تعلیم نام ہے ایک نسل کے تجربات کو منظم و مرتب حیثیت سے دوسری نسل تک پہنچانے کا۔ درسگاہیں یہی کام انجام دیتی ہیں۔ گزشتہ صدی میں برصغیر میں تعلیمی نظام جس نہج پر چل رہا تھا اس میں ایک ایسی تبدیلی پیدا ہو گئی جو ایک طرف تو کسی حد تک خوشگوار خیال کی گئی مگر اس کا ایک پہلو بے حد کرب انگیز ثابت ہوا۔ ایک عرصے سے رائج علوم میں ہلچل پیدا ہوئی، ساتھ ہی افکار بدلے، اطوار بدلے اور زاویہ ہائے نظر میں ایک انقلاب آ گیا۔ ۱۸۳۴ء میں انگریزی کے سرکاری زبان قرار دیے جانے سے پرانے لسانی سانچے ٹوٹنے لگے۔ ۱۸۵۷ء کے آتے آتے انگریزی زبان و ادب نے برصغیر میں اپنا خاص مقام بنا لیا، سیاسی تغلب کے ساتھ ساتھ غیر ملکی لسانی، علمی استیلاء کے آثار واضح طور پر سامنے آ گئے۔
۱۸۶۷ء میں دارالعلوم دیوبند اور ۱۸۷۵ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ کی بنیاد رکھی گئی۔ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور سرسید احمد خان دونوں ہی مولانا مملوک علی کے تلامذہ میں سے تھے۔ دونوں کی فکری ساخت اور ذہنی پرداخت میں خاصا بٗعد تھا۔ دونوں کا مقصد تعلیم اگرچہ ایک ہی تھا مگر راہیں بالکل جدا جدا تھیں۔
- ایک کا نقطۂ نگاہ یہ تھا کہ مسلمان جب تک اپنے ماضی کی شاندار روایات سے گہری وابستگی اختیار نہیں کرے گا وہ نشاۃ ثانیہ کے لیے تیار نہیں ہو سکتا۔ دارالعلوم دیوبند اسی شاندار ماضی سے ربط و ارتباط کا مظہر تھا۔
- دوسرے کا خیال یہ تھا کہ نسلِ نو کو جب تک جدید علوم سے بہرہ ور نہ کیا جائے وہ عصری تقاضوں کا ساتھ نہ دے گی۔ ایم اے او کالج جو بعد میں مسلم یونیورسٹی علیگڑھ بنا، اسی طرزِ فکر کا نمائندہ تھا۔
۱۸۹۸ء میں دیوبند اور علیگڑھ میں پائے جانے والے نقائص کے ازالے کے لیے لکھنؤ میں ندوۃ العلماء کا قیام عمل میں آیا۔ ندوہ نے درمیانی راہ اختیار کی مگر پرانے طرز کی دینی درسگاہوں کے مقابلے میں انگریزی تعلیمی اداروں کو حکومتی سرپرستی حاصل تھی جبکہ پرانی درسگاہوں کو یکسر تغافل کی نذر کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف پرانے ڈھب کے قرآن و حدیث و فقہ اور دوسرے دینی علوم آلیہ کے فارغ التحصیل تھے تو دوسری طرف سکولوں اور کالجوں کے جدید تعلیم یافتہ۔ دونوں ایک ہی سوسائٹی کے افراد ہونے کے باوجود ذہنی طور پر ایک دوسرے سے طویل فاصلوں پر کھڑے تھے۔
اب ہمیں ایسے تعلیم یافتہ افراد کی ضرورت تھی جو ایک طرف تو سیرت و کردار میں پکے اور سچے مسلمان ہوں، فکری طور پر اتنا توانا ہوں کہ کوئی سی بھی تحریکِ جدید ان کے اسلامی اخلاق پر اثرانداز نہ ہو سکے۔ دوسری طرف وہ ملک و قوم کو ٹوٹ کے چاہیں، ملک کی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں ایسے سکہ بند کل پرزے کی بن کر فٹ ہو جائیں کہ مملکت پاک جدید ترقی یافتہ اقوام کو چشمک زنی کر سکے۔ وہ تعلیمی میدان میں ہوں تو ایسی نسل تیار کریں جس کا ایک ایک فرد سچا پاکستانی اور پکا مسلمان ہو، جس کی سوچ میں مادیت غالب نہ ہو، استخدام مادیت تو ہو مادیت پرستی نہ ہو، وہ جس شعبہ حیات میں ہوں اپنے ماحول کو جگمگا دیں، اپنے کردار کی صلاحیت سے پورے ماحول کو چکاچوند کر دیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر خود چل کر دنیا کے سامنے ایک صادق القول و العمل مسلمان کا صحیح ماڈل پیش کریں۔
اس مقصد کے لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ دین اور دنیا کی مغایرت دور کی جائے کیونکہ دین دنیا کا نقیض نہیں ہے، وہ ضد ہے تو بے دینی و الحاد کی ہے۔ دین و دنیا میں رہنے بسنے والے انسانوں کے جملہ احوال کو شامل ہے اور وہ ہے اسلام ’’ان الدین عند اللہ الاسلام‘‘۔ وطن پاک میں اس تعلیمی دورَنگی اور تدریسی دوعملی کے پیشِ نظر جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کئی دنوں کی تپش اور کئی شبوں کے گداز کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ نسلِ نو کی صحیح بنیادوں پر تعلیم و تربیت کے لیے تعلیمی ماحول کے اس دوغلے پن کو ختم کرنا چاہیئے۔ امتدادِ وقت کے ساتھ ساتھ ارکانِ جمعیۃ کی روحوں کی بے تابی اور دلوں کی دھڑکنیں بڑھتی چلی گئیں۔
نتیجتاً ایک لائحہ عمل مرتب کیا گیا اور حتمی فیصلہ کر لیا گیا کہ برصغیر کے عظیم مجدد، دینی پیشوا اور فکری امام حضرت شاہ ولی اللہؒ کے نام نامی سے منسوب ایک ادارہ قائم کیا جائے جو علوم و فنون کا ایسا حسین امتزاج پیش کرے جس میں تعلیم پانے والوں کے مزاج میں علمی ثقاہت بھی ہو اور دینی رچاؤ بھی، کردار میں پختگی بھی ہو اور ملکی نظم و نسق کے چلانے کی پوری فنی مہارت و صلاحیت بھی۔ یہ منصوبہ ملک کے نامور دینی علماء شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی سے تصدیق و توثیق کے لیے ان کی خدمت میں پیش کیا گیا، ان بزرگوں نے ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ اس پروگرام پر صاد کیا اور جمعیۃ کی درخواست پر اس کی سرپرستی بھی قبول فرمائی۔
فیصلے کے مطابق گوجرانوالہ سے جانب لاہور موضع اٹاوہ کے پاس جی ٹی روڈ سے مشرق میں ریلوے سے متصل ۳۲ ایکڑ جگہ خرید لی گئی اور گزشتہ ماہ کے ایک بابرکت دن جمعیۃ کے ارکان اور دیگر سرکردہ حضرات کے ہمراہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نے دعائے خیر کے ساتھ ابتدائی تعمیری کام کا آغاز فرمایا۔
منصوبے کے اہم مقاصد
- سب سے پہلا مقصد اس یونیورسٹی کا یہ ہو گا کہ پرانے طرز کے دینی مدارس کے فارغ التحصیل علماء کو جدید اور عصری علوم السنہ سے متعارف کرایا جائے۔ انہیں اس حد تک عصری رجحانات سے آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے جدید علمی و معاشرتی تقاضوں کے مطابق خدمت انجام دے سکیں۔
- سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کر کے ان میں اخلاقِ فاضلہ اپنانے کا ذوق پیدا کیا جائے تاکہ وہ بحیثیت مسلمان اپنی عملی زندگی میں اپنے آپ کو غیر مسلموں سے ممیز کر سکیں اور بد دیانت، اخلاق باختہ اور مادیت پرست نام نہاد تعلیم یافتہ مسلمان اہلکاروں کے مقابلہ میں اخلاق و کردار کے لحاظ سے امتیازی شان کے حامل ہوں۔
- ذہین اور باصلاحیت طلباء کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ مقابلے کے امتحانوں میں کامیابی حاصل کریں اور انتظامی اور عدالتی شعبوں میں جا کر ثابت کر سکیں کہ دیانت، خلوصِ نیت، ماہرانہ بصیرت اور اسلامی فکر وہ ہتھیار ہیں جن سے ہر باطل قوت کو منہدم کیا جا سکتا ہے، ماحول کو جگمگایا جا سکتا ہے اور وطنِ عزیز کو ایک فلاحی مملکت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت تعمیراتی کمیٹی، نصاب کمیٹی اور مالیاتی کمیٹی سرگرمِ عمل ہیں۔
تعمیراتی کمیٹی مختلف وسائل سے ایک ماسٹر پلان کی تیاری میں مصروف ہے۔ عنقریب تعمیراتی کام شروع ہونے والا ہے۔ جونہی ایک بلاک پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تدریسی کام کا آغاز کر دیا جائے گا ان شاء اللہ العزیز۔ اس کے لیے کئی تعمیراتی منصوبوں کے طرزِ تعمیر کے پیش نظر اپنی ضروریات کے مطابق ماہرین نقشہ سازی میں سرگرم عمل ہیں۔
نصاب کمیٹی نے نصابی خاکہ پیش کر دیا ہے۔ اس کے لیے ملک کے نامور ماہرین تعلیم کی آراء و تجاویز کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ امتدادِ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں حک و اضافہ کی گنجائش رکھی گئی ہے تاہم آغاز کار کے لیے درج ذیل کارڈز (شعبے) تجویز کیے گئے ہیں۔
جنرل کیڈر
اس کیڈر میں وہ طلبہ داخلہ لے سکیں گے جو پاکستان کے کسی منظور شدہ تعلیمی بورڈ سے سیکنڈری سکول سرٹیفکیٹ کا امتحان پاس کر چکے ہوں گے۔ یہ طالب علم یونیورسٹی میں ایف اے اور بی اے کا وہی نصاب پڑھیں گے جو گوجرانوالہ ثانوی بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی میں رائج ہے، تاہم ان کے علاوہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا خصوصی نصاب و معاون نصاب پروگرام بھی جزوِ تعلیم و تدریس ہو گا۔
فاضل کیڈر
درس نظامی کے فارغ التحصیل طلبہ جو حکومتِ پاکستان کی حکومتی ملازمت کے لیے مقرر کردہ حد عمر سے کم عمر ہوں گے اس کیڈر میں داخلے کے مجاز ہوں گے۔ وہ کسی خاص مضمون میں ایم اے کرنے تک چار سالہ خصوصی نصاب پڑھیں گے اور انہیں سول سروس کے مقابلے کے امتحان کے لیے تیار کیا جائے گا تاکہ وہ حکومتی شعبوں بالخصوص انتظامیہ اور عدلیہ میں سچے پاکستانیوں اور پکے مسلمانوں کا رول ادا کر سکیں۔
درس نظامی کے فاضلین کے لیے خصوصی سٹڈی سرکل
درس نظامی کے وہ فارغ التحصیل طلبہ جو حکومتِ پاکستان کی حکومتی ملازمت کے لیے مقرر کردہ حد عمر کو پار کر چکے ہوں گے اس کیڈر میں داخلہ لے سکیں گے۔ انہیں خصوصی سٹڈی سرکل میں دو سالہ تربیت دی جائے گی، ضروری انگریزی تعلیم، جدید معلومات اور عصری تحاریک سے متعارف کرایا جائے گا۔ مزید برآں تاریخ، معلوماتِ عامہ اور ریاضی سے بھی روشناس کرایا جائے گا۔
ملازمین کے لیے خصوصی سٹڈی سرکل
وہ ملازمین جو مختلف محکموں میں فرائض انجام دے رہے ہیں یا وہ کاروباری حضرات جو تعلیم یافتہ ہیں اس خصوصی سٹڈی سرکل سے مستفید ہو سکیں گے، ان کے لیے اس بات کا اہتمام کیا جائے گا کہ:
- وہ قرآن مجید کا اردو ترجمہ سیکھ سکیں۔
- عربی گرائمر کے بنیادی اصول و قواعد سے آگاہ ہو کر ان سے عملی استفادہ کر سکیں۔
- سیاسیاتِ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ ہو سکے۔ بالفاظِ دیگر عقائد، معاملات، عبادات، اخلاقیات اور اسلامی حدود و تعزیرات کے بارے میں ان کی معلومات وقیع اور پختہ ہو سکیں۔
ایم پی اے کیڈر
اس کیڈر سے وہ طلبہ استفادہ کر سکیں گے جو ایم اے کی سطح پر اسی پبلک ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کرنا چاہیں۔ اس کے لیے ترجیحی بنیادوں پر شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے گریجویٹ طلبہ کے لیے داخلہ کی سہولت ہو گی۔ جنرل کیڈر کے طلباء بی اے کے بعد اس کیڈر میں داخلہ لے سکیں گے۔ یہ فاضلین آگے چل کر سرکاری اور نجی شعبوں میں انتظامی امور کی نگہداشت و انصرام کی اہلیت پیدا کر سکیں گے۔
معہد اللغۃ العربیۃ
چونکہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کا اصل مقصد اسلامی علوم کے ذریعے اسلامی ڈھب میں سیرت سازی کرنا ہے اور اس امر کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں کہ اسلامی علوم و فنون کے مصادر و مقامات یا تو عربی ممالک رہے ہیں یا وہ عجمی ممالک جن میں علمائے اسلام نے بیشتر کام عربی زبان و ادب میں کیا ہے۔ لہٰذا عربی زبان کا حصول اسلامی علوم کے حصول کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ اگرچہ تراجم و تعبیرات کے ذریعے دنیا کی کم و بیش ہر معروف زبان میں اسلامی لٹریچر در آیا ہے تاہم کوئی بھی شخص جو علومِ اسلامیہ کے اصل سرچشموں یعنی قرآن، حدیث اور فقہ تک رسائی کا متمنی ہے وہ عربی زبان کے حصول سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے نصاب کمیٹی نے ’’معہد اللغۃ العربیۃ‘‘ کے خصوصی ادارے کے قیام کی سفارش کی ہے۔ یہ ادارہ قدیم و جدید عربی زبان کی تدریس کا اہتمام کرے گا جس کے لیے اندرون ملک اور بیرونِ ملک سے اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور طلباء کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ عربی زبان میں تقریر و تحریر کے ذریعے اظہار ما فی الضمیر اور علمی تحقیقات کی اہلیت پیدا کر سکیں۔