(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر کے فرزندانِ عزیز حافظ طلال خان ناصر اور حافظ ہلال خان ناصر کا انٹرویو مولانا راشدی کی نظر ثانی کے ساتھ یہاں شائع کیا جا رہا ہے۔)
ہلال خان ناصر: السلام علیکم۔ آج ہم دوسری نشست کے ساتھ حاضر ہیں۔ پچھلی نشست میں ہم نے دادا ابو کی حفظ کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں کچھ باتیں کی تھیں، آج ہم اسی کے بارے میں مزید سوالات کریں گے۔
سوال: دادا ابو! یہ بتائیے کہ آپ نے حفظ کتنی عمر میں مکمل کیا؟
جواب: میں نے بارہ سال کی عمر میں حفظ مکمل کیا۔ گکھڑ میں اس مدرسہ سے آغاز ہوا تھا، لیکن کچھ عرصہ تک ایسا ہوا کہ قاری حضرات بدلتے رہے۔ بعد میں ہمارے استاد محترم قاری محمد انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ جن کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا، وہ آ کر ٹک گئے اور انہوں نے مدرسے کو سنبھالا۔ یوں سمجھیں کہ میں نے دوبارہ سارا حفظ ان سے کیا ہے۔ میرا حفظ ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۰ء کو مکمل ہوا تھا۔ حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی رحمۃ اللہ علیہ، استاد القراء حضرت مولانا قاری فضل کریم صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا قاری حسن شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں، گکھڑ کی مرکزی جامع مسجد میں پبلک جلسہ میں، میں نے آخری سبق سنایا تھا۔
اس کا ایک لطیفہ بھی ہے کہ سورۃ المرسلات کا دوسرا رکوع میرا آخری سبق تھا، میں بارہ سال کا بچہ تھا، سامنے پبلک جلسہ تھا اور یہ بزرگ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے تو میری ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ میں سبق میں ایک آیت ”واذا قیل لھم ارکعوا لا یرکعون“ بھول گیا۔ خیر تصحیح ہو گئی۔ اس کے دو سال بعد حضرت درخواستی رحمۃ اللہ علیہ گوجرانوالہ علماء کی ایک مجلس میں تشریف لائے، میں تب مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں پڑھتا تھا، میں بھی زیارت کے لیے چلا گیا۔ مجھے تصور بھی نہیں تھا کہ حضرت مجھے پہچان لیں گے، اس لیے میں جا کر ایک طرف بیٹھ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے کہ ادھر آؤ، اب ملتے بھی نہیں ہو۔ ”واذا قیل لھم ارکعوا“ سبق یاد ہے؟ میرے تو پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ انہیں ابھی تک یاد ہے کہ میں فلاں آیت بھولا تھا۔ میرے تصور میں بھی نہیں تھا کہ ایک بزرگ نے جلسے میں میرا سبق سنا ہے اور دو سال بعد انہیں یاد ہے کہ یہ بچہ بھولا تھا اور فلاں آیت بھولا تھا۔ فرمایا دوبارہ سبق سناؤ، چنانچہ میں نے انہیں دوبارہ سنایا۔
سوال: اب سبق یاد تھا؟
جواب: یاد تھا، میں دو دفعہ قرآن پاک سنا بھی چکا تھا۔ حضرت قاری محمد انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ میرے بڑے شفیق استاد تھے، آخری عمر میں انہوں نے تقریباً تیس سال مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں پڑھایا ہے اور جنۃ البقیع میں مدفون ہیں۔ سچی بات ہے کہ میں جب کبھی مدینہ منورہ جایا کرتا تھا، الحمد للہ بہت دفعہ جانے کا اتفاق ہوا تو آپؒ برآمدے میں بیٹھ کر پڑھا رہے ہوتے تھے اور میں ستون کے پیچھے کھڑا ہو کر ان کو دیکھا کرتا تھا کہ کیا ہی اعزاز کی بات ہے کہ میرے استاذ محترم مدینہ منورہ میں مسجد نبوی کے برآمدے میں صبح کی نماز کے بعد قرآن پاک پڑھا رہے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ ان کے شاگردوں میں ہیں۔ ان سے میں نے حفظ مکمل کیا، پھر انہوں نے دوبارہ میرے ساتھ خود دور کیا تاکہ خوب یاد ہو جائے۔ گکھڑ کے ساتھ گاؤں ہے بدوکی گوسائیاں، جو کہ اب کینٹ میں ہے، وہاں میں نے پہلا مصلیٰ سنایا۔ اس کے بعد میں تقریباً تیس پینتیس سال گکھڑ میں، گوجرانوالہ میں مختلف مقامات پر سناتا رہا ہوں۔ اب پڑھتا تو ہوں لیکن سنانا مشکل ہو گیا ہے۔
بعد میں گکھڑ میں تجوید کا مدرسہ شروع ہوا، حضرت مولانا قاری عبدالحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو سوات کے تھے پھر بحرین چلے گئے، وہیں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے بیٹے قاری محمد طیب بحرین کے بڑے قاری ہیں۔ قاری عبدالحلیم صاحب سے میں نے تھوڑی بہت تجوید پڑھی اور مشق کی۔ پھر میں نے مدرسہ اشرف العلوم باغبانپورہ گوجرانوالہ میں مشق کی ہے۔ یہ بڑا مدرسہ ہے، وہاں کے بڑے استاد حضرت مولانا قاری عبدالصمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ میں ان کی خدمت میں جاتا رہا ہوں اور ان سے بھی قرآن پاک کی مشق کرتا رہا ہوں۔ میرے مشق کے استاذ یہ دو بزرگ ہیں اور حفظ کے استاد قاری محمد انور صاحب ہیں، اس طرح میں نے الحمد للہ حفظ مکمل کیا۔
سوال: حفظ کے اس دور میں آپ کے ساتھ کچھ ساتھی ہوں جو معروف ہوں یا جنہوں نے آگے۔ ۔ ۔
جواب: حفظ کے دور کے میرے ساتھی قاری فدا محمد صاحب مانسہرہ کے تھے، ریاض میں کافی عرصہ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بدوکی گسائیاں کے قاری رحم الدین صاحب میرے حفظ کے ساتھی تھے۔ اور میرے حفظ کے ایک ساتھی بڑے معروف ہیں ڈاکٹر حافظ محمود اختر جو کہ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ اسلامیات کے صدر رہے ہیں، اب ریٹائر ہو گئے ہیں، گفٹ یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ ہم نے اکٹھے حفظ کیا تھا اور اب کبھی کبھی میں انہیں چھیڑتا ہوں کہ حافظ صاحب! آپ مجھے بڑی مار پڑواتے تھے۔ غلطی نکالی تو استاد نے مارنا، میں ان کی غلطیاں نکالا کرتا تھا اور وہ میری غلطیاں نکالا کرتے تھے۔ اللہ پاک سلامت رکھے، اللہ پاک نے ان کو بڑی عظمت دی۔ ابتدا میں تو بہت ساتھی تھے، لیکن تکمیل تک حفظ میں میرے ساتھ یہی رہے ہیں۔
سوال: دورانِ حفظ آپ کو سبق یاد نہ ہونے کی وجہ سے یا شرارتوں کی وجہ سے کبھی مار پڑی؟
جواب: بہت دفعہ پڑی ہے، اس وقت معمول یہی تھا۔ والد صاحبؒ بھی ٹھیک ٹھاک پٹائی کیا کرتے تھے۔ ایک کا میں ذکر کر دیتا ہوں جو کہ تاریخی واقعہ ہوا کہ ایک دفعہ مجھے سبق یاد نہیں تھا تو قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے تین چار چھڑیاں مار دیں۔ میں اٹھ کر گھر چلا گیا کہ گھر جا کر شکایت کروں گا تو ماں مجھے سینے سے لگائے گی، دلاسہ دے گی، والدہ مرحومہ نے مجھے بے وقت گھر میں دیکھا تو پوچھا کہ کدھر پھر رہو؟ میں نے منہ بسور کر جواب دیا کہ قاری صاحب نے مارا ہے۔ کیوں مارا ہے؟ سبق یاد نہیں ہوگا؟ میں نے کہا جی سبق یاد نہیں تھا۔ کس چیز سے مارا تھا؟ میں نے کہا ڈنڈے سے۔ کتنے؟ میں نے کہا چار۔ کہاں مارا؟ دائیں ہاتھ پر۔ وہ خود بھی استاد تھیں، ان کی بھی ایک چھڑی تھی۔ والدہ مرحومہ نے اپنا ڈنڈا پکڑا اور میرے بائیں ہاتھ پر پانچ ڈنڈے مارے اور کہا کہ چلو پہنچو مدرسے۔
اس وقت مجھے غصہ آیا اور آنا بھی تھا، لیکن آج اماں جان کو دعائیں دیتا ہوں کہ اگر اس وقت میری والدہ مجھے سینے سے لگا کر سہارا دے دیتیں اور گھر میں بٹھا لیتیں کہ قاری کون ہے مارنے والا تو پتہ نہیں پھر کیا ہوتا اور میں کہاں ہوتا۔ اب بھی یہ واقعہ سناتا ہوں تو اپنے شاگردوں سے کہا کرتا ہوں کہ سارا کمال ان پانچ ڈنڈوں کا ہے، وہ ماں کی مار مجھے بچا گئی ہے کہ آج میں بحمد اللہ صحیح ٹریک پر ہوں، ورنہ میرا کانٹا بدل چکا ہوتا۔
سوال: حفظ مکمل کرنے کے فوراً بعد آپ مدرسہ نصرۃ العلوم میں داخل ہو گئے؟
جواب: مجھے والد صاحبؒ نے صرف و نحو کی گرامر کی ابتدائی کتابیں میزان الصرف، نحو میر وغیرہ ایک سال گھر پڑھائی ہیں۔ پھر میں ۱۹۶۲ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم میں آیا اور وہاں سے میں نے باقاعدہ درس نظامی کی تعلیم کا آغاز کیا اور ۱۹۶۹ء تک پورا درس نظامی میں نے وہاں اس دور کی ترتیب کے مطابق مکمل کیا۔ اب تو وفاق کی ترتیب ہے، اس زمانے میں ہم وفاق میں نہیں تھے تو اپنی ترتیب ہوتی تھی۔ اپنی ترتیب کے مطابق میں نے وہیں درس نظامی کی مسلسل تعلیم حاصل کی اور ۱۹۶۹ء میں دورہ حدیث سے فارغ ہو گیا تھا، میری ساری تعلیم جو کچھ بھی ہے وہیں کی ہے۔
سوال: مدرسہ نصرۃ العلوم میں درس نظامی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ کا غیر نصابی کتابوں کا بھی کوئی ذوق شوق تھا؟
جواب: ہاں بالکل، الحمد للہ۔ میں اپنے کتابی ذوق کے بارے میں تفصیل سے عرض کروں گا۔ کتاب سے میرا تعارف پانچ چھ سال کی عمر سے ہے۔ حضرت والد صاحبؒ کا کام لکھنا پڑھنا تھا۔ ان کے چاروں طرف کتابیں بکھری ہوتی تھیں، وہ لکھتے رہتے تھے، کبھی کبھی انہیں حوالوں کی ضرورت پڑتی تھی تو ہم دو تین بہن بھائی بڑی ہمشیرہ، میں اور ہماری پھوپھی زاد بہن ہمیں والد صاحبؒ فرماتے کہ فلاں نام کی کتاب نکال کر لاؤ تو ہم تینوں کا مقابلہ ہوتا تھا کہ کون پہلے لاتا ہے۔ اس دوران بڑی بڑی حدیث کی کتابوں کے نام ہمیں یاد تھے اور ان کی جلدیں بھی یاد تھیں۔ ہم مطلوبہ کتاب تلاش کر کے والد صاحبؒ کے پاس لایا کرتے تھے۔
گکھڑ میں ماسٹر بشیر احمد صاحبؒ بڑے پکے احراری تھے اور حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے خاص عقیدت مندوں میں سے تھے، ان کے گھر بھی کتابوں کا ماحول تھا، تاریخی اور سیاسی قسم کی کتابیں تھیں۔ ان کے ہاں ہمارا آنا جانا تھا۔ ان کے ہاں رسائل و جرائد بھی آیا کرتے تھے مثلاً ہفت روزہ چٹان، ترجمان اسلام، خدام الدین اور تبصرہ وغیرہ اور گھر میں والد صاحبؒ کے ہاں دہلی سے ماہنامہ برہان، لکھنؤ سے الفرقان، اور دیگر رسالے آیا کرتے تھے تو رسالوں کے ساتھ میرا تعارف اس زمانہ میں تھا۔
پھر جب میں نصرۃ العلوم میں آیا تو چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کا اپنا ذوق تھا۔ ان کے ہاں لکھنؤ سے تعمیرِ ملت اور دیگر مختلف رسائل بھی آتے تھے، وہ پڑھتے تھے، پھر مجھے پڑھنے کے لیے دیتے تھے۔ ان دونوں بزرگوں نے میری یہ سرپرستی کی ہے کہ جو سمجھتے تھے کہ میرے دائرے کی کتاب یا رسالہ ہے تو وہ مجھے دیتے تھے کہ اس کو پڑھو۔ چچا جان مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ نے میری باقاعدہ سرپرستی فرمائی۔ ایک زمانے تک یہ معمول رہا ہے کہ کوئی کتاب آتی تو حضرت صوفی صاحبؒ خود پڑھتے، پھر مجھے دیتے تھے میں پڑھتا تھا، اس کے بعد لائبریری میں جاتی تھی۔ یوں مطالعہ کا ذوق مجھے وہاں سے پیدا ہوا۔
پھر ایک بات درمیان میں ہوئی، اس کا کچھ ذکر کر دیتا ہوں، تفصیل سے بعد میں کروں گا۔ ۱۹۶۲ء کی بات ہے کہ گکھڑ میں ماسٹر بشیر احمد صاحب کا اور ایک دو دوستوں کا ذوق تحریکی تھا وہ بھی میرا ذوق بنا۔ ہوا یہ کہ ایوب خان مرحوم نے پاکستان کا عبوری آئین بنایا تو ملک کے نام سے اسلامی کا لفظ ہٹا دیا تھا اور ” جمہوریہ پاکستان“ نام قرار دیا تھا۔ اس کے خلاف پورے ملک میں تحریک چلی تھی اور محضرناموں پر دستخط کروائے گئے تھے کہ ملک کا نام ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ رہے گا۔ میں اس تحریک میں شریک ہوا تھا، وہاں سے میرا تحریکی ذوق شروع ہوا، جو آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔ میں نے بہت سے محضرناموں پر دستخط کروا کے بھجوائے تھے۔ میں اس مہم کا حصہ تھا۔
جب نصرۃ العلوم میں آیا تو غالباً ۱۹۶۳ء کے لگ بھگ کی بات ہے کہ نصرۃ العلوم کے طلباء نے اپنی ایک انجمن بنائی، جسے یونین کہتے ہیں۔ ہمارے پھوپھی زاد بھائی سید عطاء اللہ شاہ شیرازیؒ اس کے صدر بنے، مجھے سیکرٹری بنا لیا۔ یہ سیکرٹری کی ’’بیماری‘‘ تب سے مجھے مسلسل چمٹی ہوئی ہے الحمد للہ۔ لکھنے پڑھنے کا اور اخبارات میں خبریں دینے کا ذوق بھی پرانا ہے
گوجرانوالہ چوک نیائیں کے پاس اہل حدیث حضرات کا ایک ”اسلامی دارالمطالعہ “ تھا۔ ہم عصر کے بعد وہاں چلے جایا کرتے تھے۔ عصر تا مغرب کوئی کتاب یا کوئی رسالہ دیکھتے تھے۔ میں نے صرف ایک موضوع کا نہیں کیا، بلکہ متنوع مطالعہ کیا ہے۔ میرا زیادہ ذوق تاریخ کا ہے۔ میں نے بہت سے تاریخی اور جاسوسی ناول پڑھے۔ نسیم حجازی اور ایم اسلم، ابن صفی، اکرم الٰہ آبادی وغیرہ کے ناول پڑھے اور ہر قسم کے ناول پڑھے ہیں۔ سینکڑوں ناول پڑھے ہوں گے اور سینکڑوں کتابیں پڑھی ہوں گی تو وہاں سے پھر ذوق بڑھتا گیا، پھر میں نے آہستہ آہستہ لکھنا بھی شروع کر دیا۔
سوال: تعلیمی دور میں مختلف قسم کے طالب علم ہوتے ہیں بعض تیاری کر کے امتحان دیتے ہیں، جبکہ بعض کا آیۃ الکرسی اور درود شریف پر بڑا یقین ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لیں گے تو پیپر ٹھیک ہو جائے گا، آپ کا کیا طریقہ تھا؟
جواب: میں نے نہ تیاری کی ہے اور نہ وظیفے کیے ہیں، بس سبق دھیان سے پڑھتے تھے الحمد للہ۔ جتنی تعلیم حاصل کی ہے، توجہ سے پڑھا ہے۔ میرے بزرگ میری ساری سرگرمیاں برداشت کرتے تھے اس لیے کہ میں پڑھتا بھی تھا۔ استاد کو اپنے شاگرد کا پتہ ہوتا ہے۔ میں ساری ساری رات گھومتا تھا، پتہ نہیں کہاں کہاں ہوتا تھا۔ میری سرگرمیاں سب دیکھتے تھے لیکن برداشت کرتے تھے اور یہ اعتماد رکھتے تھے کہ جو ہم سبق دیتے ہیں وہ پڑھتا ہے، اس لیے میرا کام چلتا رہا، ورنہ میرے جیسا آوارہ طالب علم کوئی نہیں ہوگا۔
سوال: مدرسہ نصرۃ العلوم میں درس نظامی کے آپ کے جو معروف اساتذہ تھے ان کے بارے میں کچھ بتائیں۔
جواب: میرے سب سے بڑے استاذ حضرت والد محترمؒ اور حضرت صوفی صاحبؒ ہیں۔ ان کے بعد تیسرے بڑے استاذ حضرت مولانا عبدالقیوم ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جو مانسہرہ کے تھے، صوفی صاحبؒ کے ابتدائی ساتھیوں میں سے تھے اور معقولات کے بہت بڑے مدرس تھے، ان کی بھی خاص توجہ اور شفقت مجھ پر ہوتی تھی۔ ان کے علاوہ میرے اساتذہ میں ہری پور کے حضرت مولانا قاضی محمد اسلم صاحبؒ، حضرت مولانا قاضی عزیز اللہ صاحبؒ اور بنوں کے حضرت مولانا مفتی جمال احمد بنوی صاحبؒ فاضل مظاہر العلوم ہیں۔ یہ میرے درس نظامی کے بڑے اساتذہ کرام ہیں، جن سے میں نے استفادہ کیا ہے، شفقت بھی پائی ہے اور جھڑکیں بھی کھائی ہیں۔
سوال: آپ کو تعلیمی دور میں غیر نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے کبھی بڑے ابا جی سے یا حضرت صوفی صاحبؒ سے جھاڑ پڑی ہو؟
جواب: کئی دفعہ جھاڑ پڑی ہے، لیکن چھوڑی نہیں ہیں۔ میری غیر نصابی سرگرمیاں یہ تھیں کہ مختلف لائبریریوں میں مطالعہ کے لیے جانا اور جماعت سازی وغیرہ، جیسا کہ ذکر کیا کہ طلباء کی یونین بنی اور میں اس کا سیکرٹری تھا۔ ۱۹۶۵ء میں گوجرانوالہ شہر میں جب جمعیت علماء اسلام بنی تو اس کا سیکرٹری اطلاعات تھا، پھر وہیں سے ترقی کرتے کرتے مختلف تنظیمیں بنائیں۔ ہم تین چار ساتھیوں نے گکھڑ میں ”انجمن نوجوانانِ اسلام“ کے نام سے ایک انجمن بنائی تھی۔ ہمارے ساتھی افتخار رانا اب بھی موجود ہیں۔ اس انجمن کے تحت ہم نے لائبریری بنائی تھی، مشاعرے کرایا کرتے تھے، جلسے کرایا کرتے تھے اور ۱۹۶۵ء کی جنگ کا جب آغاز ہوا ہے کہ تو اس سے ایک دن قبل پانچ ستمبر کو گکھڑ میں اس حوالے سے ہمارا جلسہ تھ۔ رَن کچھ کی لڑائی تھی تو فوجیوں کے لیے خون مہیا کرنا ہے۔ رات کو ہمارا جلسہ تھا۔ میں نے بھی اس میں تقریر کی تھی، فاضل رشیدی صاحب اور دیگر حضرات نے بھی تقاریر کیں۔ اسی روز صبح جنگ شروع ہو گئی تھی۔
۱۹۶۵ء میری طالب علمی کے بالکل وسط کا دور ہے۔ اس دوران گوجرانوالہ میں شہری دفاع جس کو سول ڈیفنس کہتے ہیں، اس کا علماء کا گروپ بنا تھا۔ مولانا عبدالرحمان جامی ہمارے کمانڈر تھے اور علماء اس کے ممبر تھے۔ ہم تقریریں کرتے تھے، پریڈ کرتے تھے اور پہرے بھی دیتے تھے۔ میں نے گکھڑ میں روزنامہ وفاق لاہور کے نامہ نگار کی حیثیت سے ۱۹۶۵ء کی جنگ رپورٹ کی ہے۔ میری رپورٹیں چھپی ہوئی ہیں اور اسی رپورٹ کا ایک حصہ یہ تھا کہ چھ ستمبر کی صبح کو گکھڑ ریلوے اسٹیشن پر انڈین طیارے نے بمباری کی تھی، جس میں ہمارے ایک ساتھی صفدر باجوہ شہید ہو گئے تھے، تو میرا پہلا فیچر صفدر باجوہ پر ہے، جو روزنامہ وفاق میں چھپا تھا۔ بعد میں ایک دفعہ جنرل قمر باجوہ صاحب کو میں نے بتایا کہ آپ کی فیملی کے صفدر باجوہ پر میرا فیچر ہے تو انہوں نے بتایا کہ وہ میرے چچا جی تھے۔ میری یہ سرگرمیاں چلتی رہتی تھیں اور میرے بزرگ دیکھتے رہتے تھے، لیکن چونکہ انہیں یہ علم تھا کہ پڑھتا بھی ہے، اس لیے میری ساری سرگرمیاں برداشت کرتے تھے، بلکہ صوفی صاحبؒ تو باقاعدہ سرپرستی کرتے تھے۔
سوال: آپ نے بڑے ابا جی سے اور صوفی صاحب سے نصابی کتابوں کے علاوہ بھی کچھ باقاعدہ طور پر پڑھا ہے؟
جواب: جی ہاں پڑھا ہے۔ حضرت صوفی صاحبؒ کا ذوق یہ تھا کہ اپنے ذوق کے کچھ طلباء دیکھ لیتے تھے اور نصاب سے الگ کچھ کتابیں پڑھاتے تھے۔ ہم نے مصری شیخ محمد حضری بک کی نور الیقین فی سیرۃ سید المرسلینؐ، اخوان الصفا، کلیلہ دمنہ، لطفی منفلوطی کی العبرات اُن سے پڑھی، سبع معلقہ انہوں نے ہمیں پڑھائی جو کہ اس زمانے میں نصاب میں نہیں تھی۔ اسی طرح ملا علی قاریؒ کی شرح نقایہ بھی انہوں نے ہمیں سبقاً سبقاً پڑھائی ہے۔ وہ دیکھتے تھے کہ کونسی کتاب ان کے ذوق کی ہے، ایک کتاب منتخب کر لیتے تھے اور طلبہ میں سے بھی انتخاب کر لیتے تھے اور پڑھاتے تھے۔ میں نے کم از کم دس بارہ کتابیں نصاب سے ہٹ کر سبقاً سبقاً حضرت صوفی صاحبؒ سے پڑھی ہوں گی، اس ذوق کے مطابق۔
حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسا کرتے تھے، کوئی کتاب مطالعہ کے لیے دیتے، پھر پوچھتے تھے کہ بتاؤ کیا پڑھا ہے۔ اس کے علاوہ شعبان رمضان میں ہماری چھٹیاں ہوتی تھیں، میں گکھڑ چلا جاتا تھا تو سال کے دوران جو کتابیں پڑھی ہوتی تھیں، تو والد صاحبؒ ان میں سے ایک کتاب کا انتخاب کر لیتے تھے کہ یہ مجھے تم نے سنانی ہے۔ چنانچہ میں انہیں روزانہ وہ سنایا کرتا تھا۔
میری لکھنے کی مشق ایسے ہوئی کہ حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جب کتاب ”فیوضاتِ حسینی“ لکھی تو اس کا مسودہ مجھ سے لکھوایا کہ یہ لکھو، یہ لکھو۔ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی فاتحہ خلف الامام پر ”احسن الکلام “ نامی کتاب ہے، اس کی تلخیص انہوں نے مجھ سے اپنی نگرانی میں کروائی کہ یہ کاٹ دو، یہ لکھو۔ وہ تلخیص ”اطیب الکلام“ کے نام سے چھپی ہوئی ہے۔ حضرت والد صاحبؒ میرا پورا مضمون چیک کرتے تھے کہ یہ صحیح لکھا ہے، یہ غلط لکھا ہے اس کو یوں لکھو۔ الغرض ساتھ ساتھ وہ میری یہ تربیت بھی کرتے رہے، یہ ان کا ذوق تھا۔ تعلیم کے دوران میری غیر نصابی سرگرمیوں کی سرپرستی بھی کرتے تھے اور کہیں کہیں جب کوئی زیادہ مسئلہ ہو جاتا تو ڈانٹ بھی دیتے تھے۔
سوال: آپ نے بتایا کہ آپ کے نانا جی کا بھی کتابی ذوق تھا تو اس حوالے سے کچھ بتائیں۔
جواب: ان کا بھی علمی ذوق تھا اور مطالعہ کا بہت اچھا ذوق تھا۔ ان کے پاس ادارہ اصلاح و تبلیغ آسٹریلیا مسجد لاہور کا پندرہ روزہ درسِ قرآن، جس میں خطبات ہوتے تھے، آیا کرتا تھا، خدام الدین، دلی سے برہان، اور لکھنؤ سے النجم آیا کرتے تھے۔ میں ان کے پاس بھی مطالعہ کیا کرتا تھا، ان کے ہاں آتا جاتا تھا تو کوئی رسالہ پڑھ لیتا تھا۔
سوال: ایک چیز ہے مطالعہ کرنا اور ایک ہے مطالعے سے تحقیق کا فن وہ ایک الگ چیز ہے، آپ نے یہ کس سے زیادہ سیکھا؟ صوفی صاحب سے یا بڑے ابا جی سے؟
جواب: تحقیق اور ریسرچ زیادہ حضرت والد صاحبؒ سے سیکھی کہ یہ زبان استعمال کرنی ہے، جواب ایسے دینا ہے، وغیرہ۔
سوال: طالب علمی کے دوران کتابوں اور نصاب سے علاوہ آپ کا تفریح کی کیا سرگرمیاں ہوتی تھیں؟
جواب: میں سیاح آدمی ہوں، زیادہ تر گھومتا پھرتا تھا، اسی لیے حضرت والد صاحبؒ مجھے دابۃ الارض کہا کرتے تھے۔ لیکن میں نے ابتدا میں کچھ سال کرکٹ کھیلا ہے۔ گکھڑ میں آزاد کلب اور یونین کلب تھے، میں آزاد کلب کا ممبر ہوتا تھا، صفدر باجوہ، یونس بھٹی، عبداللہ خالد اور افتخار رانا یہ ہماری ٹیم ہوتی تھی، میں نے کچھ عرصہ کرکٹ کھیلا ہے، اس کے بعد جب نصرۃ العلوم میں آگیا تو پھر میری زیادہ توجہ کیرم بورڈ پر چلی گئی۔ میں نے کیرم بورڈ بہت کھیلا ہے۔ اس کے علاوہ لڈو وغیرہ بھی کھیلتے رہے ہیں۔ یہ میرا ذوق رہا ہے، لیکن اس کے ساتھ میرا ادبی ذوق تھا، گوجرانوالہ کی محفلوں میں جانا، وہاں بیٹھنا، سننا۔
اس بارے میں یہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ مجلس فکر و نظر ایک باقاعدہ ادبی تنظیم تھی، اس میں بڑے بڑے سینئر لوگ تھے، مثلاً پروفیسراسرار سہالوی صاحب، افتخار ملک، ارشد میر، اثر لدھیانوی۔ ٹاپ کے شاعر اور شہر کے ٹاپ کے دانشور اس میں تھے۔ ریلوے اسٹیشن کے سامنے جہاں سفینہ مارکیٹ ہے، اس کے اوپر خیام ہوٹل ہوتا تھا، وہاں اتوار کی شام کو دو گھنٹے ادبی محفل جمتی تھی۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ ایک آدمی کسی موضوع پر مقالہ پڑھتا تھا، اس پر نقد ہوتا تھا۔ یوں ہی کوئی شاعر غزل، نظم پڑھتا تھا تو اس پر نقد ہوتا تھا۔ میں اس کا حاضر باش ممبر تھا۔ ہر اتوار کو جاتا اور ایک سامع کے طور پر شریک ہوتا۔ اس میں ایک دفعہ لطیفہ یہ ہوا جس نے میری آگے پیش رفت کروا دی کہ اتوار کی مجلس تھی، اگلی مجلس کی ترتیب طے ہو رہی تھی کہ مضمون کون پڑھے گا؟ کوئی تیار نہیں ہو رہا تھا، تو ایک شریک محفل نے غالباً تعریضاً مجھے کہہ دیا کہ مولوی صاحب! آپ ہی مضمون پڑھ دیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، میں پڑھ دوں گا۔ پہلے تو یہ دھماکہ ہوا کہ ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میں مضمون پڑھ دوں گا۔ انہوں نے پوچھا کس موضوع پر پڑھیں گے؟ اس زمانے میں معروف مستشرق پروفیسر فلپ کے ہٹی کی کتاب ”عرب اور اسلام“ نئی نئی ترجمہ ہو کر آئی تھی، میں نے تازہ تازہ پڑھی تھی اور میں نے کچھ نشانیاں بھی لگا رکھی تھیں، تو میں نے کہا کہ ”فلپ کے ہٹی کی عرب اور اسلام پر ناقدانہ نظر“ میرا موضوع ہو گا۔ اس سے تو گویا وہاں بم پھٹا کہ ہٹی کی کتاب پر یہ مولوی تبصرہ کرے گا۔ سب مجھے حیران ہو کر دیکھنے لگ گئے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ میں نے تازہ تازہ پڑھی ہوئی تھی، نشان بھی لگائے ہوئے تھے تو میرا تو دو گھنٹے کا کام تھا۔ ارشد میر صاحب جو بعد میں میرے اچھے دوستوں سے تھے، اس موقع پر انہوں نے طنزاً کہا کہ اچھا مولوی صاحب! آپ پڑھ لیں۔ چنانچہ اگلے اتوار کو میں نے فلپ کے ہٹی کی کتاب پر ایک مضمون پڑھا، جو تین چار قسطوں میں ترجمان اسلام میں چھپا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے اپنا باقاعدہ سیریس ممبر سمجھا اور مجھ سے فرمائش کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے ’’اسلام اور اجتہاد‘‘ کے موضوع پر مجھ سے لکھوایا۔ میں اس مجلس میں اور دیگر مجلسوں، مشاعروں میں بہت جاتا تھا۔
سوال: آپ کا باقاعدہ صحافت کا سفر کب سے ہے؟
جواب: گوجرانوالہ میں نصرۃ العلوم کے قریب غریب نواز چوک میں ہفت روزہ نوائے گوجرانوالہ اخبار کا دفتر ہوتا تھا، اس کے ایڈیٹر حافظ سید جمیل الحسن مظلوم مرحوم و مغفور تھے، جو کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مجاز صحبت حضرت حافظ عنایت علی ؒکے فرزند تھے۔ ہمارا آپس میں تعلق تھا تو میں ان کے پاس جا کر بیٹھ جایا کرتا تھا۔ کبھی کبھی ان کے اخبار میں خبر لکھ دیتا، کبھی اپنے میٹنگ کی رپورٹ لکھ دیتا، پھر آہستہ آہستہ بیان دینا شروع کیا۔ اس کے علاوہ گوجرانوالہ میں ایک اور اخبار ”قومی دلیر“ تھا۔ بشیر صحرائی صاحب بہت معروف صحافی تھے، ان کا اخبار تھا۔ ان دونوں اخباروں سے میں نے آغاز کیا۔ میں نے رپورٹنگ سے آغاز کیا، جلسے کی رپورٹ، پھر ہلکے پھلکے فیچر، مطالعے کا حاصل لکھتا، مثلاً امام غزالی پر لکھ دیا یا کسی اور پر لکھ دیا۔
سوال: آپ کی پہلی تحریر جو چھپنے کے بعد آپ کے ذہن میں آیا ہو کہ میں زاہدالراشدی ہو گیا ہوں۔
جواب: ہاں، ایک تحریر ایسی تھی۔ ۱۹۶۴ء کی بات ہے، نسیم حجازی کا روزنامہ کوہستان اس زمانے کے بڑے قومی اخبارات میں تھا۔ میں نے ایک مضمون لکھا جو انہوں نے ادارتی صفحے پر چھاپ دیا تو اس سے میرا دماغ خراب ہو گیا، میں اپنے آپ کو ابو الکلام آزاد سمجھنے لگا کہ روزنامہ کوہستان نے میرا مضمون ادارتی صفحے پر چھاپا ہے تو میری تعلیم کی طرف توجہ کم ہو گئی۔ حضرت والد صاحبؒ نے محسوس کر لیا، چنانچہ مجھے گکھڑ لے گئے۔ ۱۹۶۵ء کا سال میں نے گکھڑ میں گزارا ہے، ایک سال میں نے اس نشے میں ضائع کیا ہے کہ میں اتنا بڑا صحافی ہوں۔ والد صاحبؒ کا سمجھانے کا اپنا انداز تھا، حضرت صوفی صاحبؒ کا انداز مختلف تھا۔ ایک دن میں گوجرانوالہ آیا ہوا تھا تو حضرت صوفی صاحب ؒ نے بڑے پیار سے مجھے پاس بٹھایا اور فرمایا بیٹا! قلم اچھی چیز ہے، لیکن یہ ذریعہ ہے۔ اس کے ذریعے کوئی چیز منتقل ہوتی ہے، جبکہ منتقل کرنے کے لیے پہلے وہ چیز پاس ہونی چاہیے۔ اس لیے پہلے کچھ پڑھ لو، اپنے اندر کچھ ڈالو، پھر باہر نکالنا۔ اس پر انہوں نے مثال دی کہ ٹونٹی سونے کی ہو، بہت خوبصورت ہو، ٹینکی پر لگی ہو، لیکن ٹینکی میں کچھ ہوگا تو ٹونٹی سے باہر آئے گا، خالی ٹونٹی کھولو گے تو شاں شاں کرے گی۔ ان کی وہ شاں شاں اب تک میرے کانوں میں گونج رہی ہے۔ چچا جان کی نصیحت سے میرا رخ بدل گیا، پھر میں نے چار سال خوب محنت سے پڑھا ہے۔
سوال: آپ نے بتایا کہ آپ کے مطالعہ اور تحقیقی ذوق کی سرپرستی بڑے ابا جیؒ نے اور صوفی صاحبؒ نے کی ہے، آپ کے صحافتی ذوق کی پرورش کن لوگوں نے کی؟
جواب: میں جو مضمون لکھا کرتا تھا، اکثر ابا جی کو دکھا لیا کرتا تھا۔ ایک مضمون کی بات بتاتا ہوں، صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں ایک بار رؤیت ہلال میں شہادت کے مسئلہ پر علماء کرام میں اختلاف پیدا ہوگیا اور اخبارات و رسائل میں مضامین و بیانات شائع ہونے لگے۔ اہل حدیث علماء میں حضرت مولانا عبدالقادر روپڑیؒ بڑے عالم تھے، بعد میں تو میرا ان سے بڑا نیاز مندی کا تعلق رہا۔ ان کا ایک مضمون چھپا تھا، جو ہمارے موقف کے برعکس تھا تو میں نے اپنے طور پر اس کا جواب لکھا اور تصحیح کے لیے والد صاحبؒ کو دکھایا۔ اس میں میں نے ایک جملہ اس انداز سے لکھا تھا کہ ’’حافظ عبد القادر لکھتا ہے۔ “ اس پر مجھے ان کی سخت ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑا اور شاید انہوں نے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ بھی اٹھایا مگر بات صرف ہاتھ اٹھانے تک رہ گئی۔ والد صاحب ؒنے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’’وہ تمہارا چھوٹا بھائی ہے؟ ہو سکتا ہے عمر میں تمہارے باپ سے بھی بڑا ہو۔ اس لیے اس طرح لکھو کہ ”مولانا حافظ عبد القادر روپڑی یوں لکھتے ہیں، مگر مجھے ان کی اس بات سے اتفاق نہیں ہے۔ “
اسی طرح ایک واقعہ یہ ہوا تھا کہ گکھڑ میں شاہ سلیمان کی مسجد میں جلسہ تھا، حضرت مولانا قاری سید محمد حسن شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر تھی۔ حضرت قاری محمد انور صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ مجھے دو چار جملے رٹا کر سٹیج پر کھڑا کر دیا کرتے تھے۔ روڈ پر پبلک جلسہ تھا، قاری صاحب نے مجھے دو چار جملے سکھائے کہ حافظ صاحب تقریر کرو۔ تقریر میں مرزا غلام احمد کا نام آ گیا تو میں نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں دو چار سنا دیں۔ حضرت والد صاحبؒ پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، اٹھے، مجھے گریبان سے پکڑا اور پیچھے بٹھا دیا۔ خود مائیک پر آکر ارشاد فرمایا کہ بچہ ہے، بیوقوف ہے، جذبات میں غلط باتیں کر گیا ہے، میں معذرت خواہ ہوں۔
ان دو واقعات کے ساتھ ایک تیسرا واقعہ بھی ذکر کرتا ہوں، جنہوں نے میرا رُخ بالکل متعین کر دیا۔ میرے قادیانیت کے استاذ فاتحِ قادیاں حضرت مولانا محمد حیات صاحب ہیں، آپؒ استاذ المناظرین تھے جنہوں نے اس دور میں قادیان میں بیٹھ کر مقابلہ کیا تھا۔ میں نے ان سے باضابطہ قادیانیت پڑھی ہے، ان سے کورس پڑھا ہے۔ گوجرانوالہ میں ہم کورس میں شریک تھے۔ آپؒ طلبہ سے کبھی کبھی تقریر بھی کرواتے تھے۔ ایک دن حیات عیسیٰ علیہ السلام کے دلائل لکھوا رہے تھے کہ فرمایا مولوی صاحب! جو پڑھا ہے اسے ذرا بیان کرو۔ میں نوجوان تھا، جب مرزا غلام احمد قادیانی کی کسی بات کا حوالہ دینے کا موقع آیا تو میں نے اس کا ذکر ان الفاظ سے کیا کہ ’’مرزا بھونکتا ہے“۔ مولانا محمد حیاتؒ نے فوراً یہ کہہ کر مجھے ٹوک دیا کہ ’’ناں بیٹا ناں، ایسا نہیں کہتے، وہ بھی ایک قوم کا لیڈر ہے۔ اس لیے بات یوں کرو کہ مرزا صاحب یوں کہتے ہیں، لیکن ان کی یہ بات اس وجہ سے غلط ہے، مجھے اس سے اختلاف ہے۔
ان تین واقعات نے مجھے بالکل ٹریک پر چڑھا دیا۔ والد صاحبؒ کہا کرتے تھے کہ لفظ نرم، لہجہ ہمدردانہ، بات مضبوط۔ موقف بے لچک ہو، زبان لچکدار ہو اور لہجہ ہمدردانہ ہو۔ اب تک الحمد للہ میں اسی ٹریک پر ہوں۔
طلال خان ناصر: ہم نے دادا ابو کے ساتھ ان کے تعلیمی سفر اور ان کے صحافتی سفر کے بارے میں کچھ گفتگو کی ہے، اب ہم اس نشست کا اختتام کرتے ہیں۔ اگلی نشست میں ہم دادا ابو کی مختلف سیاسی تحریکات میں شرکت و شمولیت کے بارے میں ان سے گفتگو کریں گے، ان شاء اللہ العزیز۔
https://www.youtube.com/watch?v=PqOKKPRoYCQ
(جاری)