اسلامی نظامِ تعلیم کے خلاف فرنگی حکمرانوں کی سازش

شریف احمد طاہر

مسلم قوم اس کرۂ ارض پر چودہ سو سال سے جاوداں ہے۔ اس کے سفر کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رہنمائی میں ہوا اور طاقت و توانائی خلفاء راشدینؓ، تابعینؒ، تبع تابعینؒ، علماء کرامؒ، مصلحینِ امتؒ اور صوفیائے عظامؒ سے حاصل ہوتی رہی۔ جب پرچمِ اسلام کو بنو امیہ نے اپنے ہاتھوں میں لیا تو انہوں نے اس کو چین اور اسپین تک لہرایا۔ فرانس (کوہ پارنیز) کی سرحدوں کو عبور کیا۔ کرۂ ارض کے مکینوں کو حیاتِ نو کا پیغام دیا اور علوم و فنون کی سرپرستی کی اور خلفاء بنو امیہ کا اسپینی دور علمی و سیاسی دونوں اعتبار سے عہدِ زریں کہلایا۔

جب یہ شمعٔ فروزاں بنو عباس کے ہاتھ میں آئی تو علوم و فنون کو جلا ملی، نئی نئی ایجادات ہوئیں، جدید اصول مرتب ہوئے، تجربہ گاہیں اور رصدگاہیں تعمیر ہوئیں، بیت الحکمت کی بنیاد پڑی، دارالترجمہ قائم ہوا، اور جو علوم و فنون سربستہ راز تھے اور جسے عیسائی دنیا گمراہی و ضلالت کا پلندہ تصور کرتی تھی اسے مسلمانوں نے نسخۂ کیمیا بنا کر پیش کیا جس سے خود عیسائیوں نے استفادہ کیا۔ بنو عباس نے اپنے دورِ عروج میں خود علمی، دینی، تمدنی اور ثقافتی ہر میدان میں دنیا کی رہنمائی کی۔

اور دورِ زوال جس میں طاقت و قوت کے محور ترک و یالمہ اور سلجوقی ترک بن گئے تھے، شمع کو روشن رکھا، علوم و فنون کو عام کیا، دینی احساس کو بیدار کیا۔ خاص طور سے ساحقہ، ملک شاہ سلجوقی اور اس کا وزیر نظام الملک طوسی اس میدان میں فائق اور عظیم صلاحیتوں کے مالک ثابت ہوئے۔ علم کی شمع روشن رکھنے کے لیے درسگاہیں بنوائیں، فضلاء اور ماہرین کے لیے مسندِ درس قائم کی، طلبہ کے لیے جدید طرز کی سہولتیں، قیام و طعام فراہم کیے، ان کے لیے وظائف مقرر کیے اور مدارس کا جال بچھا دیا۔

الحاکم بامر اللہ نے سب سے پہلا مدرسہ قائم کیا، پھر استاذ ابوبکر فورک کے لیے نیشاپور میں ایک مدرسہ تعمیر ہوا اور دوسرا مدرسہ بہیقیہ کے نام سے تعمیر ہوا جس کے مدرس اعظم ابوالقاسم اسفرائنی تھے اور اس میں امام الحرمین اور امام غزالیؒ کے استاذ اپنے والد کے انتقال کے بعد داخل ہوئے۔ محمود غزنویؒ نے دارالسلطنت غزنین میں مدرسہ قائم کیا اور فتوحاتِ ہند کا ایک قیمتی حصہ اس پر صرف کر دیا۔ جاگیریں وقف کیں، غزنویؒ کے بھائی امیر نصر بن سبکتگینؒ نے بھی نیشاپور میں مدرسہ بنایا جس کا نام سعیدیہ رکھا۔ اس کے بعد ہی نظام الملک نے مدارس کا جال بچھایا اور انہیں نظامیہ بغدادیہ کے ماتحت رکھا۔ ابو نصر صباغؒ، شیخ جمال الدین شیرازیؒ، علی بن مظفرؒ، امام عبد اللہ الحسین طبریؒ، قاضی ابو محمد شیرازیؒ، امام ابو حامد غزالیؒ اور ان کے چھوٹے بھائی احمد غزالیؒ جیسے حکماء اسلام اور ماہرین اس مدرسہ میں تدریس کے فرائض پر فائز رہتے، اس کے ماتحت نظامیہ کا ایک طویل جال بچھا دیا گیا۔ نیشاپور، اصفہانی، مرو، خوزستان، موصل، جزیرہ ابن عمرؓ، آئل، بصرہ، ہرات، بلخ، ملوس قابل ذکر ہیں جس میں ابوالمعالی امام الحرمین ابو حامد غزالیؒ، ابوالمعالی نیشاپوریؒ وغیرہ مسندِ درس پر سرفراز ہوئے۔

جامعہ ازہر کی تعمیر ہوئی، جامعہ قیروان کی اساس پڑی، جامعہ زیتونہ نے نہ مٹنے والے نقوش ثبت کیے۔ ان میں تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، طلب، فلسفہ، کیمیا، علمِ نجوم، ریاضی اور جغرافیہ کی تعلیم ہوتی تھی مگر صلیبی حملوں نے اس تسلسل کو ناقابل ذکر نقصان پہنچا دیا اور ان مدارس کا رخ مغرب میں ترکی اور مشرق میں برصغیر کی طرف ہوا اور اس میں مملوک، خلجی، پٹھان، تغلق اور مغلوں نے ایک جوش اور ولولہ اور جمعیت دی اور علوم و فنون کی آبیاری کی۔

ان مدارس کی سرپرستی سیاسی تفوق رکھنے والے افراد کرتے تھے۔ مگر جب مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہوئے تو یہ نظام ان اللہ کے مخلص بندوں کے ہاتھ میں آیا جنہوں نے اس کی سرپرستی علمی اور مالی دونوں طرح سے کی اور دینی مدارس کے نظام کی داغ بیل ڈالی اور نہ ختم ہونے والا سلسلہ قائم کیا۔ دینی تعلیم کا رواج ہوا، زبان کو استحکام حاصل ہوا، اسلامی ثقافت و دین کی حفاظت کرنے میں بڑی مدد ملی۔

پھر ایک ایسا دور آیا کہ اس برصغیر پر انگریز قوم نے حیلہ و بہانہ اور مکر و فریب سے قبضہ جما لیا تھا اور اس کے بعد اس نے جس جبر و استبداد اور ظلم و سفاکی سے یہاں حکمرانی کی ہے میں اس کی مختصر داستان آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ گویا ؎

وسعتِ دل ہے بہت، وسعتِ صحرا کم ہے
اس لیے دل کو تڑپنے کی تمنا کم ہے

جبکہ انگریز قوم نے یہاں کی مسلم قوم کو اپنی روایات و ثقافت، تمدن و سیاست، اور ملی جوش و خروش سے اس حد تک نا آشنا کر دیا ہے جس کا رونا علامہ اقبال مرحوم نے یوں رویا ہے ؎

کتابیں دے کے مجھ سے تیغ و خنجر چھیننے والے
تیری تعلیم سے اچھا تھا جوشِ جنوں میرا

۱۸۵۷ء سے جب اس جابر و قاہر، ظالم و کافر اور مکار قوم نے اس ملک پر زبردستی تسلط جما لیا تھا اور یہاں کی دولت، سیاست، ثقافت، معیشت، قومیت تمام چیزوں کو تباہ کر دیا تھا، اس سلسلہ میں کس کس نقصان کا ذکر کیا جائے بلکہ

؏ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم

پھر اس نے جہاں برصغیر کے لوگوں کی جان و مال، دین و مذہب، ضمیر و خمیر اور ذہن و دماغ سب کو نقصان پہنچایا اور مسلمان قوم کو بنیادی اور ذہنی طور پر ناکارہ کرنے کا پروگرام اور جو سامان اس نے مہیا کیا وہاں اس نے اس قوم کو وہ نظامِ تعلیم دیا جس سے ملک و قوم کی دینی و مذہبی کایا پلٹ گئی۔ جبکہ انگریزی اقتدار سے قبل یہاں دینی علوم و فنون کا رواج بھی زوروں پر تھا۔ اس ملک میں سکولوں اور دینی مدارس کا یہ حال تھا کہ اس وقت کے سرکاری گزٹ کے مطابق صرف متحدہ بنگال میں مسلمانوں کے دس ہزار مدارس تھے۔ ادھر مضافاتِ دہلی میں صبح الاعشٰی قلشندی کے حوالے سے ایک ہزار عربی مدارس تھے جن میں سے ایک مدرسہ شوافع کا تھا اور باقی تمام احناف کے تھے۔ اس طرح انگریز سیاح ڈاکٹر ہملٹن جب ۱۴۹۰ء میں سندھ آیا تو اس نے سفر نامہ بعہدِ اورنگزیب میں ٹھٹھہ جیسے قصبہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہاں مذہب اور فلسفے کا خوب چرچا ہے اور چار صد دارالعلوم ہیں۔

پھر جس وقت انگریز نے اس ملک میں اسلامی روایات اور علومِ دینیہ کے مراکز و مدارس کو مختلف تدابیر سے ختم کر دیا اور اپنا وہ مجوزہ نظامِ تعلیم رائج کر دیا جسے لارڈمیکالے نے تیار کر کے کہا تھا ’’ہماری سکولوں کالجوں میں انگریزی تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں اور دل و دماغ سے انگلستانی ہوں‘‘۔ یہ آواز برسرِ اقتدار قوم کی آواز تھی، اس تعلیم سے ایسی نسلیں ابھرنی شروع ہو گئیں جو گوشت پوست کے لحاظ سے یقیناً‌ ہندوستانی تھیں لیکن اپنے طرزِ فکر اور سوچنے کے رنگ ڈھنگ سے خالص انگریز ہی بن چکی تھیں۔ اس عیار و مکار قوم انگریز کے کیا ارادے تھے ان کے اپنے انداز میں ملاحظہ فرمائیں:

پادری جارج ای بوسٹ نے ’’پروٹسٹنٹ‘‘ فرقہ کی صد سالہ جوبلی میں یہ تقریر کی:

’’یہ زندگی کی جنگ ہے، ہمیں مسلمانوں پر فتح حاصل کرنی چاہیئے ورنہ وہ ہم پر فتح پا لیں گے۔ ہم کو عرب جانا چاہیئے، سوڈان جانا چاہیئے، وسط ایشیا کا سفر کرنا چاہیئے اور یہاں کے لوگوں کو عیسائی بنانے کا کام کرنا چاہیئے ورنہ مسلمان صحراؤں کو عبور کر کے آگ کی طرح پھیلیں گے۔‘‘

اور مستشرق مؤرخ دلفریڈ کائن ویل نے یوں لکھا ہے:

’’اسلام ہی پوری مغربی تاریخ اور مغرب کا واحد اور حقیقی حریف ہے۔ ہمیں یہ پتہ لگانا چاہیئے کہ اسلام کا مقابلہ کیوں سخت ہے اور ماضی میں کس طرح اسلام ایک خطرہ بن کر سامنے آیا تھا اور اب وہ تقریباً‌ نصف مسیحی دنیا پر چھایا ہوا ہے۔‘‘

مشن سکول کے بانیوں اور پادری ولیم نے اپنے مشنری مرکز کو ہدایت دی:

’’اس نظامِ تعلیم کا اصل مقصد مسلمان علماء کے وقار کو مجروح کر کے ان کے خلاف مسلم معاشرے میں نفرت و حقارت کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔‘‘

اور مشنریوں کے الفاظ میں:

’’جب تک رائے عامہ ان مذہب کے ٹھیکیداروں کے خلاف نہ ہو جائے تب تک ہندوستانیوں کے درمیان مسیح کو پیش کرنا ممکن نہیں۔‘‘

برطانیہ کے وزیراعظم مسٹر گلیڈسٹون نے دارالعوام میں قرآن ہاتھ میں لے کر تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

’’جب تک مسلمانوں کے پاس یہ ایسی ویسی کتاب موجود ہے ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘

اس کے بعد قرآن کی مزید (ناقابلِ تحریر و برداشت) توہین کی۔ ایسی خرافات اور اسلام کے خلاف تعلیوں کے بعد یہ گستاخ انگریز جس پہلے بحری جہاز میں سفر کر رہا تھا قرآن والے نے اس جہاز کا بیڑا فرعون کی طرح غرق کر دیا تھا۔ اور لارڈ کچز جیسے مشہور انگریز کی اسلامی دشمنی اور مسلمانوں سے عداوت تو ضرب المثل ہے۔ اسی واسطے حضرت شیخ الہند مولانا محمد حسینؒ فرمایا کرتے تھے کہ:

’’روئے زمین پر عیسائیوں اور انگریزوں سے بڑا کوئی دشمن ہمارا نہیں۔ اس لیے ہم بھی انگریز کے سب سے بڑے مخالف ہیں۔‘‘

اور وہی ہوا کہ ایک طرف تو اس انگریزی نظامِ تعلیم سے قوم و ملک کے اثر پذیر طبقہ کا ذہن اس طرح بنایا گیا جس طرح کہ منصوبہ تھا، اور دوسری طرف علماء پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا۔ ان کے ذرائع تعلیم اور تبلیغ اور مدارس کو برباد کیا گیا اور خاص طور پر ۱۸۵۷ء کے انقلاب میں حصہ لینے والے علماء میں سے جو باقی رہ گئے تھے ان کو نہایت بے رحمی سے ختم کیا گیا۔

۱۸۵۷ء کے جہادِ حریت کے بعد جب حضرات مجاہدین نے دیکھا کہ ملک ہاتھوں سے گیا اور یہ خطرناک سیلاب امڈ آیا تو اب ملت کے تحفظ اور دین کی بقاء اور اس کے استحکام کے لیے کوئی دوسرا محاذ قائم کرنا ضروری ہے، تو حضراتِ شیخین مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور لارڈ میکالے کے چیلنج کا مقابلہ کرنے اور ایشیا میں مسلمانوں کی عربی زبان کے احیاء، تہذیب و تمدن کے تحفظ، ملک میں دینی استحکام و دوام کے لیے مدارس، دارالعلوم اور جامعات کا نظام قائم کیا اور یہ نعرہ بلند فرمایا:

’’ہماری تعلیم کا مقصد ایسے جوان تیار کرنا ہے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں اور دل و دماغ کے لحاظ سے مسلمان ہوں جن میں اسلامی تہذیب و تمدن کے جذبات بیدار ہوں اور دین و سیاست کے اعتبار سے ان میں اسلامی شعور زندہ رہے۔‘‘

بلاشبہ دارالعلوم دیوبند ہندوپاک میں ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی تحفظ ناموس رسالتؐ و صحابہؓ اور بقائے اسلام کا ذریعہ ہے۔ علماء دیوبند کی جماعت مسلک حقہٗ کی ہمہ گیری کی وجہ سے ہر فتنہ کی مداخلت کے لیے سینہ سپر ہے۔ ان علماء نے ہر دور میں اعلاء کلمۃ الحق، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض ادا کیا ہے اور اسی اسلوب اور اسی رنگ ڈھنگ میں جس رنگ میں فتنہ نے سر اٹھایا۔ ان مدارس اور درسگاہوں نے مسلمانوں کے نشوونما، اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے، اور قوم کو طاقت و توانائی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اور جب تک ان مدارس کو طاقت و توانائی ملتی رہے گی اور یہ پودا برگ و بار لاتارہے گا، مسلمانوں کو اپنا تشخص اور اپنی سالمیت برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ اور ان مدارس ہی کے استحکام میں ان کا وجود، تشخص اور سالمیت مضمر ہے ؎

خودی میں ڈوب جا عامل یہ سرِِ زندگانی ہے
نکل کر حلقۂ شام و سحر سے جاوداں ہو جا

عالم اسلام اور مغرب

(مارچ ۱۹۹۰ء)

مارچ ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۳

اسلامی بیداری کی لہر اور مسلم ممالک
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

احادیثِ رسول اللہؐ کی حفاظت و تدوین
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مولانا عزیر گلؒ
عادل صدیقی

مجھے قرآن میں روحانی سکون ملا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نظامِ خلافت کا احیاء
مولانا ابوالکلام آزاد

حرکۃ المجاہدین کا ترانہ
سید سلمان گیلانی

عیسائی مذہب کیسے وجود میں آیا؟
حافظ محمد عمار خان ناصر

اخلاص اور اس کی برکات
الاستاذ السید سابق

چاہِ یوسفؑ کی صدا
پروفیسر حافظ نذر احمد

شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

عصرِ حاضر کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ
حافظ محمد اقبال رنگونی

اسلامی نظامِ تعلیم کے خلاف فرنگی حکمرانوں کی سازش
شریف احمد طاہر

حدودِ شرعیہ کی مخالفت - فکری ارتداد کا دروازہ
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

قافلۂ معاد
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

وعظ و نصیحت کے ضروری آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنی احکام کا نفاذ آج بھی ممکن ہے
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

شہیدِ اسلام مولانا سید شمس الدین شہیدؒ نے فرمایا
ادارہ

تلاش

Flag Counter