یادش بخیر! ایک شیخ رشید ہوا کرتے تھے، بابائے سوشلزم۔ پہلے "آزاد پاکستان پارٹی" میں تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس کے بانی رکن بنے ۔ تب لوگ پیپلز پارٹی کو ایک مزاحیہ فلم سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ شیخ صاحب مرحوم سوشلزم کا درس پہ درس دیتے رہتے۔ مگر کم علم اور ان پڑھ لوگوں کو کیا پتہ کہ سوشلزم کیا ہوتا ہے۔ ا ستحصال کسے کہتے ہیں۔ اضافی پیداوار وآلات پر کسی کا حق ہونا چاہیے۔ انہیں تو بس ذوالفقار علی بھٹو نے مسحور کر رکھا تھا۔ ایسا جاوو سر چڑھ کر بول رہا تھا کہ کسی کو سوشلزم کا پتہ وتہ کچھ نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کا مطلب ذوالفقار علی بھٹو اور بس بھٹو تھا ۔ ۷۰ء میں جب عام انتخابات کا اعلان ہوا تو لوگ دنگ رہ گئے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں کس طرح جھاڑو پھیر کر مغربی پاکستان میں اتنی بڑی اکثریت حاصل کر لی ہے، حالانکہ جماعت اسلامی ان انتخابات کے نتیجے میں اپنی آنے والی حکومت کی کابینہ بھی مکمل کر چکی تھی۔ مگر اس کے میاں طفیل محمد صاحب کو شیخ رشید نے چاروں شانے چت کر دیا۔ اور ذوالفقار علی بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ ان کی کابینہ میں وزیر صحت مقرر کیے گئے۔
پیپلز پارٹی نے جہاں آئین بنایا، وہاں دیگر معاملات میں بھی بہت قانون سازی کی جن میں ایک شاہکار کا رنامہ دوائیوں کا "جنرک " نام بھی تھا۔ یعنی اگر ایک کمپنی کوئی دوائی بناتی ہے اور اُسے اپنے نام سے اگر دس روپے میں فروخت کرتی تو "جنرک" نام کی بدولت اسی فارمولے کا استعمال کرتے ہوئے کمپنی کے نام کی بجائے دوائی ایک یا دو روپے کی ہوتی۔ کمپنیوں کی لوٹ مار ختم ہو گئی۔ کمپنیوں کے سرمایہ دار مالکان نے بہت شور کیا مگر جس قانون کو عوام کی تائید حاصل ہو، بھلا وہ کب ختم ہوتا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں پیپلز پارٹی نے " ڈرگ ایکٹ" پار لیمنٹ سے منظور کروا کے نافذ کیا۔ قیام پاکستان کے بعد جو چند قوانین عوامی فلاحی وبہبود کے لیے بنائے گئے، ان میں یہ ایکٹ بڑا اہم اور جامع ہے۔ ۷۷ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب ضیا ء الحق نے اقتدار سنبھا لا تو جہاں ہیروئین کے سوداگروں، ناجائز اسلحہ کے بیوپاریوں، لاکھوں شرپسند افغانیوں اور علمائے سو کی موجیں لگ گئیں، وہیں مالکان کی بھی، خواہ و مکانوں اور دکانوں کے تھے یادواساز کمپنیوں کے، خوب سنی گئی ۔ دوائیوں کی قیمتیں دن بدن بڑھنا شروع ہو گئیں۔ اوراُس کے بعد پھر آج تک رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ دواساز کمپنیوں کے مالکان نے اب اطمنان سے اپنا اگلا وار کیا اور جعلی دوائیاں بنا بنا کر لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ اور پاپڑ منڈی کو ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بنا دیا ۔ یہ ایک دلچسپ واقعہ بھی ہے اور المیہ بھی کہ پنجاب کے ایک گورنر چوہدری الطاف حسین مرحوم جب دل کے علاج کے لیے امریکہ گئے تو ہسپتال میں جب ان کے زیر استعمال دوائیوں کا لیبارٹری میں معائنہ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ گورنر صاحب کو جو دوائیاں سپلائی کی جاتی تھیں، وہ تو جعلی تھیں۔ اس جعلی اور اصلی کے چکر میں ہی گورنر الطاف دل کی بازی ہار کر اللہ کو پیارے ہو گئے۔
پرویز الٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور میں محکمہ صحت کی جانب بڑی توجہ دی گئی۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے علاوہ صوبہ بھر میں وکلاء صاحبان کا علاج آدھے سے بھی کم خرچے پر ہوتا تھا ۔ عام آدمی کو مفت اور معیاری دوائیاں اورٹیسٹ دستیاب تو تھے ہی، مگر 1122 بنا کر خلق خدا کر ہمیشہ کے لیے اپنا ممد وح بنا لیا۔ انتخابات میں فتح وشکست اصلاحات کی بنا پر تھوڑی ہوتی ہے، یہ تو ایک طر ح کی MANAGEMENT ہوتی ہے جو بساط بچھا کر عالمی طاقتیں پاکستان میں کھیل رچاتی ہیں اور یہ بساط الٹا بھی دیتی ہیں۔ پھر دنیا کے چند امیر ترین لوگوں میں شامل ایک "خادم " پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا تو اس کی برادری کے لوگوں کی بھی سنی گئی۔ وہ بھی نیچے سے نے نکل کر اوپر آگئے اور پارلیمنٹ سمیت نوکر شاہی اور دیگر اداروں پر قبضہ کر لیا جو تاحال جاری ہے۔ پہلے پہل تو لوگوں کو اس سے نجات کی کوئی توقع تھی، مگر گزشتہ دنوں اخبارات میں چھینے والی ایک تصویر نے ان کے ارمانوں کا خون کر دیا اور وہ مایوسی کی اندھیر نگری میں چلے گئے۔
اس وقت جعلی، زائد المیعاد، بلاوجہ مہنگی اور غیر ملکی موت بانٹنے والی جعلی دوائیوں سے گوداموں کے گودام بھرے پڑے ہیں۔ کوئی گلی ایسی نہیں جس کی نکڑ پر یہ مکروہ دھندا نہ ہورہا ہو ۔ ایسے بھی کئی ہنر مند ہیں جو ایسی جنسی دوائیوں کی ہوم ڈیلیوری بھی کرتے ہیں۔ آپ نے کبھی غور کیا کہ اسپتالوں کے اردگرد میڈیکل سٹور اور لیبارٹریاں کیوں اتنی زیادہ ہوتی ہیں؟ اس لیے کہ لوگوں کو ہسپتالوں سے مفت دوائی اورٹیسٹ دستیاب نہیں۔ محکمہ صحت میں ایک افسر ہوتا ہے جسے "ڈرگ انسپکٹر" کہا جاتا ہے جو دودھ کے دھلے تو ہر گز نہیں ہوتے، پھر بھی کوئی نہ کوئی دیانتدارانسپکٹر قسم توڑنے کے لیے ہی سہی، ان سٹوروں، عطائیوں اور لیبارٹریوں پر چھاپے مار ہی لیتا ہے۔کچھ ایسے ہیں جو کبھی نہ کبھی کچھ کارکردگی دکھانے کے لیے ہی سہی کاروائی کرتے ہیں اور کیس درج کر کے متعلقہ اتھارٹی یعنی DCO کو ارسال کر دیتے ہیں۔ یہیں سے اصل برائی شروع ہوتی ہے۔ جب کیس DCO کے پاس جاتا ہے تو موت کے سوداگر عوامی نمائندے فون کرتے ہیں اور DCO موت بانٹنے والوں کو چائے پلائے بغیر دفتر سے نہیں جانے دیتا اور کام بھی کر دیتا ہے ۔
آج ان حالات میں قدم قدم پر بابائے سوشلزم شیخ رشید مرحوم کی بہت یاد آتی ہے۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو معاشروں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ اللہ کروٹ کروٹ انہیں جنت نصیب کرے ۔ ان سے آخری ملاقات نیویارک میں ہوئی تھی جہاں امریکہ کے سابق اٹارنی جنرل رمزے کلارک کے انسانی حقوق کے ایک بڑے عالمی پروگرام میں وہ مہمان خصو صی کے طورپر شریک ہوئے اور ایک عالم کو اپنے خیالات کا قائل کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔