السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبركاتہ۔
امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ آپ نے ’’جنوبی ایشیا کے فقہی و اجتہادی رجحانات کا ایک جائزہ‘‘ کے موضوع پر ایک مختصر مگر جامع تحریر لکھ کر فقہ اسلامی کے طلبہ پر بڑا احسان فرمایا، خاص طور پر ان طلبہ پر جو مختلف جامعات میں بحث و تحقیق میں مصروف ہیں۔ عام طور پر طلبہ کو تحقیقی مقالات کے لیے موضوع کی تلاش ہوتی ہے، آپ کا مضمون پڑھ کر انہیں بہت سے موضوعات کی طرف رہنمائی مل جائے گی۔ ہمارے دینی مدارس کے طلبہ جو فقہ اسلامی یا افتاء میں تخصص کرتے ہیں وہ بھی رہنمائی حاصل کر کے مزید علمی کام کر سکتے ہیں۔
برصغیر میں بیسویں صدی کے اوائل میں مولانا اشرف علی تھانوی کا فقہی کنٹریبیوشن شاید سب سے زیادہ ہے۔ ان کے کام کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اجتماعی اور مشاورتی تحقیق پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ احکام القرآن کی تدوین کے لیے علماء کی کمیٹی نے تقسیمِ ہند سے بہت پہلے کام شروع کر دیا تھا اور مولانا ظفر احمد عثمانی مرحوم کا کام شائع بھی ہو گیا تھا، اعلاء السنن جیسا عظیم الشان کام بھی تکمیل کو پہنچ گیا تھا، فتاویٰ امدادیہ کے علاوہ اور بہت سے فقہی موضوعات پر رسائل تحریر فرمائے۔ شائد سب سے اہم رسالہ، "الحیلۃ الناجزۃ للحليلۃ العاجزۃ" ہے۔
آپ کی تحریر نے بحث و تحقیق کے میدان میں کام کرنے والوں کو مزید کام کرنے اور غور فکر کرنے کا موقعہ فراہم کر دیا ہے، اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائیں اور ہم جیسے طلبہ کے استفادہ کے لیے آپ کی عمر اور صحت میں برکت عطاء فرمائے آمین۔