’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح کا اصل پس منظر

پروفیسر غلام رسول عدیم

پیشتر اس کے کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ بنیاد پرستی کیا ہے، اس انگریزی لفظ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے جس کا یہ ترجمہ ہے۔ بنیاد پرستی انگریزی لفظ Fundamentalism کا ترجمہ ہے۔ اس لفظ کے سامنے آتے ہی اصل لفظ کی کئی جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ لفظ Fundus کے معنی اناٹومی میں ہیں اساس، عضو، آنکھ کی گہرائی، وہ حصہ جس میں کوئی عضو واقع ہو۔ اصلاً یہ علم تشریح الاعضا (Anatomy) سے متعلق ہے اور اس کے معنی مقعد، قاعدہ، اساس یا پیندہ کے ہیں۔ اسی سے اسمِ صفت Fundamental بنا، جس کے معنی ہیں بنیادی، اساسی، اولیہ، اولی۔

چونکہ دورِ حاضر میں مختلف علمی سطحوں پر علوم و فنون کے ہزاروں دھارے بہ رہے ہیں اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور تعلیم گاہوں میں علم کی ہزاروں شاخیں زیرِ تدریس ہیں، لہٰذا ایک ایک لفظ مختلف علوم میں مختلف لغوی و اصطلاحی معانی دے رہا ہے۔ لفظ Fundamental بھی اپنے اشتقاقی معنی کو قائم رکھتے ہوئے ہر علم میں معنی کے خاص انعکاس لیے ہوئے ہے۔ منطق میں Fundamental Beliefs کے معنی یقینیاتِ اولیہ کے ہیں تو طبیعیات میں Fundamental Colours (اصلی رنگ)، Fundamental Quantities (بنیادی مقداریں) اور Fundamental Units (بنیادی اکائیاں) کے لیے مستعمل ہیں۔ صوتیات میں Fundamental Tones کے معنی بنیادی سُر کے ہیں تو مذہب میں Fundamentals ارکانِ دین کے لیے بولا جاتا ہے۔

جب ہم کہتے ہیں کہ Fundamentals of Islam تو اس سے مراد لیے جاتے ہیں اسلام کے ارکانِ خمسہ یعنی کلمہ طیبہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس لیے کہ سرکارِ رسالت مابؐ نے انہی پانچ ارکان کو اساسِ دین قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:

بُنی الاسلام علیٰ خمسٍ شھادۃ ان لا الٰہ الا اللّٰہ و ان محمدا رسول اللّٰہ واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ والحج و صوم رمضان۔ (بخاری)

’’اسلام کی بنیاد (Fundament) پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز کا پورے اہتمام سے ادا کرنا اور (بشرط نصاب) زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان میں روزے رکھنا اور (بشرط استطاعت زاد راہ) حج خانہ خدا کی سعادت حاصل کرنا۔‘‘

Fundamental کو Ism کے لاحقے کی ترکیب کے ساتھ بمعنی نظریہ و عقیدہ لے لیا جاتا ہے۔ Fundamentalism کے معنی ہو گئے نظریۂ بنیاد، عقیدۂ بنیاد، مسلکِ بنیاد، بالفاظ دیگر بنیاد پرستی، بنیاد کے عقیدے سے وابستگی و چسپیدگی۔ یہی وہ بنیاد پرستی کا لفظ ہے جو Fundamentalism کے ترجمے کے طور پر کچھ عرصے سے ہمارے علمی، صحافتی حلقوں سے نکل کر اخباری دنیا میں عام ہو گیا۔ لفظی تحقیق کے بعد اس کی اصطلاحی توضیح پیش کی جاتی ہے۔

Fundamentalism (بنیاد پرستی) دراصل بیسویں صدی میں ایک مسیحی اصطلاح کے طور پر سامنے آئی جو ایک تحریک کی صورت میں پیش کی گئی۔ یہ تحریک مسیحی پروٹسٹنٹ فرقے کی متعارف کرائی ہوئی ہے۔ اس تحریک نے اس بات پر زور دیا کہ کتاب مقدس (Bible) ہر غلطی سے مبرا ہے۔ نہ صرف مسائل، عقائد اور اخلاق میں بلکہ ہر تاریخی پہلو میں بھی اس میں کوئی سقم نہیں۔ حتٰی کہ بائبل کے معتقدات اور امورِ غیبیہ مثلاً تخلیقِ انسانی، ولادتِ مسیح، مسیح کی آمدِ ثانی، دوبارہ حشر اجساد کے ضمن میں بائبل کا حرف حرف ہر شائبہ شک سے پاک اور صحت کے انتہائی معیار پر ہے۔ ابتدا میں اسی تحریک کو Fundamentalism کہتے تھے اور ان عقائد و ایمانیات پر جمے رہنے والے لوگوں کو Fundamentalist (بنیاد پرست) کہتے تھے۔ ہمارے ہاں جس حوالے سے یہ لفظ علمی حلقوں سے نکل کر عوامی، اخباری و اشتہاری حلقوں تک آ گیا ہے، اس کا پس منظر بالوضاحت ملاحظہ فرمائیے:

مغربی پس منظر

بنیاد پرستی (Fundamentalism) اپنے پس منظر کے اعتبار سے خالص مغربی اصطلاح ہے۔ یہ ایک تحریک کی صورت میں سامنے آئی۔ اس کی طرف زیادہ اعتنا اس وقت کیا گیا جب 1876ء میں بمقام Swamp Scott (امریکہ) بائبل کانفرنسوں کا آغاز ہوا۔ 1877ء میں بمقام نیویارک بائبل اجتماع ہوا۔ پھر نیاگرا میں ایک اہم کانفرنس ہوئی۔ فی الجملہ 20 سال کے عرصے میں مختلف بائبل کانفرنسیں منعقد ہوتی رہیں جن کے نتیجے میں بنیاد پرستوں نے پانچ اساسی نکات پر اتفاق کر لیا۔ وہ پانچ نکات جنہیں مسیحیت کے بنیادی عقائد کی حیثیت دی گئی، یہ تھے:

  • بائبل کا مکمل فیضان روحانی (الہامی) اور ہر غلطی سے مبرا ہونا۔
  • مسیحؑ کی الوہیت۔
  • مسیحؑ کی بن باپ کے ولادت۔
  • عقیدہ کفارہ۔
  • رفع جسمانی اور دوبارہ آمد مسیحؑ۔

آخری نکتے کو اس زور سے پیش کیا گیا کہ Jessus is coming کے عنوان سے ایک کتابچہ 20 لاکھ کی تعداد میں امریکہ میں اور 10 لاکھ کی تعداد میں بیرون امریکہ تقسیم کیا گیا۔ The Fundamentals کے عنوان سے 12 کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا گیا جس کے اخراجات کی ذمہ داری دو بھائیوں Lyman اور Milton Stewart نے اٹھائی۔ اس ضمن میں انہوں نے لاس اینجلز میں بائبل انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا۔ اول اول امریکہ اور کینیڈا میں اس تحریک کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ اس تحریک کے ذریعے مسیحیت کی قدامت پسندانہ سوچ پر زور دیا گیا۔

جب انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کے آغاز میں جدیدیت کی لہر چلی تو اس لہر کے مقابلے میں قدامت پرستی کا روپ دھار لیا۔ جب دور جدید میں انتقاد عالیہ Higher Criticism کو رواج ملا تو علمائے مسیحیت میں سے کچھ لوگوں نے بائبل کا تاریخی و ادبی پہلوؤں سے بھی مطالعہ کیا، جس کے نتیجے میں بائبل پر اعتمادِ کُلّی کی چولیں ڈھیلی ہوتی نظر آنے لگیں۔ جب ڈارون کا نظریہ ارتقا مقبول ہوا تو پوری بنی نوع انسان کی ثقافتی و تمدنی اقدار کو اسی عینک سے دیکھا جانے لگا۔ مسیحیت کی بھی اسی زاویہ نگاہ سے تعبیر کی جانے لگی۔ جرمنی کے فلسفی کانٹ (Kant) کے خیالات نے ایک عالم میں ہلچل مچا دی۔ سائنسی طریق فکر اور سائنسی طریق عمل استعمال کیا جانے لگا۔ عوام پر بائبل کی وہ گرفت نہ رہی جو پہلے تھی۔ اگرچہ اکثریت مسیحؑ کے ابن اللہ (نتیجتاً خدائی صفات کا حامل) ہونے کا اقرار تو کرتی رہی مگر پوری بائبل کو کلام الٰہی ماننے سے ہچکچانے لگی۔ Newton Clarke نے صاف کہہ دیا کہ بائبل کو اسی حد تک صحیح ہونے کی سند دینی چاہیے جس حد تک وہ سائنس اور تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے۔

1892ء میں نیویارک میں A. Briggs پر بے دینی کا مقدمہ چلایا گیا جو بائبل پر بے یقینی کے حامیوں کے لیے سنگ میل تھا۔ یہ شخص Union Theological Seminary میں ممتاز عالم اور محقق پروفیسر رہا تھا۔ اگرچہ اسے دہریت کے الزام سے تو بری کر دیا گیا مگر اسے Presbeterian کلیسا سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا۔

یوں بنیاد پرستی دورِ جدید کی آزادیٔ فکر (Liberalism)  کے خلاف ایک جارحانہ مگر قدامت پرستانہ پروٹسٹنٹ تحریک کی حیثیت سے ابھری۔

1941ء میں بنیاد پرستوں نے American Council of Christian Churches کے قیام کے ساتھ سخت جارحانہ انداز اختیار کر لیا، تاہم جب ان رجعت پسندوں کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ ہوئی تو راہِ اعتدال اختیار کرنے کے بارے میں سوچا گیا۔ 1942ء میں ایک معتدل طریق کار کی تنظیم بنائی گئی جس کا نام The National Association of Evangelicals رکھا گیا۔ یہ ایک قسم کی نو بنیاد پرستوں Neo Fundamentalists کی جماعت تھی جو اپنے عقائد میں سخت اور بے لچک تھے مگر طریق کار میں قدرے نرم تھے۔ 1950ء کے لگ بھگ دوسرے یورپی ممالک میں بنیاد پرستی کا چرچا ہونے لگا۔ اس کا ایک سبب تو Evangelicalism (انجیل پرستی) تھا، دوسرا مشنری جذبہ۔ (یاد رہے کہ انجیل پرست متی، لوقا، مرقس اور یوحنا کی اناجیل اربعہ کو مکمل طور پر الہامی جانتے تھے)۔ 

اب اس پس منظر میں بنیاد پرستی کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مسیحیت جدید نقطۂ نگاہ اور عصری انتقادی کاوشوں کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں اپنے خلاف یورشیں خیال کر کے ان کا مقابلہ کرنے لگی۔ یوں مسیحیت بنیاد پرستی کے نام پر انہی پانچ نکات کو اساسِ معتقدات بنا کر آزادیٔ فکر و عمل کا راستہ روکنے کے لیے کھڑی ہو گئی۔

آج بنیاد پرستی اپنے لغوی مفہوم تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کا طرز فکر کام کر رہا ہے جس نے اسے ایک اصطلاح بنا دیا ہے اور اصطلاح بھی طعن آمیز۔ ایک زمانے میں جب کہ ابھی بنیاد پرستی (Fundamentalism) کا لفظ اصطلاحاً ایجاد بھی نہیں ہوا تھا، مسیحیت کے علمبرداروں نے عقل و فطرت کی پرزور مخالفت کی۔ اصل میں یہ بنیاد پرستی کا اولین خاکہ تھا۔ یہ خاکہ پندرہویں صدی عیسوی میں تیار ہوا جب Renaissance کے ذریعے سے یونانی علوم و فنون کی ترویج ہوئی۔ 1453ء میں استنبول کے ترکوں کے قبضے میں چلے جانے سے کئی یونانی عالم بھاگ کر اٹلی پہنچے۔ 1477ء میں کیکسٹن نے انگلستان میں پہلا چھاپہ خانہ ایجاد کیا تو کتابیں عام ہاتھوں تک پہنچیں جس سے پورا یورپ علم کی روشنی سے منور ہو گیا۔ جون کولٹ (John Colet)، ٹامس مور (Thomas Moore)، ارسمس (Erasmas) جیسے علماء نے یورپ کی آنکھیں کھول دیں۔ اس کے نتیجے میں کچھ عرصہ بعد تحریکِ اصلاحِ مذہب (Reformation) سامنے آئی جس سے مسیحیت دو فرقوں میں بٹ گئی۔ پروٹسٹنٹس (Protestants) اور رومن کیتھولکس (Roman Catholics)۔

حق یہ ہے کہ پادریوں کی اخلاقی گراوٹ اور مذہبی توہم پرستی، راہب (Monks) اور راہبات (Nuns) جن کا افسر (Abbot) کہلاتا تھا، اس قدر پستی میں اتر گئے تھے کہ ردعمل کے طور پر جرمنی سے اٹھنے والی اصلاحِ کلیسا کی تحریک نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میری ٹیوڈر (1553-1558) کے عہد میں جدید ذہن رکھنے اور اندھادھند پیروی سے روکنے والوں پر بے حد سختیاں کی گئیں۔ کوئی تین سو پروٹسٹنٹ زندہ آگ میں جلا دیے گئے۔ کرینمر (آرچ بشپ آف کنٹربری)، بشپ رڈلے اور لیٹیمر جیسے روشن فکر علماء کو روشن فکری کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔ علمبردارانِ مسیحیت نے جدید فکری ترقی اور علمی پیشرفت کے آگے بہت بند باندھنے کی کوشش کی۔ جمود پسندوں نے عیش پرستی کو شعار بنا لیا، مذہب کو جاہ طلبی، زراندوزی اور ہوس رانی کا وسیلہ بنا لیا۔ مذہبی تقریبات  عشرت انگیز تفریحی جشنوں کی صورت اختیار کر چکی تھیں۔ مذہبی ضیافتیں بدچلنی کی تماشاگاہیں بن گئیں اور مرنے والوں کی برسیوں پر میلے لگتے۔ مجسموں کی پرستش بڑی ڈھٹائی سے کی جاتی۔

پادریوں نے ایسے ایسے فروعی مسائل پر اپنی توانائیاں صرف کر دیں جن سے فرقہ آرائی کو اس قدر ہوا ملی کہ عوام الناس کی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ چند زیربحث مسائل یہ تھے:

(ا) حضرت مسیحؑ کا پیشاب پاک تھا یا ناپاک۔

(ب) مائدہ آسمانی میں روٹی خمیری تھی یا فطیری۔

(ج) خدا اور مسیحؑ متحد الماہیت ہیں یا مشترک الماہیت۔

یہی وہ مذہب تھا جس نے انسانوں کو جمود زدہ کر کے رکھ دیا، علمی و تمدنی ترقی کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔

  • کوپر لیکس اطالوی ہیئت دان (1473-1543) کو زمین کی گردش ثابت کرنے پر ذلیل و خوار کر کے اپنے انجام کو پہنچایا گیا۔
  • برونو اطالوی ماہر فلکیات (1548-1600) کو، جو کوپر لیکس کا حامی تھا، قید و بند کی سختیوں کے ساتھ دھیمی آنچ سے ہلاک کر دیا گیا۔
  • گلیلو اطالوی ہیئت دان () کو جدید فلکیاتی نظریات کی بنا پر ’’مقدس محکمہ احتساب‘‘ نے ہمیشہ کے لیے جلاوطن کر دیا۔

ان مذہب کے ٹھیکیداروں نے مذہب کو اس قدر ناکارہ بنا کر رکھ دیا کہ وہ علمی و تمدنی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ چونکہ علم و فن سے فرسودہ مذہبی خیالات بھی معرضِ خطر میں آتے تھے اور مذہب کا سارا فلسفہ اخلاق بھی ان کی زد میں تھا، لہٰذا علم و فن سے ہی انکار مذہبی لوگوں کا طرۂ امتیاز بن گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ مذہب مسیحیت نے معاشرتی و معاشی کمزوریوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ طبقاتی کشمکش کی پشت پناہی ہوئی۔ گیارہویں اور بارہویں صدی میں مغربی یورپ میں تقریباً نصف جاگیردار چرچ کے نمائندہ تھے۔ جاگیرداری کو زوال آیا تو سرمایہ داری نے سر اٹھایا۔ اب سرمایہ دار اور مذہبی رہنما متحد ہو کر عوام کو لوٹنے لگے۔ یوں مذہب نے ایک طرف جاگیردارانہ ذہنیت کی پیٹھ ٹھونکی اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نقطہ نگاہ کی پشت پناہی کے ساتھ عوام اور بادشاہ کی جنگ میں بادشاہ کا ساتھ دیا۔

یہی وہ پس منظر تھا جس میں مذہبی اجارہ داروں کو بنیاد پرست کہنے لگے۔ یہ بنیاد پرستی یورپی معاشرہ میں جامد اور ناکارہ مسیحی نقطہ نظر کی پیداوار تھی۔ اس کے مقابل میں اسلام کا ماضی علمی ترقیوں اور فنی تحقیقات میں روشنی کے سرچشمے ابالتا اور دل و نگاہ کو اجالتا ہے۔ یہاں ایک دور میں جو شخص عربی زبان نہیں جانتا تھا، علومِ طبعی پر دسترس ہی نہیں حاصل کر سکتا تھا۔ کوپر لیکس سے کہیں پہلے زرقالی نے حرکتِ زمین کا نقطہ نظر پیش کیا۔ (ابو اسحٰق ابراہیم بن یحیٰی زرقالی اندلسی قرطبی (1029-1087) اپنے دور کا سب سے بڑا منجم تھا۔ ابن صاعد کے ساتھ ٹولیڈو (اسپین) میں اصولِ جداول بنائے جنہیں زائچہ طلیطلی کہتے ہیں۔ ایک نئی اصطرلاب ایجاد کی جسے صفیحہ زرقالی کہتے تھے)۔ کسی عالم نے اس کی تردید نہیں کی۔ ابوالہیثم (960-1039) اور جابر بن حیان (متوفی 815) نے طبعی سائنسوں میں بے مثال کارنامے انجام دیے۔

آج مسیحیت کے ظالمانہ جمودی دور سے مستعار لے کر بنیاد پرستی کی اصطلاح مسلمانوں پر چسپاں کی جا رہی ہے۔ اس سارے ڈرامے کے پیچھے امتِ مسلمہ کی آزاد ریاستوں کے عوام الناس کو عموماً اور مغربی ممالک کی مسلم اقلیتوں کو خصوصاً اسلام سے برگشتہ کرنے کی مکروہ سازش ہے۔ مغربی لابیاں مسلمانوں کو بنیاد پرست کہہ کر ان پر پھبتی کستی ہیں کہ ماضی کا پادری مولوی کے روپ میں پھر زندہ ہو رہا ہے۔ یہ علم کا دشمن ہے، حکمت کا معاند ہے، سائنسی منہاجِ فکر کا قاتل ہے، جاگیرداری کا حامی ہے، برسراقتدار ٹولے کا پٹھو ہے، ایجاد و اختراع سے نفور ہے، اسے اسی طرح مسجد میں محصور کر دو جس طرح ماضی میں پادری کو چرچ میں بند کر دیا گیا تھا۔ دین کو مسجد سے باہر نہ نکلنے دو، مبادا کہ یہ عدالت، بازار، تعلیم گاہ، مارکیٹ، دفتر، دکان تک آ کر ہمیں ہمارے کوتکوں سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔

عوام الناس کے سامنے بنیاد پرستی (Fundamentalism) کو طعن آمیز کلمے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے سادہ لوح حضرات بڑی معصومیت سے سارے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر جوش میں کہہ اٹھتے ہیں کہ ہاں ہم تو بنیاد پرست ہیں، جس کی بنیاد ہی نہ ہو وہ ہوا میں کیسے جیے گا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مغرب مسلمانوں پر بنیاد پرستی کا لیبل لگا کر انہیں جاہل، عقل دشمن، ضمیر فروش، تاریکی پسند اور جمود زدہ قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ درآنحالیکہ وہ ایک متروک دین کا پیرو ہونے کی حیثیت میں روشنی کا منار، علوم و فنون کا دلدادہ، حکمت و فن کا شیدائی اور علم و عمل کا معیار ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی مسلمان کو بنیاد پرست کہنا اس کے لیے گالی ہے، اس پر الزام ہے، تہمت ہے۔ مسلمان نہ بنیاد پرست ہے نہ باطل پرست۔ نہ جمود پرست ہے نہ خود پرست۔ وہ صرف اور صرف خدا پرست ہے اور بس۔

عالم اسلام اور مغرب

(جولائی ۱۹۹۴ء)

تلاش

Flag Counter