جدید معاشرہ اور اہل مذہب کی نفسیات

محمد عمار خان ناصر

اہل دین کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ انبیا کی نیابت کرتے ہوئے دین کے پیغام کو معاشرے تک پہنچائیں، دین کے حوالے سے پائی جانے والی غلط فہمیوں اور شکوک وشبہات کو دور کریں اور دینی واخلاقی تربیت کے ذریعے سے معاشرے کو درست نہج پر استوار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کا سب سے بنیادی تقاضا یہ ہے کہ اپنے معاشرے اور ماحول کے لیے اہل دین کا رویہ سر تا سر ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی ہو اور اس میں حریفانہ کشاکش اور طبقاتی وگروہی نفسیات کارفرما نہ ہو۔ انسانی معاشرے میں یہ کردار ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اصلاً انبیا اور رسولوں کو مبعوث کیا اور انھی کی سیرت وکردار اس سلسلے میں نمونے اور آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس تناظر میں اگر ہم اپنے معاشرے میں علمائے دین اور مذہبی طبقات کے کردار کا جائزہ لیں تو ہمارے سامنے ایک ایسی نفسیات ابھر کر آتی ہے جس کی تشکیل داعیانہ ہمدردی اور انسانی خیر خواہی کے زیر اثر نہیں، بلکہ طبقاتی مخاصمت اور حریفانہ کشاکش کے اصول کے تحت ہوئی ہے۔ اہل مذہب اور معاشرے کے دیگر طبقات کے مابین ایک گہرا ذہنی ونفسیاتی بعد پایا جاتا ہے۔ مذہب سے وابستہ طبقوں اور معاشرے کے مابین اجنبیت کی ایک دیوار حائل دکھائی دیتی ہے اور ارباب مذہب کی فکر اور حکمت عملی میں اصلاح کے ہمدردانہ اور داعیانہ جذبے کے بجائے شکوہ شکایت اور تنافر کا عنصر بالعموم غالب ہوتا ہے۔ گرد وپیش کے ناسازگار ماحول کے خلاف اس نفسیاتی رد عمل کا اظہار ہمیں اہل مذہب کے رویوں میں مختلف پہلووں سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ 

مثال کے طور پر معاصر مذہبی ذہن اپنے اظہار کے سانچوں میں رنگا رنگی اور تنوع کے باوصف، مجموعی حیثیت سے ایک ہی ذہنی رویے کی نمائندگی کرتا اور معاشرے میں اسی کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ رویہ معاشرے سے گریز اور فرار (escapist attitude) اور معاشرے کے دوسرے طبقات سے اجنبیت اور بے گانگی کا رویہ ہے۔ ان میں سے جن عناصر کی penetration ہر طرح کے طبقات میں ہے، ان کے پاس بھی معاشرے میں رہ کر مثبت طور پر مواقع اور امکانات کو دریافت کرنے اور اپنا کردار ادا کرنے کا نہیں، بلکہ عموماً معاشرے سے ہٹ کٹ کر ایک خاص روحانی ماحول میں تسکین پانے ہی کا پیغام ہے۔ 

اسی طرح اختلاف اور تنقید کے حوالے سے اہل مذہب ’علمی رویے‘ کے تصور سے، بالعموم، ناآشنا ہو چکے ہیں۔ علمی رویے کے تحت کسی بھی مسئلے کو نہایت ہم دردی اور معروضیت کے ساتھ اس کی علمی بنیاد میں سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر اس میں کوئی سقم نظر آئے تو علمی دلائل ہی کے ساتھ اس کی غلطی کو واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاہم موجودہ مذہبی ذہن مخالف نقطہ ہائے نظر کے فکری وذہنی پس منظر کو سمجھے بغیر اور ان کو استدلال سے متاثر کرنے کے بجائے ’’مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘ کی نفسیات کے تحت تحکم کے انداز میں اپنی رائے اس پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

تحفظاتی نفسیات کے زیر اثر مذہبی طبقات نے وسیع تر علمی وفکری استفادے کو اپنے ہاں شجرممنوعہ کی حیثیت دے رکھی ہے۔ جدید علمی وفکری مسائل کا تجزیہ اور ان کے حوالے سے معاشرے کی راہ نمائی سرے سے موجودہ دینی تعلیم کا نظام کا مسئلہ ہی نہیں۔ اہل مذہب کا مطمح نظر اس نظام سے صرف یہ ہے کہ وہ معاشرے اپنی space کو محفوظ رکھیں اور ایک سماجی طبقے طورپر اپنی حیثیت منوانے اور اپنے دائرۂ اثر کو وسیع تر اور پائیدار بنانے کی جدوجہد کرتے رہیں۔ اس کے لیے معاشرے میں مذہب کے ساتھ ایک عمومی وابستگی اور اس کی بنیاد پر ملنے والی تائید وحمایت انھیں پیش نظر مقصد کے لیے کافی محسوس ہوتی ہے، جبکہ معاشرے کو علم وعقل اور اخلاقی تربیت کے میدان میں جن سوالات کا سامنا ہے، وہ اہل مذہب کی توجہ سے خارج ہیں۔ یہ نظام پورے معنوں میں ایک گروہی، حزبی اور طبقاتی نفسیات کی نمائندگی کرتا ہے اور اس کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ہر مذہبی طبقہ فکر اس کو ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اپنے وابستگان کے علمی وفکری استفادے کو ایک خاص دائرے کا پابند رکھے اور چند مخصوص فکری ترجیحات اور علمی شخصیات سے ہٹ کر، جو اس طبقہ فکر کے جداگانہ فکری تشخص کی علامت ہیں، ان کے لیے اخذ واستفادہ کا دروازہ بند رکھا جائے۔ 

اہل مذہب کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اس صورت حال کے پیدا ہونے کی ذمہ داری کافی حد تک خود ان پر عائد ہوتی ہے۔ علم کلام اور فقہ وشریعت کے دائروں میں نئے پیدا ہونے والے مباحث کے حوالے سے علمی خلا کو موثر طریقے سے پر کرنے سے صرف نظر کا رویہ آخر کس نے اختیار کیے رکھا؟ اگر ان کے اس اعراض کے نتیجے میں بعض نئے فکری طبقات کو آگے بڑھنے اور اس میدان میں اپنی جگہ بنانے کا موقع ملا ہے تو کس بنیاد پر ان طبقوں سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ روایتی اہل مذہب کے بالمقابل تعبیر دین کے حق سے دست بردار ہو جائیں ؟

روایتی مذہبی طبقے نے مغربی فکر وتہذیب کے چیلنج کے نمودار ہونے کا نہ پیشگی اندازہ کیا اور نہ اس کے لیے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت محسوس کی، بلکہ جب یہ چیلنج اپنے تمام تر مضمرات سمیت ان کے سامنے آکھڑا ہوا تو بھی وہ، اپنی علمی وذہنی حالت کے پیش نظر، اس سے مسلسل صرف نظر کرتا رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عقائد وکلام سے لے کر تعلیم ومعاشرت اورمعیشت اور تہذیب کے دائروں میں پیدا ہونے ان گنت نئے مباحث میں داد تحقیق دینے کے لیے روایتی علمی طبقہ سے باہر کے کچھ لوگ متوجہ ہوئے اور انہوں نے اپنے اپنے ذوق اور فہم وفراست کے مطابق ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین کی تعبیر وتشریح کے حوالے سے اہل علم کے روایتی طبقہ کو ماضی میں جو بلاشرکت غیرے (Exclusive) مرجعیت حاصل تھی، وہ ختم ہو گئی۔ ان کی حیثیت اب اس میدان کے ’’ایک‘‘ فریق کی ہو گئی جسے اپنی تعبیر دین، بہرحال، ایک ’’تعبیر‘‘ ہی کی حیثیت سے پیش کرنی اور استدلال ہی کے زور پر مخالف تعبیرات پر تنقید کرنی ہے۔ تاریخی، تہذیبی، معاشرتی اور علمی لحاظ سے طبقہ علما کو جو برتری ماضی میں حاصل تھی، اس کے کھو جانے کے بعد اب علمی استدلال کی قوت ہی ان کا واحد سہارا ہے۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے لیکن طبقہ علما اس پوزیشن کو قبول کرنے کے لیے نفسیاتی طور پرتیار نہیں۔ 

امر واقعہ یہ ہے کہ مختلف عوامل کے نتیجے میں ایک نیا پراسس شروع ہو کر ملت کے فکری دھارے میں شامل ہو چکا ہے اور قدیم وجدید کی یہ فکری Polarityاب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ نظری طور پر بے شک یہ بحثیں اٹھائی جا سکتی ہیں کہ فقہ واجتہاد کی مطلوبہ علمی شرائط کیا ہیں اور تعبیر دین کا اختیار مانگنے والے نئے فکری طبقات ان کو پورا کرتے ہیں یا نہیں، لیکن تاریخ کا جبر اس استدلال کو وزن دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے ہمیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ کوئی بھی تعبیر دین، خواہ وہ علما کی نظر میں کتنی ہی غلط، بے بنیاد اور مسلمات کے خلاف کیوں نہ ہو، اگر اسے معاشرے کے فہیم طبقات میں پذیرائی حاصل ہے تو محض علما کی خواہش یا مطالبے پر اسے نابود نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس نئی صورت حال کو شعوری طور پر قبول کرنا، اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر اس سے ہم آہنگ کرنا اور سنجیدہ علمی مزاج کو اجتماعی طور پر اپنے اندر پروان چڑھانا ہی بہتری اور اصلاح حال کے لیے کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

یہ نکتہ بھی اہل مذہب کے سنجیدہ غور وفکر کا مستحق ہے کہ اگر دین کی ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں میں غزالی، ابن رشد، ابن تیمیہ، ابن خلدون، ابن عربی اور شاہ ولی اللہ کی سطح کے مفکرین پیدا ہوں جو علم وعقل کے میدان میں درپیش چیلنج سے نبرد آزما ہو سکیں تو ظاہر ہے کہ وہ ان فکری قدغنوں کے ماحول میں پیدا نہیں ہو سکتے جہاں تقلید آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہو اور اجتہاد اور آزادئ فکر کو طعنے بلکہ گالی کا درجہ دے دیا جائے۔ یقیناًآزادئ فکر میں خطرات بھی ہیں، لیکن یہ خطرہ تو مول لینا ہی پڑے گا کیونکہ یہ قیمت ادا کیے بغیر اعلیٰ سطح کی وہ فکری وتخلیقی دانش پیدا نہیں کی جا سکتی جس کا فقدان اس وقت بانجھ پن کی حدوں کو چھو رہا ہے۔

علما کو یہ حقیقت بھی سمجھنا ہوگی کہ ماضی میں انھیں حاصل معاشرتی قدر ومنزلت اور مرجعیت کوئی خدائی استحقاق نہیں بلکہ اس حقیقت کا نتیجہ تھی کہ معاشرے کے عوام وخواص کو ان کی علمی لیاقت اور فہم وبصیرت پر اعتماد تھا اور وہ اپنے دور کے علمی وعملی سوالات کا ادراک کرنے اور ان کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ نتیجہ اب بھی اس شرط کو پورا کیے بغیر ممکن نہیں۔ علما اگر اپنے علم وفہم کا معیار بہتر کریں گے، جدید ذہن کے سوالات اور جدید معاشرے کے مسائل کا ادراک کریں گے اور علم وفکر کی سطح پر معاشرے کی قیادت کی اہلیت اپنے اندر پیدا کریں گے تو انھیں وہ احترام اور وقار خود بخود حاصل ہو جائے گا جس کے حاصل نہ ہونے کے وہ اس وقت شاکی ہیں۔ ان میں سے اس معیار پر پورے اترنے والے اہل علم کو انفرادی سطح پر یہ مقام اب بھی حاصل ہے۔ وہ اگر بحیثیت طبقے کے اس کے خواہاں ہیں تو اس کے تقاضوں کو بھی پورے طبقے ہی کی سطح پر پورا کرنا ہوگا۔ 

مذہبی طبقے کو اس حقیقت کو بھی پوری طرح مد نظر رکھا ہوگا کہ مسلم معاشرہ اس وقت فکری، تہذیبی، نفسیاتی اور اخلاقی اعتبار سے شدید شکست وریخت کا شکار ہے۔ وہ بے حد ہمدردی، داعیانہ اخلاص اور لطف وملائمت کے ساتھ تعمیر نو کا محتاج ہے۔ وہ کوئی ہٹا کٹا اور تنومند معاشرہ نہیں جس پر اندھا دھند شرعی حدود نافذ کر دی جائیں۔ وہ ایسا بیمار ہے کہ اس مرحلے پر اگر اسے علامتی طور پر جھاڑو کے تنکے مار دیے جائیں تو بھی شریعت کا منشا پورا ہو جائے گا۔ اس کی مثال اس ماں کی سی ہے جسے بدکاری کی سزا دینے کے لیے اس وقت کا انتظار کرنا پڑے گا جب وہ اپنے بچے کو جنم دینے کے بعد اس کی پرورش کے ضروری مراحل سے فارغ ہو جائے۔ وہ اس وقت ایک فقیہ اور قاضی کے دروں سے زیادہ ایک صوفی کی دل گداز باتوں اور ایک مسیحا کے پھاہوں کا محتاج ہے۔ اس کا علاج فقیہوں اور فریسیوں کے بے لچک ضابطوں میں نہیں، بلکہ سیدنا مسیح کے دل نواز وعظوں میں ہے۔ 

کوئی بھی طبقہ اپنی بقا اور اپنے کردار کے مفید تسلسل کے لیے خو دتنقیدی اور داخلی احتساب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ بد قسمتی سے اہل دین اس وقت اپنی ترجیحات اور اپنے متعین کردہ کردار کے حوالے سے سخت حساسیت کا شکار ہیں اور کسی بھی قسم کا تنقیدی تجزیہ سننے اور اسے قبول کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ اس کی وجہ قابل فہم ہے، کیونکہ جب کوئی طبقہ چاروں طرف سے یلغار کا شکار ہو اور ہر طرف سے جائز یا ناجائز اعتراضات سخت اور تیز وتند لہجے میں وارد کیے جا رہے ہوں تو وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر کیموفلاج کرنے میں عافیت محسوس کرتا ہے۔ تاہم اگر اہل مذہب اپنے کردار کو دفاع سے اقدام میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو تنقید کے حوالے سے ’ذکاوت حس‘ کی یہ کیفیت نہایت منفی اور مضر ہے۔ انھیں چاہیے کہ وہ نہ صرف خارج اور داخل سے ہونے والی مختلف تنقیدوں کو پوری توجہ سے سنیں اور ان پر غور کریں بلکہ ازخود تنقیدی سوالات اٹھانے کا رجحان بھی پیداکریں۔ مدارس کے اساتذہ آپس میں ان موضوعات پر گفتگو کریں، تنقیدوں کا سنجیدہ تجزیہ کریں، ان کے مثبت اور منفی پہلووں کو متعین کریں اور اس طرز فکر کو مدارس کے ماحول کا حصہ بنائیں۔ اس سے چیزیں نکھریں گی اور خیالات اور ترجیحات میں وضوح پیدا ہوگا جو اہل دین کو اپنے آئندہ کردار کے تعین میں مدد دے گا۔

آراء و افکار

(مارچ ۲۰۱۶ء)

تلاش

Flag Counter