ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۱)

پروفیسر غلام رسول عدیم

(زیرِ نظر مقالہ، جو گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے ادبی مجلہ ’’مہک‘‘ کی خصوصی اشاعت کے لیے لکھا گیا، دو خصوصیات سے زیادہ قابلِ التفات ہے:

(۱) یہ کم وبیش ۳۰ برس پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ ان مدارس دینیہ کے ماضی کی جھلک جھمک، قارئین کو ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرے گی اور ان کے ماضی و حال کا یوں بہتر موازنہ کر سکیں گے۔ 

(۲) راقم ہر جگہ جا کر رُو در رُو مدرسے کی انتظامیہ اور اساتذہ کرام سے مستفید ہوا۔ یوں یہ تحریر محض سماعی اور بالواسطہ معلومات کا نہیں، شفاہی اور Direct Approachکا درجہ رکھتی ہے۔) (عدیم ؔ )


تعلیم وہ عظیم کام ہے جس پر خداکے سب سے زیادہ برگزیدہ بندے مامور ہوئے۔ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر جناب خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء اس منصبِ جلیل پر فائز رہے ہیں اور تعلیم وہ اعلیٰ کام ہے جس کے ذریعے رسولانِ برحق کے سچے فرمانبرداروں نے ہر دور میں نورِ نبوت سے فیضیاب ہو کر اپنی زندگیوں کو منور کیا۔ فضیلت علم کے باب میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں خاصا وقیع مواد موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسانی زندگی مختلف خانوں میں بٹتی گئی تو تعلیم وتعلم کا عمل بھی الگ الگ خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ایک طرف دنیوی علوم کی مہارت ایک ناگزیر ضرورت خیال کی گئی تو دوسری طرف دینی علوم کا بھی برابر چرچا رہا۔ 

ہمارے عظیم مفکرین نے تقسیمِ علوم میں بڑی دانش و بینش سے کام لے کر معاشرے میں توازن اور ہم آہنگی کی راہیں تلاش کیں ۔ مثال کے طور پر امام غزالیؒ نے علم کی جو تقسیم کی ہے وہ یوں ہے۔ 

علم کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔ علوم محمودہ اور علوم مذمومہ ۔ علوم محمودہ میں کچھ فرضِ عین ہیں اور کچھ فرضِ کفایہ ۔ فرضِ عین میں اصول( علوم حدیث)، فروع(علومِ فقہ)، مقدمات ( صرف ، نحو، بیان و معانی اور ادب) ، اور قرات وتفسیر ۔ علومِ مذمومہ : اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ (۱) جن سے دوسروں کو ضرر پہنچے جیسے سحر و طلسمات۔ (۲) جس کے دونوں پہلو ہوں مگر مضرت کا پہلو غالب ہو جیسے علم نجوم جو انسانی طبائع پر موثر مانا گیا ہے۔ (۳) اسرارِ الہیہ ، عوام کو اس سے تعرض بہتر ہے کہ وہ انبیاء و خواص ،اولیاء کا کام ہے۔ 

اسلام میں تعلیم کا مقصد اسلامی نظریہ حیات سے مطابقت، اعانت اور ان تمام عناصر کی نمود ہے جن سے اس دنیا کی زندگی متوازن رہے اور اگلی زندگی میں فوز وفلاح کے دروازے وا ہوں۔ 

قرنِ اول میں تحصیل علم اور ابلاغ ایک مذہبی فریضہ تھا اگرچہ کتابوں کی کمی تھی تاہم علم سینہ بسینہ آئندہ نسلوں کو منتقل ہوتا رہا ۔ اموی دور میں خالص دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم کی طرف بھی خاصی توجہ دی جانے لگی۔ خالد بن یزید کا نام اس ضمن میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ عباسی دور آیا تو فرمانروایانِ بنوعباس کی خصوصی توجہ سے قرآن وحدیث اور فقہ کے علوم باقاعدہ شکل میں مدون ہو گئے۔ ساتھ ہی کیمیا ، نباتات، ارضیات ، ہیئت ، طب ، جراحت وغیرہ میں ماہرانہ کارنامے انجام دیے گئے۔

اسلامی سلطنت کی حدود تو اموی دور ہی میں چین سے اندلس تک پھیل چکی تھیں۔ اب اس عظیم مملکت کے کئی حصے سیاسی طور پر خود مختار ہو گئے مگر مسجد کی مرکزی حیثیت اپنی جگہ قائم رہی۔ 

یہی مساجد تھیں جن سے اسلامی فکر وعمل کے تابناک نگینے ڈھلتے اور چار دانگ عالم کو منور کرتے تھے اور برصغیر نے تو صدیوں مسجد ومکتب کو اپنی معاشرتی زندگی کا محور بنائے رکھا۔ ڈبلیو ،ڈبلیو کیش اپنی کتاب ’’عیسائیت اور اسلام‘‘ میں لکھتا ہے : اسلام کی قوت کا راز تلوار اورعساکر سے زیادہ اس کی مساجد و مکاتب میں پنہاں تھا ۔ مستعد خان ساقی صاحب ’’مآثر عالمگیری ‘‘ میں رقمطراز ہیں:’’ درجمیع بلاد و قصبات ایں کشور وسیع فضلاء مدرساں رابہ وظائف لائقہ از روزانہ و املاک موظف برائے طلبِ علم وجوہ معیشت در خور حالت و استعداد او مقرر فرمودند‘‘۔ڈاکٹر لائٹنز ’’ دیسی مدارس کی تاریخ‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ پنجاب میں کم وبیش ۲۸۸۷۹ گاؤں ہیں ۔ ہر گاؤں میں مسجد ہے جو مکتب کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔ برطانوی شہنشاہت کے ساتھ وہ مدارس ختم ہو گئے۔ 

حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں انگریزی عملداری کے دوران میں تعلیم و تعلم کے کام میں دو عملی آ گئی۔ مغربی تہذیب کے زیرِ اثر دینی علوم کو بے کار خیال کیا جانے لگا۔ سرکاری اعانت سے چلنے والے ادارے حکومتی کل پرزے اور کھوکھلے مگر تجدد پسند ذہن تیار کرنے لگے۔ دینی علوم کی تحصیل کو مشغلہ بیکاراں سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا۔ سالہا سال سے چلنے والے یہ مدارس ایک طرف تو سرکاری اعانت سے محروم رہے ، دوسرے ان کا نصاب جدید عصری تقاضوں سے کچھ فاصلے پر رہ گیا۔ تاہم دینی اقدار کے پاسباں اوراسلاف کے تبحر علمی سے فیضیاب لوگ اس متاعِ بے بہا کو معاشرے میں لٹاتے رہے اور مفت لٹاتے رہے۔ خیر القرون کی درخشندہ روایات کے یہ محافظ آج بھی برصغیر کے کونے کونے میں موجود ہیں ۔ ہمارا موضوعِ سخن انہی خدامست بزرگوں اور ان کے اداروں کا تذکرہ ہے جس سے تہذیب جدید کے دلدادوں کو معلوم ہو جائے کہ بغیر حکومتی اعانت کے توکل بخدا محض خلوص کے بل پر کس قدر علمی وتعلیمی کام ہو رہا ہے ۔ سردست زیرِ نظر مجلہ ’مہک‘ کے خصوصی شمارے کی رعایت میں صرف ضلع گوجرانوالہ کے اہم دینی وتعلیمی اداروں کا ذکر مطلوب ہے۔ 

گوجرانوالہ ایک مردم خیز خطہ ہے ۔ اپنی اقتصادی ، زرعی اور صنعتی خصوصیات کی بنا پر پنجاب کے اعضائے رئیسہ میں سے ایک ہے۔ مگر یہ بات بھی فراموش کرنے کے قابل نہیں کہ اس مشینی دور اور اقتصادی ترقی کے زمانے میں بھی ہوس و زر کے باوجود ضلع گوجرانوالہ دینی مدارس کا ایک روح پرور نظارہ پیش کرتا ہے۔ بازاروں کی ہاؤ میں، دفاتر کی گہما گہمی ، فرائض سے کوتاہی اور حقوق کے لیے دوڑدھوپ ، کارخانوں کی دھواں اگلتی آلودہ فضا ،حکومتی تعلیمی اداروں کی ادھ کچری تعلیم اور کچہریوں کے تکدر آلود احاطوں سے نکل کر مدارس دینیہ کے قناعت بخش ، پرسکون اور تسکین افزا فضا میں چلے آئیے۔ بقول غالب ؔ آپ پر واضح ہو جائے گا ۔

از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ

طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ 

آپ باور کریں یا نہ کریں سچی بات یہ ہے کہ اکبر الہ آبادی بڑے پتے کی بات کہہ گیا تھا۔ 

کالج و اسکول و یونیورسٹی 

قوم بے چاری اسی پر مرمٹی 

جب ان مقدس فضاؤں میں قال اللہ و قال الرسول ﷺکی دلکش صدائیں گونجتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے گویا آسمانوں سے قطار اندر قطار فرشتے اتر رہے ہیں۔ رسوخ فی العلم کے دھارے بہ رہے ہیں پھر ان خدامستوں کی قناعت کا یہ عالم ہے کہ ظاہری اسباب پر نظر ہی نہیں رکھتے۔ 

؂ قناعت بھی بہار بے خزاں ہے

بس ایک اور صرف ایک ہی دھن کہ توحید الٰہی کا پرچم اونچا رہے اور سرور کائنات ﷺ کا اسوہ زندہ رہے۔ اس بات سے غرض نہیں کہ ان جانفشانیوں کا نتیجہ کیا ہو گا۔ ۔

آس کھیتی کے پنپنے کی انہیں ہو یا نہ ہو

ہیں اسے پانی دئے جاتے کسانوں کی طرح

یہاں یہ ہنگامے ہیں نہ احتجاج ، نہ ہلڑبازی نہ شورہ پشتیاں ، نہ شوخ چشمیاں نہ نگاہوں کی بے باکیاں ، ظاہری شستہ روی نہیں تو اندرون تیرہ وقار بھی تو نہیں ۔ جب کہ بقول اقبال عصر حاضر انہیں تحفوں سے عبارت ہے۔ 

یہی زمانہ حاضر کی کائنات ہے کیا 

دماغ روشن و دل تیرہ و نگاہ بے باک

مدرسہ انوار العلوم ( شہر کا قدیم ترین مدرسہ)

یہ مدرسہ گوجرانوالہ کے تاریخی باغ شیرانوالہ کے عقب میں مرکزی جامع مسجد سے ملحق ہے۔ ۱۹۲۲ء میں اس وقت خطیبِ شہر اور اجل عالم دین مولانا عبدالعزیز کی کوششوں سے مدرسے کا انتظام انجمن اہل السنت والجماعت گوجرانوالہ کے سپرد تھا۔ مولانا سید انور شاہ کشمیری کو تاسیس مدرسہ کے لیے خصوصی دعوت پر دیوبند سے بلایا گیا ۔ انہی کے نام کی مناسبت سے مدرسہ کا نام ’ انوار العلوم ‘ قرار پایا۔ مولانا عبدالعزیز قبل ازیں گورنمنٹ اسکول گوجرانوالہ میں مدرس کے فرائض بھی انجام دیتے تھے مگر بعد میں مکمل طور پر مدرسے سے وابستہ ہو گئے۔ وہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی اورمولانا سید انور شاہ کشمیری کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ ان کی عربی تصانیف: نبراس الساری علیٰ اطراف البخاری، نصب الرایہ للزیلعی پر حاشیہ اور طحاوی شریف پر تخریج اس بات کی گواہی ہیں کہ وہ بجا طور پر محدثِ پنجاب کہلانے کے مستحق تھے۔ 

۱۹۴۰ء میں ایک احاطہ خرید کر باقاعدہ مدرسے کی عمارت بنائی گئی ۔ اس وقت کمروں کی مجموعی تعداد بارہ ہے۔ درس نظامی کی موقوف علیہ تک تعلیم ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک دورہ حدیث بھی ہوتا تھا مگر اب نہیں۔ مختلف درجوں میں ۵۰ کے قریب بیرونی طلبہ تعلیم پا رہے ہیں ۔ اخراجات کا مجموعی تخمینہ ایک لاکھ روپے سالانہ ہے ۔ مدرسین میں مولانا قاضی حمیداللہ صدر مدرس ہیں جو منقولات کے ساتھ معقولات میں یدِ طولیٰ رکھتے ہیں۔ جامعہ اشرفیہ لاہور کے فارغ التحصیل ہیں۔ 

مولانا عبدالمتین زاہد الراشدی ملک کے نامور محقق شیخ الحدیث مولانا سرفراز صفدر کے خلف الرشید ہیں اور فاضل نصرۃ العلوم ہیں۔ وہ مرحوم مفتی عبدالواحد کے زمانے ہی سے مسجد کے خطیب تھے۔ وہ درس و تدریس کے علاوہ ملکی سیاست میں ایک معروف شخصیت ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا سید عبدالمالک فاضل نصرۃ العلوم اور مولانا حق نواز فاضل نصرۃ العلوم بھی مدرسے میں فرائض تدریس انجام دیتے ہیں۔ ناظم مدرسہ حافظ عبدالقدوس کشمیری ہیں ۔ شعبہ حفظ وناظرہ میں قاری عبدالصمد مصروفِ کار ہیں۔ پرانے مدرسین میں مولانا عبدالقدیر ، مولانا نور محمد، مولانا محمد شکیل، مولانا محمد چراغ، مولاناقاضی شمس الدین اور مولانا عبدالواحد کے نام قابل ذکر ہیں۔ مدرسے کے ہزاروں ممتاز فاضلین میں درج ذیل اصحاب خاصے معروف ہیں: 

۱۔ مولانا محمد سرفراز خان صفدر ، شیخ الحدیث و صدر مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

۲۔ مولانا صوفی عبدالحمید سواتی، مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ

۳۔ مولانا قاضی عصمت اللہ ، مہتمم و صدر مدرس مدرسہ محمدیہ قلعہ دیدار سنگھ

۴۔ مولانا عبدالرحمن جامی، سابق خطیب شاہی مسجد لاہور

۵۔ مولانا مفتی عبدالمتین ، سابق قاضی ضلع پونچھ

۶۔ مفتی جعفر حسین مجتہد ( پاکستان میں شیعہ مکتب فکر کے امام اور سابق مہتمم جامعہ جعفریہ) 

۷۔ مفتی بشیر حسین ، ( بریلوی مکتب فکر کے مشہور عالم دین)

مدرسے کا مسلک حنفی دیوبندی ہے۔ دارالافتاء میں رجسٹر اور نقل کا انتظام نہیں۔ 

مدرسہ حنفیہ رضویہ سراج العلوم 

محلہ اسلام آباد گوجرانوالہ میں زینت المساجد سے ملحق گوجرانوالہ کی ایک اہم دینی درسگاہ ہے۔ مہتمم مولانا ابوداود محمد صادق ہیں۔ مولانا موصوف جامعہ رضویہ مظہر الاسلام فیصل آباد کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ ایک جید عالم دین ، ایک اعلیٰ درجے کے مصنف اور فصیح اللسان مقرر ہیں۔ مدرسے میں ان کی ذات گرامی محو ر و مرکز کی حیثیت رکھتی ہے۔ برہان صادق، پیغام صادق، نورانی حقائق ، روحانی حقائق کے علاوہ دیگر بہت سی کتب ان کی تصنیفی کاوشوں کی شاہکار ہیں۔ ماہنامہ ’ رضائے مصطفی‘ ان کی زندہ اور شگفتہ تحریروں کا حسین مرقع ہے۔

یہ مدرسہ مسلک حنفی بریلوی کی گوجرانوالہ میں اولین اور سب سے بڑی درسگاہ ہے جس کا انتظام انجمن خدام الصوفیہ کے سپرد ہے۔ مدرسے کا نام امام ابوحنیفہ ، مولانا احمد رضاخاں بریلوی اور شاہ سراج الحق گورداسپوری کے اسمائے گرامی کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ مولانا ابوداود محمد صادق کے استاد اور پیر ومرشد مولانا سردار محمد لائل پوری نے ۱۹۵۵ء میں افتتاح فرمایا۔ مدرسے کا نصاب درس نظامی پر مشتمل ہے تاہم مثنوی مولائے روم بھی سبقاً سبقاً پڑھائی جاتی ہے۔ افتاء کا انتظام ہے ، مولانا موصوف خود ہی یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ مدرسہ دو عمارتوں پر مشتمل ہے۔ طلبہ کے قیام وطعام کاعمدہ بندوبست ہے۔

فاضلین میں مولانا سعید احمد مجددی، مولانا خالدحسن مجددی، مولانا سید مراتب علی شاہ، مولانا محمد اکرم رضوی ، مولانا سید شبیر حسین حافظ آبادی ، مولانا صداقت علی حنفی اور مولانا فیض القادری کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اس وقت ڈیڑھ سو طالب علم زیر تعلیم ہیں ، جن میں ۸۰ طلبہ مستقل طور پر مدرسہ میں رہائش پذیر ہیں۔ مدرسے کا کتب خانہ دینی کتب کا نہایت عمدہ ذخیرہ ہے۔ مدرسے کے ابتدائی مدرسین میں مولانا محمد احسان الحق اور مولانا عبداللطیف کے نام سرفہرست ہیں۔ مدرسے کا تبلیغی شعبہ نہایت فعال ہے۔ پچھلے ۲۵ برس سے ماہنامہ ’ رضائے مصطفی‘ بریلوی مکتب فکر کی ترجمانی کا فرض انجام دے رہا ہے۔ مدرسے کی ایک شاخ حافظ آباد روڈ پر کلر آبادی میں بھی ہے ۔ مدرسے میں شعبہ حفظ وناظرہ بھی موجود ہے۔ اس وقت پانچ مدرسین فرائض تدریس انجام دے رہے ہیں۔ 

اس ادارے کے بانی مولانا ابوداود محمد صادق ہیں۔ ۱۹۲۹ء بمقام کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق اعوانوں کے ایک معزز خاندان سے ہے۔ آپ کے والد کانام شاہ محمد ہے۔ قرآن مجید ناظرہ اور پرائمری تک اردو تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کے علوم عربیہ کے منتخب نصاب درس نظامی کی کتب جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف، مدرسہ نقشبندیہ علی پور شریف اور جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد میں پڑھیں۔ ۱۵؍ شعبان المعظم ۱۳۶۹ھ کو سندِ فراغت حاصل کی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا محمد شریف کوٹلوی ، مولانا حاجی عبدالغنی، قاری یوسف علی بریلوی، مولانا محمد آل حسن سنبھلی، مولانا عبدالرشید جھنگوی اور مولانا سردار احمد فیصل آبادی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔

مولانا محمد صادق نے اپنی تدریسی زندگی کا آغاز جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد سے کیا۔ ایک سال بعد گوجرانوالہ چلے آئے اور جامع مسجد زینت المساجد میں خطابت کے فرائض انجام دینے لگے۔ اہل دل جذباتِ شوق لیے آپ کے خطاب سے خوشہ چینی کرنے لگے ۔ آج تک آپ اسی جامعہ مسجد میں خطابت کی ذمہ داریوں سے عہد برآ ہو رہے ہیں ۔ ان دنوں آپ کے ہم مسلک علماء کسی معیاری دینی درسگاہ کے قیام کے لیے کوشاں تھے ۔ آپ نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے جامعہ حنفیہ رضویہ سراج العلوم کے نام سے دینی ادارہ قائم کیا ۔ جس کی تفصیلات اس مضمون میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔

آپ نظریہ پاکستان کے فدائی عاشق ناموسِ رسالت اور محبِ وطن عالم دین ہیں۔ آپ نے اپنی تقاریر اور خطبات میں ہمیشہ اسلام اور وطنِ عزیز سے غیر متزلزل وابستگی کا درس دیاہے۔ آپ سنت رسول ﷺپر سختی سے کاربند ہیں اوراپنے متعلقین ، تلامذہ اور عقیدت مندوں کو بھی عشق رسول ﷺ کے تقاضوں کی بجاآوری کی خاطر تعلیمات مصطفوی پر دل و جان سے عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ آپ مولانا سردار احمد فیصل آبادی کے شاگرد رشید ہونے کے علاوہ انہی سے بیعت بھی تھے۔ انہوں نے آپ کو خلافت بھی عطا فرمائی۔ آپ نے رشد وہدایت کے ایمان افروز سلسلے کی بدولت بہت سے گم گشتگانِ منزل کی راہنمائی فرماتے ہوئے انہیں صراطِ مستقیم پر گامزن کیا ہے۔ آپ تبلیغ اسلام کے شیدائی اور ترویجِ اقدار اسلامی کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔ اصلاح معاشرہ اور انسدادِ رسوم باطلہ کے سلسلہ میں آپ کی تقاریر ہمیشہ موثر ثابت ہوئی ہیں ۔ آپ کے پر تاثیر مواعظ عوام کے دلوں پر اثر کرتے اور انہیں گدازِ ایمانی سے آشنا کرتے ہیں۔ 

آپ معروف خطیب ، مبلغ اور استاد ہی نہیں بلکہ صاحبِ قلم بھی ہیں۔ آپ کی سرپرستی میں ماہنامہ ’ رضائے مصطفی‘ تبلیغِ دین کے سلسلہ میں شاندار کردار ادا کر رہاہے۔ آپ نے متعدد تصانیف کے علاوہ مختلف تبلیغی اور علمی موضوعات پر درجنوں تبلیغی اشتہارات بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک لاکھ سے زائد تعداد میں شائع ہو چکے ہیں۔ قرطاس وقلم کے سلسلے میں آپ کی یہ تبلیغی کاوشیں بلاشبہ لائق ستائش ہیں۔ آپ کے بہت سے تلامذہ مذہبی و دینی حلقوں میں نام پیدا کر چکے ہیں جن میں مولانا سید مراتب علی شاہ، مولانا محمد اکرم رضوی، مولانا محمد صدیق، مولانا محمد شریف، مولانا سید شبیر حسین حافظ آبادی، مولانا صداقت علی فیضی اور مولانا فیض القادری خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ مولانا محمد صادق کی زندگی کا محور یہ شعر ہے:

تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کر جائیں

اگر کچھ ہو سکے تو خدمتِ اسلام کر جائیں 

( کوائف ماخوذ از تعارف علمائے اہل سنت : مرتبہ مولانا محمد صدیق ہزاروی) 

مدرسہ اشرف العلوم

باغبانپورہ حافظ آباد روڈ پر جامع مسجد اشرفیہ سے ملحق شہر کی اہم دینی درسگاہ ہے۔ مدرسے کا مسلک حنفی دیوبندی ہے۔ مدرسے کا انتظام ایک مجلس متنظمہ کے ماتحت مہتمم مدرسہ محمد نعیم اللہ کی ذاتی نگرانی میں ہے۔ ناظم مدرسہ حافظ محمد معین ہیں۔ 

۱۔مولانامحمود حسن ، صدر مدرس فاضل جامعہ اشرفیہ 

۲۔ مولانا محمد ہاشم ، فاضل مدرسہ نصرۃ العلوم 

۳۔ مولانا خلیل احمد ، فاضل نصرۃ العلوم 

۴۔ مولانا عبدالخالق، فاضل جامعہ اشرفیہ 

۵۔ مولانا قاری عبدالصمد ، فاضل جامعہ اشرفیہ 

۱۹۵۲ء میں مولانا مفتی محمد حسن ( جامعہ اشرفیہ لاہور) خلیفہ مجاز مولانا اشرف علی تھانوی کی سرپرستی میں مولانا محمد خلیل کی زیر نگرانی مدرسے کا اجراء ہوا۔ ابتداءً مسجد شیخاں گوجرانوالہ میں تدریس کا کام شروع ہوا بعدازاں یہ درسگاہ مسجد عبداللہ خونی میں منتقل ہوئی۔ امتدادِ وقت کے ساتھ ساتھ توسیع مدرسہ کے لیے مختلف مقامات زیر غور آئے۔ ایک تجویز سول لائنز میں منتقل کرنے کی تھی مگر کثرت رائے سے بعد میں مدرسہ اپنی موجودہ جگہ پر باغبانپورہ میں شروع کیا گیا۔ بانی مدرسہ مفتی محمد خلیل کو مفتی محمد حسن سے شرفِ بیعت حاصل تھا اورمفتی محمد حسن برصغیر کے نامور فقیہ مولانا اشرف علی تھانوی سے بیعت تھے۔ انہی کے نام پر مدرسے کا نام اشرف العلوم رکھا گیا ۔ مدرسے کا نصاب درس نظامی ہے، مگر یہاں دورۂ حدیث نہیں ہوتا۔ زیادہ زور حفظ وناظرہ اور تجوید وقرات پر دیا جاتا ہے۔ یہ اقامتی ادارہ ہے ۔ طلبہ کودیگر مراعات کے ساتھ ۵ روپے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ طلبہ کی مجموعی تعداد ۱۲۲ ہے۔

مدرسے نے اہم سیاسی خدمات بھی انجام دی ہیں ۔ ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں مرحوم مفتی محمد خلیل گرفتار ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں اہم خدمات انجام دیں۔ جس میں مفتی صاحب اور مولانا محمد نعیم مضرو ب بھی ہوئے۔

اہم فاضلین یہ ہیں: ۱۔ مولانا عبدالحکیم ( گلگت اسمبلی کے سابق رکن)، ۲۔ مولانا عبدالقیوم ( سکردو)۔

مدرسہ وفاق المدارس سے منسلک ہے۔ مدرسہ کے ارباب بست وکشاد درس نظامی میں اصلاح کے نہیں ترمیم کے قائل ہیں۔ دارالافتاء تو ہے مگر رجسٹر کا انتظام نہیں ۔ مدرسے کا کتب خانہ نہایت وقیع ہے جس میں چند نایاب قلمی نسخے بھی ہیں ۔

جامعہ اسلامیہ چاہ شاہاں والا

آبادی حاکم رائے چاہ شاہاں والا حافظ آباد روڈ کے قریب گنجان آبادی میں مسلک اہل حدیث کی ایک شاندار درسگاہ ہے۔ مدرسے کا انتظام ایک مجلس منتظمہ چلاتی ہے۔ ۱۳۷۰ھ بمطابق ۱۹۵۰ء میں شیخ الجامعہ حافظ محمد گوندلوی نے جامعہ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت ایک کمرہ ، دو استاد اور ۱۰ طلبہ تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگرچہ کمروں میں اضافہ ہو چکا ہے ، ایک ہال بھی ہے مگر تعلیمی افادیت کے مقابلے میں جگہ قلیل ہے ۔ مستقل طلبہ کی تعداد ۷۵ ہے ۔ دارالاقامہ میں ۵۶ طلبہ رہائش پذیر ہیں۔ حفظ وناظرہ اور تجوید کا نہایت مناسب انتظام ہے۔ جامعہ کی لائبریری میں کل ۳۵۰۰ کتابیں ہیں جن میں چند قلمی نسخے بھی ہیں۔

جامعہ کے سرپرست حافظ محمد گوندلوی ہیں۔ مہتمم اور صدر مدرس کے فرائض مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی انجام دیتے ہیں جو فاضل دارالکتاب والسنہ دہلی ، فاضل مدرسۃ العالیہ مدراس، فاضل افضل العلماء مدراس یونیورسٹی ہیں۔ 

حافظ محمد گوندلوی جو آغاز کار میں مدارس عربیہ کے فارغ التحصیل علماء کو درس اعظم کے نام سے درس دیتے تھے، اب پیرانہ سالی کے باوجود گاہ گاہ بحیثیتِ سرپرست اپنے فیوض سے نوازتے رہتے ہیں۔ حافظ صاحب دورِ حاضر کے عظیم محدثین میں سے ہیں۔ آپ سلف صالحین کی زہد پرور زندگی کا نمونہ اور علمائے اسلام کی عظیم نشانی مسلک اہل حدیث کے ممتاز عالم دین ہیں۔عصرِ حاضر میں کم بلکہ کم لوگ ایسے ہیں جن کی نگاہ علوم الحدیث کی ان گہرائیوں تک جاتی ہے جہاں تک موصوف کی نگاہ دور رس پہنچی ہے۔ آپ کا مولد گوجرانوالہ کے مضافات میں موضع گوندانوالہ ہے۔ تاریخ پیدائش قطعی طورپر تو معلوم نہیں ہو سکی۔ قرائن وشواہد سے ۱۸۸۵ء کے لگ بھگ ہے۔ 

تعلیم کے سلسلے میں پہلے مرحلے میں آپ امرتسر تشریف لے گئے ، وہاں صرف ، نحو ،منطق جیسے علوم مولوی محمد حسین ہزاروی سے پڑھے اور علوم حدیث کے لیے مولانا عبدالجبار غزنوی ( والد مولانا داود غزنوی) اور مولانا عبدالاول کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ یہ سلسلہ تعلیم کوئی ۵ سال تک رہا۔

بعد ازاں طبیہ کالج سے طب میں اول آئے ، یہیں مولوی عبدالرزاق سے منطق بھی پڑھی اور ۱۹۱۹ء میں فارغ التحصیل ہوئے ۔ واپسی پر گوندانوالہ میں مدرسہ نصرۃ العلوم قائم کر کے تدریس کا آغاز کیا۔ جن جن اداروں میں آپ فرائض تدریس انجام دیتے رہے، ان کے نام یہ ہیں: مسجد رحمانی دہلی، مدرسہ اوڈانوالہ ضلع فیصل آباد، جامعہ محمدیہ چوک نیائیں گوجرانوالہ ، جامعہ سلفیہ فیصل آباد، جامعہ اسلامیہ شاہانوالہ ، اسلامی یونیورسٹی مدینہ منورہ ، جامعہ محمدیہ جی ٹی روڈ گوجرانوالہ ۔ 

علامہ موصوف برصغیر کے نامور اساتذہ حدیث میں سے ہیں۔ ان کے بے شمار تلامذہ میں مولانا عبیداللہ مبارک پوری ( صاحب مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح) ، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا محمد اسماعیل سلفی ، حافظ عبدالجبار بڈھی مالوی، حافظ محمد اسحاق مدرس تقویۃ الاسلام لاہور، مولانا محمد عمر اچھروی، مولانا مفتی محمد بشیر گوجرانوالہ اور علامہ احسان الٰہی ظہیر شامل ہیں۔ 

آپ نے تین مختلف سندوں سے علم حدیث کی تحصیل کی ۔ ایک واسطہ تو حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی تک پہنچتا ہے ، دوسرے دو واسطے قاضی شوکانی صاحب نیل الاوطار تک جاتے ہیں۔

آپ نے عربی اور اردو میں بلند پایہ علمی کتابیں لکھی ہیں۔ عربی کتابوں کے نام یہ ہیں۔ زبدۃ البیان فی حقیقۃ الایمان، تحفۃ الاخوان(عقائد) ، بغیۃ الفحول( فقہ)، شرح مشکوۃ ( نامکمل و غیر مطبوعہ )۔ اردو کتابیں یہ ہیں: اثبات التوحید فی ابطال التثلیث ( پادری عبدالحق کی کتاب کا رد) ،ختم نبوت، تنقید المسائل، الاصلاح( ۴ حصے) ، ابداء الثواب۔التحقیق الراسخ۔

مولانا کم و بیش ۱۰۰ سال کے پیٹے میں ہیں ۔ بوجہ سالمندی اور ضعف پیری تو ایک فطری امر ہے اور بڑھاپے کے آثار وعوارض سے بھی مفر نہیں تاہم طبیعت میں شگفتگی اور مزاج میں حد درجہ کی سادگی ہے۔ 

علم کا کوہِ گراں اور قرآن وحدیث پر ماہرانہ دسترس رکھنے والا یہ عربیت کا بحر بے کنار ہر طرح کے کھوکھلے پن سے یکسر عاری ہے ۔ نہ تکلف نہ تصنع نہ شملہ بمقدار علم ، نہ جھوٹا علمی رعب، انکسار کا پیکر مگر وقار کی تصویر ۔ مدینہ منورہ میں رات کو اس کے درس بخاری میں شیوخ حرم بیٹھتے تو دراز دامن ہو کر بیٹھتے ۔ یہ فصیح عربی میں گھنٹوں بخاری کا درس دیتا اور اہلِ زبان انگشت بدنداں رہ جاتے ۔ زبان حال سے پکار اٹھتے۔ 

؂ ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں ہے

کسی کو مسلک کا اختلاف ہوتو ہو مگر اہل علم میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو ان کی علمی سطوت کا معترف نہ ہو۔ ان کی صحبت میں بیٹھ کر یوں لگتا ہے کہ تفقہ فی الدین اور رسوخ فی العلم کا ہمالہ ہے جس کی بلندیوں کو دیکھتے ہی بڑے بڑوں کو پگڑی سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ 

اس ادارے کے شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی ، مدراس کے مشہور قصبہ چمناڈ (chemnad) میں مولانا محمد اسماعیل کے ہاں ۱۹۲۶ء کو تولد ہوئے۔ آپ کا خاندان اگرچہ زراعت کے پیشہ سے متعلق تھا مگر اپنے علم وتقویٰ کی بنا پر پورے علاقہ میں خاص شہرہ رکھتا تھا۔ آپ کے جد امجد مولانا محمد صاحب اور ماموں مولانا محمد زکریا صاحب کا جید علماء میں شمار ہوتا تھا ۔ آپ کی والدہ علوم قرآن کی ماہرہ تھیں اور خواتین کے لیے حلقہ ارشاد وتدریس قائم کر رکھا تھا۔ 

آپ انگریزی طرز کے اسکول میں مڈل تک رسمی تعلیم کے بعد علوم دینیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ المدرسۃ العالیہ چمناڈ یعنی عربک کالج سے عربی درسیات اور علوم متداولہ کی تکمیل کی۔ غیر منقسم ہندوستان المدرسۃ العالیہ چمناڈ شافعی مسلک کی درسیات کا عظیم ترین مرکز تھا۔ 

تفسیر وحدیث ، منطق وفلسفہ اور تاریخ میں آپ کے استاد محمد ابوالصلاح تھے جو اپنے دور کے وحید العصر عالم تھے۔ صرف ونحو ، بلاغت اور عربی ادب کی تکمیل مولانا محمد عباس جیسے بلندپایہ عالم سے کی۔ فقہ و اصول فقہ میں مہارت کے لیے علامہ محمد کانن گاڈی کے خوان علم سے استفادہ کیا۔ اس کے بعد حنفی مسلک کے عدیم النظیر استاد مہر محمد سے حنفی فقہ ، علم الکلام ، منطق وفلسفہ کے اسباق پڑھے۔ فقہ احناف ، منطق و فلسفہ اور علم الکلام میں مہارت تامہ حاصل کی۔ 

؂ تمتع زہر گوشہ یافتم 

فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک سال تک مدرسۃ العالیہ چمناڈ میں تدریس کے فرائض انجام دیے ۔ اس کے بعد جامعہ الازہر قاہرہ میں عربی زبان پر تحریر و تکلم کی مکمل استعداد کے لیے رختِ سفر باندھا ۔ پاسپورٹ وغیرہ کے مراحل طے ہوجانے کے بعد آپ بمبئی پہنچے مگر اس دوران میں الازہر کے طلبہ نے شاہِ فاروق کے خلاف اخوان کی حمایت میں تحریک کا اعلان کیا تو الازہر کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا۔اس طرح الازہر کے علمی گہوارہ میں تحصیل علم کی آرزو تشنہ تکمیل رہی۔ چند ماہ بعد پاکستان معرض وجود میںآیا تو وطن مالوف جانے پر دشواری ہوئی۔ آپ نے پاکستان ہجرت کی اور ماموں کانجن اوڈاں والا کے معروف علمی مدرسہ میں وارد ہوئے۔ چند ماہ تک تدریس کے فرائض انجام دیے ۔ اس اثنا میں گوجرانوالہ میں مولانا محمد گوندلوی کے رسوخ فی العلم اور درس حدیث کی شہرت سن کر گوجرانوالہ میں منتقل ہوگئے اور حافظ محمد گوندلوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ ان سے اصولِ تفسیر ، اصول حدیث ، علوم القرآن ، علوم الحدیث ، فلسفہ اور اسرار الشریعۃ میں استفادہ کے بعد سند فراغت حاصل کی۔ 

حضرت مولانا محمد گوندلوی الجامعۃ الاسلامیہ چاہ شاہاں والا میں مہتم اعلیٰ اور صدر مدرس تھے۔ آپ نے ۱۹۵۰ء میں درس نظامی اور علوم اسلامیہ کے محنتی طلبہ کی تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور حافظ محمد گوندلوی کے مدینہ منورہ لے جانے اور پھر گوشہ نشین ہوجانے کے بعد آپ اس معروف علمی ادارہ کے سربراہ اور صدر مدرس مقرر ہوئے اور تادمِ تحریر یہ ذمہ داریاں خوش ا سلوبی سے انجام دے رہے ہیں۔ 

مولانا ابوالبرکات احمد الجامعۃ الاسلامیہ کے دارالافتاء کے صدر مفتی ہیں اور گذشتہ ۲۵ سال کے دوران میں ہزاروں فتاوی صادر کر چکے ہیں۔ مولانا ابوالبرکات احمد علم وعمل کی ایک جامع اور زندہ تصویر ہیں۔ نامور اور صاحبِ بصیرت عالم ہونے کے ساتھ آپ زاہد مرتاض حد درجہ متوکل انسان ہیں۔ زہد وقناعت ، فقر و غنا ، انکسار و تواضع ، ایثار وعلم ، متانت و ثقاہت اور خوش خلقی اور شرینی گفتار میں آپ فی الواقعہ اس زمانے میں آیۃ من آیات اللہ کا مصداق ہیں۔ آپ اپنے کردار و اوصاف میں سلف صالحین کا چلتا پھرتا پیکر ہیں۔ (سوانحی خاکہ پروفیسر بشیر احمد تمنا نے فراہم کیا) 

جامعہ محمدیہ 

جی ٹی روڈ پر سرفراز کالونی سے شہر گوجرانوالہ کی جانب شاہراہ کے مغربی جانب مسلک اہل حدیث کی عظیم درسگاہ ہے۔ ابتدا میں درسگاہ مدرسہ محمدیہ کے نام سے چوک نیائیں کے قریب تھی۔ بانی مولانا محمد اسماعیل سلفی تھے جنہوں نے ۱۹۲۱ء میں اس کی بنیاد رکھی۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی نے روزِ اول ہی سے فرائض تدریس سنبھالے اور آج تک جامعہ سے وابستہ ہیں۔ صرف وہ وقفہ مستثنیٰ ہے جس میں کچھ دیر کے لیے وہ تدریس حدیث کے لیے فیصل آباد اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ 

۱۹۶۸ء میں مولانا سلفی کی وفات پر مدرسے کا بار انصرام مولانا عبداللہ کے کندھوں پر آ گیا۔ جامعہ کی عمارت وسیع رقبہ پر ہے جس میں ایک مسجد بھی ہے ۔ اقامت کے لیے ۳۵ کمرے ہیں۔ ۲۵ نچلی منزل میں اور ۱۰ بالائی منزل پر ۔ ۸ تدریسی کمرے ہیں ۔ کھیل کود کے لیے ایک وسیع گراؤنڈ بھی ہے۔ آغاز سال میں ۱۵۰ طلبہ ہوتے ہیں اور آخر میں عموماً ۱۲۵ طلبہ کامیاب ہوتے ہیں۔ دورہ تفسیر وحدیث میں ۱۰ طلبہ ہوتے ہیں۔ 

جامعہ کا نصاب تو درس نظامی ہی ہے مگر ادب و انشاء اورا نگریزی زبان کی تدریس پر بھی زور دیا جاتا ہے۔ تفسیر ، حدیث، فلسفہ اسلامی، فرائض ، ہیئت ، بلاغت وغیرہ کے ساتھ ساتھ تاریخ ، ادب عربی، انٹر میڈیٹ تک کی انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے۔ 

اساتذہ : صدر مدرس مولانا محمد عبداللہ، حافظ عبدالمنان ، مولانا عبدالحمید، مولانا محمد اعظم ، مولانا حافظ محمد الیاس، مولانا حافظ محمد یحییٰ ، مولانا رحمت اللہ ، مولانا قاری سیف اللہ۔ 

اکثر اساتذہ اسی جامعہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ میں دارالافتاء تو ہے مگر رجسٹر نہیں۔ مدرسے کاسیاسی مسلک تحریکوں سے علیحدگی اختیار کرنا ہے۔ طلبہ کی جمعیت بھی ہے ۔ ۸ سالوں پر محیط تدریسی پروگرام میں درس نظامی کس حد تک حک واضافے کے ساتھ رائج ہے تاہم فقہی مسالک کا اختلاف اور ان پر نقد ونظر جامعہ کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ کتب خانے میں ایک ہزار سے زیادہ علمی کتابیں ہیں۔ 

فاضلین میں اہم ترین کے اسمائے گرامی ہیں:

مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا محمدحنیف ( رکن ادارہ ثقافت اسلامیہ ) ، مولانا حافظ محمد عبداللہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد، مولانا امام خاں نوشہروی ، علامہ احسان الٰہی ظہیر، مولانا عبدالمجید سوہدری ( مدیر مجلہ اہل حدیث)، مولانا معین الدین لکھوی، ( امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان)، مولانا محمد عبداللہ ( موجودہ صدر مدرس) ، پروفیسر محمد ( پروفیسر سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور)، قاری احم دین ( معہد علمی مکہ مکرمہ) ، مولانا محموداحمد میرپوری ( انگلستان) ۔

مولانا سلفی ایک بلند پایہ عالم تھے۔ ان کی کتابوں میں ذیل کے علمی کارنامے ان کے مرتبہ علمی کے شاہد عادل ہیں:

اثبات التوحید فی ابطا ل التثلیث( پادری عبدالحق کی کتاب کا رد) ،،سنت خیر الانام، درسہ وتر بیک سلام، ارشاد القاری الیٰ نقد کتاب فیض الباری، باعانت مولانا عبدالمنان، تحریک آزادی فکر، رسول اکرم ﷺ کی نماز، حجیت حدیث، ترجمہ مشکوۃ المصابیح نصف اول، سبعہ معلقہ کی شرح۔ 

جہاں تک جامعہ کے مہتمم مولانا محمد عبداللہ کا تعلق ہے، وہ فی الواقع علم وعمل کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت لالہ وگل کی حنا بندی بھی خود کرتی ہے اور گلستان کے نکھار و وقار کا سامان بھی۔ اسی طرح علمی اور دینی افق درخشندہ ستاروں سے کبھی محروم نہیں رہا۔ پھلنا ، پھولنا اور پھیلنا شاخ ہاشمی کا مقدر ہے اور ملتِ بیضا کی عظمت و رفعت ہماری تاریخ کی ایک درخشاں روایت بھی ہے اور روشن حقیقت بھی۔ گوجرانوالہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اسے فطرت کی طرف سے بہترین دینی دماغ عطا ہوئے۔ انہی میں مولانا محمد عبداللہ کا شمار ہوتا ہے جو مولانا محمد اسماعیل سلفی کے بعد دین حق کی تبلیغ واشاعت میں پوری تندہی سے مصروف عمل ہیں۔ 

آپ ۱۹۲۰ء کو چک نمبر ۱۶ شاخ جنوبی تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد ۱۹۳۴ء میں مدرسہ محمدیہ چوک نیائیں گوجرانوالہ میں داخل ہوئے۔ یہیں مولانا محمد اسماعیل سلفی اور مولانا حافظ محمد گوندلوی سے قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی اور درس نظامی کی تکمیل کی۔ اسی تعلیم کے دوران میں، آپ نے ۱۹۳۸ء میں پنجاب یونیورسٹی سے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۴۲ء میں مولوی فاضل کیا اور شہر کی مختلف مساجد میں درس و خطابت کا سلسلہ جاری کیا اور ساتھ ہی جامعہ محمد یہ میں بطور مدرس کام کرتے رہے۔ ۱۹۶۰ء میں علماء اکیڈمی کوئٹہ سے سپیشل کورس پاس کیا۔ بعد ازاں اخوان اہل حدیث کے نام سے ایک تنظیم اور جامعہ شرعیہ کے نام سے ایک دینی ادارہ قائم کیا ۔ یہی ادارہ بعدازاں جی ٹی روڈ پر منتقل ہوا۔ بعد میں اخوان اہل حدیث کو جمعیت اہل حدیث میں جامعہ شرعیہ کو جامعہ محمدیہ میں مدغم کر دیا گیا اور مولانا سلفی کی وفات کے بعد مرکزی جامع مسجد میں خطیب مقرر ہوئے۔ 

آپ کی زیرنگرانی جامعہ محمدیہ اپنی روایتی شان کے ساتھ رواں دواں ہے ۔ رسالہ الاسلام، مجلس علماء اہل حدیث اور اسلامی دارالمطالعہ آپ ہی کی فکرِ رسا کے شاہکار ہیں۔ علم وعرفان کے اس چشمہ صافی سے سیراب ہونے والوں کی صحیح تعداد کا تو اندازہ نہیں مگر چند نام در ج ذیل ہیں:

حافظ عبدالغفور جہلمی، مولانا خالد گرجاکھی، پروفیسر قاضی مقبول احمد ، مولانا بشیر الرحمن، مولاناعبدالرحمن الواصل، مولانا حافظ عبدالمنان ، مولانا محمد یوسف ضیا، مولانا محمد مدنی، مولانا عطاء الرحمن شیخوپوری، مولانا عبدالقیوم سیالکوٹی، علامہ فضل الٰہی ( ریاض یونیورسٹی)، مولانا حبیب الرحمن یزدانی، مولانا حافظ محمد قاسم ، مولانا محمد رفیق دین پوری۔ 

(معلومات جناب پروفیسر حافظ محمد ارشد کی وساطت سے ملیں) 

جامعہ عربیہ

آغاز کار میں کھیالی گیٹ گوجرانوالہ کی مسجد آرائیاں میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ۱۹۳۶ء میں مدرسہ جاری ہوا۔ خان بہادر مولانا امام الدین نے مدرسہ کی بنیاد رکھی ۔ مہتمم چودھری نیاز علی تھے اور صدر مدرس مولانا محمد چراغ ( فاضل دارالعلوم دیوبند)۔ مولانا موصوف مولانا انور شاہ کشمیری کے خاص تلامذہ میں سے تھے۔ ان کی شرح جامع ترمذی ’العرف الشذی‘ دنیائے علم ودانش میں خاص شہرت کی حامل ہے۔ عرصہ دراز تک اس مختصر سی عمارت میں تشنگانِ علم افغانستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک سے علم کی پیاس بجھانے کے لیے آتے رہے۔ مولانا ہمیشہ اس فکر میں رہتے کہ علماء کی ایک ایسی جماعت تیار ہوجولا دینی طاقتوں اور الحادی نظریات کا مقابلہ کر سکے ۔ اس مقصد کے لیے در س نظامی کی عام ڈگر سے ہٹ کر نصاب میں اہم اور بنیادی تبدیلیاں کیں جہاں ایک طرف تو عصری تقاضوں سے ہم آہنگی پر زور دیا جاتا ہے، دوسرے ادب وا نشاء کو نصاب کا ایک اہم حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ۲۵ جمادی الثانیہ ۱۳۸۷ھ بمطابق یکم اکتوبر ۱۹۴۶ء کو پاکستان کی شاہراہ پر گوجرانوالہ شہر کے جنوب میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ کے ہاتھوں جامعہ کا سنگ بنیاد رکھوایا۔ 

دعوت وارشاد کے سلسلے میں مولانا موصوف نہایت قابل ہیں۔ ہزارہا لائق اور فاضل تلامذہ تیار کیے۔ برصغیر کے مختلف مقامات کے دورے کر کے شرک وبدعت ، قادیانیت ، عیسائیت اور فتنہ انکارِ حدیث کے خلاف نتیجہ خیز کام کیا۔ آج بھی جامعہ کے فضلاء کے پاکستان کے علاوہ بنگلہ دیش، انگلستان، یوگنڈا، موریشس میں تعلیم اور تبلیغ اسلام میں منہمک ہیں۔ شیخ الجامعہ نے فرنگی دور میں آزادی وطن کی تحریک میں بارہا قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ادب وانشاء کے میدان میں ہفت روزہ ’’ گلدستہ ‘‘ اور ہفت روزہ ’’ صوت الجامعہ ‘‘ طلبہ کے مضامین سے طلبہ ہی کی ادارت میں ترتیب پاتے ہیں جن میں دینی، سیاسی، معاشرتی اور علمی موضوعات پر عام فہم اور شگفتہ تحریریں پیش کی جاتی ہیں۔ جمعیت طلبہ کے نام سے ایک انجمن بھی قائم ہے۔ 

۱۹۴۷ء سے پنجاب یونیورسٹی لاہور اور ثانوی تعلیمی بورڈ کے امتحانات مولوی ، مولوی عالم، مولوی فاضل کی تدریس کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ جامعہ کا دارالکتب نہایت شاندار ہے جس میں سراجی اور شریفیہ شرح سراج جیسی بلند پایہ کتابوں کے قلمی نسخے بھی موجود ہیں۔ گوجرانوالہ کے نامور عالم دین اور محقق مرحوم پروفیسر عبدالحمید صدیقی کی گراں مایہ کتب کا ذخیرہ بھی اسی دارالکتب کی زینت ہے۔ اولاً مولانا حافظ مفتی محمد خلیل ( یہ اشرف العلوم والے مفتی صاحب نہیں) افتاء کی خدمت انجام دیتے رہے۔ 

جامعہ کے نصابِ تدریس میں علوم القرآن، علوم الحدیث، فقہ، افتاء، مذاکرہ عربی ادب، فلسفہ وکلام، ادیان و فرق ، فلسفہ تاریخ ، انگریزی زبان اور طب یونانی شامل ہیں۔ شعبہ حفظ وتجوید بھی قابل قدر ہے۔ 

جامعہ کی انتظامیہ حسبِ ذیل ہے: مولانا محمد چراغ (مہتمم) ، مولانا حافظ محمد انور ( ناظم اعلی)، مولانا حافظ نذیر احمد ( ناظم مالیات)، مولانا محمد عارف (ناظم تعلیمات)، مولانا سید عبدالخالق شاہ گیلانی، ( نائب ناظم اعلیٰ) ۔

فاضلین کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے جن میں چند ایک کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔:

مولانا عبدالخالق طارق( پرنسپل اسلامک انسٹی ٹیوٹ جنجا ،(یوگنڈا)،مولانا منور حسین شاہ مشہدی صدر پیغام اسلام ٹرسٹ ( انگلینڈ)، مولانا محمد حیات (فاتح قادیاں) مولانا منظور احمد چنیوٹی ،( مہتمم جامعہ عربیہ چنیوٹ)، مولانا مفتی جعفر حسین ( سابق پرنسپل جامعہ جعفریہ)، مولانا محمد زکریا ( مہتمم مدرسہ انوارالعلوم کراچی)، مولانا حافظ محمد انور ( مدرسہ باب الاسلام کراچی)، قاضی عصمت اللہ ( مہتمم مدرسہ محمدیہ قلعہ دیدار سنگھ)، مولانا قاضی عبداللطیف ( قاضی حکومت آزاد کشمیر) ، مولانا غازی شاہ نصرۃ العلوم، مولانا عبدالشکور ( کامونکے) 

مدرسہ کا میزانیہ ۴ لاکھ ہے ۔ تعمیر کا خرچ اس کے علاوہ ہے۔ وفاق المدارس سے الحاق نہیں۔ مسلک میں راہِ اعتدال کو مناسب سمجھا گیا ہے۔ 

مولانا محمد چراغ ؒ 

مولانا محمد چراغ ، کاموضع دھکڑ تحصیل کھاریاں، ضلع گجرات مولد ومنشاء ہے۔آپ کا خانوادہ مدتوں سے دور و نزدیک تک علم و آگہی کا منارِ نور رہاہے۔ 

اس گوہر شب چراغ نے ۱۴جمادی اخری ۱۳۱۴ھ حافظ کرم دین بن غلام رسول کے گھر میں آنکھ کھولی۔ حافظ صاحب موصوف ایک فرشتہ صفت انسان تھے اور کاشتکاری ذریعہ معاش تھا۔ انہیں مولانا رشید احمد گنگوہی سے والہانہ عقیدت تھی۔ فارسی زبان کا نہایت ستھرا ذوق رکھتے تھے۔ مثنوی رومی اور دیوانِ حافظ جیسی کتابیں عموماً پاس رہتیں۔

بچپن ہی سے حضرت مولانا محمد چراغ پر اپنے والد گرامی کے تدین وتقویٰ کا رنگ گہرا تھا۔ گھر پر ہی ختم قرآن کے بعد آپ اپنے بڑے بھائی سراج الدین کے پاس لاہور چلے آئے۔ اس دوران میں مدرسہ نعمانیہ میں تحصیلِ علم کرتے رہے ۔ فارسی اپنے برادر بزرگ سراج الدین اور مولانا محمد عالم آسی ( صاحب الکاویۃ علی الغاویۃ) سے پڑھی ۔ انہی سے خوشنویسی بھی سیکھی۔ چار پانچ برس لاہور میں رہنے کے بعد موضع گنجہ تحصیل کھاریاں میں مولانا سلطان احمد گنجوی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ علم صرف کی تکمیل کی ۔ علم نحو شرح ملا جامی تک اور علم منطق شرح تہذیب تک پڑھا۔ 

سفرِ دیوبند و سہارنپور

علمی تشنگی دور کرنے کے لیے آپ نے سفر دیوبند اختیار کیا مگر بوجوہ وہاں دل نہ لگا تو آپ عازم سہارنپور ہو گئے۔ مدرسہ مظاہر العلوم میں حضرت مولانا محمد الیاس ( بانی تبلیغی جماعت) اور مولانا عبدالرحمن سے شرفِ تلمذ رہا۔ یہیں مولانا خلیل احمد ( صاحب بذل المجہود) کی زیارت بھی ہوئی۔ 

مراجعت

مظاہر العلوم سہارنپور میں مختصر قیام کے بعد واپس وطن تشریف لے آئے اور حضرت ولی اللہ کی خدمت میں دندہ شاہ بلاول ضلع کیمبل پور میں رہنے لگے۔ حضرت مولانا ولی اللہ اپنے دور کے اجل عالم دین تھے۔ تین سال تک علومِ متداولہ سے بہرہ یاب ہونے کے بعد پھر دارالعلوم دیوبند کا ارادہ کیا۔ 

دارالعلوم دیوبند میں داخلہ

دندہ شاہ بلاول سے فارغ ہو کر دیوبند پہنچے تو شیخ الادب والفقہ مولانا اعزاز علی نے میبذی میں داخلے کا امتحان لیا اور آپ کو دورۂ حدیث میں شرکت کی اجازت مل گئی۔ 

آپ کے اساتذہ کرام میں وہ عظیم نام ہیں جن پر زمانہ ناز کرتا اور دنیائے علم و دانش مفتخر ہے۔

بخاری وترمذی

حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری ۔ مسلم شریف: مولانا محمد احمد والد گرامی قاری محمد طیب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند۔ سنن ابو داود: مولانا سید اصغر حسین شاہ ۔ سنن ابن ماجہ: مولانا رسول خاں ( جو بعد میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں بھی حدیث پڑھاتے رہے )۔ سنن نسائی: مولانا شبیر احمد عثمانی۔ موطین ( موطاامام مالک اور موطاامام محمد): مفتی عزیز الرحمن برادر مولانا شبیر احمد عثمانی۔ 

یوں تو آپ نے ہر گوشے سے تمتع کیا اور ہر خرمن سے خوشہ چینی کی مگر خصوصیت کے ساتھ اپنے وقت کے نہایت جید عالم حدیث مولانا انور شاہ کشمیری سے جی بھر کر فیض اٹھایا۔ آپ ان کی تقریر بخاری کو عربی میں منتقل کرتے جاتے جس کا غیر مطبوعہ نسخہ آج بھی موصوف کے پاس محفوظ ہے۔ اس کا نام آپ نے’’ الشیخ الجاری الی جنۃ البخاری ‘‘ تجویز فرمایا ہے۔ بعدازاں اپنے شیخ کی تقریر ترمذی کو بھی عربی میں منتقل کر دیا۔ 

مولانا کا کہنا ہے کہ اس سال حضرت شاہ صاحب سے کوئی گہرا اور خصوصی تعارف نہیں ہوا تھا ۔ بس اتنا ہے کہ میں اور مولانا مظفر جہلمی حضرت شاہ صاحب کے سامنے بیٹھا کرتے ۔ ایک بار میں نے حضرت کے سامنے ترمذی کی عبارت پڑھی ۔ میری زبان چونکہ انتہائی تیز تھی ، اس لیے عبارت بھی تیز تیز پڑھی۔ حضرت نے فرمایا بھائیں( بھائی) اگر تم نماز بھی اس طرح پڑھتے ہو تو تمہاری نماز بھی صحیح نہ ہوگی اور نہ تمہارے ساتھ بیٹھنے والے کی(اشارہ تھا مولوی مظفر جہلمی کی طرف)۔دورہ حدیث کے اختتام کے قریب ایک عراقی شیخ عبدالغفور موصلی نے حضرت سے بخاری وترمذی کی کاپی دیکھی تو بخاری کی کاپی نقل کرنے کی درخواست کی ۔ حضرت نے از رہ دلداری تقریر نقل کر دی۔ 

العرف الشذی

آپ دورہ حدیث کے بعد واپس گھر آ گئے ۔ سالانہ تعطیلات میں اتفاقاً شیخ موصلی سے حضرت شاہ صاحب نے تقریر بخاری دیکھی ، انہوں نے کہا یہ شیخ سراج فنجابی( شیخ چراغ پنجابی) سے نقل کروائی ہے۔ اس پر حضرت شاہ صاحب متاثر ہوئے اور فرمایا اچھا میں تو نہیں سمجھتا تھا کہ اس زمانے میں بھی کچھ لوگ ذی سواد ہوتے ہیں۔ 

انہی دنوں مولانا مظفر جہلمی کی وساطت سے مولانا کو دیوبند بلوایا اور ترمذی کی پوری تقریر نوٹ کروائی۔ آپ نے دو نسخے تحریر کیے ۔ ایک حضرت شاہ صاحب کے لیے اور دوسرا اپنے لیے۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنے نسخے میں کچھ حک واضافہ فرمایا جو بعد میں دوسرے ایڈیشن میں شامل اشاعت کر لیا گیا۔ 

تیسرے سال حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت شیخ الہند رہا ہو کر تشریف لا رہے ہیں، یہاں رہ کر ان کی تقریر لکھو۔ آپ وہیں ٹھہر گئے، مگر دوبارہ سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے حضرت شیخ الہند ترمذی نہ پڑھا سکے ( یہ ان کی زندگی کا آخری سال تھا)۔

تدریس

بعدازاں حضرت شاہ صاحب نے آپ کو میرٹھ میں بطور مدرس مقرر فرمایا۔ ایک سال تدریس کے بعد پنجاب لوٹ آئے۔ جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور اور مدرسہ انوارالعلوم شیرانوالہ گوجرانوالہ کے علاوہ کئی دوسری جگہوں پر علم ودانش کے چراغ جلائے۔ اس کے بعد ۱۹۳۱ء میں مسجد آرائیاں گوجرانوالہ میں مدرسہ عربیہ کی بنیاد رکھی ۔ یہاں بھی علم دین کے پروانے ٹوٹ پڑے تو یکم اکتوبر ۱۹۶۷ء کو جامعہ عربیہ ( موجودہ مقام) پر آغاز کار کیا گیا۔ تادمِ تحریر حضرت شیخ الحدیث مدظلہ العالی چراغ ہدایت سے قریب وبعید کو منور کر رہے ہیں۔ 

تصانیف

(۱) الشیخ الجاری الی جنۃ البخاری، (۲) العرف الشذی ( عالم اسلام میں معرکے کی شرح ترمذی)، (۳) رد مرزائیت کے بارے میں غیر مطبوعہ مواد ،(۴) رد عیسائیت پر مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریریں۔

(جاری)

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(دسمبر ۲۰۱۷ء)

تلاش

Flag Counter