انسانیت کے بنیادی اخلاقِ اربعہ (۴)

شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

(۴) عدالت 

(عدل)۔ انسانیت کے بنیادی اخلاق میں سے ایک خلق اور خصلت ہے۔ قرآن و سنت میں اس کی اہمیت و ضرورت، ترغیب اور اس کی تحصیل کے ذرائع اور اس کے فضائل و مناقب بکثرت مذکور ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

ان اللہ یامر بالعدل (نحل)
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے کاحکم دیتا ہے۔‘‘
وامرت لاعدل بینکم (شوریٰ)
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپؐ لوگوں سے کہہ دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل (نساء)
’’کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین (حجرات)
’’دو مخالف گروہوں کے درمیان اگر صلح کرانے کی نوبت آئے تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کراؤ، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قروبِ قیامت میں عدل کے قائم کرنے کے لیے ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تمہارے درمیان حاکم بن کر فیصلہ کرنے والے اور عدل و انصاف قائم کرنے والے بن کر اتریں گے۔ اور ظہورِ امام مہدی کی غرض بھی حضور علیہ السلام نے یہی بیان فرمائی ہے جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ وہ ظاہر ہو کر زمین کو عدل وا نصاف سے پُر کریں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہو گی۔

امام ابوبکر جصاصؒ نے احکام القرآن میں ’’ان اللہ یامر بالعدل والاحسان‘‘ آیت کے تحت لکھا ہے کہ عدل، جو انصاف کا نام ہے، یہ عقل کی نگاہ میں بھی واجب ہے۔ احکامِ شرع کے وارد ہونے سے قبل بھی شریعت نے آکر اس کی تائید کا حکم دیا ہے۔ اور احسان اس مقام میں تفصیل یعنی زیادتی اور زائد چیزوں کا دینا ہے اور یہ مستحب ہے، لیکن پہلا حکم یعنی عدل کرنا فرض ہے۔ ’’ایتآء ذی القربیٰ‘‘ میں صلہ رحمی کی تعلیم ہے اور ’’یامر بالعدل‘‘ میں عدل مشتمل ہے۔ قول اور فعل دونوں پر ’’واذا قلتم فاعدلوا‘‘ میں عدل فی القوم کا حکم دیا گیا۔ 

امام ولی اللہؒ نے بھی حجۃ البالغہ میں لکھا ہے:

ان من اعظم المقاصد التی قصدت بعثہ الانبیاء علیہم السلام دفع المظالم من بین الناس۔
’’انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بڑے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں پر سے ظلم کو دور کیا جائے اور انہیں عدل و انصاف دلایا جائے۔‘‘

خود امام ولی اللہؒ نے حجۃ البالغہ میں دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ معاملات اور لین دین کے بارہ میں احکام اور اسی طرح نکاح وغیرہ کے متعلق احکامِ شریعت میں اس لیے مشروع قرار دیے ہیں تاکہ لوگوں میں عدل قائم کیا جائے۔

حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ایمان کے چار ستون ہیں: یقین، صبر، عدل اور جہاد۔ درحقیقت ارض و سما نظام بھی عدل و انصاف پر قائم ہیں، اور حکومتیں بھی دنیا میں عدل کی وجہ سے قائم رہتی ہیں۔ جب ظلم و جور شروع ہوتا ہے تو یکسر تباہی، اِدبار اور زوال آتا ہے۔ 

امام ولی اللہؒ نے جس طرح اس خصلت عدالت پر کلام کیا ہے اور اس کی تشریح و تفصیل جس طرح بیان کی ہے یہ ان کا خاص حصہ ہے اور ان کی حکمت کا خاص باب ہے۔ چنانچہ حکیم الامت امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ عدالت ان چار اہم اخلاق میں ایک ایسی خصلت ہے کہ جس پر عادلانہ نظام کا قیام اور کل سیاست (اجتماعی عمومی سیاست کا بہتر طریق پر قیام) موقوف ہے۔ 

اس خصلت کے بہت سے شعبے ہیں، مثلاً‌:

ادب

اگر آدمی مسلسل اپنی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھے، اور ہر موقع اور محل کے اعتبار سے اچھی وضع اختیار کرے، اور ہر حادثہ میں اس چیز کے اختیار کرنے کی طرف راہ پائے جو بہتر ہے، اور ہمیشہ اس کے اختیار کرنے کی طرف اس کے دل کا میلان اور جذب ہوتا رہے تو اس کو ادب کہتے ہیں۔

کفایت

اگر انسان اپنی کارسازی، جمع و خرچ، خرید و فروخت اور تمام معاملات میں اچھی تدبیر قائم کر لے تو اس کو کفایت کہتے ہیں۔

حریت

جس کی وجہ سے تدبیر منزل اچھے طریقے پر قائم کرے، اس کو حریت کہتے ہیں۔

سیاست مدینہ

اور جس کی وجہ سے ملک اور لشکر وغیرہ کی تدبیر اچھی طرح کر سکے اس کو سیاستِ مدینہ کہتے ہیں (یعنی ملک اور شہر کی بہتر سیاست)۔

حسن معاشرت

جس کی وجہ سے اپنے بھائی بندوں کے ساتھ اچھی وضع سے زندگی بسر کر سکے، اور ہر ایک کا حق ادا کرے، اور ہر ایک کے ساتھ حسبِ حال الفت و بشاشت کے ساتھ پیش آئے، اس کو حسنِ معاشرت کہتے ہیں۔

حاصل یہ ہے کہ ان سب خصائل کی اصل ایک ہے اور وہ یہ کہ نفسِ ناطقہ اس طرح واقعہ ہو کہ اچھا نظام اختیار کرے اور اس نظام کی صدور کی طرف آگے بڑھے۔ جس شخص میں یہ خصلت (عدالت) پوری طرح متحقق ہو گی اس کے درمیان اور حق تعالیٰ کی جود اور فیضان کے وسائط (ملاء اعلیٰ کے فرشتے اور مقربین) جن کی فطرت میں عادلانہ نظام قائم کرنا رکھا ہوا ہے، اور جن کی قوی درجہ کی ہمت و توجہ عادلانہ نظام کے استحسان کی طرف ہوتی ہے، ان کے درمیان اور اس شخص کے درمیان بلیغ مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس جماعت (ملاء اعلیٰ) کے دل سے اس شخص کی طرف نورانی دقائق (نہایت ہی لطیف قسم کی شعاعیں) جیسا کہ سورج کی شعاعیں ہوتی ہیں، میلان کرتی ہیں۔ اور اس شخص کے حق میں یہ دقائق بہت سی نعمت اور خاصیت کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ اور اس نعمت و خاصیت اور انس کا تمثل استعداد کے مناسب مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ کوئی شخص تو اچھے ساتھیوں اور بھائیوں کی حسنِ معاشرت کی صورت میں دیکھتا ہے، اور کوئی عمدہ خوشگوار طعام کی شکل میں، یا عمدہ لباس، روشن اور خوبصورت مکان کی شکل میں، یا اچھی مرغوب بیوی کی شکل میں دیکھتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اس کی اشکال و صورتیں طرح طرح کی ہوں گی۔

لیکن جو شخص عادلانہ نظام کے قیام کا مخالف ہوتا ہے اور شریعت کے حکم کا انکار کرتا ہے اور ایسے اعمال و افعال کرتا رہتا ہے جس سے جمہور امام یعنی عوام الناس تکلیف و ایذا پاتے ہیں، تو اس کے درمیان اور ان وسائطِ جودِ الٰہی کے درمیان نفرت اور وحشت ظاہر ہوتی ہے، اور دقائق ظلمانیہ (تاریک شعاعیں) ان کی طرف سے اس شخص کی طرف میلان کرتی ہیں، اور اس شخص پر ہر طرف سے تنگی و ضیق ہجوم کرتی ہے۔ اس صفت عدالت کے اکتساب کے لیے شریعت نے عیادتِ مریض (بیمار پرسی)، سلام کرنا، حدود اور آداب کی رعایت لازم قرار دی ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ صفت عدالت (عدل) اجتماعیات میں نہایت ضروری ہے۔ سب لوگ اس کو جانتے ہیں کیونکہ انسان بالطبع اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے، اور انسان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ کوئی اجتماع بھی بغیر عدل کے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ عدالت انسانیت کے مساوی اور اس کے ساتھ لازم ہے۔ ہر شخص، خاندان، گھرانہ، قبیلہ اور امت جب تک عدل کے ایک معتد بہ اور اچھے خاصے حصہ سے نہ اختیار کرے اور اس سے اچھی طرح دلچسپی نہ لے وہ انسانیت کے اعتبار سے کسی قابل نہیں۔ 

امام ولی اللہؒ کی حکمت میں عدالت کی صفت کا مرتبہ تینوں سابقہ مذکورہ اخلاق کے اوپر مرتب ہوتا ہے۔ اگر انسان طہارت اور سماحت کی صفت سے موصوف ہو لیکن اس میں عدالت کی صفت موجود نہ ہو تو ان سابقہ خصلتوں کا کچھ بھی وزن اور اعتبار نہ ہو گا، اور ایسے شخص کا دین میں ذرہ بھر بھی کوئی اعتماد اور حصہ نہ ہو گا۔ اگرچہ یہ بات ۔۔ ہے یا محال ہے کیونکہ جو شخص بھی طہارت، اخبات اور سماحت سے متصف ہو گا لامحالہ وہ صفتِ عدالت سے بھی متصف ہو گا۔

امام ولی اللہؒ مامورات میں ان چاروں اخلاق کو اور منہیات میں ان کی اضداد کو تمام دین کا مرجع قرار دیتے ہیں۔ ان خصلتوں کے ساتھ اگر تعظیم شعائر اللہ کی صفت کو بھی ملا لیا جائے تو امام ولی اللہؒ اس کو دین کا خلاصہ بتاتے ہیں جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔ 

حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ عدالت (عدل) ایک ایسا ملکہ ہے انسان کے نفس میں جس کی وجہ سے ایسے افعال آسانی سے سرزد ہوتے ہیں جن پر اجتماعی نظام، نظامِ ملک اور نظامِ مدینہ قائم ہوتا ہے۔ اور اس صفت کی وجہ سے نفس اس طرح ہوتا ہے کہ ان افعال کے سرانجام دینے پر گویا فطرتاً‌ مجبور ہو۔  اور اس میں راز یہ ہے کہ ملائکہ اور نفوسِ مجردہ، جو مادی اور جسمانی تعلقات سے مجرد ہوتے ہیں، جہان کو پیدا کرنے کا یا نظام کی اصلاح وغیرہ کا، تو ان نفوسِ مجردہ کی مرضیات  اس ارادۂ الٰہی کے مطابق ہو جاتی ہیں، یہ مجرد طبیعت کا خاصہ ہے۔ 

جب یہ نفوس جسم سے جدا ہوتے ہیں تو صفتِ عدالت کا کوئی حصہ اگر ان میں موجود ہو تو وہ نفوس پوری طرح خوش ہوتے ہیں اور اس لذت کی طرف راہ پاتے ہیں (یعنی لذت) جو غسیس لذت سے بالکل الگ اور جدا نوعیت کی ہوتی ہے۔ اور اگر نفوس جسم سے ایسی حالت میں جدا ہوں جب کہ ان میں اس صفتِ عدالت کی ضد موجود ہو تو ان نفوس کا حال بہت تنگ ہو گا اور یہ وحشت ناک ہوں گے اور نہایت درجہ کا درد اور دکھ اپنے اندر پائیں گے۔

جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دین کی اقامت کے لیے، اور لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کے لیے، اور اس لیے کہ لوگ عدل قائم کریں، انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے ہیں، پس جو شخص اس نور کی اشاعت کے لیے کوشش کرتا ہے اور لوگوں میں اس کے لیے راہ ہموار کرتا ہے تو ایسا  شخص مرحوم ہوتا ہے، اس پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ اور جو شخص اس کو رد کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے اور اس کو بے قدر کرنے اور مٹانے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا شخص ملعون ہوتا ہے اور مردود ہوتا ہے۔

اور جب عدالت کی صفت انسان میں راسخ ہو جاتی ہے تو اس شخص کے درمیان اور حاملینِ عرش اور بارگاہِ الٰہی کے مقربین، جو ملائکہ ہیں اور جود و برکات کے نزول کے وسائط ہیں، کے درمیان ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جو ان مقربین کے الوان (رنگ) کے نزول کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اور نفس اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس پر ملائکہ کا الہام نازل ہو سکے اور اس الہام کے مطابق اٹھ کر کام کر نے کے قابل بن جاتا ہے۔ امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں: اس صفتِ عدالت کے اسباب سنتِ راشدہ کی حفاظت کو قرار دیا گیا، اس کی پوری تفصیل کے ساتھ۔ عدالت ایک ایسا ملکہ ہے جس سے نظامِ عادل، مصلح، تدبیرِ منزل اور سیاستِ مدینہ وغیرہ سہولت سے صادر ہوتے ہیں۔ اور اس کی اصل نفسانی جبلت ہے جس سے افکار کلیہ اور ایسی سیاست جو اللہ کے نزدیک اور ملائکہ کے نزدیک مناسب ہوتی ہے، صادر ہوتی ہے۔  کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے جہان میں لوگوں کے نظام کے انتظام کا ارادہ فرمایا، اور یہ ارادہ فرمایا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور ایک دوسرے سے الفت رکھیں اور جسدِ واحد کی طرح ہو جائیں، جب ایک عضو دکھ درد میں مبتلا ہو تو تمام جسم میں بخار، بے چینی، بیداری، بے خوابی تمام اعضاء جسم میں پیدا ہو جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارادہ فرمایا کہ انسان کی نسل (نوع انسانی) زیادہ ہو، پھلے پھولے، اور یہ کہ فاجر آدمی کو ڈانٹ ڈپٹ پلائی جائے اور عادل آدمی کی تعظیم و تکریم کی جائے، اور رسومِ فاسد کو مٹایا جائے اور خیر کی تشہیر کی جائے اور قوانینِ حقہ کو ان میں پھیلایا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے بارہ میں یہ اجمالی فیصلہ فرمایا ہے اور یہ باتیں اس کی شرح اور تفصیل ہیں۔ ملائکہ مقربین اس بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاتے ہیں اور پھر وہ دعا کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں،  اور لعنت بھیجتے ہیں ان پر جو لوگوں میں فساد و بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

’’اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت بخشے گا، جیسا کہ اس نے پہلے لوگوں کو خلافت بخشی تھی، اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے دین کو مضبوط کر دے گا جس دین کو اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، اور ان کے لیے خوف کے بعد امن پیدا کر دے گا، وہ میری ہی عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے، جس نے ان کے بعد ناشکرگزاری کی تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔‘‘

اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں اور پختہ عہد کو توڑتے نہیں، اور جو اس چیز کو ملاتے اور جوڑتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ملانے اور جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے برخلاف جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس کو توڑتے ہیں، یہ ان کی ضد ہیں۔‘‘

پس جو شخص اعمالِ مصلحہ کا انجام دیکھنے والا ہو گا اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو گی اور فرشتوں کی دعائیں اس کے شاملِ حال ہوں گی۔ جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہ ہو گا اور وہاں سے اس پر دقیق دقائق (خاص قسم کی نورانی شعائیں) نازل ہوں گی، جیسا کہ سورج یا چاند کی لطیف شعائیں ہوتی ہیں، اس کا احاطہ کریں گی، تو ان کی وجہ سے ملائکہ اور لوگوں کے قلوب میں الہام نازل ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور ایسے لوگوں کی ارض و سماء میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ اور جب ایسا شخص عالمِ تجرد کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ان دقائق (نورانی شعاعوں) کو، جو اس عالم میں اس کے ساتھ مدخیل ہوتی ہیں، محسوس کرتا ہے اور ان سے لطف اندوز ہوتا ہے، اور اس کی وجہ سے وسعت و کشادگی اور مقبولیت پاتا ہے، اور اس کے درمیان اور ملائکہ کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔ 

اس کے برخلاف جو شخص اعمالِ مفسدہ انجام دیتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور ملائکہ کی لعنت برستی ہے۔ اور یہاں پر ایسے تاریک دقائق (ظلماتی شعاعیں) اس غضب سے اٹھ کر اس شخص کا احاطہ کرتی ہیں، یہ سبب بنتی ہیں ملائکہ اور انسان کے قلوب میں الہام کا کہ اس شخص کے ساتھ وہ برا سلوک کریں، اور اس کے لیے زمین و آسمان میں نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ اور جب یہ عالمِ تجرد کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ان دقائق کو محسوس کرتا ہے کہ ان کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں، اس کا نفس اس کی وجہ سے تکلیف اور دکھ پاتا ہے، تنگی اور نفرت اس کا ہر طرف سے احاطہ کرتی ہے، اس پر زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہو جاتی ہے۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ عدالت (عدل) کا اعتبار جب انسان کے مختلف اوضاع اطوار کے ساتھ کیا جاتا ہے، مثلاً‌ قیام، قعود، نیند، بیداری، چلنا پھرنا، کلام، لباس، فیشن اور زینت وغیرہ، تو اس کو ادب کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار اموال کے جمع و خرچ کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو کفایت (شعاری) کہتے ہیں۔

اور جب اس کا اعتبار تدبرِ منزل کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو حریت کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار تدبیرِ مدینہ (شہر اور ملک کی تدبیر) کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو سیاست کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار اپنے اخوان و احباب کی تالیف کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو حسن المحاضرہ یا حسن المعاشرہ کہتے ہیں۔

اور اس صفتِ عدالت کو حاصل کرنے کے لیے عمدہ تدابیر یہ ہیں: رحمت و مودت، رقۃ القلب (قسوت قلب کا نہ ہونا)، افکار کلیہ کا انقیاد، اور امور کے عواقب و انجام پر نظر رکھنا ہے۔ عدالت کی مشق کرنے والا اپنے اوپر ہر چیز کا حق خیال کرتا ہے۔ مثلاً‌ دائیں ہاتھ کو کھانے اور اچھے کاموں کے لیے استعمال کرے گا، اور بائیں ہاتھ کو ازالہ نجاست کے لیے اور حقیر کاموں کے لیے۔ بعض کام ملائکہ کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں اور بعض کام ایسے ہیں جو شیاطین کے ساتھ مناسبت ہیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے، اور مقطوع الاعضا انسان (بد وضعی میں) شیطان جیسا ہے۔ اور فرمایا کہ تم اپنی صفیں ملائکہ کی طرح کیوں نہیں بناتے۔

مواقع عدالت

امام ولی اللہؒ نے کچھ جزئیات بیان کیے ہیں اور احادیث سے کچھ مثالیں ذکر کی ہیں جن سے عدالت کے مواقع پر روشنی پڑتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدالت کے بڑے بڑے ابواب پر تنبیہ فرمائی ہے اور اس کے مواقع بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرنے کے محاسن بیان فرمائے ہیں اور اس کی ترغیب دی ہے اور اس کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں۔ مثلاً‌ اہلِ منزل کی آپس میں محبت اور الفت، اور قبیلہ والوں اور اہلِ شہر اہلِ ملک کے ساتھ حسنِ معاشرت، اور عظماء ملت کی تعظیم و توقیر، اور ہر ایک کو اس کے مرتبہ پر اتارنے کا حکم وغیرہ۔ 

چند احادیث جو عدالت کے باب سے تعلق رکھتی ہیں انہیں ذکر کیا ہے۔ مثلاً‌ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن کئی کئی ظلمتیں بن کر سامنے آئے گا۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون، مال اور آبرو کو اس طرح محترم قرار دیا ہے کہ جس طرح تمہارا یہ حجۃ الوداع یا عرفہ کا دن تمہارے اس شہر مکہ میں محترم ہے۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور فرمایا بخدا جو شخص کسی کا حق ناحق دبا لے گا تو قیامت کے دن اسی کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے ہو گا۔ اگر اونٹ ہے تو بڑبڑاتا ہوا آئے گا، اور گائے بیل ہیں تو وہ آواز کرتے ہوئے، اور بھیڑ بکریاں ہیں تو وہ بولتی ہوئی اس کی گردن پر سوار ہوں گی۔ اور جس نے ایک بالشت بھر زمین کسی کی دبا لی تو وہ قیامت کے دن سات زمینوں کو اتنی مقدار میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا اور اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسا ہے جیسا کہ دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اور مسلمانوں کی مثال آپس میں مودت و رحمت اور مہربانی کے لحاظ سے جسمِ واحد کی طرح ہے، جب جسم کا ایک حصہ درد و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مثلاً‌ تو سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے، بخاری اور بیداری لاحق ہوتی ہے۔

 اور فرمایا، جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کر سکتا ہے اور نہ اس پر ظلم برداشت کر سکتا ہے۔ او رفرمایا  کہ جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت کے پورا کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا کرتا ہے۔ اور جو کسی مسلمان سے تکلیف کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پریشانیوں کو قیامت کے دن دور فرمائیں گے۔ اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی قیامت کے دن فرمائیں گے۔ تم سفارش کرو تم کو اجر ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے فیصلہ کرتا ہے جس بات کو پسند فرماتا ہے۔ 

اور فرمایا کہ دو انسانوں کے درمیان انصاف کرو یہ بھی صدقہ ہے۔ اور کسی آدمی کو سواری پر سوار کرنے میں مدد دو یہ بھی صدقہ ہے۔ اور پاکیزہ کلمہ منہ سے نکالنا یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی کا سامان اٹھا کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دو، یہ بھی صدقہ ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص یتامیٰ اور بیواؤں اور مساکین کے لیے ان کی ضروریات اور حوائج پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہوتا ہے۔ اور فرمایا کہ جو شخص ان بیٹیوں کے ساتھ مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ کے سامنے ستر بن جائیں گی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تم لوگوں کو عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی وصیت (تاکید) کی جاتی ہے۔ عورتوں میں فطرتاً‌ کجی ہوتی ہے تو اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اور فرمایا کہ جبرائیلؑ برابر مجھے پڑوسیوں کے بارے میں تاکید کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے گمان کیا کہ شاید وہ پڑوسی کو وراث بنانا چاہتے ہیں۔ اور آپ علیہ السلام نے فرمایا، اے ابو ذرؓ! جب تم شوربا بناؤ تو پانی زیادہ ڈالو اور پڑوسی کا خیال رکھو۔ اور فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا۔ اور فرمایا کہ لوگوں کو ان کے مرتبہ پر اتارو۔ اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ جو شخص بیمار کی مزاج پرسی کرے گا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرے گا اور جنت میں جگہ بنائے گا۔ 

یہ چند مثالیں ہیں جن میں عدالت کے مواقع اور مظان کا ذکر کیا ہے۔

امام ولی اللہؒ حجۃ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ یہ چار خصلتیں ایسی ہیں کہ تم ان کی حقیقت کو اچھی طرح چھان بین کر لو گے اورا س بات کو جان لو گے کہ یہ اخلاق کس طرح کمال علمی اور عملی کا اقتضا کرتے ہیں، اور کس طرح یہ اخلاق ایک ایک انسان کو ملائکہ کے سلسلہ میں منسلک کرتے ہیں، اور تم نے یہ سمجھ لیا کہ کس طرح شرائعِ الٰہیہ ہر زمانہ میں ان اخلاقِ اربعہ سے پھوٹتے رہے ہیں، تو تم کو خیر کثیر دی گئی اور تم فی الواقع فقیہ فی الدین ہو گئے۔ ان میں سے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بہتری اور خیر کا ارادہ فرمایا ہے، اور ان اخلاق کے ساتھ تلبس اور تمسک اختیار کرنے سے انسان میں جو ایک مرکب حالت پیدا ہوتی ہے اس کو فطرت کہتے ہیں۔ اس فطری حالت کو حاصل کرنے کے کئی اسباب ہیں، بعض علمی اور بعض عملی۔ اور کچھ حجابات ہیں جو انسان کو اس فطری حالت سے روکتے ہیں، اور کچھ تدابیر ہیں جن سے ان حجابات کو توڑا جاتا ہے اور رفع کیا جاتا ہے۔ ان سب کی تفصیل امام ولی اللہؒ نے بیان فرمائی ہے۔

امام ولی اللہؒ اپنی کتاب الطاف القدس میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان چار خصلتوں پر متنبہ فرمایا ہے اور ان کی رعایت، نگرانی اور حفاظت کا حکم دیا ہے اور ان کی اضداد سے نہی فرمائی ہے۔ اگر تم اچھے طریقے پر غور کرو اور گہرائی سے اس کو معلوم کرنا چاہو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ نیکی (بر) تمام انواع و اقسام انہیں چار خصلتوں کی شرع اور تفصیل ہے، اور اثم (بدی) اور گناہ کے تمام اقسام ان کی اضداد کی تفصیل و تضریع ہے۔ 

تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے ان کی طرف دعوت دی ہے اور ان کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اور ان کے منسوخ ہونے کی کوئی صورت نہیں اور ان میں تغیر و تبدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ مختلف انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کا اگر اختلاف ہے تو صرف ان کے اشکال و قوالب میں یعنی ظاہری سانچے اور شکل و صورت کا ہی اختلاف ہے ورنہ حقیقت اور مغز شارع علیہ السلام کی شریعت میں ایک ہی ہے۔ یہ صرف لباس کی تبدیلی ہے اور لباس کی تبدیلی سے صاحبِ لباس نہیں بدل جاتا۔

پس طہارت کی صفت سے ملائکہ کی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے، اور خضوع کے ذریعہ ملاء اعلیٰ کی نقل و مشابہت پیدا ہو جاتی ہے، اور سماحت کے ذریعہ رذیل صفات انسان سے برطرف ہوتے ہیں، اور عدالت کے ذریعہ ملاء  اعلیٰ کی رضا اور ان کی موافقت حاصل ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ان کی جانب سے راحت اور رحمت حاصل ہوتی ہے۔

امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ شریعت کی تدبیر انسان کی رہنمائی کے لیے دونوں طرف سے متوجہ ہوتی ہے:  

ایک تو اصلاح کے ذریعہ اچھے اعمال کرنے سے، اور برے اعمال سے اجتناب کرنے سے جن کو کبائر کہتے ہیں، اور ملتِ حقہ کے شعائر  کو قائم کرنے سے۔ ان تینوں چیزوں کے وقت اور حد کا تعین کیا گیا ہے اور تمام مکلفین پر ان کی پابندی لازم قرار دی گئی ہے اور اسی کو ظاہرِ شریعت اور اسلام کہتے ہیں۔

اور دوسری بات نفوس کی تہذیب ہے ان اخلاقِ اربعہ کے ذریعہ۔ اور ان کی صورت یہ ہو گی کہ نیکی (بر) کی اشباہ و اشکال یعنی ظاہری شکل و صورت سے بڑھ کر ان کے انوار تک پہنچنے سے تہذیب حاصل ہو گی۔ اور اسی طرح اثم (گناہ) کی صورتوں سے بچنے کے ساتھ ان کے باطنی معانی اور مفاسد سے بچنے کے ساتھ جن کے متعلق نہی وارد ہوئی ہے، اور اسی کو باطنِ شریعت اور احسان کہتے ہیں۔


دین و حکمت

(الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء)

الشریعہ — جنوری ۲۰۲۵ء

جلد ۳۶ ، شمارہ ۱

تلاش

مطبوعات

شماریات

Flag Counter