’’قرآنی معاہدات: اللہ اور انسانوں کے تعلق کے قانونی زاویے‘‘

استاد محترم احمر بلال صوفی صاحب سے پہلی ملاقات نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اسلام آباد کے ایک وقیع کورس ’نیشنل سکیورٹی ورکشاپ‘ کے دوران ہوئی۔ انہوں نے بین الاقوامی قانون اور پاکستان کو اس ضمن میں درپیش مسائل پر انتہائی عالمانہ گفتگو کی۔ اُس وقت میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں بطور رفیق و نگران شعبہ مؤتمر المصنفین مصروفِ عمل تھا۔ صوفی صاحب کی بین الاقوامی قانون پر گفتگو نے بے حد متاثر کیا، اور کئی اہم امور پر ازسرِنو سوچنے پر مجبور کیا۔ تب راقم نے فیصلہ کیا کہ آئندہ علما اور دینی مدارس کے اساتذہ و مفتیان کرام کی تربیتی ورکشاپس میں صوفی صاحب کو دعوت دیں گے تاکہ وہ مجھ سمیت دیگر طلبہ کو بین الاقوامی قانون سے روشناس کریں۔

احمر بلال صوفی، جنوبی ایشیا کے معروف بین الاقوامی وکیل اور پاکستان کے سابق وفاقی وزیر قانون ہیں۔ وہ اِس وقت پیرس کی ’بین الاقوامی عدالت برائے ثالثی‘ کے رکن ہیں۔ عالمی عدالتِ انصاف اور دیگر بین الاقوامی عدالتی فورمز میں نمائندگی کر چکے ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں کئی سال بین الاقوامی قانون پڑھاتے رہے ہیں، اور دنیا بھر میں اس پر لیکچرز دیے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے امور پر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ان سے مشاورت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ایک معروف تھنک ٹینک ’ریسرچ سوسائٹی آف انٹرنیشنل لاء‘ (RSIL) کی بنیاد رکھی، جو بین الاقوامی قانون کو سمجھنے کی ضرورت کے حوالے سے کام کرتا ہے۔

انٹرنیشل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور‘ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی مختلف تربیتی ورکشاپس میں صوفی صاحب voluntarily اپنا قیمتی وقت نکال کر تشریف لاتے رہے ہیں۔ ان کے مختلف سیشنز سے جید علماء کرام نے بھر پور استفادہ کیا۔ انہوں نے ایک پروگرام میں بین الاقوامی قانون سے اپنا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:

’’آج سے 35 سال پہلے جب میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویٹ ہوا تھا، تو میرا پہلا ارادہ ایل ایل بی کرنے کا تھا۔ میرے والدین دونوں ڈاکٹر تھے۔ والد صاحب ہری پور سے تھے اور والدہ دلّی سے تھیں۔ ان کی شادی کوئٹہ میں ہوئی تھی اور میں لاہور میں پیدا ہوا تھا۔ میری ابتداء سے ہی قانون میں دلچسپی تھی اور میں نے سوچا تھا کہ میں صرف وکالت ہی کروں گا۔ اس لیے میں نے دیگر شعبوں میں بہت سے مواقع ترک کر دیے، جیسے سی ایس ایس، بینک کی ملازمت، وغیرہ۔ میرا ہدف صرف یہ تھا کہ میں وکیل بنوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میں بچپن میں قائد اعظم کی ایک تصویر سے متاثر ہو گیا تھا۔ میں نے ان کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ ایک وجیہ اور پُروقار لباس پہنے ہوئے اپنی لائبریری میں کھڑے ہیں۔ یہ تصویر مجھے بہت متاثر کن لگی۔ قائد اعظم کی شخصیت میں ایک خاص وقار اور عظمت تھی۔ مجھے لگا کہ یہ وقار اور عظمت ان کے پیشے سے وابستہ ہے۔ میں نے فورً‌ا ارادہ کیا کہ میں ان جیسا وکیل بنوں گا۔ لیکن پھر مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ یہ پیشہ اتنا لچکدار ہے کہ اگر آپ اپنا ماڈل اور اپنی اقدار درست رکھیں تو آپ نہ صرف اس پیشے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، بلکہ اس میں آپ اپنے معاشرے، اپنے ملک اور اپنے مذہب کے لیے اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے بین الاقوامی قانون کا شوق بھی تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ بین الاقوامی قانون کی سمجھ سے بہت سی چیزیں بہتر کی جا سکتی ہیں۔ میں نے اپنے ملک، معاشرے کے لوگوں، پیشہ ور دوستوں کی بہت سی چیزوں میں رہنمائی کی۔ میں نے اکثر دیکھا کہ جب لوگ پاکستان کے مسائل پر بات کرتے ہیں تو وہ جذباتی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔ کیمبرج میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے میں نے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ پاکستان کے کیا مسائل ہیں اور سب سے بنیادی مسائل کیا ہیں۔ کیونکہ بین الاقوامی قانون (international law) کا تعلق حکومت سے نہیں ہے کہ کون ملک کے اندر اقتدار میں ہے اور کون صوبے میں اقتدار میں ہے۔ اس لیے کہ بین الاقوامی قانون کا سارا تعلق ریاست کے مخصوص مسائل سے ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے بہت سے طبقات میں غلط فہمیاں یا کنفیوژن نظر آتی ہے۔ بین الاقوامی قوانین پاکستان کے لیے کیسے کس طرح معاون ہیں اور کس طرح ان سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے، یہ سمجھنے کی ضرورت ہے1۔‘‘

کچھ عرصہ پہلے صوفی صاحب بیمار ہوئے اور علاج معالجے کے دوران تنہائی میں چلے گئے۔ انہوں نے کئی سال پر محیط بین الاقوامی قانون کے وسیع تر تجربے کے تناظر میں قرآن حکیم کا مطالعہ کیا۔ ان پر قرآن حکیم کا قانونی فریم ورک کھلتا گیا۔ قلم اُٹھایا اور سلسلہ وار لکھنا شروع کیا، اور انگریزی زبان میں ایک منفرد کتابچہ Qur'anic Covenants: An Introduction (قرآنی معاہدات: ایک تعارف) کے نام سے مکمل کر کے شائع کر دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ QCRC (The Quran Covenant Research Center) کے نام سے اپنے دفتر میں ایک ذیلی ادارہ بھی قائم کیا۔ صوفی صاحب اس تحقیق کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

’’مسلم تاریخ میں قرآن کریم سے متعلق لکھا گیا زیادہ تر لٹریچر مقاصدِ شریعت، آزادی، اصولِ فقہ اور احکام و مسائل کے گرد گھومتا ہے۔ تاہم، قرآن کے حوالے سے معاہدہ (Covenant) کے پہلو پر اتنا کام نہیں ہوا ہے، جس میں یہ عنصر نمایاں ہو کہ یہ کتاب، اللہ اور انفرادی و اجتماعی سطح پر لوگوں کے درمیان ایک عہد یا معاہدہ کا فریم ورک بھی ہے۔ اس کمی کی کچھ سکالرز نے نشاندہی کی ہے۔ زیر نظر مقالہ اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے اور بتاتا ہے کہ معاہداتی فریم ورک قرآن کی ایک اہم خصوصیت ہے جس کے گرد ضمنی ہدایات، قوانین، نصیحتیں، احتیاطی تدابیر، یقین دہانیاں اور تنبیہات ملتی ہیں۔ یہ مطالعہ قرآن کے پیغام کو منفرد انداز میں سمجھانے کی کوشش بھی ہے، کیونکہ اس کے وسیع تر سماجی، ثقافتی اور قانونی اثرات ہیں۔ مثال کے طور پر، قرآن کے معاہداتی پہلو پر غور کرنا اسلامی معاشروں کے لیے ایک نیا زاویہ پیش کر سکتا ہے، اور ممکنہ طور پر پالیسی سازی اور قانونی عمل پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اس طرح، یہ تحقیق علمی دائرے میں اہم ہے اور حقیقی دنیا اور اس کے مسائل کے متعلق ہے۔ مزید برآں، یہ مقالہ خاص طور پر قرآن کے اندر موجود مختلف معاہدوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ قرآنی اسلوب کی ساخت، اصطلاحات اور الفاظ کا تجزیہ کرتے ہوئے، یہ مقالہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان تعلق کی متعدد جہات کی نشاندہی کرتا ہے2۔‘‘

جب انہوں نے اس منفرد تحقیق کے بارے میں بریفنگ دی تو راقم نے وعدہ کیا کہ اس کا اُردو ترجمہ اور اشاعت ہمارا ادارہ کرے گا۔ گزشتہ تین ماہ کی مسلسل جدوجہد کے بعد تحقیقات کی ادارتی ٹیم کے لائق و فاضل رکن جناب شفیق منصور نے اس ترجمے کو انتہائی عمدگی کے ساتھ مکمل کیا۔ نیز صوفی صاحب کی ٹیم کے تین لائق و فائق نوجوان سکالرز جناب سفیان بن منیر، جناب عاطف صدیق، اور جناب حنظلہ منصور کا بھر پور تعاون رہا۔ اس کتاب کے ترجمے میں کئی مسائل درپیش تھے۔ خصوصاً‌ قانون کے متعلق اصطلاحات کی تعبیر و تشریح ایک پیچیدہ مسئلہ تھا، جس میں صوفی صاحب نے بذاتِ خود رہنمائی فرمائی۔ ہمارے لیے یہ اطمینان کی بات تھی کہ ملک کے جید اساطینِ علم نے انگریزی ایڈیشن پر نظرِ ثانی کی جس میں کئی ممتاز نام حسبِ ذیل ہیں:

ڈاکٹر قبلہ ایاز (سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل)، 

ڈاکٹر خالد مسعود (شریعہ اپیلٹ بینچ، سپریم کورٹ)، 

ڈاکٹر محمد منیر (سابق ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی، بیین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)، 

شیخ اسماعیل موسیٰ (مفتی جنوبی افریقا)، 

ڈاکٹر محسن نقوی (سابق رکن اسلامی نظریاتی کونسل)، 

ڈاکٹر محمد مشتاق (سابق ڈائریکٹر شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)، 

پروفیسر عمران احسن نیازی (پروفیسر آف لاء، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد)، 

ڈاکٹر سید عاطر رضوی (سربراہ شعبہ قانون، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، لاہور)، 

سید معاذ شاہ (ضیاء الدین یونیورسٹی)، 

مولانا راشد الحق سمیع (مدیر اعلیٰ ماہنامہ الحق، جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک)، 

ڈاکٹر ضیاء الحق صاحب (ڈی جی ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد) 

میرے خیال میں قرآن مجید کا یہ منفرد اور تحقیقی پہلو اہلِ علم پر قرض تھا جسے ہمارے احمر بلال صوفی صاحب نے چکایا ہے۔ اگر مسلم سماج میں قرآن مجید کے اس خاص پہلو کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تربیتی نظام وضع کیا جائے تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ مسلم معاشروں سے لاقانونیت کا خاتمہ ہو گا، عام لوگ خود کو خدا کے زیادہ قریب محسوس کریں گے، معاہدوں کی اہمیت کو سمجھا جائے گا، اور مجموعی طور انسان کے مذہب کے ساتھ تعلق کا ایک آسان اور عام فہم تناظر سامنے آئے گا۔

’’قرآن مجید کی آیات کا ایک قانونی پس منظر بھی ہے۔ یہ قانونی پس منظر صرف ان امور سے متعلق نہیں ہے جو ریاستی اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ قرآن مجید کی چھ ہزار سے زائد آیات میں سے، صرف ایک سو آیات عبادات وغیرہ جیسے نماز، روزہ اور حج سے متعلق ہیں۔ ستر آیات پرسنل لاء کو موضوع بناتی ہیں۔ سول لاء کے معاملات پر بھی تقریباً‌ اتنی ہی آیات ہیں، تیس آیات تعزیرات کے قوانین پر مشتمل ہیں، اور بیس آیات عدلیہ کے معاملات اور گواہی سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ، تقریباً میں آیات انصاف کے انتظام سے متعلق ہیں۔ بعض علماء ان کو مختلف انداز میں شمار کرتے ہیں۔ گویا پانچ سو سے کم شرعی احکامات سے متعلق ہیں۔ تو پھر سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ تقریباً‌ چھ ہزار آیات کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ یہ تحقیق ہمیں باور کرواتی ہے کہ ان میں سے بیشتر آیات اللہ اور انسان کے مابین عہد اور معاہدے کی بابت ہیں۔ اس لیے بہت کم آیات ایسی ہیں جنہیں حکومتی سطح پر صرف اس وقت نافذ کرنا ہوتا ہے جب اسلامی حکومت برسراقتدار آئے۔ تو پھر، قرآن کی بقیہ آیات کی قانونی نوعیت کیا ہے؟ اس تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بیشتر آیات اللہ اور انسانوں، یعنی بشمول مسلمان اور غیر مسلموں، کے درمیان عہد اور معاہدے کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں3۔‘‘

جب بھی اسلامی تناظر میں معاہدات کی بات ہوتی ہے تو عام طور پر ہمارے یہاں رسول اللہ ﷺ کے مختلف قبائل و طبقات کے ساتھ اپنی زندگی میں کیے گئے معاہدات کا ذکر ہوتا ہے، پھر اس میں بھی زیادہ تر جو پہلو نمایاں ہوتا ہے وہ تعلقاتِ عامہ اور بالخصوص مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ساتھ تعلق کا پس منظر ہوتا ہے۔ اسی طرح، قرآن کریم میں بھی معاہدات کی بابت بحث کی جہت تقریباً یہی ہوتی ہے اور چند ایسے معاہدات کی تفسیر پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے جو اپنے متن میں صراحتاً اسی موضوع کو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔ 

اس کتاب کے مصنف جناب احمر بلال صوفی صاحب نے قرآن کریم میں معاہدات کا ایک ایسا منفرد پہلو پیش کیا ہے جس کی جانب بہت کم اہلِ علم کی توجہ گئی ہے۔ انہوں نے اس میں واضح کیا ہے کہ معاہدہ (Covenant) بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے اور اس کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اور جس طرح تمام انسانیت، اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ تعلق باللہ یا دائرہِ اسلام میں داخل ہونے یا نہ ہونے کے جو اصول و ضوابط، وعدے وعیدیں، یا فوائد و نقصانات بیان کیے گئے ہیں، یہ اسلوب واضح طور پر معاہداتی لہجہ و پس منظر رکھتا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کلامِ الٰہی کا ایک نیا زاویہ سامنے آتا ہے اور ہر انسان انفرادی طور پہ خود کو اللہ تعالی کے بہت قریب محسوس کرتا ہے۔ اسے خالقِ کائنات کا خطاب ماورائی اور بلاغت میں اعجاز کے رتبے پر فائز ہونے کے باوجود بہت عام فہم لگتا ہے۔

دینی لٹریچر سے ایک گہرا ربط ہونے کے سبب اس طرح کے موضوعات دل کے قریب رہے ہیں اور ہمیشہ یہ شوق رہا ہے کہ مذہب اور مذہبی متون کی وہ تعبیرات لوگوں کے سامنے آسکیں جنہیں پڑھ کر ایک عام آدمی دین کے زیادہ قریب ہو، اسے مذہب یا مذہبی شعائر و احکام آسان اور سمجھ میں آنے والے محسوس ہوں۔ وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ یا رکاوٹ حائل ہے۔ اسی لیے جب پہلی بار اس کتاب کا انگریزی نسخہ پڑھا تو روحانی طور پہ بہت تسکین کا احساس ہوا۔ کلامِ الٰہی کا یہ رخ مذہب کے بارے میں ایک مسلمان کے فہم کو کلی طور پر پلٹ دیتا ہے اور دین کی تصویر پیچیدہ نظر آنے کی بجائے، بڑی شفاف اور دوٹوک محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

اس کتاب کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس کا اندازِ بیان بہت سیدھا سادہ ہے، لہٰذا یہ صرف اہلِ علم کے حلقے تک محدود نہیں رہتی، بلکہ ہر وہ مسلمان جو خواندہ ہو اور مذہب سے تھوڑا بہت بھی ربط رکھتا ہو، وہ اسے آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ 

کتاب کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے، دل چاہتا ہے کہ اسے تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔ اہلِ مدارس اگر اس طرف توجہ دیں، اسی طرح جدید تعلیمی اداروں کے مذہبی نصاب میں بھی اسے شامل کیا جائے تو یہ دین کی بڑی خدمت ہو گی۔ اس میں نہ تو کوئی مسلکی چھاپ ہے اور نہ ہی اس میں دقیق مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ صرف ایک انسان کے خدائے تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو واضح اور مضبوط بنانے کی کوشش ہے۔ یہ نوجوانوں کو روحانی طور پر مذہب کے قریب کرے گی۔


حواشی

1- فیلوشپ ورکشاپ، زیر اہتمام انٹر نیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور “ ۔ (2023ء)

2- Qur'anic Covenants: An Introduction - Ahmer Bilal Soofi

3- .ibid


تعارف و تبصرہ

(الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — دسمبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۲

مطبوعات

شماریات

Flag Counter