مقالہ نگاری ایک نہایت وقیع فن ہے۔ اس میں مقالہ نگار حشو و زوائد اور طوالت اور اطناب سے بچ بچا کر نہایت اختصار و اجمال کے ساتھ اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ وہ لفظوں کے اسراف سے بچتا ہوا کم گوئی مگر نغز گوئی کے ساتھ اپنی بات کہتا ہے اور نہ صرف یہ کہ کہتا ہے بلکہ سے منواتا ہے۔ مقالہ ایک مدلل اور بادرکن تحریر ہوتی ہے۔ کسی موضوع پر کتاب لکھنا بھی ایک عمدہ کام ہے، مگر ایک جامع مقالے میں اپنے خیالات کو سمو دینا اور پھر اپنے نقطہ نظر کو بڑی چابک دستی سے دوسرے کے دل میں اتار دینا عمدہ تر کام بھی ہے اور مشکل تر بھی۔
اساطینِ علم و ادب نے اپنی سوچوں، حاصلِ مطالعہ اور وسعتِ علمی کو مقالہ نگاری کے ذریعے سے قارئین کے سامنے پیش کر کے بسا اوقات بڑی علمی اور دقیق کتابوں کے مطالعے سے بے نیاز کر دیا ہے۔ مقالاتِ شبلی، مقالاتِ سرسید، مقالاتِ حالی، مقالاتِ مولوی محمد شفیع، مقالاتِ شیرانی وغیرہ اس سلسلے کی نہایت عمدہ کڑیاں ہیں۔ بعض حضرات نے تو اپنے علمی سرمائے کو شعوری سطح پر جمع کر کے عوام کے لیے مفید مطلب بنا دیا ہے، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے جواہر ریزے ادھر ادھر بکھرے ہوتے ہیں، اگر کوئی جوہری ان کو اکٹھا کر کے نظر فروزی کا سامان کر دے تو ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن اگر وہ رشحاتِ قلم مختلف رسائل و اخبار ہی کی زینت رہیں تو مرور ایام کے ساتھ پردہ خفا میں چلے جاتے ہیں۔ یوں بسا اوقات وہ اہلِ علم کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ ایسے ہی جواہر ریزوں کا ایک مجموعہ کتابی صورت میں زیرنظر ہے۔ یہ مجموعہ مقالات حضرت العلام استاذ الاساتذہ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے گراں قدر مضامین پر مشتمل ہے۔ موصوف کے فرزند ارجمند حاجی محمد فیاض خاں سواتی مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم لائقِ تحسین ہیں کہ انہوں نے اپنے نامور بزرگوار کے قلم سے نکلے ہوئے ان جواہر پاروں کو مدون کر کے کتابی شکل دے دی۔ کتاب کے سرورق پر ’’حصہ اول‘‘ کی عددی ترکیب سے گمان غالب یہی گزرتا ہے کہ وہ مزید عرق ریزی کر کے رسائل و جرائد کی گرد جھاڑ کر بحرِ علم و حکمت کے اور بھی لولوئے لالا پیش کریں گے، اللہ تعالیٰ توفیق و ہمت ارزانی فرمائے۔
پیشتر اس کے کہ کتاب پر رائے زنی کروں، میں صاحبِ کتاب کے بارے میں ایک نہایت مختصر سا تعارف پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ صاحبِ کتاب کی شخصیت کتاب کے ورق ورق میں پرتوفگن ہے۔
حضرت العلام سید الاساتذہ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی عرصہ دراز تک مدرسہ نصرۃ العلوم کے مہتمم رہے ہیں۔ وہ اس دور کے ان فضلائے دیوبند میں سے ہیں جنہوں نے اکابر علمائے دیوبند سے کسب فیض کیا، برصغیر کی اس عظیم درسگاہ کے ممتاز اور نامور اساتذۂ دین و ادب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا، اور اس عظیم علمی روایت کے پاسباں کی حیثیت سے برسوں سے وہ مسجد نور گوجرانوالہ میں علومِ دینیہ کے روشنی کے بلند مینار کی طرح اپنے ماحول کو جگمگا رہے ہیں۔ وہ ایک جید عالمِ دین اور جید تر معلّمِ علومِ اسلامیہ ہیں۔ ان کی فقہی بصیرت قابلِ اعتماد اور تقوٰی قابلِ رشک ہے۔ بڑے صاف گو اور حقیقت پسند ہیں۔ ان کا قلم تحقیق و تدقیق کے میدان میں بڑے بڑے نام نہاد محققین سے کہیں آگے ہوتا ہے۔ تحقیق ان کے ذوق کا خاصہ ہے تو عبارت فکر و نظر ان کی طبیعت کا رجحان۔ ان کے مزاج شناس اس حقیقت سے خوب باخبر ہیں۔
زیر نظر مقالات اسی صاحبِ قلم کے رشحاتِ خامہ اور شذراتِ فکر و نظر کا نتیجہ ہیں۔ کتاب کو ایک نظر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ۳۱ مقالات پر مشتمل ہے، کچھ مضامین پہلی مرتبہ منصہ شہود پر آئے، کچھ ایسے ہیں جو مختلف بلند پایہ علمی و تحقیقی جرائد میں چھپ چکے ہیں، تفصیل یہ ہے:
# |
نام رسالہ | مقامِ اشاعت | مقالہ |
---|---|---|---|
(۱) | الانوار |
میر پور (آزاد کشمیر) | توحید کے چند دلائل ملتِ حنیفیہ کی حقیقت |
(۲) | تبصرہ | لاہور | انسانیت کے چار بنیادی اخلاق (اخلاقِ اربعہ) |
(۳) | ترجمانِ اسلام |
لاہور | حصولِ علم کے ضروری آداب علم اور اہلِ علم کا مرتبہ اسلام کے حدود و تعزیرات کا ولی اللّٰہی روشنی میں اجمالی تذکرہ |
(۴) | الحق | اکوڑہ خٹک |
حضرت امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ کی چند وصیتیں (عربی سے اردو ترجمہ) اسلام میں حلال و حرام کا تشریعی فلسفہ ملتِ حنیفیہ کی حقیقت مسئلہ توسل پر ایک نظر |
(۵) | خدام الدین |
لاہور | مقامِ صحابہؓ حضرت لاہوریؒ (حضرت لاہوریؒ نمبر) |
(۶) | الرحیم | حیدر آباد (سندھ) |
کائنات میں جانداروں کی تخلیق حکمتِ ولی اللہ کے شارحین شہروں کی بربادی اور آبادی کے اسباب تحقیق وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود (ترجمہ) وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود میں تطبیق مسئلہ وحدۃ الوجود میں راہِ اعتدال |
(۷) | الشریعہ | گوجرانوالہ | اللہ رب العزت کی زیارت کیسے ہو گی؟ خواب میں رسالتمآب کی زیارت حصولِ علم کے ضروری آداب علمے کہ راہِ حق ننماید جہالت است |
(۸) | عزمِ نو |
لاہور | ایضاً |
وہ مضامین جو پہلی مرتبہ اسی کتاب کی زینت بنے ہیں، درج ذیل ہیں:
(۱) رسول اللہ کی بعثت کے مقاصد،
(۲) اسلام کا نظامِ عبادت و نظافت،
(۳) معہدِ علم و دین، مرکزِ صدق و یقین دارالعلوم دیوبند،
(۴) تمدن کے بگاڑ کے اسباب اور ان کا علاج،
(۵) انسانیت کی تکمیل کے لیے اخلاقِ اربعہ کی اہمیت،
(۶) فرقہ ناجیہ اور نوابت میں فرق،
(۷) فتنے کس طرح پیدا ہوتے ہیں اور ان کا علاج،
(۸) بحالتِ صوم انجکشن کا حکم،
(۹) اکابر علمائے دیوبند اور نظریہ وحدۃ الوجود،
(۱۰) مودودی صاحب کے بعض نظریات دین کے لیے نقصان دہ ہیں،
(۱۱) باب الرؤیا۔
کتاب کو ایک نظر دیکھنے ہی سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ موصوف کی تحریروں میں ولی اللّٰہی فکر مرکزی نقطے کی حیثیت رکھتی ہے۔ موصوف نہ صرف فکرِ ولی اللّٰہی کے ایک سرگرم داعی ہیں بلکہ جس گہرائی و گیرائی کے ساتھ انہیں اس فکر پر دسترس حاصل ہے بہت کم لوگ اس سے بہرہ مند ہیں۔ ان مقالات کا ایک خصوصی وصف یہ ہے کہ تحریر کی شستگی کے ساتھ ساتھ یہ مصنف کی معنی آفرینی، علمی نبوغ اور فکری راستی کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ تحریر کہیں کہیں تو خالص عالمانہ ہے، خصوصاً ان مقالات میں جہاں مسئلہ وحدت الوجود اور مسئلہ وحدت الشہود زیربحث ہے۔ ایسے مقالات میں اگرچہ شعوری کوشش یہی رہی ہے کہ ان مفاہیم کو سریع الفہم بنایا جائے مگر موضوع کی نزاکت تقاضا کرتی تھی کہ زبان عامیانہ نہ ہو بلکہ عالمانہ ہو۔ یوں بعض اصطلاحات کوشش بسیار کے باوجود عسیر الفہم ہو گئی ہیں۔
حضرت صوفی صاحب اگرچہ ایک عظیم المرتبت مفسرِ قرآن ہیں، ان کے دروس کا سلسلہ جو معالمِ العرفان کی صورت میں سامنے آ رہا ہے ان کے تفسیری ذوق کا پتہ دیتا ہے، لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان کی تفسیر میں بھی فقہی رنگ نمایاں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا تفقہ فی الدین اور رسوخ فی العلم دورِ حاضر میں انفرادی شان رکھتا ہے۔ زیر نظر مقالات میں تحقیقی مقالات کے ساتھ ساتھ فقہی مقالات اپنے موضوع پر حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ’’بحالتِ صوم انجکشن کا حکم‘‘ اس ضمن میں آتا ہے۔
وہ دبستانِ دیوبند کے فیض یافتہ اور تربیت یافتہ ہیں، لہٰذا وہ اول تا آخر اس مکتبہ فکر کے نمائندہ ہیں۔ ان کی جملہ تحریریں اسی فکری جہت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ’’معہدِ علم و دین، مرکزِ صدق و یقین دارالعلوم دیوبند‘‘ ان کی اس عظیم درسگاہ و تربیت گاہ سے والہانہ شیفتگی اور گہری وابستگی کا مظہر ہے۔ حضرت صوفی صاحب کا ایک خاص مزاج ہے۔ وہ زہد و اتقا کے اس مقام پر فائز ہیں کہ بڑے بڑے نمائش کار پگڑی سنبھال کر ان کی منزلِ رفیعہ تک نگاہ ہی دوڑا سکتے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کے مصداق وہ دنیا و مافیہا سے اپنی خودگری، خودگیری اور خودداری کی وجہ سے بے نیاز ہیں۔ نہ نمائش، نہ ریا، نہ تمنائے داد و دہش۔ تحقیق و تدقیق، علمی اندازِ فکر، فقہی تیقن، اور سب سے بڑھ کر قرآن مجید سے بے پناہ وابستگی ان کی سیرت کے محامد و محاسن ہیں۔
زیر بحث کتاب فی الجملہ اہلِ علم کے لیے نہایت کارآمد مواد پیش کرتی ہے اور عامۃ الناس کے لیے بھی بہت حد تک مفید ہے۔ تاہم چند باتیں جو دورانِ مطالعہ میں مجھے کھٹکتی ہیں وہ اگرچہ اس قدر لائقِ اعتنا تو نہیں مگر اس پائے کے جید عالم کی تحریر اگر ان فروگزاشتوں سے پاک ہوتی تو اور اچھا ہوتا۔ جہاں تک فکری سطح کا تعلق ہے، کتاب اس مقام پر ہے کہ اسے روشنی کا مینار کہنا چاہیے یا نشانِ منزل، مگر کسی مفہوم کو جو لباس پہنایا جائے وہ بھی اگر معنی کے قد پر راست آئے تو تحریر شاندار بھی ہو جاتی ہے اور جاندار بھی۔ اکثر لغزشیں تو وہ ہیں جن کا حضرت العلام سے کوئی تعلق نہیں مثلاً سہوِ کتابت یا پروف ریڈر کے کھاتے میں ڈالنی چاہئیں، چند ایک کی نشاندہی کرتا ہوں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں غلط نامہ لگا لیا جائے۔
ص ۳۲۳ پر لفظ معتزلہ کو متزلہ لکھا گیا ہے۔
ص ۴۹ پر فی الیقظہ کو فی الیقضہ لکھا گیا ہے۔
ص ۱۰۹ پر قطب الرحی کو قطب الرجی لکھا گیا ہے۔
ص ۳۶۲ پر بے تکیف، بے تکلیف چھپ گیا ہے۔
ص ۲۳۱ پر خودرو کو خوددار لکھا گیا ہے۔
بعض مصرع وزن سے خارج ہیں یا غلط لکھ دیے گئے ہیں۔ یہی حال بعض اشعار کا ہے، اگرچہ بعض اشعار نہایت برمحل اور پرتاثیر ہیں، مثلاً ص ۹۸ پر یہ عربی شعر جو دارالعلوم کے اہلِ علم و نظر کے بارے میں ہے، بار بار گنگنانے کو جی چاہتا ہے ؎
اما الخیام فانھا کخیامھم
واری رجال الحی غیر رجالھا
ص ۹۰ پر ’’علمے کہ راہِ حق ننماید جہالت است‘‘ کو ’’علم کہ راہ حق ننماید‘‘ لکھا گیا ہے اور ص ۹۳ پر راہِ حق کو راہ بحق کر دیا گیا ہے۔
ص ۷۹ پر ’’اے از خود گریختہ‘‘ والا شعر غلط ہے۔ ’’اے کہ‘‘ زائد ہے، صحیح مصرع یوں ہے ’’از خود گریختہ اشیا چہ می جوئی‘‘۔
ص ۲۴۸ پر ہمہ آفاق کو ہمہ آفاقہا لکھا گیا، جو عروضی طور پر وزن سے باہر ہو جاتا ہے۔
ص ۱۳۰ پر ’’اسلام کے قانون حدود و تعزیرات کا ولی اللّٰہی روشنی میں اجمالی تذکرہ‘‘ کا عنوان اگر ’’اسلام کے قانونِ حدودِ تعزیرات کا فکرِ ولی اللّٰہی کی روشنی میں اجمالی تذکرہ‘‘ ہوتا تو میرے خیال میں بہتر ہوتا۔
ص ۴۸ پر ’’ممکن ہو سکتا ہے‘‘ روزمرہ کے مطابق درست نہیں، امکان اور سکنا ہم معنی ہیں۔ ’’ممکن ہے‘‘ یا ’’ہو سکتا ہے‘‘ درست ہے۔
ص ۸۰ پر اقبال کا شعر غلط نقل کیا گیا ہے، صحیح شعر یہ ہے ؎
اس دور میں سب مٹ جائیں گے ہاں باقی وہ رہ جائے
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے
(بانگِ درا، ظریفانہ کلام)
ص ۱۱۸ اور ص ۱۷۰ پر اشعار سے پہلے مصرعے کی علامت ؏ استعمال کی گئی ہے جو درست نہیں۔
ص ۲۴۲ پر ’’مرفوع احادیث آتیں ہیں‘‘ نادرست ہے۔ صحیح ہے ’’آتی ہیں‘‘۔
ص ۴۵ پر درج کی گئی حدیث کا باضابطہ حوالہ نہیں دیا گیا اور ترجمے میں زیادت ہے۔ (کیونکہ وہ اس کا کوئی اچھا محمل نکالیں گے ورنہ تم پریشانی میں مبتلا ہو جاؤ گے) بین القوسین وضاحت تو ہے، ترجمہ نہیں۔ اگر ترجمہ ہے تو متن نہیں دیا گیا۔ یوں بھی اس میں لفظ ’’محمل‘‘ عوام کے لیے مشکل ہے، ’’مفہوم‘‘ بہتر تھا۔
ص ۳۵۴ پر (در نیابد حال پختہ ہیچ خام۔ پس سخن کوتاہ باید والسلام) کے ترجمے میں سقم ہے۔ ترجمہ لکھا گیا ہے ’’یعنی خام کار آدمی کا حال پختہ یا کامل نہیں ہو سکتا‘‘۔ حالانکہ ترجمہ یوں ہونا چاہیے ’’کوئی خام کار شخص کسی پختہ کار کے حال کو سمجھ نہیں سکتا۔‘‘۔ دریا فتن کے معنی فہمیدن و درک کردن (To perceive) کے ہیں۔
ایک چیز جو کھٹکتی ہے وہ یہ کہ ابتدائیے میں انگریزی الفاظ کا بے جا استعمال ہے۔ کبھی املا کے حروف غلط ہیں اور کبھی ویسے زبان نادرست ہے۔ اماکن و اشخاص کے ساتھ تلفظ کی درستی کے لیے اگر انگریزی الفاظ لکھ دیے جاتے تو مضائقہ نہ تھا مگر یہاں بے وجہ انگریزی اور وہ بھی غلط ہجوں کے ساتھ لفظ لکھے گئے ہیں۔ اس ضمن میں ص ۲۴۷، ص ۲۵۰، ص ۲۷۰، ص ۲۷۱، ص ۲۷۵ اور ص ۲۸۲ ملاحظہ ہوں۔
کتاب کے آخر میں ۱۰ خواب عربی زبان میں اور ۳۲ خواب اردو زبان میں ’’باب الرویا‘‘ کے عنوان سے مندرج ہیں۔ بلاشبہ ان خوابوں میں انبیا، اولیا، صلحا، اساتذہ اور علما کے تذکرے موجود ہیں لیکن مجھے اس باب کے شامل کرنے کی حکمت سمجھ میں نہیں آ سکی۔ حکما کے ہاں خواب کی تعریف یوں ہے کہ ’’سوتے میں نفس انسانی کی ایک حرکت یا نفس انسانی کی متعدد اشکال کی تصویر کا نام، جو مستقبل کے اچھے یا برے واقعات پر دلالت کرے‘‘ (کتاب الرؤیا، مترجمہ حنین بن اسحاق بحوالہ دائرہ معارف اسلامیہ)۔ جب ان خوابوں کی تعبیریں پیش نہیں کی گئیں تو عام قاری کو ان مشاہدات سے آگاہ کرنے میں مجھے کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ یہ حضرت کے ذاتی تجربات و مشاہداتِ رویا ہیں، عوام کو ان سے کیا دلچسپی؟ کوئی معاند اگر انہیں خودستائی پر محمول کر کے غلط فہمی یا کج فہمی کا شکار ہو تو اسے کون روک سکے گا؟ جیسا کہ کئی خواب دیکھنے والوں کے ایسے خوابوں سے متعلق باتیں سننے میں آتی رہتی ہیں۔ نیز خواب کو کسی ماہر معتبر کے سوا کسی کے سامنے پیش ہی نہیں کرنا چاہیے، چہ جائیکہ ہر کس و ناکس کے سامنے الم نشرح کر دیا جائے۔
حرفِ آخر کے طور پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ کتاب مجموعی طور پر عوام و خواص ہر دو طبقوں کے فائدے کی ہے۔ واقعات و حقائق اور افکار و نظریات کو بلا کم و کاست پیش کر دیا گیا ہے۔ مصنف نے دوسروں کے نقطہ نگاہ کی تردید کے لیے ان کی عبارتیں من و عن دی ہیں، حتٰی کہ ایسی عبارتیں بھی جو مصنف کے اپنے حق میں زہرناک ہو کر رائے عامہ کو مسموم کر سکتی ہیں۔ ملاحظہ ہو ص ۱۱۷۔ اغیار کے ان اقتباسات کے من و عن نقل کرنے سے حضرت استاذ الاساتذہ کی دریا دلی اور عالی حوصلگی کا واضح ثبوت ملتا ہے۔
آئندہ ایڈیشن کے لیے دو تجویزیں بھی نذر قارئین ہیں:
(۱) کتاب کے آخر میں کتابیات کا حصہ اس شہ پارے کی قدر و قیمت میں کئی گنا اضافہ کر سکتا ہے۔
(۲) ترتیب کتاب میں اگر موضوعات کا لحاظ رکھا جاتا تو کتاب کے حسن میں حسین اضافہ ہوتا۔ مثلاً فکرِ ولی اللّٰہی، تنقید و تحقیق، اخلاقیات و فقہ و تدبر، اور اعلام و اماکن وغیرہ کو ایک نظم و ترتیب سے مرتب کیا جائے تو انسب ہو۔ امید ہے دوسرا حصہ بھی جلد منصہ شہود پر آئے گا۔