دینی موضوعات پر لکھنا اور تحقیق وتفحص سے لکھنا کنج کاوی بھی چاہتا ہے اور تلوار کی دھار پر چلنے کے فن کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ تاہم اس پژوہش کاری اور احقاق حق کے لیے جان مارنے والے کو جب تخلیقی راہیں سوجھنے لگتی ہیں تو اس کی تحریر میں بلا کا بانکپن اور غضب کی دلکشی آجاتی ہے۔ اس کشش وانجذاب میں قاری بسا اوقات بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ وہ از خود گرفتہ ہو کر محقق کے سامنے خود انداز وخود سپر ہو جاتا ہے اس لیے کہ اس کے سوا اس کے پاس چارۂ کار ہی نہیں رہ جاتا۔
بلاشبہ منقولات کا استحکام اپنی جگہ کوہستانی سلسلوں کی صلابتیں رکھتا ہے مگر کبھی معقولاتی ہپناٹزم سے منقولات کی ساری دیواریں گرتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں (اگرچہ اصلا " وہ گر نہ رہی ہوں مگر معلوم ضرور ہوتی ہیں) جب سحرکار محقق اپنے سارے بارود سے خطرناک بارودی سرنگیں (mines) بچھا دیتا ہے تو قاری بے چارے کی کبھی ٹانگ بھک سے اڑتی ہوئی نظر آتی ہے تو کبھی بازو۔ کبھی اس کا دماغ پھٹ جاتا ہے تو کبھی سارا جسم متاثر ہو کر ہمیشہ کے لیے اسے اپاہج کر دیتا ہے اور کبھی محقق کی تعقلاتی واستدلالی برنائیاں انسانی ذہنوں کو وہ اچھوتے خیالات اور ان ہونے افکار (جو ناموجود ہی رہتے تو بہتر تھا) دے جاتی ہیں کہ منقولات اپنی صلابتوں کے باوجود ریزہ ریزہ اور اپنی اعماق کے باوجود اتھلی اتھلی سی نظر آنے لگتی ہیں۔
کچھ عرصہ قبل زیر نظر کتاب ’’دجال‘‘ واجب الاحترام مولانا زاہد الراشدی نے بڑی محبت سے عنایت کی اور اس پر لکھنے کا حکم بھی دیا۔ عنوان دیکھا، سرسری طور پر کتاب کو دیکھا، ذیلی عنوانات نے چونکا یا تو ضرور مگر سنبھال کر رکھ دی کہ اس موضوع پر پڑھنے یا لکھنے کا موقع آیا تو دیکھا جائے گا۔ اسی اثنا میں مولانا عازم یورپ ہو گئے، راقم بھی سمجھا کہ حکم ٹل گیا۔ اب بشرط فرصت مطالعہ ہو جائے گا مگر ان کی واپسی پر وہی تقاضا دہرایا گیا تو اب جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ تھا۔ وعدہ کر لیا۔ والکریم اذا وعد وفیکتاب نکالی، مطالعہ شروع کیا تو معلوم ہوا کہ طائرانہ نگاہ سے کام نہ چلے گا، غواصانہ طرز عمل اپنانا ہوگا۔ آگے پیچھے وقت نکال نکال کا استیعابا " ومستوعبا " مطالعہ شروع کر دیا۔ دوران مطالعہ پتہ چلا کہ مصنف کی گیارہ کتابیں مطبوع ہیں۔ پس ورق پر دی فہرست دیکھ کر جی میں آئی کہ کاش یہ کتابیں بھی کسی طرح ہاتھ آئیں تو ان کا بھی مطالعہ کیا جائے۔ پھر خیال آتا کہ مولانا موصوف ہی سے اس ضمن میں درخواست کی جائے گی۔
بہر صورت کتاب ’’دجال‘‘ کے مصنف سے متعلق نادیدہ تاثر وتعارف تو کچھ یوں ہے کہ جناب اسرار عالم کا علمی تبحر مسلم اور وسعت نظر قابل رشک ہے۔ قدیم وجدید پر ان کی علمی وفکری گرفت قابل دید بھی ہے اور قابل داد بھی۔ ان کی علمیت کی گہرائی اور معلومات کا وفور کتاب کے صفحے صفحے بلکہ لفظ لفظ سے جھلک رہا ہے۔ انداز بیان، مفہوم المراد اور اسلوب کی دل آویزی قاری کو مسحور کیے دیتی ہے۔ تاہم انجام کار تک پہنچتے پہنچتے تحقیق وپژوہش کی ریزہ کاریاں خود رائی اور خود آرائی کی حدوں کو چھوتی ہوئی دکھائی دینے لگتی ہیں۔
کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جن کو پھر مختلف حصوں اور مراحل میں بانٹا گیا ہے۔پہلے باب میں عالم موجود میں دجال کی نمایاں ترین اشکال پیش کی گئی ہیں۔ اقوام متحدہ کی فکری اور سیاسی ساخت وبافت اور ا س کے ہیئتیانسجام کو مدلل انداز میں پیش کر کے ا س کے پیچھے یہودی قوتوں کی کارفرمائی کو بجا طور پر ظاہر کیا گیا ہے۔
جدید اصطلاحات پیش کر کے پوری قوت استدلال کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ انسانی حقوق، معاشی بحران، عالمی مالیاتی اداروں اور قانون کی حکمرانی وغیرہ کے اصل رائج الوقت مفہومات کیا ہیں۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے انہیں کس دجل اور دسیسہ کاری کے ساتھ ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ عصر حاضر کا سب سے بڑا دجال ہے جو Global Civic Ethics او ر Total demilitarization of States کے ذریعے پورے روئے ارض کی ہر دجال حکومت کا ممد ومعاون ہے۔ اس خیال کو تقویت دینے کے لیے مصنف نے جو تاثیر وتاثر میں ڈوبا ہوا توضیحی وترغیبی اسلوب بیان اختیار کیا ہے، اس میں شعور وآگہی کے جملہ وسائل استعمال کیے ہیں۔ تاریخ عالم سے استناد اور عصر حاضر کے جدید ترین فکری رویوں کے نیچے یہودی عزائم کے مضمرات، امریکی بھارتی باہمی دلچسپیاں بلکہ مسلم دشمنی کے لیے گہری چسپیدگیاں، کلنٹن سبرامینیم کی فکری زہر چکانیاں بڑے ہی تلخ حقائق کے طور پر پیش کی ہیں۔
’’اب ایسا محسوس ہونے لگا ہے یہ خطہ ایک ہزار سال کے اجتماعی امن کے بعد پھر قتل عام اور بڑے پیمانے پر عوامی بیدخلی Mass Exodus کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کا تلخ تجربہ بھارت نے بطور خاص دوسری صدی عیسوی اور نویں صدی عیسوی کے مابین کیا تھا۔‘‘ (ص ۳۴)
عیسائی یہودیوں یا یہودی عیسائیوں کے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے، ختم کرنے یا کم از کم زاویہ نشین کر دینے کے فری میسنری منصوبوں کو غیر مبہم اعداد وشمار سے واضح کیا ہے۔
اس دوران میں مصنف نے سطر سطر میں معلومات عامہ کے دھارے بہا دیے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی سوچ اپنی اور مآخذ اصلی ہیں۔ قاری کی آسانی کے لیے وہ دوسری زبانوں کے واضح اقتباس دے کر بڑا ہی رواں ترجمہ بھی کر دیتے ہیں۔ ان کے یہ تبصرے ۲۰۰۰ء تک کے یہودی عزائم کے جاندار تجزیے ہیں۔ عالم اسلام بالخصوص پاکستان کو جس سنگین حصار میں محصور کیا جا رہا ہے، اسے اور اکیسویں صدی، ترقی ومسابقت وغیرہ کے خوشنما ناموں کے پردے میں کی جانے والی منظم کوششوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ باقاعدہ جریدی اقتباسات سے اپنے موقف کی بھرپور تائید لائی گئی ہے۔ اس باب کے آخر میں ائمۃ المضلین کے عنوان سے حضرت مجدد الف ثانی ؒ ، حضرت شاہ ولی اللہؒ او ر علامہ اقبال ؒ کی دینی وملی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان علما کی سخت مذمت کی ہے جو ’’اہل حکومت، اہل ثروت، اہل سیاست اور جہلا کے بواب‘‘ بننے پر قانع ہو گئے۔
باب دوم میں ستارہ وصلیب کے عنوان سے یہود ونصاری اور مسلمانوں کے ایک محوری نقطے یعنی آمد مسیح، ظہور دجال اور حکومت عدل کے قیام کو موضوع بنایا ہے۔ان تینوں عقائد کو اپنی تحقیق کے مطابق متعلقہ مذاہب کے نوشتوں سے استنباط کر کے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہودیوں کے عقیدے کو مرحلہ وار پیش کیا ہے۔ آمد مسیح کے تصور کو جس طرح انہوں نے مسخ کر کے رکھ دیا ہے ، ان اجزا کی ترتیب کچھ یوں ہے:
’’اللہ اور اللہ کے ملائکہ سے مایوسی، ساری دنیا سے غصہ اور نفرت، اپنی طاقت اور ابلیس اور ا س کے دجالوں کی مدد سے کھوئی ہوئی چیزوں اور آئندہ کی بشارتوں کو حاصل کرنے کی کوشش‘‘
’’ساری دنیا کے یہودی جس مسیح کا انتظار کر رہے ہیں، جس کے لیے راہیں ہموار کر رہے ہیں، وہ دراصل دجال اکبر یعنی مسیح الدجال ہے‘‘
مصنف نے یہ بات بھی علی الاعلان کہی ہے کہ یہودی دینی ادب دجال کے ذکر سے خالی ہے۔ اگر کہیں کوئی شائبہ ہے بھی تو اسے تاویلات سے رد کر دیا گیا ہے۔
روئے ارض پر نظام عدل کے قیام کے سلسلے میں ’’ہایوم‘‘ کی کم از کم ۹ جدا جدا تاویلات کا ذکر کیا گیا ہے جن کی رو سے مسیح یعنی دجال اکبر کی آمد پر خوشحالی کے دن آئیں گے۔ مسیح کے دن کو دجال اکبر پر منطبق کر کے قیام اسرائیل اور دجالی تہذیب کو یسعیاہ نبی کے قول سے جوڑ دیا ہے۔
جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے، ان میں پروٹسٹنٹوں کی عیسائیت تو یہودی امتزاج مسیحیت ہے البتہ رومن کیتھولک Second coming of Jesus کو مانتے ہیں۔ اس کے لیے مصنف نے اناجیل اربعہ سے اقتباسات دے کر اپنے موقف کو خاصا وزنی بنایا ہے۔ اس بات کو کھل کر بیان کیا ہے کہ دجال کے ظہور کے بارے میں متناسب اناجیل متی ،مرقس اور لوقا خاموش ہیں حالانکہ آمد مسیح کے بارے میں ان میں خاصا مواد موجود ہے۔ یوحنا میں واضح اشارات کاذکر کیا ہے۔ Anti Christ (مخالف مسیح) Man of lawlessness (لاقانونیت کاآدمی) Son of perdiction (تباہی کا بیٹا) مسیحیت میں اس کی صفات جھوٹا، فریبی، خدائی کا دعویدار، حیرت ناک کرشمے دکھانے والا، دین مخالف، تباہی لانے والا اور مخالف خدا وغیرہ ہیں۔ یہ صفات بہت حد تک دجال سے ملتی جلتی ہیں۔
قیام عدل Kingdom of God (حکومت الہیہ) کے سلسلے میں مسیحی نوشتوں سے اخذ واستفادہ کے بعد مصنف نے ’’موجودہ عیسائیت‘‘ کو اس قافلے سے تشبیہ دی ہے جو اپنے قافلہ سالار سے بچھڑ گیا ، راہزنوں (یہودیوں) کے چنگل میں آ گیا اور لوٹا گیا، پھر دوسرا جتھہ آیا اس نے معصوم بنتے ہوئے غلط راستوں پر لگا دیا۔ ا س راستے پر ڈال دیا جو اس ملک کو جاتا تھا جہاں غلاموں کی خرید وفروخت ہوتی۔ راہزن جانتے تھے کہ انہیں وہاں لے جا کر بیچ دیا جائے گا۔ مصنف کے بقول اب سیدنا مسیح آئیں گے تو موجودہ مسیحی دنیاپال کے دین کے بجائے ان کے دین پر ہوگی۔ یہی معنی ہے فیکسر الصلیب کا۔
تیسرے باب میں حقیقت دجال کے عنوان سے اسلام کا نقطہ نگاہ دجال سے متعلق پیش کیا ہے۔ یہی وہ مرکزی باب ہے جہاں مصنف کی طبیعت کے تحقیقی بلکہ تخلیقی جوہر کھلے ہیں۔ اللہ تعالی اور اس کی کائنات کے بارے میں قرآنی سند کے ساتھ چار مدارج سے بحث کی ہے جو خاصی دلچسپ ہے۔
عالم اصل جس کے بارے میں مصنف متردد ہیں کہ وہ ہے بھی یا نہیں، پہلا عالم قرار دیا گیا ہے۔ دوسرا عالم عالم بریہ، تیسرا عالم عصر اور چوتھا عالم اشیاء ہے۔ آخری عالم ہی محل تکلیف ٹھہرا کر مجرائے دین اللہ قرار دیا ہے۔ ان عوالم کی تشریح میں آیات قرآنی سے استخراجا " بڑا زور دیا ہے۔
حقیقت دوم میں ابلیس، شیاطین وغیرہم کی حقیقت پر بحث کی ہے۔ ملائکہ، جنات اور آدم کی تخلیق کو ابنائے نور، ابنائے نار اور ابنائے ارض کے عنوانات کے تحت پیش کیا ہے۔ قرآن مجید میں ملائکہ کی صفات کے مطابق انہیں Categorize کر دیا ہے ۔ انواع نار کی تقسیم کر کے فرماتے ہیں ’’عالم اشیاء سے انواع نار کی بڑی آبادی کا تقریبا خاتمہ ہو گیا‘‘ (ص ۲۰۴) پھر ا س کلی تباہی کے خود ساختہ اسباب بھی گنوائے ہیں جو ایجاد بندہ قسم کی چیز ہے۔ (ص ۲۰۵) شیاطین کی انواع گنوائی گئی ہیں۔ ملائکہ کی طرح قرآن مجید یا احادیث نبوی سے ان کی صفات چن چن کر ان کو انواع بنا دیا ہے۔
حقیقت سوم کے عنوان سے معرکہ خیر وشر کو موضوع بنا کر مصنف نے طبیعت کی خوب خوب جولانیاں دکھائی ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’کائنات میں معرکہ خیر وشر کے آخری مرحلے کا باضابطہ آغاز اسی لمحے ہو گیا جب اللہ تعالی نے ابلیس کو یوم وقت معلوم تک کی اجازت دی۔ اللہ تعالی نے فرمایا : قال فانک من المنظرین الی یوم الوقت المعلوم (الحجر ۳۷، ۳۸۔ ص ۸۰، ۸۱) جواب میں اللہ نے فرمایا : لاملئن جھنم منک وممن تبعک منھم اجمعین ‘‘ (ص ۸۰)
اس سارے مضمون کو پوری شرح وبسط کے ساتھ بڑے ہی پرزور استدلال سے پیش کیا ہے۔ انسان کے خلیفۃ اللہ ہونے کو خوبصورتی سے justify کیا ہے۔ فی الارض خلیفۃ سے مراد لیاہے ’’اہل زمین میں سے‘‘ ابنائے نور اپنی امیدیں لگائی بیٹھے تھے اور ابنائے نار اپنی ۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم کو صرف اسما سکھائے اور اشیاء نہیں دکھائیں اور ملائکہ کو اشیاء دکھائیں اور نام پوچھا‘‘ (ص ۴۴۸) یہ تاویل بھی خاصی انوکھی ہے۔
باب چہارم میں معرکہ خیر وشر کی تاریخ مرحلہ وار بیان کی ہے۔ مرحلہ اول میں آدم قدیم، مرحلہ دوم میں الجنۃ کا وہ دور جب اللہ نے آدم کے جسم سے حوا کو الگ کر دیا۔ عام ڈگر سے ہٹ کر لا تقربا ہذہ الشجرۃ (البقرہ ۳۵) کا ترجمہ کیا ہے ’’اور پاس مت کرنا اس شجر کو‘‘ (ص ۲۶۲) ’’آدم وحوا اس الشجرۃ کو قریب کر بیٹھے اور انہیں اس کا مزہ مل گیا‘‘ (ص ۲۶۴)
مفسرین سے اختلافی آواز بلند کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’قرآن کی ا س عبارت سے مراد لینا جیسا کہ بیشتر مفسرین نے لیا ہے کہ وہاں کوئی پھل یا اناج کھانے کی کوئی چیز تھی، قرآن کی زبان اور بیان کے خلاف ہے‘‘ (ص ۲۶۷)
’’انہوں نے وہ عمل کر لیا جسے ’’جماع‘‘ کہتے ہیں۔ ان کی زندگی میاں بیوی کی تھی، ایسا قطعا نہیں تھا‘‘ (ص ۲۶۸)
ان سطور پر تبصرہ تحصیل حاصل ہے۔ معلوم نہیں مصنف میاں بیوی نہ ہونے کے باوجود آدم وحوا کو جماع کے عمل میں ملوث کر کے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان سنگین الفاظ کے لیے ان کے پاس کیا جواز ہے:
’’ممکن ہے دونوں کی صورت یہ ہو کہ دونوں کے جسم ہوں اور ان دونوں کے دو جانب یعنی اوپر اور نیچے دو دو سوراخ ہوں یا یہ کہ اوپر کے دو سوراخ کھلے ہوں اور دونوں کے نیچے کے دو سوراخ
تو ہوں مگر ا س پر کوئی بندش، پنبہ یا پردہ لگا ہو‘‘ (ص ۲۶۹)
کھل نہیں سکا کہ مصنف کو ایسے لاطائل مفروضات کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے۔ ان امکانات میں آخر پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
’’چنانچہ حضرت آدم اور حضرت حوا کا یہ عمل نہ صرف ایک عمل تھا بلکہ ایک ایسا عمل تھا جس نے الجنۃ کے پورے نظام کو blast کر دیا‘‘ (ص ۲۶۹)
پھر بجلی کے تاروں کی مثال دی ہے کہ خلاف قاعدہ ملیں تو شارٹ سرکٹ ہو جانے پر دھماکہ ہو جاتا ہے۔
’’ایسا لگتا ہے حضرت حوا اس یا ان مقاربت سے حاملہ ہو گئیں اور استنساخ Cloning پر بنائی گئی الجنۃ میں ابذار Insensation کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب اس کا نتیجہ یہی برآمد ہوتا کہ وہاں استنساخ سے تولید کی سنت تو تھی لیکن ابذار سے ہونے والی تولید کا نظم کرنا الجنۃ کی سنت کےخلاف تھا اور نتیجتا " وہاں فساد برپا ہوتا‘‘
’’الجنۃ سے نکلنے کا بنیادی سبب یہی غیر صالح حمل کے سوا کچھ نہ تھا‘‘ (ص ۲۷۲)
یہ ہے تحقیق جس سے معرکہ خیر وشر میں ’’آدم وحوا سخت تباہ کن حالات سے دوچار ہوئے‘‘ (ص ۲۷۹)
مرحلہ سوم میں آدم وحوا زمین پر دکھائے گئے ہیں۔ ولادت قابیل کو جنت کا ناجائز حمل قرار دیا گیا ہے۔ ولادت زمین پر ہی ہوئی مگر وہ ’’نہ جنتی مخلوق آدمی تھا نہ ارضی مخلوق آدمی‘‘ ہابل البتہ ارضی جائز اولاد تھا۔’’قابیل وہابیل کی لڑائی اور اس کے لیے بہن پر جھگڑا سب افسانے ہیں‘‘
حضرت شیث اور دیگر اولاد آدم وحوا کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’اسی طرح یہ لوگ اگرچہ آدمی تھے مگر زمینی ہونے کے اعتبار سے آدھے تھے اور ابھی تک پوری طرح زمینی نہیں ہوئے تھے‘‘
رانش بن شیث پہلے مکمل زمینی انسان تھے۔ پھر پورے یقین کے ساتھ ان کی عمریں گنوائی ہیں۔توضیحات میں حضرت ادریس ہی کو الیسع کہا گیا ہے۔ پھر ذو الکفل کو نصرت کفل کے تانے بانے میں لاکر عجیب طرح سے صفت ادریس قرار دیا ہے۔ پھر ادریس، الیسع اور ذو الکفل کو ایک ہی شخصیت قرار دیا ہے۔ ایسی ہی تحقیق انیق ذو القرنین سے متعلق ہے۔ انہیں بھی صفت مان کر ادریس قرار دیا ہے۔
’’ایسا لگتا ہے کہ دو ہزار سالوں کے اندر اندر ہی اللہ تعالی نے ایک بار پھر حضرت ادریس کو جنہیں پہلے مرحلے میں ذو الکفل بنایا گیا تھا، ذو القرنین کے اعتبار سے مبعوث فرمایا‘‘ (ص ۳۱۷)
ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
’’غور کرنے سے ایسا لگتا ہے‘‘ ، ’’اس عاجز کی رائے یہ ہے‘‘ ، ’’اس عاجز کا رجحان اسی جانب ہے‘‘، ’’اس عاجز کی رائے میں‘‘ ، ’’اس عاجز کا احساس ہے‘‘، ’’اس عاجز کا خیال ہے‘‘، ’’ اس عاجز کی تحقیق کے مطابق‘‘ یہ ہیں وہ الفاط جن کے بعد پوری علمی وجاہت اور زور تحقیق سے موصوف وہ وہ کیفیات وواقعات تخلیق کرتے چلے جاتے ہیں کہ ہم جیسے عاجز تو ان کے سمجھنے سے عاجز ہی رہ جاتے ہیں۔ فساد عقیدہ میں شرک اور فساد طبع کے تحت انسانی آبادی کو تباہ کرنے کے لیے زنا بین المخلوقات اور زنا بین الانسان کے ضمن میں تحریر فرمایا ہے:
’’ملک شیاطین اور جن شیاطین ابلیس کے ساتھ برابر کے شریک تھے چنانچہ وہ بطور خاص آدمی خواتین پر حملہ آور ہوئے اور ان سے زبردستی یا انہیں قابو میں لاکر یا ان سے روابط بڑھا کر ان کے ساتھ طبعی ازدواجی تعلقات پیدا کر لیے اور اس اختلاط اور زنا کا نتیجہ یہ ہوا کہ زمین پر بین المخلوقاتی نیم انسانی ملکی یا نیم جنیاتی خلاف طبعی حرام نسل کی پیدائش کا آغاز ہوا‘‘
شیاطین کی اقسام کے طور پر جبار نفل الیو، نفر اور عفریت کی خود ساختہ تقسیم کر کے من مانی توضیحات کی ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ابلیس کی غضب ناکی کا اظہار کرتے ہوئے جوموصوف کے خلاق ذہن اور طبع رسا نے واقعہ گھڑا ہے، قابل دید ہے:
’’وہ اپنی کوششوں سے ملائکہ کے ایک گروہ کو گمراہ کرنے اور اپنے ساتھ ملانے اور انہیں آدم کے خلاف اپنی جنگ میں آلہ کار بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ کہا جاتا ہے (معلوم نہیں کو ن کہتا ہے اور موصوف نے کس سے سنا ہے، اس قول کا پایہ استناد کیا ہے) کہ یہ دو سو سے زائد ملائکہ تھے جن میں انیس اعلی درجے کے ملائکہ تھے۔ ابلیس نے ان کے اندر فساد جنس پیدا کیا اور انہیں زمین پر لے آیا۔ ابلیس کی کوششوں سے ان ملائکہ نے انسانی عورتوں سے صحبت کی اور بے قابو ہو گئے‘‘ (ص ۳۲۷)
ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہیے
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے
اقوام عالم میں قرآن مجید نے بغرض عبرت آموزی جن اقوام کی تاریخ سے اعتنا کیا ہے، ان میں عرب بائدہ کی دو معروف قومیں عاد اور ثمود بھی ہیں۔ مفسرین ومورخین نے تاریخ، کتبات اور آثار حفریات سے ان قوموں کے بارے میں جو معلومات فراہم کی ہیں، ہمارے محقق نے ان سب کو مسترد کر کے اس سارے علمی خزانے کو بیک جنبش قلم دفن کر کے رکھ دیا ہے۔ اب تک قوم عاد کا مسکن جنوبی عرب میں احقاف کے ریگزار رہے ہیں جن کی طرف ہود علیہ السلام مبعوث ہوئے اور ثمود کا مسکن شمالی عرب میں الحجر کا علاقہ مانا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس تحقیق کے مطابق :
’’قوم عاد کا مسکن بابل کے شمالی ضلع کے دار السلطنت عاد کے نام سے مشہور ہوئی‘‘
جس کے حدود سلطنت کا تعین یوں کیا گیا ہے
’’مصر، شمال میں آرمینیا اور ایشیا کوچک تک ،جنوب میں یمن اور مشرق میں سندھ تک۔ وادی سندھ کی تہذیب دراصل عاد کی تہذیب یا اس کی توسیع تھی‘‘ (ص ۳۵۰)
’’اس عاجز کی تحقیق کے مطابق یہ تہذیب ثمودی تہذیب ہے جسے تاریخ میں مصر کی تہذیب یا وادئ نیل کی تہذیب The Nile valley civilization بلکہ مخصوص طور پر عہد ابرام The Pyramid Age کہتے ہیں‘‘ (ص ۳۵۵)
’’بات اہم یہ نہیں کہ وہ اونٹنی تھی؟ کہاں سے اور کیسے پیدا ہوئی، کہاں سے آئی؟ کتنا پانی پیتی تھی؟ یہ سب افسانے بھی ہو سکتے ہیں‘‘ (ص ۳۶۰)
ع بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بو العجبی است
مصنف کے علمی شکوہ، طرفگئ خیالات، دانش وبینش کی نادرہ کاریوں کو تسلیم کرلینے کے باوجود یہ ہیں وہ تحقیق وجستجو اور فکری پژوہش اور ذہنی قلابازیوں کے نادر نمونے جو اس کتاب کے مطالعہ سے سامنے آتے ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ مصنف کی علمی وتحقیقی کاوشیں غیر معمولی ہیں۔ وہ ژرف نگاہی کے اسلحہ سے لیس ہو کر نکتہ بنکتہ ومرحلہ بمرحلہ اس گہرائی تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جو ایک محقق کا طرۂ امتیاز ہوتی ہے۔ لیکن اس فکری اڑان میں وہ کبھی کبھی حقیقت حال سے دور جا نکلتے ہیں۔کہیں اپنی وسعت علم کی اساس پر اور کہیں اپنی رائے کی خود رائی کے زور پر رائی کو پربت اور ذرے کوکوہ گراں بنا دیتے ہیں۔ اس طرح ان کی تحقیقی مساعی سے ماضی کے ایوانوں میں تزلزل اور مسلمات میں دراڑیں پڑتی نظر آتی ہیں۔ یوں احقاق حق کے بجائے اتلا ف حق کا احساس پیدا ہونے لگتا ہے۔ مفروضے پر عظیم الشان عمارت بنا دینے کا فن خوب جانتے ہیں اور لطف کی بات یہ کہ استناد قرآن وحدیث سے کر کے ایسی تاویلات پیش کرتے ہیں کہ قاری کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ معرکہ خیر وشر کے حصے میں تو موصوف نے ایسے اچھوتے خیالات اور من مانے انہونے تصورات دیے ہیں کہ اچھے بھلے صاحب ایمان کا بھی سر چکرا جاتا ہے، پاؤں ڈگمگانے لگتے ہیں اور ایمان وایقان میں بے نام سے کسمساہٹیں پیدا ہونے لگتی ہیں۔