائے کیونکہ یہ نام بیرون ملک بہت زیادہ لوگوں کی گمراہی کا باعث بن رہا ہے۔
قیامِ پاکستان اور جمعیۃ علماء اسلام
سوال: عام طور پر مشہور ہے کہ علماء دیوبند نے تحریک پاکستان کی مخالفت کی تھی، یہ کہاں تک درست ہے؟ (عبد الکبیر، مانسہرہ)
جواب: یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ آل انڈیا جمعیۃ علماء اسلام نے باقاعدہ جماعتی حیثیت سے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ اس جمعیۃ کا قیام ۱۹۴۵ء میں عمل میں لایا گیا تھا اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو اس کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ چنانچہ ان کی قیادت میں علماء کی ایک بہت بڑی تعداد نے تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کیا۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تحریکِ پاکستان کی بھرپور حمایت کی۔ علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے صوبہ سرحد کے ریفرنڈم کے موقع پر صوبہ سرحد کا تفصیلی دورہ کر کے رائے عامہ کو پاکستان کے حق میں ہموار کیا۔ جبکہ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ نے سلہٹ کا تفصیلی دورہ کر کے وہاں کے عوام کو مسلم لیگ اور پاکستان کی حمایت کے لیے آمادہ کیا۔
یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگی زعماء نے کراچی میں حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ اور ڈھاکہ میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے ہاتھوں سب سے پہلے پاکستان کے قومی پرچم کے لہرانے کا اہتمام کیا جو تحریکِ پاکستان میں ان کی خدمات اور جدوجہد کا اعتراف تھا۔