ظلماتِ وقت میں علم و آگہی کے چراغ (۲)

پروفیسر غلام رسول عدیم

مدرسہ نصرۃ العلوم 

چوک گھنٹہ گھرسے مغرب کی جانب مسجد نور سے ملحق مرسہ نصرۃالعلوم ضلع گوجرانوالہ کی عظیم دینی درس گاہ ہے ۔ ۱۳۷۱ء بمطابق۱۹۵۲ء کومدرسہ کی بنیاد رکھی گئی ۔مدرسہ کی سہ منزلہ عظیم لشان عمارت ۴۷کمروں پرمشتمل ہے ،جن میں ۱۹۰طلباء کی اقامتی گنجائش ہے۔ مدرسہ کے مہتمم حکیم صوفی عبدالحمیدسواتی (فاضل دارالعلوم دیوبند،فاضل دارالمبلغین لکھنؤ، مستندنظامیہ طبیہ کالج حیدرآباددکن )ایک عالم باعمل اور درویش صفت انسان ہیں۔ یوں تومدرسہ انجمنِ نصرۃ العلوم کے تحت چل رہاہے مگرمہتمم کی پرکشش شخصیت مدرسے کے جملہ انصرامی امور کامحورومرکزہے۔ وہ مسجدمیں خطابت کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں ۔ان کے سلسلہ درس قرآن میں کوئی ۲۰۰کی تعدادمیں ہرروزحاضری ہوتی ہے جو ساتھ ساتھ طبع بھی کیاجا رہاہے ۔چارجلدیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔مدرسے کامسلک حنفی دیوبندی ہے۔

صدرمدرس کے فرائض شیخ الحدیث مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ اداکرتے ہیں ۔مولاناموصوف عصر حاضر کے جیدعلماء حدیث میں شمارکیے جاتے ہیں۔ علوم حدیث خصوصاً"علم اسماء الرجال"پران کی گہری نظرہے ۔ وہ علوم دینیہ کے ایک ماہرعالم ،ایک محنتی استاد،ایک بلندپایہ مصنف اورایک ملنساراورشگفتہ طبع انسان ہیں۔ ان کی تصانیف اعلیٰ علمی حلقوں میں قدرکی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں ۔ وہ راہِ سنت ،راہِ ہدایت،صرف ایک اسلام(بجواب دواسلام از ڈاکٹر برق)، احسن الکلام (۲جلد)، الکلام الحاوی ، تبریدالنواظر، گلدستہ توحید، ازالۃالریب اور شوقِ حدیث کے علاوہ کوئی چاردرجن کے لگ بھگ کتابوں کے مصنف ہیں ۔ان کا انداز تحریر عامۃالناس کے لیے عام فہم اورخواص علماء کے لیے علمی استدلال سے مملوہوتاہے ۔ ان کی دینی بصیرت قابل اعتماد،تفہیمِ مسائل قابل قدر،تحقیقات علمی قابل داد اور زہدوتقوی قابل رشک ہیں۔ ان کے تبلیغی اورمناظراتی رسائل منطقی دلائل وبراہین کالاجواب شاہکارہیں۔ مدرسے کی تعطیلات کے دومہینے کے دوران میں وہ ترجمہ و تفسیر کاخصوصی درس دیتے ہیں جس میں منتہی طلباء کے علاوہ جدیدتعلیم یافتہ اصحاب بھی شامل ہوتے ہیں۔ باقاعدہ امتحان کے بعدامیدواروں کوسندات دی جاتی ہیں ۔

مدرسے میں درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ نصاب ۸سے۱۰سال تک ہے۔ طلباء کی مجموعی تعداد ۱۵۰ ہے۔ مسجدکاوسیع ہال اورصحن مختلف درجوں کی جماعتوں کی درس گاہ کاکام دیتاہے ۔

مدرسے کے دارالافتاء کی سرگرمی کارقابلِ ستائش ہے۔ مفتی محمدعیسیٰ گورمانی فرائض تدریس کے ساتھ ساتھ فتوے جاری کرتے ہیں۔ ان کاریکارڈ بھی رکھتے ہیں ان کی مددکے لیے مفتی عبدالشکوربطورنائب مفتی کام کرتے ہیں ۔کتب خانہ سہ منزلہ ہے ۔درسی کتابوں کے علاوہ کوئی چارہزار کے قریب دینی وادبی کتابیں نہایت قرینے سے سجائی گئی ہیں۔ مولانامحمداشرف ناظم کتب خانہ ہیں جونہایت محنتی ہیں۔ انتظامی امور مولانا حافظ عبدالقدوس قارن کے سپردہیں جو پورے مدرسے کے ناظم ہیں ۔

شروع میں یہ متروکہ جگہ تھی۔ مدرسہ کی بنیاد رکھتے وقت کسی کوسان گمان نہ تھاکہ ایک دن یہ درس گاہ اس قدر شان دار عمارت اورجاندارکام کاعمدہ نمونہ ہوگی۔ ہرسال کوئی بیس کے لگ بھگ طالب علم وفاق المدارس کا امتحان پاس کرکے دینی خدمت کے جذبے سے سرشارہوکریہاں سے فارغ ہوتے ہیں۔ مدرسے کاسالانہ بجٹ چھ لاکھ سے سات لاکھ روپے تک ہے ۔حسابات کی باقاعدہ پڑتال کے لیے ایک محتسب مقرر ہے۔ مدرسہ حکومت سے کسی قسم کی استعانت نہیں کرتا۔

اساتذہ کرام کے اسماء گرامی یہ ہیں:

شیخ الحدیث مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ (صدر مدرس)، مولانا صوفی عبدالحمیدسواتی (مہتمم )، مولاناحافظ عبدالقدوس قارن، مولاناعبدالقیوم، مولانا عبدالمہیمن، مولاناسید غازی شاہ، مولانا مفتی محمدعیسیٰ گورمانی، مولانا محمد یوسف، مولانا فاروق احمدکھٹانہ ،مولانامحمداشرف صابر، مولانا عبدالشکور، مولانا حافظ رشیدالحق عابد۔

مدرسہ وفاق المدارس سے وابستہ ہے ۔فاضلین میں چندکے اسماء گرامی یہ ہیں :

حافظ محمودالحسن (آزادکشمیر)،مولاناقاری محمدسلیمان( جہلمی)، مفتی محمدعیسیٰ گورمانی (مفتی مدرسہ)، مولانا عبدالرحیم (سرگودھا)، مولاناعبدالقیوم( مدرس مدرسہ)، مولانازاہدالراشد ی( مدرس انوارالعلوم)۔ مدرسہ وفاق المدارس سے وابستہ ہے۔

اس دینی مدرسے کے شیخ الحدیث اورصدرمدرس مولانامحمدسرفرازخاں صفدرؔ کااجمالی تعارف درج ذیل ہے۔

صحیح تاریخ ولادت تومعلوم نہیں، البتہ سال ولادت ۱۹۱۴ء مولدومنشاچیڑاں ڈھکی داخلی کڑمنگ بالاتحصیل مانسہرہ (ضلع ہزارہ)حال ضلع مانسہرہ۔ والدگرامی کانا م نوراحمدخاں بن گل احمد خاں۔ 

شیخ سعدی نے کہاتھا:

تمتع زہرگوشۂ یافتم

زہر خرمنے خوشۂ یافتم

کچھ یہی حال مولاناموصوف کابھی ہے۔ ابتدائی تعلیم قریبی موضع بٹل اورشیرپورسے حاصل کی بعدازاں مانسہرہ میں بغرض تعلیم چلے آئے ۔یہاں ان دنوں مرحوم مولاناغلام غوث ہزاروی مدرس تھے ۔۱۹۳۴ء میں لاہور آئے۔ پھروڈالہ سندھواں ضلع سیالکوٹ میں مولانامحمداسحاق سے فیض اٹھایا۔۱۹۳۷ء میں انّہی ضلع گجرات سے مولاناولی اللہ سے اکتساب کیا۔ملتان میں مدرسہ مفتی عبدالکریم میں پڑھتے رہے۔ جہانیاں منڈی میں مدرسہ رحمانیہ میں مولاناغلام محمد لدھیانوی اورمولاناعبدالخالق سے پڑھاپھرمدرسہ انوارالعلوم گوجرانوالہ میں مولانا عبدالقدیراورمفتی عبدالواحد سے استفادہ کیا۔اصول فقہ ،فقہ،تفسیر،اصول حدیث،منطق،صرف ،نحو حتی کہ حدیث میں بھی منتہی ہونے کے باوجوداس حدیث کے مصداق کہ اثنان لایشبعان طالب علم وطالبِ مال (دوآدمی کبھی سیرنہیں ہوتے علم کاچاہنے والااورمال کا چاہنے والا۔

اپنے برادرخورد صوفی عبدالحمیدسواتی کوہمراہ لے کردیوبندکے لیے رخت سفرباندھا۔

چلی ہے لے کے وطن کے نگارخانے سے

شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

۱۹۴۱ء میں دیوبندگئے ،اپنے وقت کے جیداساتذہ سے فیض اٹھایا۔ان کے اساتذہ میں وہ جگمگاتے نام آتے ہیں جوعلم ودانش کے آفتاب وماہتاب تھے ان میں چنداہم یہ ہیں:

  • شیخ الاسلام سیدحسین احمدمدنی سے بخاری و ترمذی (ہردوکی جلداول)۔
  • مولاناابراہیم بلیاروی سے مسلم ۔
  • شیخ الادب مولانااعزازعلی سے ابوداؤداوربخاری وترمذی کے باقی ماندہ حصے۔
  • مولانامفتی محمدشفیع سے طحاوی ۔
  • مولانا ادریس کاندھلوی سے موطاپڑھیں ۔

دیوبندسے واپسی پرگوجرانوالہ میں مدرسہ انوارالعلوم میں فرائض تدریس سنبھالے ،ساتھ ہی گکھڑ میں بھی درس و تدریس کا آغازکردیا۔۱۹۵۶ء میں مولاناصوفی عبدالحمید(موصوف کے برادرخورد)کے زیرِاہتمام چلنے والے مدرسے نصرۃالعلوم میں بطورِصدرمدرس اورشیخ الحدیث آپ کی خدمات لے لی گئیں ۔سالہاسال تک ٹیچرز ٹریننگ سکول گکھڑمیں بعدازنمازعصرسلسلہ درس قرآن جاری رہامگرآج کل بوجوہ موقوف ہے۔ مولانا کی ذات گرامی اپنی ذات میں ایک انجمن ہے ۔وہ دورحاضرمیں اساتذۃ علوم حدیث میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں ۔علمِ رجال پرخصوصی طور پر ان کی نگاہ گہری ہے ۔آپ کادرس قرآن ہویادرسِ حدیث یوں محسوس ہوتا ہے کہ علم و حکمت ،دینی بصیرت اوررموزو غوامض کاایک ٹھاٹھیں مارتاہواسمندرہے جس کے سامنے خیالات فاسدہ اورعقائدباطلہ خس وخاشاک کی طرح بہتے چلے جاتے ہیں ۔ایک مینارۂ نورہے کہ جہالت و نافہمی کی تاریکیاں کافور ہوتی چلی جاتی ہیں ۔کلام میں نہ خشونت ہے نہ تیزگفتاری ،ٹھہرٹھہرکربات کرتے ہیں جو سامع کے ذہن کواپیل کرتی ہوئی دل تک اترجاتی ہے ۔شب ور وزقرآن وحدیث کی تعلیم کی دھن ہے ۔لکھتے ہیں تو قلم موتی رولتاہے۔ادق اورگنجلک علمی مسائل کونہایت شگفتہ پیرائے میں واضح کردیتے ہیں ۔آپ ماضی بعیدکے کثیرالتصانیف بزرگوں کی زندہ نشانی ہیں ۔اندازتحریرمیں ادبی رعنائی بھی ہے اوراستدلال کازور بھی، جامعیت بھی ہے اوردلآویزی بھی ،برجستہ اوربرمحل استشہادکے استعمال سے وہ مشکل سے مشکل عبارت میں بھی رنگینی پیداکرلیتے ہیں۔ مناظرانہ اورمجادلانہ تحریروں کے جواب میں ان کاقلم دودھاری تلواربن جاتاہے تاہم ثقاہت اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ ان کی تحریرکی سب سے بڑی خصوصیت عالمانہ شان ہے جس میں رکاکت و ابتذال نام کی کوئی چیزنہیں ہوتی۔ بعض تحریریں پڑھ کریوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک گلیشیربلندی سے یوں آ رہا ہے کہ ہرشے کواپنے ساتھ بہائے لیے جاتاہے ۔

مکر،مفر،مقبل ،مدبر معاً

کجلمودصخر حطہ السیل من عل

( امرؤ القیس)

موصوف کی تعلیمی وتصنیفی زندگی سے ہٹ کرنجی اورشخصی زندگی کاجائزہ کیاجائے تومعلوم ہوگاوہ علم وعمل اورزہدو تقوی میں قرنِ اول کے بزرگوں کی سچی تصویرہیں ۔کئی جسمانی عوارض اٹھائے لیے پھرنے کے باوجود یہ گوہرشبِ چراغ شب وروز ایک اورصرف ایک ہی دھن میں مگن ہے کہ ارتیاب آگیں ماحول نورِیقیں سے جگمگا اٹھے ،ایمان وایقاں کے اجالے پھیلیں ،توحیدورسالت کاغلغلہ بلندہو۔ وہ ضعف پیری میں مبتلاضرورہے مگر اس کے پرعزم شیب پرہزارشباب قربان۔سنِ ستربرس سے متجاوزہے مگررعنائی خیال اوربرنائی ذوق حدیث میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا۔

جامعہ مدینۃ الاسلام 

جنرل بس سٹینڈکے قریب ماڈل ٹاؤن میں جامعہ مدینۃالاسلام واقع ہے مدرسے کامسلک حنفی بریلوی ہے ۔ علامہ سعیداحمدمجددی مہتمم مدرسہ اورخطیب جامع مسجدنقشبندیہ ہیں۔ مدرسے کاقیام ۶اکتوبر۱۹۷۸ء کو عمل میں آیا۔ اس لحاظ سے شہرکے کئی قدیم مدارس کی نسبت یہ مدرسہ اپنے ایام طفلی میں ہے ۔دومدرس کتابوں کی تعلیم کے لیے ہیں اوردو اساتذہ شعبۂ حفظ وناظرہ میں فرائض تدریس انجام دیتے ہیں۔ طلباء کی تعداد۲۰۰کے لگ بھگ ہے ۔۱۵۰مقامی اور۵۰ بیرونی۔ مدرسہ اقامتی ادارہ ہے ۔کتب خانے میں ایک ہزارکتابیں ہیں۔ عمارتِ جامعہ دس کمروں پرمشتمل ہے ۔ دوسری منزل کاپروگرام بھی پیش نظرہے ۔مدرسہ انجمن نقشبندیہ مجددیہ کے زیراہتمام چل رہاہے۔ دوسرے دینی مدارس کی طرح یہ جامعہ بھی اہل خیرکے تعاون سے کام کررہی ہے۔ ۱۹۸۲ء میں سالانہ بجٹ ۱۰۵۵۲۵روپے تھا۔ تعمیرکے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ جامعہ کانصاب وہی ہے جو جامعہ غوثیہ بھیرہ میں زیرتدریس ہے ۔

مدرسے کوپاکستان کے مایہ نازعالم دین اورمشہورماہرتعلیم جسٹس پیرکرم شاہ کی اعزازی سرپرستی اوررہنمائی ہے۔ علامہ سعید احمدمجددی راجوری (مقبوضہ کشمیر)کے ایک علمی ودینی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ جامعہ انوارالعلوم ملتان سے دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ دورہ قرآن کی سندشیخ القرآن علامہ عبدالغفورہزاروی جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآبادسے حاصل کی۔ ان کی تبلیغی وتدریسی سرگرمیاں اس امرکاپتہ دیتی ہیں کہ وہ خلوص ودیانت سے سرگرم عمل رہے تووہ دن دور نہیں جب یہ مدرسہ شہرکے صف اول کے مدارس کے ہم پلہ ہوسکے گا۔وہ دارالعلوم نقشبندیہ قبرستان کے بھی ناظم اعلیٰ ہیں وہ حضرت خواجہ صوفی محمدعلی نقشبندی سے بیعت ہیں ۔

وہ مجلس تعلیمات مجددیہ کے زیراہتمام لٹریچربھی شائع کرتے ہیں ۔اہم تالیفات یہ ہیں : سرمایہ ملت کا نگہبان، درس طریقت ،آداب الحرمین ،اسلام میں عیدمیلادالنبی ﷺکی حیثیت اورشجرہ خواجگان نقشبندیہ۔ 

چونکہ مدرسہ درس میں ترمیم وتنسیخ کاقائل ہے اس لیے یہاں جدیدذہن تیارکرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ میٹرک سے بی۔اے تک آرٹس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ،ادیب عربی، عالم عربی اورفاضل عربی بھی نصاب میں شامل ہیں۔ یوں یہ ادارہ قدیم وجدیدکاحسین امتزاج ہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کوخطابت کی بھی مشق کرائی جاتی ہے۔ مذاکرات ،مضمون نویسی ،اورحسن قرأت کے مقابلے کرواکرانعامات بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ سالانہ امتحان کے پرچے بھیرہ سے آتے ہیں اورجانچے بھی وہیں جاتے ہیں اوروہیں سے نتیجے کا اعلان ہوتاہے ۔

کوشش کی جاتی ہے کہ طلباء کو تصوف وطریقت کی چاشنی سے لذت یاب کیاجائے ۔علم کے ساتھ ساتھ عمل پر بھی زور دیاجاتاہے ۔مدرسے کا اصول یہ ہے کہ صاحب کردارعلماء ہی معاشرے میں انقلاب پیداکرسکتے ہیں۔ مختلف مذہبی تہواروں مثلاًعیدمیلادالنبی،یوم عاشورہ،معراج النبی،عیدین اوراکابرمسلک کے ایام منا کر اسلامی تعلیمات کا پرچار کیا جاتا ہے۔ اولیائے عظام کوخراج عقیدت پیش کیاجاتاہے ۔

اساتذہ کرام کے اسمائے گرمی یہ ہیں :مولاناسعیداحمدمجددی مہتمم وصدرمدرس،مولانانوازظفرایم اے ، مولانا نورالحسن تنویرچشتی بی اے،قاری محمدافضل مجددی۔

مدرسہ فاروقیہ رضویہ تعلیم القرآن

محلہ فاروق گنج کی ملک سٹریٹ میں مسلک بریلوی کی نہایت شانداردرس گاہ ہے مدرسے کاقیام کوئی بیس سال قبل ہوا۔ بانیوں میں مولاناعبداللطیف قادری اورمولانا محمدعبداللہ بٹ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ اگرچہ وسعت میں توجگہ اتنی نہیں تاہم گنجائش میں اتنی کم بھی نہیں۔ عمارت ۱۵کمروں پرمشتمل ہے جس میں تدریسی کمرے بھی ہیں اور اقامتی بھی۔ سالانہ بجٹ کوئی ۶۰،۶۵ہزارتک ہے ۔دورہ حدیث تک تعلیم دی جاتی ہے مگرسندکے لیے طلباء کو انوارالعلوم ملتان یاجامعہ رضویہ مظہرالعلوم فیصل آبادجاکرمنتہی ہوناپڑتا ہے ۔بیرونی طلباء کی تعدادپچاس ہے اوراساتذہ کی تعدادپانچ ہے ۔

مولاناغلام فریدصدرمدرس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ مولاناموصوف علم حدیث میں گہری بصیرت رکھتے ہیں اوربڑی جانکاہی سے تدریسی فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کے خلوص اورلگن کانتیجہ ہے کہ تشنگانِ علم اس غیرمعروف سی جگہ سے علم وحکمت کے قیمتی موتیوں سے جھولیاں بھربھرکرجاتے اورمعاشرے میں دعوت و اردات کافریضہ انجام دیتے ہیں۔ درس نظامی میں ترمیم وتنسیخ مدرسے کے مسلک کے منافی ہے ،لہٰذاکوشش یہ کی جاتی ہے کہ تمام و کمال کتب درس نظامی پڑھائی جائیں ۔فتوے کا ریکارڈنہیں رکھاجاتاتاہم فرضِ افتاء شیخ الحدیث مولاناغلام فریدہی اداکرتے ہیں ۔ آپ علمی بصیرتوں کامرقع اورفکری عظمتوں کی تصویرہیں۔ قحط الرجال کے اس دورمیں آپ کاوجودغنیمت ہے ۔اس علاقے کے لیے آپ وجہ رحمت بھی ہیں اوروجہ ناز بھی ۔ آپ کاسوانحی خاکہ درج ذیل ہے :

آپ کے والدمحترم کانام الحاج مولاناعبدالجلیل ہے۔ آپ ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء کوموضع جھاڑ مضافات تربیلا (ہزارہ) میں پیداہوئے۔ مشہورپٹھان قوم عیسیٰ خیل کے مورث اعلیٰ عیسیٰ خان آپ کے جداعلیٰ تھے ۔آپ کے خاندان کے ایک اور بزرگ عبدالرشیدخان قندھارکے حاکم اعلیٰ ہوگزرے ہیں ۔ آپ علمی اورروحانی خاندان کے چشم وچراغ ہیں۔ آپ کے والداورآپ کے جدامجدکے حقیقی بھائی امیرمحمودمبلغ دین بھی تھے اورعلاقہ کے لیے مرکز رشدوہدایت بھی۔

جناب مولاناغلام فریدنے ابتدائی تعلیم بعض مساجد سے حاصل کی پھروالدماجدکی وساطت سے ہزارہ ڈویژن کے روحانی و علمی مرکزدارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ میں داخل ہوئے۔مولاناقاضی حبیب الرحمٰن اور مولانا قاضی غلام محمودسے علمی استفادہ کیا۔مولاناحافظ محمدیوسف بھی آپ کے اساتذہ میں رہے ہیں ۔چارسال بعد جامعہ رضویہ مظہراسلام فیصل آبادمیں داخلہ لیا۔دوسال بعدجامعہ نعیمیہ لاہورآگئے جہاں سے آپ نے مولانا مفتی محمدحسین نعیمی سے اکتسابِ علم کیا۔ درس نظامی کی آخری کتب آپ نے یہیں سے پڑھیں ۔بخاری شریف کادرس بھی یہیں ختم کیا۔مفتی عزیزاحمدبدایونی سے بھی کچھ اسباق پڑھے۔۱۹۵۹ء میں جامعہ نعیمیہ سے دستارِ فضیلت اورفراغت حاصل کی ۔

آپ نے تدریسی زندگی کاآغازجامعہ گنج بخش لاہور سے کیا۔یہاں آپ نے ابتدائی اورمتوسط کتب پڑھائیں۔ دو سال جامعہ امینیہ گوجرانوالہ میں اوردو سال دارالعلوم اسلامیہ رحمانیہ ہری پورمیں مسندتدریس پر فائز رہے ۔ ۱۹۶۶ء میں علامہ احمدسعید کاظمی کے ارشادپرمدرسہ جامع العلوم خانیوال میں صدر مدرس کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دینے شروع کیے ۔ دوسال جامعہ فضل العلوم ڈسکہ میں مدرس رہے اوراب عرصہ بارہ سال سے جامعہ فاروقیہ رضویہ تعلیم القرآن گوجرانوالہ میں بطور صدرمدرس علوم اسلامیہ کی تدریس میں مصروف ہیں ۔ آپ ایک مصروف زندگی گزاررہے ہیں۔ شب وروز دین اسلام کی تبلیغ واشاعت میں گزرتے ہیں اور اس سرزمین پرآپ کے بہت احسانات ہیں ۔کتنے ہی دل ہیں جو آپ کے طفیل نورہدایت سے منورہوئے اور کتنے ہی ذہن ہیں جنہیں آپ کی مروت وعلمیت نے نکتہ داں بنایا۔

آپ صاحبِ قرطاس وقلم بھی ہیں آپ نے گوناگوں علمی وتدریسی مصروفیات کے باوجود بہت سی دینی اور علمی کتب تصنیف فرمائی ہیں جن میں سے درج ذیل خاص طور سے قابل ذکرہیں :

اثباتِ علم الغیب بجواب ازالۃالغیب ، مفتاح الجنۃ بجواب راہ سنت ،صداقتِ میلاد،حاضرو ناظراورعلم غیب ملاعلی قاری کی نظرمیں،اثبات الدعاء بعدالجنازۃ ، رسالہ علم الغیب ملاعلی قاری۔ 

علوم قرآن و حدیث پرآپ کودسترس حاصل ہے۔ اس شہرہی کے نہیں بلکہ دوردرازکے علاقوں کے متلاشیانِ حق و صداقت نگاہوں سے دیکھاجاتاہے ۔آپ مدرسہ سے ملحقہ جامع مسجد میں فرائض خطابت بھی انجام دیتے۔ آپ کو علامہ سیداحمدسدسے شاہ کاظمی مدظلہ سے شرفِ تلمذ توتھاہی بعدمیں آپ نے انہی کے دستِ حق پرست پربیعت کرلی ۔ حضرت کاظمی نے آپ کوسلسلہ چشت میں بیعت کی اجازت بھی عطا فرمائی۔ آپ کو۱۹۷۶ء میں حج حرمین الشریفین کی زیارت کاشرف حاصل ہوا۔آپ کے برادراصغر مولانا محمد شریف ہزاروی بھی معروف خطیب ،عالم نکتہ داں اورجامعہ فاروقیہ میں آپ کی سربراہی میں فرائض تدریس انجام دے رہے ہیں ۔مولاناغلام فریدہزاروی سے اب تک ہزاروں تلامذہ فیوض علمی حاصل کرکے وطن عزیز کے اطراف و اکناف میں رشدو ہدایت کی روشنی پھیلارہے ہیں۔ آپ کے معروف تلامذہ میں مندرجہ ذیل علماء خاص طور سے قابل ذکرہیں:

مولاناسیدبشیرحسین شاہ، مولاناخالدحسن مجددی،مولاناسعیداحمدمجددی ،مولاناگل احمد عتیق، مولانا صداقت علی،مولاناقاضی محمدیوسف،مولاناحافظ محمدعلی ،مولاناقاری عبدالرزاق ،مولانامحمدحنیف اختر ، مولانا محمد صدیق ہزاروی۔ (حالات ماخوذ ازتعارف علمائے اہل سنت، مرتبہ مولانامحمدصدیق ہزاروی )

جامعہ صدیقیہ مجاہدپورہ

محلہ مجاہدپورہ میں جامعہ صدیقیہ مسلک حنفی دیوبندی کااہم مدرسہ ہے ۔ مدرسے کا قیام ۱۹۶۰ء میں عمل میں آیا۔ مدرسے کانصاب خالصتاًدرس نطامی ہے اس میں ترمیم وتنسیخ کومذموم خیال کیاجاتاہے ۔مدرسے کے مہتمم اور صدر مدرس قاضی شمس الدین ،فاضل ومدرس دارالعلوم دیوبند ہیں۔ مولاناموصوف ایک منجھے ہوئے عالم اور ایک عظیم سکالرہیں ۔ ان کارجحان طبع تحقیق و تدقیق کامتقاضی ہے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے دارالعلوم دیوبندجیسے عظیم ادارے میں بحیثیتِ استاد کام کرچکے ہیں ۔ان کی عربی و اردوتصانیف اس بات کی گواہی دیتی ہیں ،ان کاعلمی مرتبہ عصرحاضرکے بلندپایہ علمائے دین میں نمایاں و ممتازہے ۔کم وبیش اکسٹھ سال سے قرآن و حدیث کی شمع کوروشن رکھے ہوئے ہیں ۔سادگی کامرقع ،نمود و نمائش سے بے نیاز اور فقروغناء کوایک پیکر دلآویز۔

آپ ۱۹۰۱ء میں مقام پٹری ڈاکخانہ ناڑہ ،تحصیل پنڈی گھیب ،ضلع اٹک میں پیداہوئے ۔آباء و اجدادعلم دین کے مشتاق تھے ۔ آپ کے دادااوروالدبھی اپنے وقت کے معروف عالم تھے گو وہ بعض خانگی امورکی بناء پر درس نظامی کی تکمیل نہ کرسکے مگروالدنے اپنے بیٹوں کوعلم دین کی تحصیل کے لیے وقف کر دیا۔ مولانا نور محمد، مولانا بدرالدین اورمولانامحمدرفیق ،قاضی صاحب کے تینوں بھائی عالم باعمل تھے اورتینوں بھائیوں کاانتقال ہو چکا ہے۔ مولائے کریم ان سب کواپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔

مولاناقاضی شمس الدین صاحب کی زندگی محنت ،خلوص اورسعی بلیغ کی ایک قابل تقلیدمثال ہے ۔ آپ نے ناظرہ قرآن ناڑہ ضلع اٹک میں پڑھا۔۱۹۱۲ء میں جامعہ نعمانیہ لاہورمیں تعلیم حاصل کی ۔ ۱۹۱۳ء میں انّھی تحصیل پھالیہ ضلع گجرات میں مولاناغلام رسول مرحوم سے درس نظامی کی تکمیل کی ۔ ۱۹۲۲ء میں دارالعلوم دیوبند میں مولاناانورشاہ کشمیریؒ ، مولانارسول خاں اورمولاناشبیراحمدعثمانی سے دورہ حدیث پڑھا۔۱۹۲۳ء کے آخر میں مدرسہ انوارالعلوم مسجد شیرانوالہ گوجرانوالہ میں آگئے اورایک سال تک تدریس کے فرائض انجام دیے۔ بعد ازاں۱۹برس تک پنڈی گھیب ضلع اٹک میں مصروفِ تدریس رہے ۔۱۹۴۲ء میں دیوبندکے اساتذہ کے اصرار پر وہاں تشریف لے گئے اورتشنگانِ علم و معرفت کوسیراب کرتے رہے ۔وہاں انہوں نے وہ کتابیں پڑھائیں جو فی الواقع ان کے فنون میں ماہر ہونے کی دلیل تھیں۔ دیوبندسے واپسی پرفیصل آبادمیں مدرسہ اشاعتِ علوم میں بطورِصدرمدرس کام کرتے رہے۔۱۹۴۶ء میں گوجرانوالہ کے مدرسہ انوارالعلوم اور نصرۃالعلوم میں صدرمدرس رہے ۔۱۹۶۰ء میں جامعہ صدیقیہ کی بنیادڈالی جو اب تک انتہائی کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے ۔

مولاناموصوف کوحضرت مولاناحسین علی واں بھچراں سے قلبی عقیدت ہے ۔وہیں سے آپ نے سلوک و معرفت کی منزلیں طے کیں اورکم و بیش چوبیس سال تک ان سے کسبِ فیض کرتے رہے ۔وہیں سے تفسیرِ قرآن، مثنوی مولانا روم، مسلم شریف،دارالمحارف ورسراجی پڑھی۔ مولاناکی پوری زندگی درس و تدریس اور قرطاس وقلم سے متعلق رہی ۔وہ بہت سی علمی ودینی کتابوں کے مصنف ہیں، چندایک کے نا مدرج ذیل ہیں:۔

اردو:تفسیرتیسرالقرآن،غایۃالمامون،شرح عبدالرسول ،القول الجلی فی حیاۃالنبیﷺ، الشھاب الثاقب۔

عربی :تفسیرانوارالتبیان فی اسرارالقرآن،الہام الباری فی حل مشکلات البخاری،کشف الودودشرح سنن ابی داؤد،التعلیق الفصیح شرح مشکوٰۃالمصابیح،الہام الملہم شرح صحیح مسلم۔

جہاں تک قاضی صاحب کے تلامذہ کاتعلق ہے ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔ چندنام درج کیے جاتے ہیں، جن سے خود صاحب موصوف کی علمی وجاہت ،دینی عظمت اور فکری رفعت کااندازہ ہوتاہے: مولانا نصیر احمد سابق شیخ الحدیث و مدرس دارالعلوم دیوبند،شیخ غازی احمدسابق پرنسپل بوچھال کلاں ،مولاناعبدالرحیم پروفیسرڈھاکہ یونیورسٹی ، مولانامفتی عبدالواحدگوجرانوالہ ،قاضی عصمت اللہ ،مولاناعلی محمد حقانی (لاڑکانہ)، مولانا عبدالرؤف مہتمم مدرسہ مفتاح العلوم حیدرآباد،مولاناسرفرازخاں صفدر(گوجرانوالہ)اورمولاناعبدالحکیم (راولپنڈی ) قاضی شمس الدین کے چند ایسے تلامذہ ہیں جن پرفکرکی بلندیاں عمل کی لطافتیں اورعلم کی نظافتیں نازکرتی ہیں ۔

مدرسے کا علمی معیار نہایت اعلیٰ ہے اوردور درازکے علاقوں سے طلباء تحصیل علم کے لیے آتے ہیں۔ دورہ حدیث میں تخصص کے درجے تک تعلیمی معیار رکھاگیاہے۔ اب تک ۴۵۴طلباء فارغ التحصیل ہوکرگئے ہیں۔ فاضلین میں درج ذیل نام خاص اہمیت کے حامل ہیں :

مولاناعبدالمجیدندیم،مولاناضیاء اللہ شاہ بخاری،مولاناخالدرشید،مولانااحمدسعیدملتانی،مولاناعلی محمدحقانی مدرسہ اشاعت الاسلام لاڑکانہ، مولاناقاضی عصمت اللہ مدرسہ محمدیہ قلعہ دیدارسنگھ۔

زیادہ ترطلباء بیرونی ہیں۔ اس وقت ۲۷طلباء زیرِتعلیم ہیں۔ نئی عمارت ۲کنال ۹مرلے میں زیرتعمیر پر ۱۰۰طلباء کی اقامتی گنجائش ہو گی۔

اساتذہ کرام درج ذیل ہیں :مولانامفتی سیدبدیع الزمان بخاری ،مولاناقاضی عطاء اللہ ،مولاناقاضی ثناء اللہ، مولاناحافظ نذیراحمد،مولاناعبدالرحمن۔ افتاء کے فرائض،مفتی سیدبدیع الزمان بخاری انجام دیتے ہیں۔ سالانہ بجٹ ستا سی ہزاروپے کے لگ بھگ ہے ۔درس نظامی اپنی اصلی شکل میں پڑھایاجاتاہے۔

مدرسہ نعمانیہ 

نعمانیہ روڈ محلہ اسلام آباد میں حنفی بریلوی مسلک کاایک شاندارمدرسہ ہے۔ کوئی ۱۶سال پہلے ۱۹۶۷ء میں مدرسے کی بنیادرکھی گئی۔ اس وقت یہ مدرسہ ابتداءً اقبال گنج میں قائم ہوا بعدازاں مدینہ مسجدگوبندگڑھ میں تدریس کاکام شروع ہوا تو ۱۵طالب علم زیرتعلیم تھے ۔

مولانامحمدعبداللہ جوایک درویش صفت عالمِ دین ہیں ،اس مدرسے کے موسس ومہتمم ہیں۔ آغازِکارمیں حفظِ قرآن سے کام شروع کیاگیا ۔ ۱۹۶۸ء تک صرف حفظ کاہی اہتمام تھابعدمیں تدریسِ کتب کابھی انتظام کر لیا گیا۔مدرسے کا نصاب درس نظامی ہے مگرتنظیم المدارس کے نصاب کے مطابق تدریس ہوتی ہے۔ صرف و نحو اور فقہ کے علاوہ تاریخی شعور بھی بیدارکیاجاتاہے تاہم تاریخ پرمکمل انحصارنہیں کیاجاتا۔مدرسے کاسالانہ بجٹ تقریباً۳۵ ہزارروپے ہے ۔ مدرسے کی انصرامی ذمہ داریوں کا بارانجمن نعمانیہ فیض العلوم کے سر ہے۔ صدر انجمن شیخ حاجی محمدشفیع صاحب ہیں۔ 

مدرسے کے فاضلین میں چنداہم نام یہ ہیں:مولاناخالدحسین مجددی ، مولاناگل احمدجامعہ رضویہ فیصل آباد، مولاناطالب حسین سول لائینز، مولاناسلطان العارفین (پی ڈی پی)، مولاناہدایت اللہ (مظفرآباد)۔ اساتذہ کی کمی کا شدت سے احساس ہوتاہے ۔

جامعہ جعفریہ 

بائی پاس قلعہ چندسے جانب لاہوجی ٹی روڈ میں ۳ ایکڑ۳ مر لے میں پاکستان کی اثناعشری شیعہ مکتب فکرکی عظیم جامعہ ہے۔جامعہ کی تاسیس۱۹۷۹ء میں ہوئی۔ مفتی جعفرحسین مجتہداس کے بانی تھے۔ مفتی مرحوم جو ۱۹۸۳ء میں راہی ملک عدم ہوئے۔ ملتِ جعفریہ کے بلندپایہ اورمجتہدتھے ۔ملت جعفریہ ان کی دینی بصیرت پر پورا عتمادرکھتی تھی۔ حق یہ ہے کہ وہ علم ودانش کے جرعہ کش ہی نہیں خم بدوش بلانوش بھی تھے۔ تادم زیست انہوں نے کتاب وقلم سے رشتہ قائم رکھا۔وہ ایک خوددار،صلح کیش اوردرویش منش عالم دین تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم حنفی دیوبندی مکاتب میں حاصل کی۔ پھر لکھنؤاورایران سے تکمیل علوم کی ۔یوں وہ سعدی کے اس شعر کا پور امصداق تھے۔

تمتع زہرگوشۂ یافتم 

زہرخرمنے خوشۂ یافتم

ان کی تحریریں ان کے وسیع المعلومات اورعمیق المطالعہ ہونے پرگواہ ہیں۔ نہج البلاغۃکااردوترجمہ ان کی ادبی صلاحیتوں کابھی پتہ دیتاہے۔ ان کے عربی و فارسی اشعارسے ان کاشعری ذوق بھی نکھرکرسامنے آتاہے۔

؂خدابخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں 

مدرسے کا نصاب درس نظامی ہے مگراصولِ فقہ میں دوسرے مسالک سے کلی اختلاف ہے۔حدیث میں بھی یہاں صحاح ستہ کی بجائے کتبَ اربعہ لائقِ اعتمادخیال کی جاتی ہیں۔ کتب اربعہ یہ ہیں: الکافی للکلینی،استبصار، تہذیب الاحکام ، من لایحضرہ الفقیہ۔

فقہ میں تبصرۃالمتعلمین،شرائع السلام ،شرح لمعہ اورمکاسب قابل قدرکتابیں ہیں ۔اصول فقہ میں منتہی طلباء اصول فقہ ، رسائل اورکفایۃالاصول پڑھتے ہیں ۔مستقل اساتذہ صرف دوہیں، موقت و زائدتین۔طلبہ بالفعل بیس۔پروگرام کے مطابق ۲۰۰طلباء کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ سردست بیس لاکھ کے خرچ سے بنائی ہوئی عمارت ۲۶کمروں پرمشتمل ہے تاہم منصوبہ ۱۰۰کمروں کاہے جس پردوکروڑروپے خرچ آئے گا۔

ملحقہ جعفریہ کالونی ادار ے کے اساتذہ اورطلبہ کی رہائش کے لیے مخصوص ہوگی۔امتحان کااپنانظام ہو گا جو مجتہدینِ ایران کے زیرِنظرہوگا۔سہم امام (خمس )عطیہ جات مدرسے کے وسائل اخراجات ہیں۔ دوسرے دینی مدارس کی طرح طلبہ کے قیام و طعام کابندوبست جامعہ کے ذمے ہے۔جامعہ کاکتب خانہ نہایت شاندارہے جس میں تین ہزارسے زائدکتب ہیں ،چندقلمی نسخے بھی ہیں ۔اس وقت تخصص کے لیے نجف و قم میں جاتے ہیں تاہم منصوبہ یہ ہے کہ یہیں درسِ اجتہادیادرس خارج بھی دیاجائے ۔مفتی مرحوم کی وفات کے ساتھ جامعہ کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچاہے ۔

اس ادارے کے پرنسپل جناب علامہ حسین بخش ہمارے شہرکے ایک معروف عالم دین ہیں جن کی زندگی درس و تدریس کے لیے وقف ہے ۔ جیساکہ اوپرلکھاجاچکاہے کہ مفتی جعفرحسین نے جامعہ جعفریہ کے نام سے جس علمی ادارے کا آغازکیاتھا۔ ان کے بعدعلامہ حسین بخش کی زیرنگرانی ادارہ ایک بہارآفرین مستقبل کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہے۔ علامہ موصوف کاشمار ان علمی شخصیات میں کیاجاسکتاہے جواپنی ذاتی استعداد، پیہم محنت اورفکری ریاضت کی بنا پربلندیوں کی طرف لپکتے ہیں بلکہ خود بلندیاں ان کااستقبال کرتی ہیں۔

آپ کے والدگرامی کانام ملک اللہ بخش ہے سن پیدائش۱۹۲۰ء اورمقامِ پیدائش جاڑاضلع ڈیرہ اسماعیل خان ہے ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد علامہ سیدباقرشاہ مرحوم کی صحبت میں رہے۔ ان کے بعدمولاناسیدمحمدیارشاہ اور مفتی جعفرحسین سے علمی ودینی استفادہ کیا۔ایک عرصہ دیگرمکاتب فکرکے دینی مدارس میں بھی زیرتعلیم رہے جن میں جامع مسجد شیرانوالہ باغ کامدرسہ قابل ذکرہے اوربالخصوص مولاناعبدالقدیر جووہاں درس دیاکرتے تھے معقولات کی تمام کتابیں انّھی شریف ضلع گجرات میں مولاناولی اللہ سے پڑھیں۔۱۹۵۲ء میں نجف اشرف میں تشریف لے گئے اوروہیں سے فقہی اوراصولی تعلیم حاصل کی۔۱۹۵۵ء میں واپس آئے۔ جامعہ علمیہ باب النجف جاڑاضلع میانوالی کی بنیادرکھی جو اب تک جاری ہے ۔نجف اشرف میں جن علمی شخصیات سے کسبِ فیض کیا، ان میں سے چندکے نام درج ذیل ہیں:

سیدابوالقاسم خوئی،سیدعبداللہ شیرازی ،سیدمحسن الحکیم ،مرزاحسن یزدی ،مرزامحمدباقر رنجانی ،سیدحسین حمامی،سید حسن بجنوری۔

علامہ حسین بخش کے تلامذہ کی فہرست بہت طویل ہے چندنام یوں ہیں :

مولانامحمدحسین ڈھکو،ملک اعجازحسین ،سیدصفدرحسین نجفی،مولاناغلام حسین نجفی ،سیدکرامت علی شاہ، مولاناغلام حسن، کاظم حسین اثیر،سیدامدادحسین شیرازی ،وزیرحیدر۔

آپ کی علمی کتابیں درج ذیل ہیں :تفسیرقرِ آن چودہ جلدوں میں ،لمعۃالانوار،اصحاب الیمین ،المجالس المرضیہ ، امامت وملوکیت ،اسلامی سیاست ،معیار شرافت ،اسلامی فکر،انوارشرافت ،انوارشریعت ، نمازامامیہ، احبابِ رسول ﷺ۔ (سوانحی معلومات آغاقربان علی ایڈووکیٹ نے فراہم کیں) 

مدرسہ فیض القرآن

گل روڈ پرواقع مدرسہ حنفی دیوبندی مسلک کاہے۔ ابھی ابتدائے کارہے تاہم مولاناحافظ احسان الحق کی شبانہ روزکوششوں سے مدرسہ پھیلنے پھولنے کے خاصے امکانات نظرآتے ہیں۔ مولاناموصوف یکہ و تنہا ۳۰ طلباء کوموقوف علیہ کے درجے تک تعلیم دیتے ہیں۔ یہ ان کابہت بڑاایثارہے ۔

مدرسہ احیاء العلوم 

نوشہرہ روڈ پرواقع مدرسہ احیاء العلوم حنفی دیوبندی مسلک کااہم مدرسہ ہے۔ اپنی وسعت کے لحاظ سے شہرکے بڑے بڑے دینی مدارس میں شمارکیاجاسکتاہے۔ مولاناامان اللہ خاں دینی جذبے سے سرشاراہل خیرکے تعاون سے سرگرم عمل ہیں۔ مولانامحمدواصل خاں اورحافظ حبیب اللہ تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں ۔

مدرسہ تفہیم القرآن

محلہ توحیدگنج میں قاری حافظ محمداسلم (نابینا)کے زیراہتمام مسلک حنفی دیوبندی کااہم مدرسہ ہے۔

مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث 

نوشہرہ روڈ پرمدرسہ تعلیم القرآن والحدیث مولاناعبدالعزیز راشدی کی زیرنگرانی خدمت دین کا فریضہ انجام دے رہاہے ۔

جامعہ عثمانیہ فیروز والا روڈ

جامع مسجد عثمانیہ سے ملحق فیروزوالاروڈپرجامعہ عثمانیہ حنفی دیوبندی مسلک کی ایک درس گاہ ہے۔ صاحبزادہ محمدداؤدیہاں کے مہتمم ہیں ۔مدرسہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ عصرحاضرکے تقاضوں کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے اسلام کے معاشی نظام پرزوردیاجاتاہے تاکہ معاشرے کے معاشی مسائل کاحل تلا ش کیا جا سکے اورنسلِ نوکوآگاہ کیاجاسکے کہ اسلام تمدن انسانی کے ہرپہلومیں رہنمااصول پیش کرتاہے ۔

جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیر آباد

جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآبادمیں حنفی بریلوی کی سب سے بڑی درس گاہ ہے۔مولانامحمدعبدالغفور ہزاروی نے ۱۹۴۰ ء میں اس کی بنیاد رکھی۔مولاناہزاروی اپنے دورکے ایک جیدعالم دین اورفن حدیث میں گہری بصیرت رکھنے والے مدرس تھے۔ وہ ایک شعلہ بارخطیب ،علم و حکمت کے بحر زخاراورنہایت قوی حافظے کے مدرسِ حدیث تھے۔ ان کی وفات پرعلمی حلقوں میں ایک بہت بڑاخلامحسوس کیاگیا۔ مولانا کی سیاسی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ وہ تحریک پاکستان کے ہراول دستے کے عظیم سپاہی تھے۔ مفتی عبدالشکورجوآج کل جامعہ کے مہتمم ہیں انہی کے خلف الرشید ہیں ۔نصاب درس نظامی ہے۔حفظ وتجویدکابندوبست بھی ہے۔ جہاں ۳۸ بیرونی اور۴۰ مقامی طلباء ہیں ۔درس نظامی میں ۱۰طلباء ہیں۔ مدرسے کی تعطیلات کے دوران دورہ تفسیرہوتاہے جس میں ۴۰،۵۰منتہی طالب علم شریک ہوتے ہیں ۔سالانہ بجٹ کوئی اسی ہزارروپے ہے۔ مفتی صاحب خود ہی فتوی جاری کرتے ہیں مگررجسٹرنہیں، تنظیم المدارس سے وابستگی نہیں۔ عمارت پانچ کمروں پرمشتمل ہے ۔ کتب خانے میں دوسوکے لگ بھگ کتابیں ہیں مزیدتوسیع کاعزم ہے ۔طلباء کے قیام وطعام کابندوبست مدرسے کے ذمے ہے جواہل خیراورحکومت کے زکوٰۃ فنڈ سے پوراہوتاہے ۔

ممتاز المدارس وزیر آباد

جی ٹی روڈ پرواقع مسلک شیعہ اثناعشریہ کاوزیرآبادمیں سب سے بڑامدرسہ ہے ۔مدرسے کی تاسیس جون ۱۹۷۸ء میں ہوئی۔ مہتمم سیدمحمدسبطین نقوی فاضل قم (ایران )ہیں۔ علامہ موصوف ایک فاضل نوجوان اور باعمل انسان ہیں دیگراساتذہ کے اسماء گرامی یہ ہیں :مولانا اخترعباس،حافظ سید منظور حسین، مولانا محمد اصغر یزدانی۔ 

طلباء کی تعداد۲۳ہے۔ نصاب آٹھ سال کاہے ۔مدرسے کایک شاندارہال ہے۔ جہاں تقاریب کا اہتمام کیاجاتاہے ۔گاہِ گاہِ ایران کے مشاہیرعلماء بھی یہاں آکرخطاب فرماتے ہیں۔ مثلاًجنوری۱۹۸۳ء میں حسن طاہری خرم آبادی تشریف لائے ۔دارالاقامہ کے نوکمرے ہیں ۔ امتحان زبانی و تحریری دونوں طرح سے ہوتا ہے ۔فتویٰ جاری کیا جاتاہے مگررجسٹرنہیں ۔سالانہ بجٹ کم وبیش ۵۰ہزارہے ۔اصول فقہ اورفلسفہ میں تخصیص کی جاتی ہے ایک مختصر مگر نہایت شاندارکتب خانہ تدریسی ودرسی ضروریات کوپوراکرتاہے ۔

مدرسہ محمد یہ قلعہ دیدار سنگھ

یہ مدرسہ موضع قلعہ دیدارسنگھ میں شیخ الحدیث قاضی نورمحمدفاضل دارالعلوم دیوبند نے ۱۹۲۳ء میں قائم کیا۔ یوں یہ ضلع کانہایت قدیم مدرسہ ہے۔مرحوم۴۰ برس تک خدمت دین کرکے اس جہان فانی سے ۱۹۶۲ء میں رخصت ہوگئے۔ وہ ایک سادہ طبع عالم باعمل تھے ۔علم ودانش کے موتی رولتے اورتقوی وپرہیزمیں سرمست رہتے ۔ ان کے بعدان کے خلف الرشیدقاضی عصمت اللہ نے مدرسے کابار اپنے ذمے لیا۔مدرسے کامسلک حنفی دیوبندی ہے۔ اولیائے عظام کے سلاسل اربعہ میں نقشبندی مجددی کی پیروکاری کی جاتی ہے ۔ درس نظامی کی تدریس ہوتی ہے ۔دورہ حدیث تک تکمیل ہوتی ہے۔ مدرسہ دور افتادہ علاقے میں علم و اخلاق کی شمع فروزاں ہے ۔

دارالعلوم سلطانیہ رضویہ گکھڑ

گکھڑمیں جی ٹی روڈ پرجانب مشرق واقع ہے ۔اگست۱۹۶۸ء میں مدرسہ کی تاسیس عمل میں آئی۔ حافظ محمد حمیداختراس کے بانی ہیں ،جو سراج العلوم گوجرانوالہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ وہ مشائخ میں قادری ،سروری سلطانی سلسلے کے پیرو کارہیں۔ حفظ وکتابت کاشعبہ بھی ہے۔ ۳۵،۴۰کے درمیا ن طلبہ کی تعدادہوتی ہے۔ اساتذہ کی تعدادتین ہے۔ مولاناموصوف عرصہ درازسے ایک دینی پرچہ بھی جاری کرتے ہیں جس میں تصوف کا رنگ غالب ہے۔ سالانہ بجٹ کوئی ۲۰ہزارکے لگ بھگ ہے ۔

جامعہ عربیہ ہمدانیہ کامونکے

کامونکے میں سب سے پرانامدرسہ ہے جو۱۹۴۴ء کے لگ بھگ قائم ہوا۔ مسلک حنفی دیوبندی ہے۔ حافظ عبدالشکور فاضل دارالعلوم دیوبند نے مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔ وہ ایک زمانے تک علم وحکمت کی روشنی پھیلاتے رہے۔ وہ اپنی وفات فروری۱۹۸۱ء تک اس کے مہتمم اور صدرمدرس رہے۔ وہ صدربلدیہ کامونکے، کونسلر اور حزبِ اختلاف کے لیڈربھی رہے۔ ان کی شخصیت نہایت متوازن اورعلمی حیثیت مسلم تھی۔تازیست وہ مسجد کے خطیب بھی رہے ۔اس وقت درس نظامی نہیں پڑھا یاجاتا۔اس وقت تین مدرسین ہیں۔ حافظ احمددین (صدرمدرس)،حافظ عبدالرحمن، حافظ محمدسلیمان۔ مولاناعبدالرؤف فاروقی خطابت کے فرائض نجام دیتے ہیں۔ مدرسے نے حافظ مفتی محمدامین فاضل جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ مبعوث سعودیہ (مچاکوسٹ کینیا)جیسے فاضلین پیداکیے ہیں ۔بجٹ ۷۵ہزارروپے سالانہ ہے ۔

مدرسہ اسلامیہ جامع مسجدحیدری کامونکے

کامونکے میں حنفی بریلوی مسلک کانہایت اہم مدرسہ ہے ۔جنوری ۱۹۷۴ء میں قائم ہوا۔الحاج لطیف احمد چشتی مدرسے کے بانی ہیں۔ چشتی صاحب موصوف کامونکے کی اہم سیاسی وسماجی شخصیت سے متعارف ہیں۔ 

اساتذہ کے اسمائے گرامی یہ ہیں:حاجی نواب دین،حافظ محمدناصر،حافظ شیرمحمد، حافظ محمد اشرف، مولانا رب نواز ۔ مدرسہ پندرہ کمروں پرمشتمل ہے۔ دارالاقامہ کے چارکمرے ہیں ۔درس نظامی میں دس طالب علم ہیں، باقی حفظ وتجویدو قرأت اورناظرہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔فتوی جاری نہیں کیاجاتا۔لائبریری کوئی ایک ہزارکتب پرمشتمل ہے ۔ مدرسہ تنظیم المدارس سے منسلک ہے ۔

مدرسہ حنفیہ رضویہ اکرم العلوم کامونکے

مدرسہ جی ٹی روڈ سے جانب مغرب واقع ہے۔ مدرسہ کاافتتاح۱۹۷۸ء میں ہوا۔مولانامحمداکرم رضوی فاضل مدرسہ سراج العلوم (گوجرانوالہ) اس مدرسے کے بانی اورمہتمم ہیں۔ عمارت چارکمروں پرمشتمل ہے اور طلبہ کی تعدادکوئی ۱۵۰ہے۔ درس نظامی سردست نہیں پڑھا یاجاتا۔ مولاناابوداؤدمحمدصادق مدرسے کے اعزازی نگران ہیں۔ مولانامحمداکرم ایک شعلہ نواخطیب اورباعمل نوجوان ہیں ۔

دارالعلوم حبیبیہ رضویہ کامونکے

منڈیالہ روڈ حنفی بریلوی مسلک کامدرسہ ہے جس میں شعبہ حفظ وتجویدمیں ۷۰طالب علم ہیں ۔مولانامفتی حبیب اللہ مدرسے کے بانی اورمہتمم ہیں۔ مفتی صاحب ایک متقی اورعالم باعمل انسان ہیں ۔درس نظامی کے طلباء کی تعدادساٹھ ہے۔ ۱۲اساتذہ فرائض تعلیم اداکررہے ہیں ۔

جامعہ ریاض المدینہ( زیرتکمیل )

جامعہ ریاض المدینۃایک ایسی عظیم الشان دینی درس گا ہ ہے جوابھی تعمیرکے مراحل سے گزررہی ہے۔جی ٹی روڈ پرپانچ ایکڑرقبہ پرتعمیرہونے والااہل سنت وجماعت کایہ مرکزی دارالعلوم علوم قدیمہ و جدیدہ کا مرکز ہو گا۔ انجمن مرکزی دارالعلوم کے شائع کردہ پروگرام کے مطابق اس دارالعلوم میں میٹرک سے لے کرایم اے ایم ایس سی اورحفظ قرآن سے لے کرمکمل درس نظامی تک تعلیم دی جائے گی۔ اس کے علاوہ فنی اورپیشہ وارانہ تعلیم کااہتمام بھی کیاجائیگا۔علوم دینی کے تحصیل کے ساتھ ساتھ علوم دنیوی کی تحصیل کا انتظام اس خاطر کیا جا رہا ہے کہ جو علماء یہاں سے فارغ التحصیل ہوکرنکلیں وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسرکرنے کے لیے روزگارکے معقول ذرائع تلاش کرسکیں۔ علوم دینی و دنیوی کے امتزاج سے جوعلماء یہاں سے فارغ ہوں گے وہ عہدحاضرکے جدید علمی وفکری تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہوں گے اورخدمتِ ملک ودین کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کرسکیں گے۔ اس طور وطن عزیزمیں اسلام کی ترویج وتبلیغ کی رفتارتیزسے تیزترہوجائے گی۔

اس زیرتکمیل درس گاہ میں مجوزہ نقشے کے مطابق جوعمارات ابھررہی ہیں ان میں مہتم بالشان مسجد، لائبریری ، دفاترانتظامیہ،علوم دینی کے لیے آٹھ بلاک ،علوم دنیوی کے لیے دوبلاک ،۴۰۰طلباء کی رہائش کے لیے دو منزلہ ہوسٹل، شعبہ تصنیف و تالیف،ایک بڑاہال،اورشعبہ تبلیغ خاص طورسے قابل ذکرہیں۔ مختلف بلاکوں کے درمیان خوب صورت لان اس درس گاہ کی خوب صورت اورتزئین میں اضافے کاموجب بنیں گے ۔

اس کے سرپرست اعلیٰ الحاج محمداسلم بٹ میئرمیونسپل کارپوریشن ہیں جبکہ انجمن انتظامیہ کے صدرحاجی معراج دین ہیں۔ انجمن مرکزی دارالعلوم باقاعدہ طورپررجسٹرڈہے اورشہرکے تمام جیدعلماء اس دارالعلوم کی سرپرستی کررہے ہیں ۔ جسٹس پیرمحمدکرم شاہ آف بھیرہ شریف مسلسل انتظامیہ کواپنے عملی وفکری تعاون سے نوازرہے ہیں ۔

دارالعلوم تحفظ ختم نبوت کنگنی والا

یہ مجوزہ دارالعلوم چارکنال کے رقبے پرجی ٹی روڈ سے مغرب کی جانب آبادی کے کچھ اندرجانے والی شاہراہ پرواقع ہے۔دارالعلوم کی عمارت زیرتعمیرہے ملحقہ مسجدکی تکمیل ہوچکی ہے ۔مسجد سے ملحق چارکمرے ہیں۔ ساتھ ہی ۲۲ عدد دکانوں پرمشتمل ایک مارکیٹ ہو گی تاکہ مدرسے کے مصارف کا بندوبست ہو سکے۔ یہاں درس نظامی کی تعلیم دی جائے گی مگرخصوصی مطالعہ سرور کائنات کی ختم المرسلینی کے پہلوکاہو گا۔یوں یہ دارالعلوم پورے علاقے میں اپنی نوعیت کاواحدادارہ ہو گاجوختم نبوت کے تخصص کے ساتھ تعلیم دے گا۔ 

ادارہ کی سرپرستی مولاناخان محمدصاحب کندیاں نے قبول فرمائی ہے ۔دارالعلوم کے لیے جگہ موضع کھیالی کے ایک زمیندارحاجی محمدیوسف علی قریشی نے وقف کی۔ اس کاسنگ بنیادبھی مرحوم نے خودہی رکھا۔حافظ نذیراحمدبالفعل مدرسے کے مہتمم ہیں ۔اس وقت قرأت وناظرہ وحفظ کاسلسلہ جاری ہے اورطلبہ کی تعداد۱۰۰کے لگ بھگ ہے۔مرحوم حاجی یوسف علی قریشی ہاشمی نہایت درددل رکھنے والے اورسرورکونین ﷺ کی ختم المرسلینی پرجان تک نچھاورکرنے والے انسان تھے۔ موصوف سیدعطاء اللہ شاہ بخاری ،چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین اورماسٹرتاج الدین انصاری اوردوسرے زعماء احراراورشمع ختم نبوت کے پروانوں کے محبوب نظرتھے ۔

ان مدارس کے علاوہ بھی سینکڑوں مدارس ہیں جوعلم وعمل کے مینارہ ہائے نورہیں ۔طوالت کے پیش نظر ان مدارس کے منتظمین سے معذرت کے ساتھ ہم چندایک کے محض نام گنوانے پراکتفاء کرتے ہیں:

  • مدرسہ مجددیہ لاثانیہ رضویہ علماء العلوم گکھڑ
    ناظم اعلیٰ مولاناغلام نبی 
  • مدرسہ غوثیہ نقشبندیہ گکھڑ
    مہتمم سیدمحمدحسین شاہ گردیزی
  • مدرسہ اسلامیہ حافظ آباد
    حکیم نوراحمدیزدانی 
  • مدرسہ ضیاء الرسول غوثیہ رضویہ کامونکے
    حاجی محمدشریف سابق ہیڈماسٹرکامونکے
  • مدرسہ دارالتوحیدمنڈیالہ تیگہ
    مولانامحمدعبداللہ
  • مدرسہ سعیدیہ رضویہ برکات القرآن علی پورچٹھہ
    مولانامحمدسعید نقشبندی
  • جامعہ محمدیہ اہلسنت والجماعت علی پورچٹھہ
    ناظم محمداقبال نعمانی 
  • مدرسہ عربیہ قاسم العلوم ساروکی چیمہ
    حافظ محمدشفیع جالندھری 
  • مدرسہ اشاعت الاسلام کولہووالا
    مولاناامیرحسین
  • دارالعلوم فیض الاسلام تتلے عالی
    مولاناعلی احمدجامی 
  • جامعہ محمدیہ اہلحدیث نوشہرہ ورکاں
    مولانامحمداسحاق
  • دارالعلوم فاروقیہ نوشہرہ ورکاں
    مولاناعبدالرحمن شاکر
  • جامعہ عربیہ مسجدبوہڑوالی پنڈی بھٹیاں
    مولانافیض الرحمن
  • مدرسہ انوارالاسلام علی پورچٹھہ
    مولاناعبدالواحد
  • جامعہ قاسمیہ رتہ روڈ گوجرانوالہ
    مولاناقاری گلزاراحمد
  • جامعہ رضویہ قمرالمدارس جی ٹی روڈ گوجرانوالہ
    سیدمراتب علی شاہ 
  • دارالحدیث محمدیہ حافظ آباد
  • دارالعلوم الحیدریہ نوشہرہ ورکاں 
  • مدرسہ اشرفیہ پنڈی بھٹیاں
  • مدرسہ اسلامیہ عربیہ پنڈی بھٹیاں
  • مدرسہ عربیہ خیرالعلوم پنڈی بھٹیاں
  • مدرسہ اشرفیہ قرآنیہ حافظ آباد
  • دارالحدیث محمدیہ حافظ آباد
  • مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث سوہدرہ 
  • دارالعلوم منانیہ وزیرآباد

یہ ہے ایک اجمالی تذکرہ گوجرانوالہ کے دینی مدارس کا۔ان دینی مدارس کاوجود رشدوہدایت کاایک ایسا سرچشمہ ہے جہاں سے نوربھی ملتاہے اورسروربھی ،حضوری کی نعمتیں بھی عطاہوتی ہیں اورشعور کی رفعتیں بھی۔ اسلام اگرباقی ہے توانہی بوریہ نشینوں کے دم سے اوردین تمام ترمخالفانہ یورشوں کے باوجود اگرزندہ و تابندہ ہے توانہی فقیروں کے طفیل ،جوعلم دین کی تحصیل کوایک معاشی وسیلہ نہیں بلکہ فرض اورمقصد سمجھتے ہیں ۔یہی وہ اربابِ ہمت ہیں جن کے نزدیک علم بازارکی جنس نہیں بلکہ انسانیت کاجوہر،کردارکاحسن اورفرض کی پکارہے ۔ یہ لوگ تاریخ اسلامی کی تاباں روایات کے امین ہیں۔ تاریخ جانتی ہے کہ امام ابوحنیفہ ؒ کاذریعہ معیشت بزازی تھا، علم نہیں ۔امام معروف کرخی پاپوش سازتھے مگراپنے علم سے فکرو نظرکی گرہیں کھولتے چلے جاتے تھے۔ان عظمتوں نے علم کوعلم کے لیے حاصل کیا،دنیاکے لیے نہیں ۔وہ علمِ دین جوصرف معیشت کاذریعہ بن جائے اور فرض نہ رہے جنس کاسب سے زیادہ وقیع نہیں ہواکرتا۔

مولاناابوالکلام آزاد اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں :عربی تعلیم کوآج کوئی نہیں پوچھتاحتی کہ روٹی بھی اس کے ذریعے نہیں مل سکتی ۔ عربی مدارس کے طلباء اس کسمپرسی میں عربی تعلیم ہی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردیتے ہیں۔ یہ جذبہ بجزعلم پرستی اوررضائے الٰہی کے اورکوئی دنیوی غرض نہیں رکھتااور اس لیے دنیابھرمیں علم کوعلم کے لیے اگرپڑھنے والی جماعت ہے توعربی مدارس کی جماعت ہے ۔

ان مدارس کے بارے میں علامہ اقبال کی آرزو یہ ہے:

’’اگرہندوستان کے مسلمان ا ن مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے توبالکل اس طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سوسال کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈراورالحمراء اور باب الاخوتین کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروؤں اوراسلامی تہذیب کے آثارکاکوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرے ،تاج محل اوردلی کے لال قلعے کے سوامسلمانوں کی آٹھ سوبرس کی حکومت اوران کی تہذیب کاکوئی نشان نہیں ملے گا‘‘۔

تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جنوری ۲۰۱۸ء)

تلاش

Flag Counter