گذشتہ برس بہاؤالدین زکریا یونی ورسٹی ملتان میں ماس کمیونی کیشن میں ایم فل کے لیے داخلہ لیا تو ملتان جانا ہوا۔ ہفتہ اور اتوار کلاس ہوتی تھی۔ ایک روز جامعہ خیر المدارس کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے جنرل سیکرٹری برادر بزرگوار محترم قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کو فون کیا کہ ملتان میں ہوں، ملنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی ہیں، لیکن حکم دیا کہ ’’آپ کو ہر صورت خیر المدارس جانا ہے‘‘۔ ہم حکم کی تعمیل میں جامعہ خیر المدارس گئے اور رات وہیں قیام کیا۔
خیر المدارس ملتان شیخ الحدیث مولانا خواجہ خیر محمد جالندھری کا لگایا ہوا پودا ہے جس کے سایے میں ہمہ وقت قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں۔ والد محترم نے کچھ عرصہ خیر المدارس میں پڑھا تھا۔ جامعہ کے ناظم حضرت مولانا نجم الحق صاحب نے مدرسے کا دورہ کرایا۔ وہ خود ایک باکمال شخصیت ہیں۔ میری خواہش تھی کہ میں ان کے حوالے سے ایک مضمون لکھوں ۔ پاکستان میں وہ پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے خود کش حملوں کے خلاف ۲۰۰۴ء میں تحقیقی مقالہ لکھا ۔ یہ مقالہ عالمی فورمز پر پڑھا گیا۔ آج لوگ اس مقالے سے اہنے مقالے تیار کرتے ہیں، لیکن انہیں اس وقت اچھا نہیں کہا گیا۔ جامعہ خیر المدارس کا بہت خوبصورت اور صاف ستھرا ماحول دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ اساتذہ سے ملے۔ اتنا بہترین نظم و نسق آپ کو کم ہی کہیں دکھائی دیتا ہے۔ مدرسے میں واقع قرآن ہال دیکھا۔ درختوں کے سایے میں خوبصورت تالاب اور تالاب کے کنارے قدیم طرز تعمیر کی عالیشان مسجد اور مسجد کے سامنے دارلحدیث واقع ہے۔ ہم نے مولانا خیر محمد جالندھری اور مولانا محمد شریف جالندھری کی مرقد پرفاتحہ خوانی کی۔
میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں کہ جہاں جاؤں ، صاحبان علم سے خاص طورعلم کی خیرات ضرور حاصل کروں، یہی توشہ آخرت ہے۔ مولانا نجم الحق صاحب نے بتایا کہ دار الحدیث حدیث کے عقب میں شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق صاحب رہائش پزیر ہیں۔ مولانا تقریباً ساٹھ برس سے جامعہ خیر المدارس میں پڑھا رہے ہیں۔ ان کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انہوں نے یہیں سے تعلیم حاصل کی اور پھر تدریس بھی یہاں ہی کی۔ ملاقات کی خواہش کی تو انہوں نے طلب فرمایا۔ مولانا منظور احمد صاحب، اقبال بالاکوٹی صاحب، مولانا نجم الحق صاحب کے فرزند عداس نجم صاحب، دعوۃ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ناصر فرید صاحب، ہم سب ان کی خدمت میں اکٹھے حاضر ہوئے۔ ان کے پاس بیٹھے، کئی باتیں کی۔ انہوں نے زمانہ طالب علمی کے قصے سنائے۔ میں نے ان سے مدرسے کی خوبصورت کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’ حضرت آپ ضرور خیر المدارس کے رومانوی ماحول کا شکار ہوئے ہیں جو یہاں سے گئے نہیں۔ کندھے پر تھپکی دی اور ہنس پڑے۔
میری خواہش پر حصول برکت کے لیے انہوں نے بخاری شریف کتاب الایمان سے دو احادیث پڑھائیں۔ اصرار کے ساتھ چائے پلائی۔ مجھے لگا کہ ان کا کمرہ محبتوں کا ایک حصار تھا جہاں سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ اور کیوں نہ ہوتا! جی ہاں یہ وہی کمرہ تھا جہاں صبح و شام رسول اللہ کی باتیں ہوتی تھیں ، اس سادہ سے کمرے میں اتنا سکون تھا کہ اگر اسے تقسیم کیا جائے تو پورے ملتان میں بٹ جائے، لیکن ہم جیسے دماغ کے سودوں کو دل کے سودوں پر ترجیح دے دیتے ہیں اور ساری زندگی خسارے میں گذارتے ہیں۔
فرمایا: پاکستان مسجد کی طرح مقدس ہے. اس میں کسی قسم کا انتشار اور تفرقہ پھیلانا خود اپنے وجود کو عذاب میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ پھر پاکستان کے حوالے سے اپنا رقم کردہ ایک کتابچہ دیا۔ (جامعہ خیر المدارس کے منتظمین کو چاہیے کہ وہ اس کتابچے کو کثیر تعداد میں شائع کروا کے تقسیم کروائیں۔ ) نصف گھنٹہ سے زیادہ ان کے صحبت میسر رہی ۔ ان سے دعاؤں کی درخواست کی تو انہوں نے محبت سے بار گاہ خداوندی میں ہاتھ اٹھا کر ہمارے لیے دعا کی اور مجھے وہ قبول ہوتی نظر آ نے لگی۔ ہم نے دست بوسی کی سعادت حاصل کی، انہوں نے سر پہ اپنا ہاتھ پھیرا اور ہم باہر چلے آئے۔ میں اس جگہ حاصل ہونے والے سکون کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔
آج صبح جاگا تو موبائل پر پیغام تھا کہ یادگار اسلاف ، استاذ العلماء شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق صاحب اس عارضی دنیا کو اپنے علم و عرفان سے مہکانے کے بعد الوداع ہو چکے ہیں۔ ذہن میں اتنا سا خیال آیا کہ جانا تو سب نے ہے، لیکن کاش ان کے جانے سے پہلے ایک ملاقات اور ہو جاتی۔ ان کے جنازے میں پورا شہر امڈ آیا تھا۔ نہ کوئی عہدہ اور نہ سلطنت، صدیق کی صداقت کی گواہی ملتان کی سوگوار فضا، آہیں اور سسکیاں دے رہی تھیں۔
برادر مولانا عبد القدوس محمدی صاحب نے لکھا کہ ان کے جانے کے بعد ہم دعاؤں کے ایک اور دَر سے محروم ہو گئے۔ واقعی اتنی بے لوث اور محبت بھری دعائیں اور کون دے سکتا ہے۔ اللہ حضرت کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے متعلقین اور اقربا کو صبر جمیل عطا فرمائے۔