۴ فروری ۲۰۱۶ء جمعۃ المبارک کی شب کو آفتاب علم غروب ہو گیا۔ اردو کا محاورہ ہے ’’اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے‘‘، لیکن یہ آفتاب علم تو غروب ہو گیا، مگر تفسیر تبیان القرآن، تفسیر تبیان الفرقان، شرح صحیح مسلم او ر نعمۃ الباری یعنی علوم قرآن وحدیث کے فیضان کی صورت میں اپنا نور پیچھے چھوڑ گیا ہے جو ان شاء اللہ العزیز آنے والی صدیوں تک تشنگان علم کو فیض یاب کرتا رہے گا۔
فارسی کا مقولہ ہے ’’ہر گلے را رنگ وبوئے دیگر است‘‘، یعنی ہر پھول کی اپنی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر شخص کا استحقاق ہے کہ وہ علم کی دنیا میں جسے چاہے اپنا آئیڈیل قرار دے، کیونکہ ہر شخص کی پسند وناپسند، ترجیحات اور معیارات اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ میری دیانت دارانہ رائے کے مطابق اردو بولنے، لکھنے اور پڑھے جانے والے ہمارے اس خطے میں تفسیر وحدیث کے میدان میں جتنا کام علامہ غلام رسول سعیدی نے تیس سال میں کیا ہے، گزشتہ نصف صدی میں اتنا تحقیقی، وقیع اور علمی کام کسی اور کا نظر نہیں آتا۔ ہمیں تسلیم ہے کہ ہر دور میں اصحاب علم اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہوئے گئے ہیں اور ہر صاحب علم کے کام میں ان کے منہج اور مزاج کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی تفرد، تفوق اور امتیاز ضرور ہوتا ہے، لہٰذا یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کسی ایک صاحب کمال کی تحسین وتعریف سے دوسروں کی نفی یا ان پر تنقید یا ان کی تنقیص مقصود نہیں ہوتی، صرف ایک حقیقت واقعی کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔
اردو زبان میں علامہ صاحب کی تفسیر تبیان القرآن سب سے مبسوط، مفصل او رمدلل تفسیر ہے۔ آج کی تاریخ تک یہ اردو زبان کی واحد تفسیر ہے کہ جس میں تفسیر القرآن بالقرآن اور تفسیر القرآن بالحدیث کو بالترتیب درجہ اولیٰ اور ثانیہ میں رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد آثار صحابہ وتابعین، پھر ائمہ مجتہدین کے اجتہادات وآرا کو ترجیح دی گئی ہے۔ جدید تحقیقی ، طبی اور سائنسی تحقیقات کے بھی آپ نے دوران تفسیر حوالے دیے ہیں۔ تمام احادیث اصل مآخذ کے حوالہ جات اور رقم الحدیث کے ساتھ درج ہیں اور یہ سارا کام انھوں نے اپنی علمی ریاضت اور مشقت سے (Manually) کیا ہے، انھیں کمپیوٹر تک رسائی (Access) نہیں تھی۔ صحیح بخاری کی احادیث کی ترقیم (Numbering) اور ان احادیث کے دیگر کتب حدیث میں حوالہ جات کے ساتھ جدید صحیح بخاری ابھی بیروت سے چھپ کر نہیں آئی تھی کہ آپ نے اپنے زیر تربیت طلبہ کے ذریعے نہ صرف صحیح بخاری بلکہ بعض دیگر کتب احادیث کی ترقیم خود کرائی۔ آپ کی دیگر تصانیف میں تذکرۃ المحدثین، مقالات سعیدی، توضیح البیان، مقام ولایت ونبوت، تاریخ نجد وحجاز، ذکر بالجہر اور متعدد دیگر وقیع کتب شامل ہیں۔
آپ کی تفاسیر اور شروح حدیث میں جا بجا ایسی معرکۃ الآرا علمی وتحقیقی ابحاث شامل ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کو مستقل رسائل کی صورت میں ایڈٹ کر کے طبع کرایا جا سکتا ہے اور ہم ان کے نام سے منسوب ’’سعید ملت فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے ایک علمی، تحقیقی اور تصنیفی ادارہ قائم کرنے کی تدبیر کر رہے ہیں۔ وسائل کی دست یابی کی صورت میں ان شاء اللہ العزیز اس کام کو منظم، مربوط اور خوب صورت انداز میں سامنے لانے کی سعی کی جائے گی۔
حضرت کا جنازہ پاکستان کے بڑے تاریخی، منظم اور علمی وروحانی شکوہ سے بھرپور جنازوں میں سے ایک تھا۔ مجھے سیکڑوں علما ومشائخ اور لاکھوں عوام کی موجودگی میں ٹی گراؤنڈ فیڈرل بی ایریا کراچی میں آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کی تدفین جامع مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی بے پایاں مغفرت سے نوازے اور آپ کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مقبولہ اور قربت نصیب ہو اور رب کریم آپ کے درجات کو بلند اور آپ کی گراں قدر دینی خدمت کو تاقیامت صدقہ جاریہ فرمائے۔
(بشکریہ روزنامہ ’’دنیا‘‘)