’’عصرِ حاضر میں نو مسلمین کو درپیش سماجی، معاشی، قانونی مسائل اور ان کا حل‘‘
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- دنیا کے ہر انسان تک دینِ اسلام کی دعوت پہنچانا اور اسے اسلام قبول کرنے کی ترغیب دینا ہماری دینی و ملّی ذمہ داری ہے اور اسلام کے عالمگیر مذہب ہونے کا منطقی تقاضہ ہے، مگر آج کی گلوبل سوسائٹی میں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے مسلسل اختلاط اور شہری و انسانی حقوق کے نئے تصورات نے جو مسائل کھڑے کر دیے ہیں، ان سے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت کا عمل بہت سی پیچیدگیوں کا شکار ہو گیا ہے، جس سے ملتِ اسلامیہ کی اجتماعی مرکزیت یعنی خلافت کے موجود نہ ہونے کے باعث ان مسائل کا کوئی حل سامنے آنے کی بجائے پیچیدگیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جن پر سنجیدہ بحث و مباحثہ اور ان کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرتے ہوئے قابلِ عمل حل نکالنا اس شعبہ میں کام کرنے اور اس کی اہمیت و ضرورت کا صحیح طور پر ادراک رکھنے والے اصحابِ علم و دانش کے لیے وقت کے ایک اہم چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔
مثلاً اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کسی بھی غیر مسلم آبادی سے تعلق رکھنے والے کسی شخص کا مسلمان ہو جانا اس کے لیے کچھ ایسے مسائل کا باعث بن جاتا ہے جس کو ازخود حل کرنا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے اور وہ استقامت اور دلجمعی کی بجائے کنفیوژن کا شکار دکھائی دینے لگتا ہے۔ ایک عرصہ سے نو مسلموں کو درپیش معاشرتی، قانونی اور تہذیبی مسائل و مشکلات پر اس سطح کے بحث و مباحثہ کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو ایسے مسائل، مشکلات اور پیچیدگیوں کے مناسب حل کی طرف متعلقہ حلقوں اور اداروں کی راہنمائی کا باعث ہو۔
مجھے خوشی ہے کہ محترم بشریٰ عزیز الرحمٰن صاحبہ نے جامعہ کراچی کے تحت اپنے ایم فل کے مقالہ میں اس اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور مسئلہ کے ضروری پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے مسائل کی نوعیت کو اجاگر کرانے کے ساتھ ان کے حل کے لیے تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ محترمہ ڈاکٹر سید غضنفر احمد صاحب کی نگرانی میں ترتیب پانے والا یہ وقیع مقالہ اس اہم دینی و معاشرتی مسئلہ کی نوعیت اور حل کو سمجھنے کے لیے مفید ثابت ہو گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس علمی و تحقیقی کاوش کو قبولیت سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ حضرات کے لیے راہنمائی اور استفادہ کا ذریعہ بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
۲۲ نومبر ۲۰۲۴ء
’’صوفیائے کرام اور اصلاحِ امت‘‘
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ تصوف و سلوک دینِ اسلام کا اہم شعبہ ہے جس کے دائرہ میں اولیائے امت رحمہم اللہ تعالیٰ نے قلب و نظر کی طہارت اور اعمالِ صالحہ کو بہتر سے بہتر بنانے کے بارے میں قرآن و سنت کی تعلیمات اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو عملی طور پر منظم کیا ہے اور امتِ مسلمہ کی راہنمائی فرمائی ہے۔ اس شعبہ کے ساتھ میرا تعلق ہمیشہ سے کچھ اس نوعیت کا رہا ہے کہ
احب الصالحین و لست منہم
لعل اللہ یرزقنی صلاحاً
’’نیک لوگوں سے محبت کرتا ہوں حالانکہ ان میں سے نہیں ہوں۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اصلاح کا کچھ حصہ عطا فرما دیں۔‘‘
بہت سے اولیاء کرام رحمہ اللہ تعالیٰ کی حیات و خدمات مطالعہ سے گزری ہیں اور اپنے دور کے متعدد صلحاء کرام سے استفادہ و زیارت کا تعلق رہا ہے جو بحمد اللہ تعالیٰ اب بھی قائم ہے۔ دین میں سلوک و احسان کی حیثیت و مقام اور صوفیاء کرام رحمہ اللہ تعالیٰ کی دینی، معاشرتی اور اصلاحی خدمات پر وقتاً فوقتاً محاضرات و مضامین کچھ نہ کچھ عرض کرتا آ رہا ہوں، جن کا ایک انتخاب عزیز محترم مولانا حافظ کامران حیدر فاضل جامعہ نصرۃ العلوم نے زیر نظر مجموعہ میں مرتب کیا ہے جس پر وہ شکریہ و تحسین کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس محنت و کاوش کو قبولیت و ثمرات سے نوازیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نفع بخش بناتے ہوئے ہم سب کے لیے نجات و اصلاح کا ذریعہ بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔
۱۸ نومبر ۲۰۲۴ء
’’اسوۂ سرورِ کونین ﷺ‘‘
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ایک ایسا بحرِ ناپیدا کنار ہے جس کی وسعتوں اور گہرائی کو آج تک نہیں ماپا جا سکا، اور چونکہ اسوۂ نبوی علیٰ صاحبہا التحیۃ والسلام انسانی سماج کی قیامت تک ہمہ نوع ضروریات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے جن کا حل وقت اور ضرورت کے ساتھ ساتھ سامنے آتا رہے گا، اس لیے اس بحرِ ناپیدا کنار کی وسعت و گہرائی کو قیامت تک پیمائش کے دائرے میں لانا ممکن بھی نہیں ہے۔ سیرتِ طیبہ ماضی کی طرح آج کی سماجی ضروریات کو بھی محیط ہے اور مستقبل کی سماجی ضروریات اور انسانی مسائل و مشکلات کا حل بھی اس میں پنہاں ہے، اس لیے ہر دور کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق سیرتِ مبارکہ اور اسوۂ حسنہ کے اظہارِ بیان میں تنوع و تسلسل بھی جاری ہے جو قیامت تک اسی طرح قائم و ساری رہے گا۔
دینِ اسلام کے ایک کارکن اور دینی تعلیمات کے ایک داعی کے طور پر مجھے بھی اپنے بیانات، دروس اور مضامین میں سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور اسوۂ حسنہ کے مختلف اور متنوع پہلوؤں پر اظہارِ خیال کی سعادت حاصل رہی ہے اور اس کا سلسلہ بحمداللہ آج بھی جاری ہے، اور یہ گزارشات اخبارات و جرائد اور بیانات میں بکھری ہوئی ہیں جن کا ایک انتخاب فرزند عزیز حافظ ناصر الدین خان عامر نے زیرنظر مجموعہ میں حسنِ ذوق کے ساتھ مرتب کیا ہے، جس میں عصرِ حاضر کی بہت سی علمی، معاشرتی، تہذیبی اور دیگر ضروریات پر ان معروضات کو اپنے ذوق و ترتیب کے ساتھ جمع کر دیا ہے، امید ہے کہ علماء و طلبہ کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم سے بہرہ ور شائقین کے لیے بھی یہ مجموعہ مفید ہو گا۔ اللہ رب العزت عزیزم عامر خان کی اس کاوش کو قبولیت سے نوازیں اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں میں ہمارا نام شامل فرما کر اسے ہمارے لیے ذخیرۂ آخرت بنا دیں، آمین یا رب العالمین۔
۱۸ نومبر ۲۰۲۴ء