اسی عنوان سے پروفیسر لیونیاں نے ایک پوری کتاب لکھی ہے : What is Miracle اس میں پروفیسر موصوف لکھتے ہیں:
"معجزے کے مسئلے نے قدیم ترین ایام سے لے کر اس وقت تک انسانی ذہن کو مشغول رکھا ہے۔ انسان کو ہمیشہ معجزات پر اعتقاد رہا ہے بلکہ باوجود متعدد مشکلات کے وہ معجزات سے متعلق اپنے اعتقاد پر ثابت قدم رہا ہے۔ یہ اعتقاد اور یقین مذہب کا ایک اہم عنصر ہے۔ پیغمبر اور ہادیانِ دین اکثر معجزے دکھاتے رہے ہیں اور ان کی صداقت کی آزمائش ان کی معجزات دکھانے کی قدرت ہی سے ظاہر ہوتی ہے۔"
یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ سوچنے سمجھنے والے دماغ اسلام سے باہر رہ کر بھی معجزے کے کسی نہ کسی طرح قائل رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معجزہ ہے کیا؟
لغوی طور پر یہ لفظ عجز سے مشتق ہے جس کے معنی میں دو جہتیں بالکل واضح ہیں: (۱) عجز (کمزوری) (۲) عجز کسی چیز کا پچھلا حصہ (مجمل اللغہ لابن فارس)
اعجاز کے معنی کسی دوسرے کو عاجز اور بے بس کر دینا۔ انہم لا يعجزون (انفال ۵۹) ’’وہ عاجز نہیں کر سکتے" کمزور کرنا۔ کمزور سمجھنا۔
معجز کے معنی عاجز کر دینے والا شکست دینے والا- و من لا یجب داعى الله فليس بمعجز فی الارض (احقاف (۳۲) ’’جو اللہ کی طرف بلانے والے کی بات قبول نہ کرے، وہ زمین میں (خدا کو) عاجز کر دینے والا نہیں ہے۔‘‘
معجزه ایسی حقیقتِ ثابتہ یا امر ِواقعہ جو عاجز کر کے رکھ دے۔ و معجزہ النبی صلى الله عليه وسلم ما اعجز به الخصم عند التحدى و الهاء للمبالغه (القاموس) ’’معجزہ وہ ہے جس سے آپؐ چیلنج کے وقت دشمن کو عاجز کر دیں۔ اس کے آخر میں تاء ماننے کے لیے ہے۔‘‘
دورِ جدید کے مشہور محقق مفتی محمد عبده (۱۸۴۹ء ۔ ۱۹۰۵ء) اپنی تفسیر المنار میں معجزے کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’معجزے کے بارے میں سب سے زیادہ مشہور اور تحقیقی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی اس کو اپنے عادی نظام کے خلاف صرف اپنی قدرت سے ظاہر فرماتا ہے تا کہ یہ بات ثابت کر دے کہ ’’نوامیس طبعیہ‘‘ خود اس کے محکوم ہیں، وہ ان کا محکوم نہیں۔ وہ جس طرح چاہے، ان میں تصرف کر سکتا ہے۔‘‘ (المنار جلد ۱ ص ۳۱۵)
مشهور سکاچ فلسفی ڈیوڈ ہیوم (۱۷۱۱ ۔ ۱۷۷۶) اپنی کتاب Understanding Enquiry Concerning Human میں رقم طراز ہے:
’’معجزہ نام ہے قوانینِ فطرت کے خرق (خلافِ عادت ہونے) کا اور چونکہ یہ قوانین مستحکم اور اٹل تجربہ پر مبنی ہوتے ہیں، اس لیے معجزہ اتنا زبردست ثبوت ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی تجربی ثبوت کا تصور ہی نہیں ہو سکتا۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں کہ تمام انسان فانی ہیں۔ آپ ہی آپ ہوا میں معلق نہیں رہ سکتا۔ آگ لکڑی کو جلاتی ہے اور پانی سے بجھ جاتی ہے۔ صرف یہی کہ یہ امور قوانینِ فطرت کے مطابق ثابت ہو چکے ہیں اور اب ان کا توڑنا بغیر قوانینِ فطرت کے توڑے یا بالفاظ دیگر بلامعجزہ ناممکن ہے۔‘‘
عقائد کی کتابوں میں ’’تمہید‘‘ ابو شکور سالمی ایک مستند کتاب ہے جس میں معجزے کی تعریف یوں ہے:
وحد المعجزه ان يظهر عقيب السوال و الدعوى امر خارق للعاده من غير استحاله بجميع الوجوه ويعجز الناس عن اتيان مثله بعد الجهد و الاحتيال اذا كان لهم حذاقه و رزانه فی مثل ذالک۔
’’معجزے کی تعریف یہ ہے کہ سوال اور دعویٰ کرنے کے بعد ایسا خارق عادت واقعہ ظاہر ہو جو ہر حیثیت سے محال نہ ہو اور لوگ باوجود کوشش و تدبیر کے اس قسم کے معاملات میں پوری مہارت و بصیرت رکھتے ہوئے اس کے مقابلہ سے عاجز رہیں۔‘‘
اگر معجزے کے ان اجزائے ترکیبی کو سامنے کیا جائے جو فلاسفہ و متکلمین کی آراء کی صورت میں یا عقائد کی مختلف کتابوں میں معجزے کی تعریف کے سلسلے میں آتے ہیں (جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں) تو اجمالا" ان کا لب لباب یہ ہو گا:
ا۔ معجزہ نبی سے ظہور پذیر ہوتا ہے، غیر نبی سے نہیں۔
۲۔ نبی سے بھی بعد از دعویٰ نبوت کی زندگی میں وقوع پذیر ہوتا ہے کیونکہ اگر کوئی خرقِ عادت واقعہ قبل از دعوائے نبوت ظہور میں آئے تو وہ اصطلاح میں ’’ارہاص‘‘ کہلاتا ہے، معجزہ نہیں۔ جس کے معنی دیوار پر پہلا ردہ رکھنے کے ہیں۔
۳۔ معجزہ ہمیشہ خارقِ عادت یا خلافِ عادت ہوتا ہے یعنی عام معمول سے ہٹ کر ظہور پذیر ہوتا ہے، اگر معمول کے خلاف نہ ہو تو معجزہ نہیں ہو گا۔
۴۔ بطور معجزہ ظاہر ہونے والے امور محال عادی ہوتے ہیں (عادتاً ممکن نہیں کہ کوئی ایسا کر سکے)۔ محال عقلی (کہ عقل کے لیے انہیں ماننا ہی ناممکن ہو) نہیں ہوتے۔ زیادہ سے زیادہ وہ مستبعد عقلی (عقل کو ان کے ماننے میں خاصی دقت اٹھانا پڑتی ہو) ہو سکتے ہیں۔ یعنی بعید از عقل ہوتے ہیں، خلافِ عقل نہیں ہوتے۔
۵۔ کوئی غیر نبی پوری کوشش یا فنی مہارت سے "بمقابلہ نبی" ایسا کرنے پر ہرگز قدرت نہیں رکھتا۔
اگر کسی غیر نبی کے ہاتھ پر ایسا خلافِ عادت واقعہ ظہور پذیر ہو تو وہ کرامت کہلاتا ہے تا کہ یہ بات کھل کر سامنے آ جائے کہ نبی کے امتی پر فضلِ خداوندی سے محیر العقول واقعات ظہور پذیر ہو سکتے ہیں تو نبی کی اعجازی حیثیت کیا ہو گی۔ یوں غیر نبی کی کرامت نبی کی نبوت کے ابطال کے لیے نہیں، اثبات کے لیے ہوتی ہے۔
مطالعہ قرآن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جب بھی اللہ کے پیغمبروں نے اپنی پیغمبرانہ حیثیت منوانے اور پیغام الٰہی پہنچانے کے لیے لوگوں کے دل و دماغ کو بیدار کیا تو وہ لوگ جن کی عقل و فطرت میں بگاڑ نہیں تھا، فورًا اس طرف متوجہ ہوئے اور پیغمبر پر ایمان لا کر قبول کر کے زمرۂ مومنین میں شامل ہو گئے۔ مگر بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ ان سے مطالبہ کیا گیا کہ اگر واقعی تم سلطنتِ خداوندی میں اس کے سفیر اور نمائندے کی حیثیت سے آئے ہو تو ایسا خارقِ عادت واقعہ پیش کرو جو عادی نظام کے خلاف ہو، جو اس امر کی دلیل ہو کہ تم واقعی اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہو۔
نبیوں کے مخاطبین اولین میں سے ایک قابلِ لحاظ تعداد سلیم الفطرت لوگوں کی ایسی رہی ہے جو انبیاء کرام کی پاکیزہ سیرتوں ہی کو دیکھ کر ان پر ایمان لاتی رہی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے جو تورات و انجیل کے بہت بڑے عالم تھے، دیکھتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہہ دیا ليس هذا بوجه کذاب (یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا) اور فی الفور شرفِ ایمان سے مشرف ہو گئے ؎
در دل ہر امتی کز حق مزه است روئے و آواز پیغمبرؐ معجزه است
تاہم معجزه طلب لوگوں میں سے اکثر ایسے تھے جو محض تفنن طبع کی خاطر معجزوں کا تقاضا کرتے یا پھر پیغمبر کا استہزا (مذاق اڑانا) مقصود ہوتا۔ انہیں معجزے بھی دکھا دیے جاتے تو بھی وہ تقلید ِآباء، معاشرتی رواجوں، خواہشاتِ نفسانی، اور ذاتی عناد کی وجہ سے اللہ کے رسولوں کے پیغام کو درخور اعتنا نہ سمجھتے۔ وہ پوری ڈھٹائی اور خیرہ چشمی سے معجزات کو سحر و کہانت کهہ کر کفر و شرک پر اڑے رہتے۔
اب جبکہ بابِ نبوت بند ہو چکا اور سلسلۂ نبوت و رسالت کی آخری کڑی کے طور پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی و امی) کو تا قیام قیامت مبعوث کر دیا گیا، اسلامی عقائد میں دراڑیں ڈالنے کے لیے اور نسلِ نو کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے مستشرقین اور ان کے ہم نوا انکارِ معجزہ کی راہیں تلاش کرنے میں اپنی توانائیاں کھپا رہے ہیں۔ انکارِ معجزہ کی وجوہات میں انسانی تحقیقات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد اور مادہ پرستی کے ساتھ ساتھ غیر مسلموں سے مرعوبیت بھی شامل ہے۔ معجزے پر ایمان لانے کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ خداوند قدوس کی قدرت و عظمت پر کامل ایمان ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو معجزے کو نہ ماننے کی کئی راہیں نکل سکتی ہیں۔
یہ ماننا ضروری ہے کہ خداوند عالم پورے عالم کا خالق بھی ہے، مدیر امور بھی، متصرف بالذات بھی ہے اور قانون بنانے والا بھی۔ جس قانون میں چاہے اپنی حکمت کے ساتھ تغیر کرنے پر قدرت بھی رکھتا ہے۔ معجزه دراصل اسی کی قدرت کا اظہار ہے۔ جو قانون بنا سکتا ہے، وہ اس میں کسی مصلحت کے تحت وقتی تغیر بھی کر سکتا ہے۔ جس خدا نے اشیاء میں تاثیریں اور خواص رکھے ہیں، وہ ان کی تاثیروں کو وقتی طور پر بدلنے، معطل کرنے، یا سلب کرنے کی بھی طاقت رکھتا ہے، کیونکہ معجزہ ہے ہی فعلِ خداوندی جو پیغمبر کے ہاتھ پر اس کی تصدیق و توثیق کے لیے ظہور پذیر ہوتا ہے۔
جان لینا چاہئے کہ معجزہ نبوت کی شرط نہیں، صاحبِ نبوت کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے۔ معجزے میں پیغمبر کے ارادے کو نہیں ارادۂ خداوندی کو دخل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر معجزه طلبی پر غیر مبہم الفاظ میں کہتے رہے ہیں انما الایات عند الله (معجزات اللہ کے پاس ہیں) و ما كان لرسول ان ياتی بايۃ الا باذن الله (حکمِ خداوندی کے بغیر رسول معجزہ پیش نہیں کرتے) معجزے میں رسول کی مہارت فنی کو دخل نہیں ہوتا، نہ یہ کوئی فن ہے۔ یہ تو رسول کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے۔ ایک ساحر، شعبدہ باز وغیرہ اور نبی میں بنیادی فرق جان لیجئے۔
نبی اپنے فن کی بنیاد پر نہیں، خداوند عالم کی قدرت سے معجزہ دکھاتا ہے۔ شعبدہ باز اپنی فنی مہارت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ نبی کا کردار بے داغ اور سیرت بڑی پاکیزہ ہوتی ہے۔ شعبدہ باز اور ساحروں کا کردار اکثر گھناؤنا ہوتا ہے۔ نبی معجزے کو اپنے ساتھ منسوب نہیں کرتا، قدرتِ خداوندی بتاتا ہے۔ ساحر اپنی مہارتِ فن کی ڈینگیں مارتا ہے۔ نبی معجزوں سمیت اپنے پورے پیغام کا کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا۔ ساحر شعبدہ بازی دکھا کر بھیک منگوں کی طرح اجرت چاہتا ہے۔ نبیوں نے ہمیشہ عظیم تہذیبوں اور عظیم تر تمدنوں کی بنیادیں رکھی ہیں۔ کسی ساحر نے آج تک کوئی تمدن پیدا نہیں کیا۔
نبی کے فیضان سے افراد کی سیرتیں قابلِ رشک ہوتی ہیں اور معاشروں کی بنیادیں مضبوط ہوتی رہی ہیں۔ اس کے برعکس ساحر خود بھی اور ساحروں کے ہوا خواہ بھی گھٹیا کردار اور پست ذہنیتوں کے لوگ رہے ہیں۔ نبیوں کی تعلیم آفاقی سچائیوں کی حامل ہوتی ہے جبکہ ساحروں کے اوہام اور مذموم فن کی بنیادیں بڑی بودی ہوتی ہیں جن سے کوئی معاشرہ تشکیل پذیر نہیں ہوتا۔
فی الجملہ ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ معجزہ قدرتِ خداوندی کا کرشمہ ہوتا ہے۔ معجزے میں پیغمبر کی کسی طرح کوئی فنی مہارت نہیں ہوتی، البتہ وہ پیغمبر کی سچائی کی دلیل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منکرین کی بے جا بلکہ بعض اوقات بیہودہ معجزہ طلبیوں پر پیغمبروں نے کبھی باتمکین خاموشی اختیار کی تو کبھی خندۂ تحقیر سے انہیں درخور اعتنا ہی نہ جانا۔ جب اللہ نے چاہا پیغمبروں کے ہاتھوں معجزات وقوع پذیر کروا کر انہیں اپنے دشمنوں پر غالب رکھا۔