’’مغرب پر اقبال کی تنقید‘‘

پروفیسر غلام رسول عدیم

اقبالیات کا موضوع اردو ادب کا معتد بہ حصے کو شامل ہے۔ اس موضوع پر لکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ہر سال علامہ اقبال کے سوانح حیات اور فکر و فن پر لکھا جاتا ہے۔ یہ عمل تواتر کے ساتھ جاری ہے اور اس تسلسل میں انقطاع یا اختتام کی کوئی وجہ بھی نہیں۔ اس لیے کہ علامہ اقبال کی فکری جہتیں علومِ معاشرت کے ساتھ ساتھ الہامی علوم اور الٰہیات سے بھی متعلق ہیں۔ وہ ایک شاعر اور مفکر کی حیثیت سے ایک ترشے ہوئے ہیرے کی طرح بو قلموں شخصیت کے مالک تھے۔ لہٰذا ان کی عظیم شخصیت کی مثقال سے انعکاس پذیری اور ان کے فکر کی مشکوۃ سے اپنے فانوسِ بصیرت کو جگمگانے کےلیے استینار ہر شخص کا علمی حق ہے۔

یہ ایک حقیقتِ ثابتہ ہے کہ اس وسیع ذخیرے میں کچھ مال تو آخور کی بھرتی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، اور کچھ محض چبائے ہوئے نوالوں کو پھر سے چبانے، نگلنے اور پھر اگلنے کے مترادف ہے۔ تاہم اقبالی ادب کے بعض جواہر ریزے سامنے آنے پر طبیعت میں فرحت بخش سرور اور نشہ انگیز کیف کا انداز پیدا ہوتا ہے۔ جی میں بے نام امنگ اور حوصلے میں ترنگ پیدا ہوتی ہے۔ یہ احساس بیدار ہوتا ہے کہ ؏ ’’ابھی اس بحر میں باقی ہیں لاکھوں لولائے لالا‘‘۔ تاہم شرط یہ ہے کہ غواص عمق شناع ہو۔

زیر نظر مختصر مگر جامع کتاب ’’مغرب پر اقبال کی تنقید‘‘ اس احساس میں تیقن اور اس اعتماد میں ثقاہت کی لو کو تیز کرتا ہے۔ ڈاکٹر پروفیسر عبد الغنی فاروق خاص تحقیقی و فکری منہاج رکھتے ہیں۔ ان کی علمی جستجو کا ایک خصوصی انداز ہے جو اس کتاب کے ورق ورق سے ظاہر ہوتا ہے۔ بات تو سامنے کی ہے اور اقبالیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ زیر نظر موضوع بالکل بدعا من الموضوعات کی حیثیت نہیں رکھتا۔ ادھر ادھر بکھرا ہوا سہی مگر ہے ضرور۔ تاہم جس زاویہ نگاہ سے موصوف نے اس پر قلم اٹھایا ہے، فی الواقع اس میں جمالِ اختراع و ابداع بھی ہے اور حسنِ لیق و انشا بھی۔ 

وہ لوگ جن کی ساری توانائیاں اس بات کے ثابت کرنے میں صَرف ہو جاتی ہیں کہ علامہ تھے ہی مغرب کے خوشہ چیں اور ان کی فکر کے ڈانڈے اگر ملتے ہیں تو مغرب کے مفکرین کی فکر ’’فلک رس‘‘ سے ملتے ہیں، جن کے نزدیک اقبال کے پورے نظامِ فکر کو نٹشے، فشٹے، ہیگل، برگساں، دانتے جیسے فلاسفہ مغرب سے مستعار سمجھنا عین صواب بلکہ عین ثواب ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اقبال کی فکری تہیں ہی نہیں، وجدانی پرتیں بھی مغرب ہی کی ساختہ و پرداختہ ہیں۔ اور ان کا الٰہیاتی نظامِ فکر اپنی بافت کے اعتبار سے مشرقیت گریز اور مغرب زدہ ہے۔ یہ کتاب ایسے لوگوں کا دندان شکن جواب ہے۔

موصوف نے اس تالیف منیف میں جس بلند آہنگی اور زوردار طرح سے مدلل گفتگو کی ہے، اس سے ذہنوں کے جالے اتر جانے چاہئیں۔ وہ اپنے موقف کی صداقت پر بجا طور پر یقین رکھتے ہیں۔ غیر مبہم لفظوں اور دوٹوک جملوں میں بات کرتے ہیں۔ جب اپنے بیان کی تائید و توثیق کے لیے فکرِ اقبال سے استناد کرتے ہیں تو ان کی بات اتنی باوزن ہو جاتی ہے کہ اسے باور کیے بغیر چارۂ کار نہیں رہتا۔ ان کا استدلال منطقی، اندازِ بیان شستہ و رفتہ اور اسلوب شگفتہ ہے۔ دھلی دھلائی زبان میں بات کرتے ہیں۔ کھری کھری کہنے کے عادی ہیں۔ نہ خوفِ لومتہ لائم، نہ زمانہ سازی، نہ دل کا مطلب استعارہ و مجاز میں چھپانے کی عادت، تحریر نظر فروز ہے تو مفاہیم عبارت دل آویز۔جس حسن کاری سے وہ استخراجِ نتائج کرتے ہیں وہ لائق دید بھی ہے اور قابلِ داد بھی۔

انہوں نے محض اقبال کی شعری تخلیقات پر اکتفا نہیں کیا، علامہ کے نثری کارناموں، تحریروں، تقریروں، مکاتیب، ملفوظات سبھی سے اخذ و استفادہ کیا ہے۔ انہیں اپنے مقاصد و اہداف کے حصول کے لیے اس چابک دستی اور بانکپن سے استعمال کیا ہے کہ تشنگی کا احساس نہیں رہتا۔ مغربی تہذیب پر اقبال کی عمومی تنقید سے لے کر مغرب کے تصوراتِ وطنیت، مذہب و سیاست، سرمایہ داری و جاگیرداری، نظامِ تعلیم، آزادئ نسواں (بلکہ آزادہ روی نسواں)، آزاد خیال (بلکہ آوارہ خیال) مغرب پرستوں، قادیانیوں اور اشتراکیت پسندوں میں سے ایک ایک کو موضوعِ بحث بنا کر آخر میں یورپ کے مکمل زوال سے متعلق اقبال کے نقطۂ نگاہ کی وضاحت کی ہے۔

کتاب معنویت کی سطح پر حقائق سے لبریز ہے ہی، اس کی خوب کارانہ ظاہریت بھی مصنف کے ستھرے ذوق کی غماز ہے۔ ہر باب کے اختتام پر ماخذ و موارد کی نشاندہی ان کے ذوقِ تحقیق و تشخص کی آئینہ دار ہے، جسے نہ اہلِ نظر نظرانداز کر سکتے ہیں نہ تماشائی۔ یوں کتاب پکارے گلے اعلان کر رہی ہے کہ اقبال اس شاخِ نازک پر بننے والے آشیانے کو ناپائیدار سمجھتے ہیں اور اسے رہ گزر سیل بے پناہ میں خیال کرتے ہیں۔ اقبال کا یہ اظہار محض قیاسی، ظنی اور الَل ٹَپ نہ تھا، برسوں کی سوچ کا نتیجہ تھا۔ مدعی جس تہذیب اور جن فکری منابع کو اقبال کا سرچشمۂ فکر خیال کرتے ہیں، وہ انہیں بنگاہِ تنفر و استخفاف دیکھتے ہوئے آگے گزر جاتا ہے اور اعلان کر دیتا ہے کہ

برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے
فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری

پھر وہ اپنے اصل مورد پر پہنچ کر پوری طمانیت سے کہتا ہے اور پورے زور سے کہتا ہے:

گر دلم آئینہ بے جوہر است
ور بحرفم غیر قران مضمر است
پردۂ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں راز خارم پاک کن
تنگ کن رخت حیات اندر برم
اہلِ ملت را نگہدار از شرم
روز محشر خوار و رسوا کن مرا
نے نصیب از بوسہ کن مرا

ڈاکٹر پروفیسر عبد الغنی فاروق ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس موضوع پر نہ صرف بکھرے موتی تلاش کیے بلکہ فکرِ اقبال کے تناظر میں ان کو اس شان سے پرویا اور سجایا ہے کہ ان کی چھوٹ سے مغرب زدہ آنکھیں خیرہ ہوتی جاتی ہیں۔ میرا احساس ہے کہ یہ کتاب اس خیالِ باطل کی تردید کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گی جس کے تحت بہت سے اقبالیات کے طالب علم فکرِ اقبال کا آخری سرا مغرب میں تلاش کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں اس تحریر سے معلوم ہو سکے گا کہ حکیم الامت اپنے دور میں شاید سب سے بڑے نقادِ مغرب تھے۔



شخصیات

تعارف و تبصرہ

(جولائی ۱۹۹۵ء)

جولائی ۱۹۹۵ء

جلد ۶ ۔ شمارہ ۷

ملی یکجہتی کونسل کی اپیل پر ملک گیر ہڑتال
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

غیر حنفی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا مسئلہ
مولانا مفتی محمد عیسی گورمانی

آہ! حضرت جی مولانا انعام الحسنؒ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’مغرب پر اقبال کی تنقید‘‘
پروفیسر غلام رسول عدیم

اخبار و آثار
ادارہ

الکیمیا
حکیم عبد الرشید شاہد

تلاش

Flag Counter