شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ
فقہ حنفی کے مستند شارح

ڈاکٹر حافظ محمد شریف

نام

ابوبکر محمد بن ابی سہل احمد، نہ کہ احمد بن ابی سہل، جیسا کہ بعض مغربی مصنفین کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ چنانچہ براکلمان اور ہیفننگ اسی زمرے میں آتے ہیں۔

ولادت

متقدمین سوانح نگار آپ کی تاریخِ ولادت بیان نہیں کرتے، البتہ متاخرین میں فقیر محمد جہلمیؒ اور مولانا عبد الحی لکھنویؒ نے صراحت کی ہے کہ آپ ۴۰۰ھ کے دوران ’’سرخس‘‘ میں پیدا ہوئے۔ سرخس کے بارے میں نواب صدیق حسن خاںؒ فرماتے ہیں:

’’بفتحتین و سکون خاء معجمہ للبلد از خراسان است‘‘۔

اور مولانا عبد الحیؒ فرماتے ہیں:

السرخسی نسبۃ الی السرخسی بفتح السین و فتح الراء و سکون الخاء بلدۃ قدیمۃ من بلاد خراسان وھو اسم رجل سکن ھذا الموضع وعمّرہ و اتم بناء ذوالقرنین۔ (فوائد البیہ ص ۱۵)

یہ شہر تاریخ اسلام میں عرصۂ دراز تک بڑا مردم خیز رہا ہے۔ متعدد نامور فقہاء، طبیب، وزراء وغیرہ یہاں پیدا ہوئے۔ آج کل یہ شہر ایرانی روسی سرحد پر دونوں مملکتوں میں آدھا آدھا بٹا ہوا ہے۔ دریائے ہررود اس کے بیچ میں سے گزرتا ہے۔ (بحوالہ نذر عرشی مقالہ ڈاکٹر حمید اللہ ص ۱۲۱)

تعلیم و تربیت

دس سال کی عمر میں باپ کے ساتھ، جو تجارت پیشہ تھے، بغداد آئے۔ اس کے بعد شمس الائمہ عبد العزیز بن احمد بن نصر بن صالح الحلوانی البخاریؒ کی خدمت میں بخارا حاضر ہوئے۔ حلوانیؒ کے متعلق جمال عبد الناصر فرماتے ہیں:

ھو فقیہ الحنفیۃ کان امام اھل الرائ فی وقتہ ببخارا۔ صنف شرح المبسوط، نوادر فی الفروع والفتاوٰی، ادب القاضی لابی یوسف دفن بخاری ۴۴۸ھج۔

’’وہ احناف کے فقیہ تھے اور اپنے وقت میں بخارا اور اہل رائے کے امام تھے‘‘۔ (فروع الحنفیہ ص ۲۵۳)

حلوانی بخارا میں درس دیتے تھے۔ سرخسیؒ عرصۂ دراز تک ان کے درس میں حاضر ہوئے۔ سرخسیؒ نے اپنی شرح ’’السیر الکبیر‘‘ کے شروع میں صراحت کی ہے کہ میں نے حلوانی کے علاوہ شیخ الاسلام ابوالحسن علی بن محمد بن الحسین بن محمد الغدیؒ متوفی ۴۶۱ھ سے بھی کتاب مذکور کا درس لیا۔ نیز ان کے تیس استادوں میں ابو حفص عمر بن منصور البزار بھی ہیں، لیکن ان سے سرخسیؒ نے ’’السیر الکبیر‘‘ کا درس ان کے اس کی شرح لکھنے سے قبل لیا۔ مگر علامہ سرخسیؒ شمس الائمہ حلوانیؒ کے مشہور ترین و ممتاز ترین شاگرد ہوئے۔ آپ نہ صرف استاد کے درسگاہ ہی میں جانشین ہوئے بلکہ ان کے لقب ’’شمس الائمہ‘‘ کے بھی زبانِ خلق سے وارث قرار پائے۔

فقہی مقام و مرتبہ

فقہاء کے سات طبقات ہیں: (۱) مجتہدین فی الاصول (۲) مجتہدین فی المذہب (۳) مجتہدین فی المسائل (۴) اصحابِ تخریج (۵) اصحابِ ترجیح (۶) متمیزین بین الاقوی والقوی والاضعف والضعیف (۷) مقلدین محض۔

کمال پاشازادہؒ نے سرخسیؒ کو طبقۂ ثالثہ یعنی مجتہدین فی المسائل میں شمار کیا ہے جیسے ابوبکر خصافؒ، طحاویؒ، ابوالحسن الکرخیؒ، شمس الائمہ الحلوانیؒ، فخر الاسلام بزدویؒ، فخر الدین قاضی خاں صاحبؒ، ذخیرہ و محیط شیخ طاہر احمدؒ مصنف خلاصۃ الفتاوٰی، یہ سب حنفی ہیں جو امام کی مخالفت نہ اصول میں کرتے ہیں اور نہ فروع میں بلکہ امام کے قواعد سے ان مسائل کا استنباط کرتے ہیں جن میں امام سے کوئی روایت نہیں ہے۔

سند

فتاوٰی شامیؒ میں علامہ سرخسیؒ کی سند یوں درج ہے:

شمس الائمہ سرخسی عن شمس الائمہ الحلوانی عن القانی ابی علی النسفی عن ابی بکر محمد بن الفضل البخاری عن ابی عبد اللہ المزبونی عن ابی حفص عبد اللہ بن احمد بن ابی حفص الصغیر عن والدہ ابی حفص الکبیر عن الامام محمد بن حسن الشیبانی عن امام الائمہ سراج الامۃ ابی حنیفہ النعمان بن ثابت الکوفی عن حماد بن سلیمان عن ابراہیم النخعی عن علقمہ عن عبد اللہ بن مسعودؓ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن امین الوحی جبریل عن الحکم العدل جل جلالہ تعالیٰ و تقدست اسماءہٗ۔ (شامی ص ۴ ج ۱)

کرامات

(۱) مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کو ظالم نے قید کر کے اوزجند کی طرف بھیجا تو راستہ میں جب نماز کا وقت آتا تو آپ کے ہاتھ پاؤں سے خودبخود بند کھل جاتے۔ آپ وضو یا تیمم کرکے پہلے اذان پھر تکبیر کہہ کر نماز شروع کر دیتے۔ اس وقت پہرے دار سپاہی دیکھتے کہ ایک جماعت سبز پوشوں کی آپ کے پیچھے کھڑی ہو کر نماز ادا کر رہی ہے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوتے تو سپاہیوں کو کہتے آؤ تم مجھے باندھ لو۔ سپاہی کہتے خواجہ ہم نے تمہاری کرامت دیکھ لی ہے اب ہم تم سے ایسا معاملہ نہیں کرتے۔ اس پر خواجہ جواب دیتے کہ میں حکمِ خدا کا مامور ہوں پس میں اس کا حکم بجا لایا تاکہ قیامت کو شرمندہ نہ ہوں، اور تم اس ظالم کے تابعدار ہو پس چاہیئے کہ تم اس کا حکم بجا لاؤ تاکہ اس کے ظلم سے خلاص پاؤ۔

(۲) جب آپ شہر اوزجند پہنچے تو ایک مسجد میں مؤذن نے تکبیر کہی۔ آپ نماز پڑھنے مسجد میں داخل ہوئے، امام نے آستین کے اندر ہی ہاتھ رکھ کر تکبیر تحریمہ کہی، آپ نے پچھلی صف سے آواز دی کہ پھر تکبیر کہنی چاہیئے، امام نے پھر اسی طرح آستین میں ہاتھ رکھ کر تکبیر کہی۔ پس اس طرح تین دفعہ ردومدح ہوا، چوتھی دفعہ امام نے منہ پھیر کر کہا، شاید آپ امام اجل سرخسیؒ ہیں۔ آپ نے کہا، ہاں۔ امام نے کہا کہ تکبیر میں کچھ خلل ہے؟ آپ نے کہا کہ نہیں لیکن مردوں کے لیے ہاتھ آستین سے باہر نکال کر تکبیر کہنا سنت ہے، پس مجھ کو اس کے ساتھ اقتداء کرنے سے عار ہے جو عورتوں کی سنت کے ساتھ نماز میں داخل ہو۔

(۳) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ طالب علم آپ سے اس کنویں پر جس میں آپ قید تھے سبق پڑھ رہے تھے۔ ایک طالب علم کی آواز آپ نے نہ سنی، پوچھا کہ وہ کہاں گیا ہے؟ ایک نے کہا کہ وہ وضو کرنے گیا ہے اور میں بسبب سردی وضو نہیں کر سکا۔ آپ نے فرمایا ’’عافاک اللہ‘‘ تجھے شرم نہیں آتی کہ اس قدر سردی میں تو وضو نہیں کر سکتا، حالانکہ مجھ کو تو طالبعلمی کے وقت بخارا میں ایک دفعہ عارضہ شکم لاحق ہوا تھا جس سے مجھے بہت دفعہ قضائے حاجت ہوئی، پس ہر دفعہ نالہ سے وضو کرتا تھا۔ جب مکان پر آتا تھا تو میری دوات بسبب سردی کے جمی ہوئی تھی، پس میں اس کو اپنے سینہ پر رکھ لیتا جب وہ سینہ کی گرمی سے حل ہو جاتی تو اس سے تعلیقات لکھتا تھا۔ (حدائق الحنفیہ ص۲۰۵)

تعلیمی رفقاء

دورِ تعلیم میں آپ کے رفقاء یہ تھے: (۱) شمس الائمہ ابوبکر زنجری (۲) محمد بن علی زنجری (۳) ابوبکر محمد بن حسین (۴) فخر الاسلام علی بن محمدبن حسین بزدوی (۵) صدر الاسلام (۶) ابوالسیر محمد بن محمد بزدوی کے بھائی (۷) قاضی جمال الدین (۸) ابو نصر احمد بن عبد الرحمان (۹) علی بن عبد اللہ الخطیبی رحمہم اللہ تعالیٰ۔

تلامذہ

علامہ سرخسیؒ کے تلامذہ میں مشہور بزرگوں کے اسماء گرامی یہ ہیں: (۱) علی بن حسین سغدی (۲) رکن الاسلام مؤلف مختصر مسعودی (۳) ابوالحسن سغدی مؤلف دراوی شرح سیر کبیر۔ سغد، سمرقند کے نواح میں ہے (۴) مسعود بن حسین (۵) عبد الملک بن ابراہیم مؤلف طبقات حنفیہ و شافعیہ (۶) محمود بن عبد العزیز اوزجندی (۷) رکن الدین خطیب (۸) مسعود بن حسین کتانی (۹) محمد بن محمد بن محمد رضی الدین سرخسی مصنف محیط (۱۰) عثمان بن علی بن محمد بن محمد بن علی ۴۴۵ھ تا ۵۵۲ھ (۱۱) حیرۃ الفقہاء عبد الغفور بن نعمان کردری (۱۲) ظہیر الدین حسین بن علی مرغنیانی (۱۳) ابوعمر عثمان بن علی بیکندی (۱۴) برہان الائمہ عبد العزیز بن عمر بن بازہ۔

تصانیف

علامہ سرخسیؒ کی جو کتب چھپ چکی ہیں ان میں سے (۱) المبسوط (۲) شرح السیر الکبیر (۳) کچھ حصہ شرح السیر الصغیر (۴) اصول فقہ للسرخسی (۵) شرح الزیادات۔ اور جو کتب مخطوطوں کی شکل میں محفوظ ہیں ان میں سے (۱) اشراط الساعۃ فی مقامات التیامہ (۲) شرح الجامع الکبیر (۳) شرح الجامع الصغیر۔ اور کچھ ناپید ہیں مثلاً‌ (۴) شرح مختصر الطحاوی (۵) شرح نکت زیادات الزیادات۔ کشف الظنون میں ایک کتاب ’’الفوائد‘‘ کو بھی سرخسیؒ کی تالیف بتایا گیا ہے۔ ’’المبسوط‘‘ کا تعارف انشاء اللہ العزیز ایک مستقل مقالہ کی صورت میں الگ تحریر کیا جا رہا ہے۔ اس مضمون میں دیگر کتابوں کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔

شرح السیر الکبیر

اس کتاب کے متعلق ابن قطلوبغاؒ لکھتے ہیں:

’’ان کی ایک کتاب ’’شرح السیر الکبیر‘‘ دو ضخیم جلدوں میں ہے۔ یہ کتاب انہوں نے اپنے شاگردوں کو اس وقت املاء کرانا شروع کی جب وہ کنویں میں قید کاٹ رہے تھے۔ باب الشروط تک پہنچے تو رہائی ہو گئی اور امام سرخسیؒ آخری عمر میں فرغانہ چلے گئے جہاں کے حکمران امیر حسنؒ نے انہیں مقام و مرتبہ سے نوازا۔ پھر طلباء آپ تک وہاں پہنچے اور باقی ماندہ کتاب انہوں نے فرغانہ میں املاء کرائی‘‘۔ (بحوالہ کتاب التراجم ص ۵۳)

یہ دراصل امام محمد کی ’’السیر الکبیر‘‘ کی، جو قانون بین الممالک کی ایک اہم کتاب ہے جس کا یونیسکو کی جانب سے ترجمہ بھی ہو رہا ہے، شرح ہے۔ جو امام سرخسیؒ نے قید کے آخری دور میں املاء کرانی شروع کی۔ اسے دائرہ المعارف حیدر آباد نے ۱۴۰۸ صفحوں کی چار ضخیم جلدوں میں شائع کیا ہے اور اب ایک نیا ایڈیشن مصر میں بھی چھپ رہا ہے۔

سرخسیؒ کی کتاب الشروط تک جو چوتھی جلد کے ص ۶۰ سے شروع ہوتا ہے یعنی ۱۲۸۰ صفحات کے اختتام تک پہنچے تھے کہ بالآخر انہیں رہائی ملی۔ مابقی املاء کے ۳۲۸ صفحات انہوں نے مرغنیاں پہنچ کر دس دن میں مکمل کرائے۔ اس کتاب میں مصنف نے امام محمدؒ کے اصول و اساسات کے پیشِ نظر فقہی مسائل بیان فرمائے ہیں۔ اس کتاب میں جہاد و قتال اور صلح و جنگ کے طریقے، غیر مسلم اقوام سے تعلقات اور تجارت وغیرہ پر بحث کی گئی ہے۔ اسلام کے بین الاقوامی زاویۂ نگاہ کو معلوم کرنے کے لیے یہ کتاب بڑی ضروری ہے۔

شرح السیر الصغیر

یہ جامع الصغیر فی الفروع محمد بن حسن الشیبانی الحنفی المتوفی ۱۸۷ھ کی شرح ہے جس میں ۱۵۳۲ مسائل ہیں۔ ۱۷۰ اختلافی مسائل، ۲ مسائل میں قیاس و استحسان کا ذکر ہے۔ اس کتاب کے متعلق کہا گیا ہے:

لا یصلح المرء للفتوی ولا للقضاء الا اذا علم مسائلہ۔

’’کوئی شخص فتوٰی اور قضا کی صلاحیت نہیں رکھتا جب تک اس کتاب کے مسائل کا علم حاصل نہ کر لے۔‘‘

اس شرح کی بندہ کو تلاش تھی، الحمد للہ استاذ محترم حضرت مولانا عبد الحمید سواتی مدظلہ العالی نے نشاندہی فرما دی ہے کہ کندیاں شریف کے کتب خانہ میں اس کا نسخہ موجود ہے، یہ کتاب بھی امام سرخسیؒ نے قید کے دوران املاء کرائی۔

اصولِ فقہ

یہ کتاب چھپی ہوئی ہے اور بعض مدارسِ عربیہ میں داخلِ نصاب بھی ہے۔ یہ کتاب بھی آپ نے قید خانہ میں اس لیے املاء کرائی تھی تاکہ امام محمدؒ کی کتابوں کی شرح میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان کے اصول اور اساسات معلوم ہو جائیں، یہ کتاب دو جلدوں میں احیاء المعارف حیدر آباد نے شائع کی ہے۔

صفۃ اشراط الساعۃ و مقامات القیامۃ

ایک زمانہ میں ان کے استاد حلوانیؒ نے اس کتاب پر درس کا سلسلہ شروع کیا۔ علامہ سرخسیؒ نے اس املاء کو قلمبند کیا۔ خوش قسمتی سے یہ کتاب محفوظ رہ گئی۔ بقول جناب ڈاکٹر حمید اللہ اس کا واحد نسخہ پیرس کے عمومی کتب خانہ میں عربی نمبر ۲۸۰۰ مجموعہ ورق ۴۴۲ ب تا ۴۶۵ ب ۲۱ سطروں والی بڑی تقطیع پر موجود ہے۔ اس کی تمہید کا ایک فقرہ ڈاکٹر حمید اللہ نے یوں نقل کیا ہے کہ:

سئل الامام شمس الائمہ الحلوانی عن مقامات القیامۃ و قیام الساعۃ ھل ورد فیھا حدیث صحیح؟ قال ورد ۔۔۔ وھذا الحدیث الواحد اسلم الاحادیث فی ذلک وھو ما حدثنی الفقیہ ابوبکر محمد بن علی سنۃ خمس و اربع مائۃ ۔۔۔

’’امام حلوانیؒ سے سوال کیا گیا کہ قیامت کی علامات کے بارے میں کیا کوئی صحیح حدیث وارد ہوئی ہے؟ فرمایا، ہاں، اور یہ ایک حدیث اس بارے میں تمام احادیث سے زیادہ سلیم ہے اور یہ وہ روایت ہے جو مجھ سے امام ابوبکر محمد بن علیؒ نے ۴۰۵ھ میں بیان کی۔‘‘

تاریخ سے یہ دقیق اعتنا سرخسیؒ نے اپنے استاد سے سیکھا جسے انہوں نے خود بھی جاری رکھا۔

شرح الجامع الکبیر

اس کا ایک حصہ مصر میں مخطوطے کی شکل میں موجود ہے۔

ان کے علاوہ سرخسیؒ نے امام محمدؒ کی کتاب زیادات اور زیادات الزیادات کی شرحیں بھی اسی قید خانہ میں املاء کرائیں۔ ان میں سے ’’زیادات الزیادات‘‘ احیاء المعارف حیدر آباد کی طرف سے چھپی ہے۔ علامہ سرخسیؒ نے ۴۹۰ نکتے بیان فرمائے اور قید میں املاء کرائے ہیں۔ پہلا جملہ اس کا ہے ’’الحمد لولی الحمد ومستحقہ‘‘۔

شرح مختصر الطحاوی

اس کتاب کا تفصیلی ذکر کہیں نہیں مل سکا۔ یہ نایاب کتاب ہے۔ البتہ سوانح نگاروں نے اس کا ذکر اپنی کتابوں میں کیا ہے۔ چنانچہ حاجی خلیفہؒ فرماتے ہیں ’’شرح مختصر الطحاوی فی خمسۃ اجزاء‘‘ (کشف الظنون ص ۱۶۲۸)

ابن قطلوبغاؒ نے بھی ایک جگہ ذکر کیا ہے کہ میں نے اس کتاب کا ایک حصہ دیکھا ہے (تاج التراجم ص ۵۲)۔ ان کتب کے علاوہ علامہ کی شرح النفقات للخصافؒ شرح ادب القاضی للخصاف، شرح ادب القاضی للخصاف کا ذکر مولانا ابو الوفا افغانی نے کیا ہے۔ نیز مختلف ابواب کی شکل میں بھی تحریری مواد کا ثبوت ملتا ہے جیسے کتاب السرقہ، کتاب الکسب، مگر وہ مبسوط ہی کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔

علامہ کی ان تمام کتب کی ایک مشترکہ خصوصیت یہ ہے کہ عموماً‌ سرخسیؒ جب کبھی امام محمدؒ کی کسی ذاتی رائے کی توجیہہ کرتے ہیں تو فقہ کے اصول کلیہ سے استدلال کرتے ہیں۔ چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں سرخسیؒ سے متعلق مقالہ نگار ہیفننگ کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ سرخسیؒ اپنی اس کوشش کے باعث ممتاز ہیں کہ وہ قانون کے عام اساسات و اصول کلیہ کو نمایاں کرتے ہیں۔

قید و بند کی صعوبتیں

آپ بڑے حق گو تھے۔ آپ نے بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہا جس سے وہ ناراض ہوگیا اور آپ کو قید کر دیا اور اوزجند میں ایک کنویں کے اندر بند کر دیا جس میں آپ مدت تک رہے۔ علامہ عبد الحیؒ فرماتے ہیں:

وھو فی الجب محبوس بسبب کلمۃ تصلح بھا الامراء۔

’’وہ کنویں میں ایک کلمۂ حق کی وجہ سے بند کر دیے گئے جس کے ذریعے وہ حکام کی اصلاح چاہتے تھے۔‘‘

اور سیر النبلاء میں حضرت ملا علی القاری کے حوالے سے لکھا ہے:

و فی طبقات القاری املا المبسوط نحو خمسۃ عشر مجلدا وھو فی السجن باوزجند محبوس بسبب کلمۃ کان فیھا من الناصحین۔

نیز تاج التراجم، الاعلام خیر الدین زرکلی، تاریخ الفقہ الاسلامی، مفتاح السوادہ میں بھی اسی سے ملتے جلتے الفاظ ہیں۔ لیکن اصل وجہ پر بہت کم روشنی ڈالی گئی ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام زیر لفظ ’’سرخسی‘‘ میں ہیفننگ نے لکھا ہے:

’’غالباً‌ انہیں اس لیے قید کیا گیا کہ ام ولد کے نکاح کے متعلق انہوں نے حکمرانِ وقت کے فعل پر شرعی نقطۂ نظر سے اعتراض کیا تھا۔‘‘

لیکن بقول ڈاکٹر حمید اللہ یہ وجہ قابل قبول نہیں اس لیے کہ سارے مآخذ صراحت کرتے ہیں کہ ان کا یہ اعتراض رہائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ دوسری وجہ قید کا حوالہ ڈاکٹر صاحب دیتے ہیں کہ استنبول کے ’’عمومی ترکی تاریخ‘‘ کے پروفیسر احمد ذکی ولیدی طوغان نے ایک مرتبہ ان سے زبانی گفتگو کے دوران یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ اس زمانہ میں ابو نصر احمد بن سلیمان الکاسانی نامی ایک بدطینت شخص تھا۔ وہ قاضی القضاۃ پھر وزیر رہا۔ یہ سب کچھ اسی کا کیا دھرا تھا۔ اس طرح کا حوالہ خود مبسوط میں بھی آتا ہے اگرچہ نام کی تصریح نہیں۔

قال فی اخرہ ’’انتھی املاء العبد الفقیر المبتلی بالھجرۃ الحصیر المحبوس من جھۃ السلطان الخطیر باغراء کل زندیق حقیر‘‘۔

اس سلسلے میں مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم سابق صدر شعبۂ دینیات جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کا خیال شاید صحیح ہو۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس زمانے میں صلیبی جنگوں کے باعث عالمِ اسلام میں بحران تھا اور ہر روز نئے نئے ٹیکس لگ رہے تھے اور بے پناہ مظالم ہو رہے تھے۔ سرخسیؒ نے بعض ٹیکسوں کو ناجائز قرار دیا۔ گویا ’’عدم ادائیگی محاصل کی تحریک‘‘ کی قیادت کی تھی۔ اس پر قید ناگزیر تھی اور ڈاکٹر صاحب نے سرخسیؒ کے ایک سوانح نگار محمود بن سلیمان الکفوی کا تائیدی حوالہ بھی دیا ہے۔

آپ کتنی مدت قید رہے؟ مبسوط اور دیگر کتب جو آپ نے قید میں املاء کرائیں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ۴۶۶ھ سے ۴۸۰ھ تک قید میں رہے یعنی تیرہ چودہ سال کی مدت۔ آپ صرف کنویں ہی میں اتنی مدت نہیں رہے بلکہ آپ کی تصانیف سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ مختلف وقتوں میں مختلف مقامات میں قید رکھے گئے۔ چنانچہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب بھی فرماتے ہیں:

’’ان سارے اقتباسات سے گمان ہوتا ہے کہ اولاً‌ واقعی آپ کو ایک اندھے کنویں میں پھینک دیا گیا تھا، پھر ان کی ریاضت اور صبر سے متاثر ہو کر رفتہ رفتہ حالت میں اصلاحِ عمل آئی ہو گی اور ایک چھوٹے حجرے میں بند رہے۔ اس کے بعد کسی افسر اور معتمد حکومت کے مکان میں زیرنگرانی رکھے گئے اور دوبارہ قلعہ میں لائے گئے شاید اس لیے کہ ملک کی آئے دن کی جنگوں جھگڑوں میں دشمن انہیں نہ لے اڑیں یا برہمی کو کم کرنا مقصود تھا بالآخر رہا کئے گئے۔‘‘ (نذر عرشی ص ۱۲۵)

وفات سرخسیؒ

اعداد کے حساب سے آپ کی تاریخ وفات ’’شمس ملک اور مجتہد اولیاء‘‘ سے نکلتی ہے یعنی ۴۸۳ھ۔ بعض جگہ ’’فی حدود تسعین‘‘ اور بعض جگہ ’’حدود خمس مائۃ‘‘ کا ذکر ہے۔ علامہ خضریؒ آپ کا سنِ وفات ۴۸۲ھ اور نواب محمد صدیق حسن خان بھوپالی ۴۹۴ھ بیان کرتے ہیں۔ جبکہ تحفۃ الفقہاء میں ۴۳۸ھ تک بھی لکھا ہے جو بالکل غلط ہے، شاید کتابت میں بجائے ۸۳ کے ۳۸ لکھا گیا ہے۔ لیکن یہ سب مبہم اور تخمینی الفاظ ہیں۔ ابن قطلوبغا اور کفوی نے صراحت کی ہے ’’فخرج فی اخر عمرہ الی فرغانہ‘‘۔ اور خود علامہ سرخسیؒ کے بیان کے مطابق وہ ۴۸۰ھ میں علاقہ فرغانہ کے شہر مغنیان میں جا ٹھہرے تھے لہٰذا سالِ وفات ۴۸۳ھ زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ مولانا عبد الحی نے ماہ جمادی الاولی کی بھی صراحت کی ہے اور ماخذ کشف الظنون ہے۔ مبسوط کے مخطوطوں میں بھی تاریخوں کا یہ اختلاف پایا جاتا ہے مگر بالآخر یہ تین تاریخیں ہی سامنے آتی ہیں، دو تخمینی اور ایک معین۔ ڈاکٹر حمید اللہ صاحبؒ نے بھی ۴۸۳ھ کو ترجیح دی ہے (نذرعرشی ص ۱۳۲)۔

سیرت و تاریخ

(مارچ ۱۹۹۰ء)

مارچ ۱۹۹۰ء

جلد ۲ ۔ شمارہ ۳

اسلامی بیداری کی لہر اور مسلم ممالک
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

احادیثِ رسول اللہؐ کی حفاظت و تدوین
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر

مولانا عزیر گلؒ
عادل صدیقی

مجھے قرآن میں روحانی سکون ملا
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نظامِ خلافت کا احیاء
مولانا ابوالکلام آزاد

حرکۃ المجاہدین کا ترانہ
سید سلمان گیلانی

عیسائی مذہب کیسے وجود میں آیا؟
حافظ محمد عمار خان ناصر

اخلاص اور اس کی برکات
الاستاذ السید سابق

چاہِ یوسفؑ کی صدا
پروفیسر حافظ نذر احمد

شمس الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ
ڈاکٹر حافظ محمد شریف

عصرِ حاضر کی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ
حافظ محمد اقبال رنگونی

اسلامی نظامِ تعلیم کے خلاف فرنگی حکمرانوں کی سازش
شریف احمد طاہر

حدودِ شرعیہ کی مخالفت - فکری ارتداد کا دروازہ
مولانا سعید احمد عنایت اللہ

تعارف و تبصرہ
ادارہ

قافلۂ معاد
ادارہ

آپ نے پوچھا
ادارہ

وعظ و نصیحت کے ضروری آداب
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ

قرآنی احکام کا نفاذ آج بھی ممکن ہے
حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ

شہیدِ اسلام مولانا سید شمس الدین شہیدؒ نے فرمایا
ادارہ

تلاش

Flag Counter