انسانیت کے بنیادی اخلاقِ اربعہ (۳)

(۳) سماحت

تیسرا خُلق ان اخلاقِ اربعہ میں سے سماحت (فیاضی) ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ نفس خسیس بہیمی دواعی کے سامنے مغلوب نہ ہو۔ لذت کی طلب میں، انتقام کی خواہش پورا کرنے میں، یا بخل یا حرص اور اس جیسی دیگر رذیل خصلتوں میں نفس حقیر اور خسیس جذبات کے تابع نہ ہو۔ سماحت کی خصلت کا ہر شعبہ اس داعیہ کے اعتبار سے الگ الگ نام سے یاد کیا جاتا ہے، مثلاً‌:

عفت: اگر نفس داعیہ شہوتِ فرج اور بطن کو قبول نہ کرے تو وہ عفت (پاکدامنی نزاہت) کہلاتا ہے۔

اجتہاد: اگر نفس رباہیت یعنی خوشحالی و آرام پسندی اور ترکِ عمل کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ اجتہاد کہلاتا ہے۔

صبر: اگر تنگ دلی، جزع اور بے صبری کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ صبر کہلاتا ہے۔

عفو: اگر انتقام کی خواہش کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ عفو (درگزر) کہلاتا ہے۔

قناعت: اگر حرص کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو یہ قناعت کہلاتا ہے۔ 

تقویٰ:  اگر شریعت کی مخالفت کے داعیہ کو قبول نہ کرے جو شریعت نے حدود و مقادیر کی حفاظت کے سلسلہ میں مقرر و معیّن کیے ہیں تو اس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ خود امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں و تقویٰ عبارت از محافظت بر حدود شرع است (الطاف القدس)۔ (اور اسی طرح حضرت ابو حسین فارسیؒ فرماتے ہیں: ظاہر تقویٰ محافظت حدود کا نام ہے اور باطن تقویٰ نیت اور اخلاص)۔ امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ ان سب خصلتوں کی اصل ایک ہی چیز ہے اور وہ رائے کلی (عقلی تقاضے) کا دواعی خسیسہ بہیمیہ پر غالب ہونا ۔ اسی خصلت یعنی سماحت کے اشکال و شعب سے نفس میں ایک معنی داخل ہوتا ہے اور اس کو نفس اپنا ملکہ بنا لیتا ہے یعنی خسیس اور کمینہ دواعی کو قبول نہ کرنے کا ملکہ اس نفس کو حاصل ہو جاتا ہے۔ اور جس وقت یہ خصلت کسی نفس میں راسخ اور پختہ ہو جاتی ہے تو جب یہ آدم مرتا ہے تو تمام خسیس ہیئتیں جو اس عالم میں اس کے نفس پر ہجوم کرتی تھیں وہ یکسر نیست و نابود ہو جاتی ہیں اور وہ نفس اس طرح ہو جاتا ہے جس طرح خالص سونا کٹھالی سے نکلتا ہے  اس طرح وہ زرِ خالص بن کر نکلتا ہے۔ اور یہ ایسی خصلت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان قبر کے عذاب سے دور اور بچا رہتا ہے۔ اور صوفیائے کرام اس خصلت کو زُہد (دنیا میں بے رغبتی) اور حریت اور ترکِ دنیا یا قطع تعلقات دنیا اور فناء خسائس بشریہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ منصور حلاجؒ کے اس شعر میں ہے:

’’اطعت مطامعی  فاستعبدتنی 
ولو انی قنعت لکنت حرا‘‘
(یعنی میں نے اپنی طمع او رلالچ کی پیروی کی تو ان چیزوں نے مجھے غلام بنا لیا۔ اگر میں قناعت اختیار کرتا تو آزاد ہوتا۔)

اور اس خصلت کو حاصل کرنے کا عمدہ ذریعہ یہ ہے کہ ایسے مواقع و مظان سے گریز کرے جو اس خصلت کے اضداد ہیں اور اپنے قلب میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کو ترجیح دے اور عالمِ تجرد کی طرف نفس کا میلان ہو اسی قبیل سے ہے۔ 

حضرت زید بن حارثہؓ کا قول ہے ’’میرے نزدیک دنیا کا سونا اور پتھر یکساں ہیں۔‘‘ 

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں (حجۃ البالغہ میں) کہ سماحت حقیقت میں اس ہیئت کا نام ہے جو انسان میں کمال مطلوب کی ضد کو پختہ ہونے سے روکتی ہے خواہ علم کمال مطلوب ہو یا عمل کے اعتبار سے۔ سماحت اور اس کی ضد کے بہت سے القاب ہیں، جس قسم میں ہو گی اس کے اعتبار سے اس کا نام ہو گا،  مثلاً‌ :

بخل کے اعتبار سے ہو تو اس کا نام سماحت و سخاوت ہو گا اور اس کی ضد شح (بخل) کہلائے گی۔ 

اگر یہ داعیہ شہوتِ فرج اور بطن سے ہو، سماحت میں عفت اور اس کی ضد شہرہ (حرص ندیدہ پن) کہلائے گی۔

اگر خوشحالی اور آرام طلبی کے داعیہ اور مشقت کے کاموں سے دور رہنے کے اعتبار سے ہو تو سماحت میں صبر اور اس کی ضد صلع (شدید جزع اور بے صبری) کہتے ہیں۔ 

اگر شرع میں معاصی ممنوعہ کے داعیہ سے ہو تو اس کو تقویٰ کہتے ہیں اور اس کی ضد کو فجور کہتے ہیں۔

اور جب سماحت انسان میں پختہ ہو جاتی ہے تو اس کا نفس شہواتِ دنیا سے خالی ہو جاتا ہے اور لذاتِ عالیہ مجردہ (عالم بالا اور خطیرۃ القدس کی روحانی لذات) کے لیے مستعد ہوتا ہے۔

امام ولی اللہؒ بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’سماحت کی اصل حقیقت یہ ہے کہ نفس قوتِ بہیمیہ کے دواعی کے تابع نہ ہو اور قوت بہیمیہ کے نقوش اس میں متمثل نہ ہوں اور بہیمیت کے اوساخ (میل کچیل) یا آلودگیاں اور اس کا اثر اس پر لاحق نہ ہو کیونکہ جب انسان اپنے امورِ معاش میں تصرف کرتا ہے اور عورتوں سے ملنے کا اشتیاق رکھتا ہے اور لذات کے تحصیل کا خوگر اور عادی ہو جاتا ہے اور کسی خاص طعام کی چاہت کرتا ہے اور پھر ان اشیاء کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے تو خاص کیفیت اور ہیئت اس میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر انسان کسی پر ناراضگی اور غصہ کا اظہار کرتا ہے یا کسی چیز کے دینے پر بخل کرتا ہے تو ضرور اس حالت میں وہ ایک وقت تک مستغرق ہو گا، اس کے علاوہ کسی چیز کی طرف سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا، لیکن پھر جب یہ حالت اس سے زائل ہو گی تو اگر آدمی سماحت کی صفت سے موصوف ہوا تو ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرے گا، ایسا ہو گا کہ گویا کوئی چیز واقع ہی نہیں ہوئی۔ اور اگر سماحت والا نہ ہوا تو یہ کیفیت اس کے ساتھ چسپاں ہو جائے گی جس طرح انگوٹھی کا نقش موم میں چسپاں ہو جاتا ہے۔ جب اس آدمی کے مادی جسم سے روح مفارقت اختیار کرے گی یعنی طبعی موت سے جب یہ مر گیا اور ظلماتی جہاں کے تعلقات جو تہہ بہ تہہ اس پر چڑھے ہوئے تھے ان سے جب ہلکا ہو گیا اور اس نے اس چیز کی طرف رجوع کیا جو اس کے نفس کے پاس تھی تو دنیا میں جو چیزیں ملکیت کے منافی اور مخالف تھیں وہ اس میں موجود نہ ہوں گی تو اس کو اُنس حاصل ہو گا اور اچھی اور عمدہ عیش میں ہو گا۔ اور بخیل نفوس کے اندر اس بخل کے نقوش متمثل ہوں گے جیسا کہ تم مشاہدہ کرتے ہو۔ بعض آدمیوں کا جب کوئی نفیس مال چوری ہو جاتا ہے تو اگر وہ سخی اور سماحت والا ہو گا تو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کر ےگا۔ اور اگر وہ رکیک النفس یعنی بخیل کنجوس ہو گا تو اس کی حالت ایسی ہو گی اور وہ واویلا اور جزع فزع کرتا رہے گا۔‘‘

اسی طرح امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ سماحت کے اسباب یہ ہیں کہ اپنے نفس کو سخاوت کا خوگر بنایا جائے اور خرچ کرنے پر ہر وقت آمادہ اور تیار بنایا جائے اور جس نے اس پر ظلم و زیادتی کی ہو اس کو معاف کر دے اور مشکلات کے وقت اپنے نفس کو صبر پر کاربند کرنے کا عادی بنائے۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ نفس کی سماحت اصولِ اخلاق میں اہم ترین خُلق ہے کیونکہ نفس دواعی خسیسہ بہیمیہ کا مطیع نہ ہو یہ اہم بات ہے۔ انتقام کا جذبہ اس میں موجود ہوتا ہے اور وہ انتقام لینا چاہتا ہے اور غضب و غصہ کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ بخل اور حرص علی المال اور حرص علی الجاہ بھی اس میں پایا جاتا ہے۔ اور اگر ان دواعی خسیسہ کے مطابق وہ اعمال انجام دے گا تو ان کا رنگ اس کے نفس کے جوہر میں چسپاں ہو گا اور اس میں متمثل ہو گا۔ اگر سماحت والا انسان ہوا  تو ان خسیس ہیئتوں کو ترک کرنا اس کے لیے سہل ہو گا۔ وہ ان سے چھوٹ کر اللہ کی رحمت کی طرف پہنچ جائے گا اور انوار و تجلیات میں مستغرق ہو جائے گا جیسا کہ نفسوس کی جبلت اس کا تقاضہ کرتی ہے۔ اور اگر فیاض اور سماحت والا نہ ہوا تو ان خسیس اعمال کے الوان و رنگ اور دنیا کی چکناہٹ اور آلودگی اس کے نفس میں مل جائے گی اور اس پر سہل نہیں ہو گا کہ وہ ان ہیئات کو ترک کر سکے۔

جب اس کا نفس اس خاکی جسم سے الگ ہو گا تو اس کےگناہ ہر طرف سے اس کا احاطہ کریں گے اور اس کے درمیان اور ان انوار و تجلیات کے درمیان جن کو نفس کی جبلت چاہتی ہے نہایت غلیظ یعنی دبیز حجات ڈال دیے جائیں گے اور ان کی وجہ سے وہ اذیت او ردکھ پاتا رہے گا۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ نورِ ایمان ان دواعی خسیسہ میں سے ہر ایک کی مدافعت کرتا ہے۔ نفسِ بہیمی اور قلبِ سبعی جب یہ خسیس داعیات رکھتے ہیں تو نورِ ایمان ان کی مدافعت کرتا ہے ،اور ہر ایک کا جدا جدا نام ہوتا ہے۔ جو ملکہ جزع فزع کے داعیہ کی مدافعت کرتا ہے اس کو صبر علی المصیبت کہتے ہیں، اس کا مستقر قلب ہے۔ آرام طلبی اور فارغ البالی کے داعیہ کی مدافعت کا ملکہ اجتہاد اور صبر علی الطاعہ کہلاتا ہے۔ حدودِ شرعیہ کی مخالفت اور ان کے ساتھ تہاون اور سستی اختیار کرنے کے داعیہ کی مدافعت تقویٰ کرتا ہے۔ اور جس سے غصہ کے داعیہ کی مدافعت ہوتی ہے اس کو حلم اور بردباری کہتے ہیں، اس کا مستقر بھی قلب ہے۔ حرص کے داعیہ کی مدافعت قناعت کہلاتی ہے۔ عجلت اور جلد بازی کے داعیہ کی مدافعت تانی (پختگی، آہستگی، تثبت) کہلاتا ہے۔ شہوت فرج کے داعیہ کی مدافعت عفت (پاکدامنی) کہلاتی ہے۔ منہ پھٹ ہونے اور بیہودہ گوئی کے داعیہ کی مدافعت صمت، خاموشی اور رعی کہلاتی ہے۔ دوسروں پر نمایاں ہونے اور غالب آنے کے داعیہ کی مدافعت خمول (گمنامی) کہلاتی ہے۔ محبت اور نفرت دونوں میں تلون مزاجی کے داعیہ کی مدافعت استقامت کہلاتی ہے۔

الطاف القدس میں امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ انسان میں رذیل صفات کی وجہ سے جو درندوں جیسے افعال اور شہوانی اعمال جب نفسِ ناطقہ کے ساتھ دامن گیر ہوتے ہیں تو اسی سماحت کی خصلت کی وجہ ہی انسان ان صفاتِ رذیلہ کے رنگ کو اپنے آپ سے جھٹک دیتا ہے اور صفائی اور پاکیزگی کی خوبی اور صفت اس کو حاصل ہوتی ہے۔ 

اور اسی طرح جو شخص سماحت کی ضد کے ساتھ متصف ہو گا اور دنیاوی اور مادی تعلقات جو حبِ مال، حبِ جاہ اور حبِ اولاد وغیرہ سے متعلق ہیں، اور اس کے علاوہ ہیئاتِ خسیسہ مثلاً‌ بھوک، پیاس وغیرہ اس کے دل پر ہجوم کرتی ہیں اور اس پر چسپاں ہو جاتی ہیں، جس طرح انگوٹھی کو زور سے موم وغیرہ پر مارا جائے تو اس کی صورت اور نقوش اس موم میں مُنطبع ہو جاتے ہیں۔ لیکن سماحت والا انسان ایسا ہوتا ہے جیسا کہ پانی کی حالت ہوتی ہے کہ جب انگلی وغیرہ کو اس سے اٹھا لیا جائے تو وہ نقش و صورت زائل ہو جاتی ہے۔ امام ولی اللہؒ کا اپنا ایک شعر ہے ؎

بوسعت مشرباں رنگ تعلق درنمے گیرد 
اگر نقشے زنی بر روئے دریا بے اثر باشد
(وسیع المشرب لوگوں کے ساتھ یعنی سماحت والے لوگوں کے ساتھ تعلقات کا رنگ چسپاں نہیں ہوتا، جس طرح دریا کے پانی پر اگر نقش بناؤ تو بے اثر ہو گا، نقش ٹھہرتا نہیں۔)

انسان بالطبع بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ مثلاً‌ خاص قسم کا کھانا، خاص لباس، عمدہ اور خوبصورت مکان۔ اور یہ بھی پسند کرتا ہے کہ لوگوں کے اجتماع میں وہ عزیز اور محترم ہو۔ اور ساتھ یہ بھی کہ عند اللہ مقرب بھی ہو۔ یہ سب انسان کی ضروریات ہیں۔ جب انسان اپنی ضروریات کو اچھی طرح پوری کرتا ہے تو وہ اس کے لطف کو فراموش نہیں کر سکتا، بلکہ یہ لذت اس کے لیے دوسرے کاموں اور حاجتوں کو پورا کرنے سے مانع ہوتی ہے۔ 

جب انسان اس کے برخلاف ایسے ہوتے ہیں مثلاً‌ لذیذ کھانا کھاتے ہیں اور اس کی لذت بھی پوری طرح محسوس کرتے ہیں، لیکن جب وہ اس سے فارغ ہو جاتے ہیں تو اس کو فراموش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں پھر سوچتے بھی نہیں، اور یہ لذت ان کے لیے کسی دوسرے کام سے مانع نہیں ہوتی، ایسا انسان یقیناً‌ اپنے اخلاق کی تکمیل کرنے کا اہل ہوتا ہے۔  یہ سماحت کا اخلاق بھی ایسا ہے کہ اس خلق والے کی طبیعت پانی کی طرح ہوتی ہے۔ پانی میں انگلی ڈبوئی جائے تو بہت سی جگہ پانی سے خالی نظر آتی ہے، لیکن جب انگلی اٹھا لی جائے تو پھر پانی پہلی حالت پر لوٹ آتا ہے۔ 

اور در حقیقت سماحت اور عدالت میں من وجہ تنافر و تناقص بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ قلب کا میلان تجرد کی طرف، اور اس کا رحمت و مودت کے لیے مطیع ہونا، یہ دونوں باتیں اکثر لوگوں کے حق میں باہم مخالف ہیں۔ اسی لیے بہت سے اہل اللہ کو تم دیکھو گے کہ وہ تبتل اور انقطاع عن الناس کو اختیار کرتے ہیں اور اہل و اولاد سے دور ہو جاتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو تم دیکھو گے کہ اہل و اولاد سے میل جول ان پر اس قدر غالب و حاوی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بھی فراموش کر دیتے ہیں۔ لیکن انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام دونوں مصلحتوں کی رعایت کا حکم دیتے ہیں، اور یہ کہ مصلحتوں کو جہاں تک ممکن ہو جمع کیا جائے۔ اس لیے سماحت کے نوامیس آپس میں ملے جلے ہوں گے۔ معاملہ حسنِ خلق سے تعلق رکھتا ہے اور یہ مجموعہ ہے سماحت اور عدالت کا کیونکہ یہ مشتمل ہے جود پر، اور جو ظلم و زیادتی کرتا ہے اس کو معاف کرنے پر، اور تواضع پر، اور حسد و حقد اور غضب کو ترک کرنے پر۔ اور یہ سب سماحت کے باب میں داخل ہیں۔ اور لوگوں کے ساتھ مودت، صلہ رحمی، حسنِ صحبت اور محتاجوں کے ساتھ ہمدردی و مواسات، یہ عدالت کے باب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اور آفاتِ لسان سب مخل بالاخبات و سماحت اور عدالت ہیں، کیونکہ اکثار فی الکلام یعنی زیادہ بولنا اللہ تعالیٰ کے ذکر کو فراموش کراتا ہے، اور غیبت و بدگوئی آپس کے تعلقات کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں، اور قلب بھی زبان کے کلام سے رنگین ہوتا ہے، غصہ کے کلمہ سے قلب بھی غضبناک ہوتا ہے، اور غیبت، جدال اور مراء (جھگڑا) وغیرہ لوگوں کے درمیان فتنے برپا کرتے ہیں۔ اور ہر قسم کا کلام کرنا اور ہر وادی میں گھس جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایسا آدمی توجہ الی اللہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں حلاوت نہیں پاتا۔ اگر سب و شتم کرتا ہو یا عورتوں کے محاسن کا ذکر کرتا ہو تو اس کے نفس پر شہوانی اور سبعی (درندوں جیسے خیالات کا) نقش چھا جائے گا۔ اور اگر ایسا کلام کرے گا مثلاً‌ کسی بادشاہ کو ملک الملوک کہے تو اس سے اللہ کے جلال کو فراموش کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے اس سے غفلت پیدا ہو گی۔ اور اگر ایسی چیز زبان پر لائے گا جو مصالحۂ ملت کے خلاف ہو مثلاً‌ ملت نے جس چیز کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ترغیب دینے لگ جائے مثلاً‌ شراب کی مدح کرے یا عنب (انگور) کو کرم کہنے لگے، یا اللہ کی کتاب کو عجمی بنائے جیسا مغرب کو عشاء اور عشاء کا عتمہ کہے، یا قبیح اور شنیع کلام کرے جیسا کہ شیطانی شنیع افعال کا ذکر، یا فحش باتیں اور جماع کا ذکر، یا اعضاء مستورہ کا ذکر، یا شگون وغیرہ کے الفاظ، یہ سب ملت کی مصلحت کے خلاف ہیں۔

ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ انسان جب کوئی اخلاق حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے مطابق افعال و ہیئات پر اپنے آپ کو کاربند بناتا ہے اگرچہ وہ معمولی بات ہو۔ مثلاً‌ شجاعت کا خلق حاصل کرنے والا گارے میں گھسنے اور سورج کی دھوپ اور رات کے اندھیرے میں چلنے سے گریز نہیں کرے گا۔

سماحت کے مواقع

شریعت میں سماحت کے مظان و مواقع ہیں اور جن کو سماحت نہیں بتایا ان میں امتیاز کرنا بھی ضروری ہے۔

زُہد

انسان کا نفس طعام کی طرف حرص رکھتا ہے اور اسی طرح لباس اور عورتوں کا اشتیاق بھی رکھتا ہے،  جب تک ان کو حاصل نہ کرے اس کو قرار نہیں آتا۔ اور اس سے اس کے نفس کے جوہر میں ایک فاسد رنگ پیدا ہو جاتا ہے،جب انسان اس رنگ کو اپنے نفس سے پھینک دے تو اس کو ’’زہد‘‘ کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ

’’حلال کو حرام بنانے سے یا مال کو ضائع کرنے سے زہد حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زہد یہ ہے کہ تمہارے پاس جو چیز ہے اس پر تمہیں زیادہ اعتماد و بھروسہ نہ ہو، اس چیز کے مقابلے میں جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اور مصیبت کے وقت اس کے ثواب میں زیادہ راغب ہو، بہ نسبت اس کے کہ اس مصیبت کو تم سے اٹھا دیا جائے۔‘‘

اور اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ

’’ابن آدم کے لیے ان خصلتوں (بنیادی حقوق) کے علاوہ حق نہیں ہے، اور وہ خصلتیں یہ ہیں: ایک مکان جس میں انسان سکونت اختیار کر سکے، دوسرا کپڑا جس سے ستر پوشی کر سکے، تیسری جیسی کیسی بھی ہو روٹی میسر ہو، چوتھی پانی۔ (یہ بنیادی حق ہیں جو ہر انسان کو ملنے چاہئیں، ان چار حقوق کے علاوہ دو حق صحت اور تعلیم بھی ہیں جن کا ذکر قرآن و سنت میں موجود ہے۔)‘‘

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ

’’ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پشت کو سیدھا رکھ سکیں۔‘‘

اور یہ بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ

’’دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے اور تین کا چار کے لیے کفایت کرتا ہے۔‘‘

یعنی دو آدمیوں کا کھانا اگر کفایت کے طریق پر تقسیم کر دیا جائے۔ یہ مواسات کی ترغیب اور حرص کی ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔

قناعت

مال کی حرص بسا اوقات نفس پر غالب ہوتی ہے اور اس کے جوہر میں داخل ہو جاتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ سے اس حرص کو دور کرتا ہے اور اس پر اس کا ترک آسان ہو جاتا ہے تو یہ قناعت ہے۔ قناعت کا مفہوم نہیں کہ جو چیز بغیر طمع کے اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اس کو بھی چھوڑ دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ

’’ غنیٰ (دولت مندی اور غنی ہونا) سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی بلکہ غنی نفس کا غنی ہے کہ انسان کا نفس اور دل مستغنی ہو۔‘‘

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حکیمؓ سے فرمایا کہ

’’اے حکیمؓ! یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ جو شخص اس کا نفس کی سخاوت (فیاضی) سے لے گا اس کو برکت دی جائے گی۔ اور جو حرص سے لے گا اس کو برکت نہیں دی جائے گی، اور وہ ایسا ہو گا جو کھاتا ہے (جوع البقر یا جوع الکلب کی وجہ سے) اور اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تمہارے پاس یہ مال بغیر طمع اور لالچ کے آجائے تو اس کو لے لو اور اپنے نفس کو اس کی طمع میں مت لگاؤ۔‘‘

جود 

سخاوت و بخشش۔ مال کی محبت انسان کے لیے ایک فطری امر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’وانہ لحب الخیر لشدید‘‘ کہ انسان مال کی محبت میں بڑا پکا ہے۔ انسان مال کو اپنے پاس رکھنے اور اس کو روکنے کی محبت رکھتا ہے۔ اور یہ محبت بسا اوقات اس کے قلب پر غالب آتی ہے اور اس کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ہر طرف سے جب انسان اس مال کے صَرف و خرچ کرنے پر قادر ہو اور اس کی پروا نہ رکھے تو یہ ’’جود‘‘ ہے۔ جود یہ نہیں کہ مال کو بلاوجہ اور بے محل ضائع کر دے۔ مال بذاتہ کوئی مبغوض چیز نہیں، یہ تو ایک نعمت کبیرہ ہے۔ 

اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بخل اور کنجوسی سے بچو۔ اس بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو خونریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے حرام چیزوں کو حلال خیال کیا۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قابلِ رشک دو آدمیوں کا حال ہے۔ ایک علم والا جس کو پڑھاتا اور پھیلاتا ہے، اور دوسرا مال جس کو خرچ کرتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا گیا کہ حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام! کیا خیر بھی شر کو لاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیر تو شر کو نہیں لاتا لیکن جو چیز موسم ربیع میں پیدا ہوتی ہے (گھاس، سبزہ، چارہ وغیرہ) اور جانور اس کو حرص سے کھاتے ہیں تو وہ مہلک ہوتا ہے۔ یعنی جس کو تم خالص خیر خیال کرتے ہو اس میں دوسرا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔

اور حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ

’’جس کے پاس زائد سواری موجود ہو، وہ اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری موجود نہیں، اور جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد توشہ موجود ہو، وہ اس کو دے دے جس کے پاس توشہ نہیں۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی مختلف قسموں کا ذکر فرمایا ، یہاں تک کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ ہم میں سے زائد چیز میں کسی کا حق ہی نہیں۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب اس لیے دی ہے کہ لوگ جہاد میں مصروف تھے اور مسلمانوں کی جماعت کو اس کی ضرورت تھی۔ اس میں ایک طرف سماحت ہے اور دوسری طرف نظامِ ملت کو قائم کرنا اور مسلمانوں کی جانوں کو بچانا مقصود ہے۔ سماحت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی ضروریات کو مؤخر کر دیا جائے۔ چنانچہ عربی زبان کا ایک شاعر مقنع کندی کہتا ہے؎

لیس العطاء من الفضول سماحة 
حتی تجود و مالدیک قلیل
’’ایسا عطیہ سماحت نہیں کہ انسان زائد مال میں سے دے۔ سماحت تب ہو گی کہ تم سخاوت کرو یہاں تک کہ تمہارے پاس قلیل بھی نہ رہے۔‘‘

قصرِ امل 

(آرزو کو مختصر کرنا)۔ انسان پر زندگی کی محبت غالب ہوتی ہے اور وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور دراز زندگی کا خواہشمند ہوتا ہے جس کو پا نہیں سکتا۔ اگر ایسی حالت میں ہی انسان مر جائے تو اس کو عذاب ہو گا کہ اس کا میلان و اشتیاق اس چیز کی طرف تھا جس کو پا نہیں سکا۔ یہ مزید باعثِ کلفت ہو گا۔ ورنہ عمر تو بنفسہ کوئی مبغوض چیز نہیں بلکہ نعمتِ عظیم ہے۔ آرزو کو مختصر کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وجہ سے یہ فرمایا ہے کہ

’’دنیا میں اس طرح رہو جیسا مسافر ہوتا ہے، یا راستے پر گزرنے والا۔‘‘

اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز کو یاد کیا کرو یعنی موت کو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اپنے ہمعصروں کی موت سے عبرت پکڑو۔ اور فرمایا کہ کوئی شخص بھی اپنی موت کی تمنا نہ کرے اور نہ موت کے لیے دعا کرے، کیونکہ جب انسان مر جاتا ہے تو تمام اعمال انسان کے منقطع ہو جاتے ہیں۔‘‘

تواضع

انکساری یہ ہے کہ انسان کا نفس تکبر او رخودپسندی کے داعیہ کا اتباع نہ کرے اور لوگوں کو حقیر نہ جانے کیونکہ لوگوں پر زیادتی و ظلم اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا یہ انسان کے نفس کو بگاڑنے والی بات ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہو تو وہ بہشت میں نہ جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، انسان پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو، جوتا اچھا ہو، تو کیا یہ تکبر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، یہ تکبر نہیں۔ تکبر لوگوں کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر جاننے سے ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اہلِ نار یعنی دوزخی نہ بتلاؤں۔ ہر اکڑنے والا، اکھڑ مزاج، مغرور آدمی اہل النار ہو گا۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

’’ ایک شخص تم سے پہلی امتوں میں سے تھا جو زمین پر اکڑ کر چلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا۔ بس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔‘‘

حلم

بردباری، حوصلہ، آہستگی اور نرمی۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ انسان داعیہ غضب کے تابع نہ ہو۔ حتیٰ کہ وہ غوروفکر سے کام لے اور مصلحت کو دیکھے۔ غضب کے تمام مواقع مدفوع نہیں۔ 

اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:

’’جو شخص رفق (نرمی) سے محروم ہوا وہ ہر قسم کی خیر سے محروم ہو گا۔ ایک شخص نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ نصیحت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ مت کرو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بار بار فرمائی۔‘‘

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ آگ پر کون لوگ حرام ہیں۔ ہر حلیم الطبع نرم اخلاق انسان آگ پر حرام ہے۔ اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے، پہلوان تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے وقت نفس پر قابو رکھتا ہو۔

صبر

نفس آرام طلبی، جزع فزع، شہوت، اترانے، راز کو ظاہر کرنے، اور موت کو ختم کرنے کے داعیہ کے تابع نہ ہو۔ یہ صبر ہے۔  

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا۔

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کو صبر سے زیادہ افضل عطیہ اور اس سے زیادہ وسیع کوئی چیز نہیں ملی۔ 

دین و حکمت

(الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۲

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter