(یونیورسٹی آف گجرات اور اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے قومی سیمینار۔)
عصر حاضر کے عالمِ اسلام میں جن مفکرین کے نام سرِ فہرست آتے ہیں ان میں علامہ محمد اقبال کو مقامِ نام آوری اور مسندِ امتیاز و افتخار حاصل ہے ۔ لطافتِ خیال اور وسعت فکر میں ان کو اپنے عہد کی عظیم شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے جس مہم کا آغاز کیا اور جس تصور کی عملی تشکیل کی اس میں شاعرانہ حسن تخیل، فلسفیانہ ژرف نگاہی، مجاہدانہ روح اور قوت ارادی ان کے شریک کار رہی۔ ان کی نظم و نثر کا ہر پہلو ان کے جلوۂ ذہانت اور بصیرت حکیمانہ کا آئینہ دار ہے۔ حضرت اقبال کا فلسفہ اور شاعری بہت سے ارباب دانش کا موضوع فکر بنا لیکن ان کے منظرِفکر و بصیرت کے مختلف گوشوں میں سے جن میں سیاسیات، مذہبیات، اخلاقیات اور الٰہیات شامل ہیں۔ اقبال کے سیاسی نظریات کا چہرہ تاحال حجاب آفریں اور متضاد تصورات کے بے ربط امتزاج کے تاریک غبار میں پنہاں ہے جو ان کے نظام فکر سے وابستہ کر دیئے گئے ہیں۔ بلا شبہ علامہ اقبال کے سیاسی تصورات کے مفہوم و افادیت کا ابھی تک واقعیت پسندی کے ساتھ اس حد تک جائزہ نہیں لیا گیا جہاں تک اس کی اہمیت کا اقتضا ہے ۔
اسی تناظر میں یوم اقبال کے ضمن میں جامعہ گجرات نے فکر اقبال کے عصری تقاضوں کے حوالے سے ’’قومی دانشگاہ‘‘ کی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے 15 نومبر کو فکر انگیز قومی سیمینار بعنوان ’’ریاست و حکومت: اقبال اور عصری مسائل‘‘ کا انعقاد ممکن بنایا۔ میزبانی رئیس الجامعہ گجرات ڈاکٹر محمد نظام الدین نے کی جبکہ فرزند اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے صدارت کی۔ ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان ڈاکٹر محمد سہیل عمر، لمزسے ڈاکٹر اعجاز اکرم، ممتاز کالم نگار، دانشور و اینکرخورشید ندیم، اقبال اکادمی کے ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اور مدیر ماہنامہ الشریعہ، محمد عمار خان ناصر نے پر مغزمقالات پیش کیے۔
ڈاکٹر محمد نظام الدین نے سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ افکار اقبال کو سمجھنے کے لیے یہ بنیادی بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ تاریخ اسلام کے ایسے موڑ پر ابھر کر سامنے آئے جب امت مسلمہ بحیثیت مجموعی صدیوں کی غلامی ، محکومی اور علمی و عملی جمود و انحطاط کے بعد پھر ایک آزاد قوم بن کر ابھرنے والی تھی اور سامراجی، شہنشاہی اور نو آبادیاتی طاقتوں کے چنگل سے نکل کر ایک آزاد قوم کی طرح اپنے مستقبل کے تعمیر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مشکل چیلنج اس کے سامنے تھا۔ ایسے جمود زدہ اور زوال زدہ سماج میں ایک جرات مند راہبر و مفکر کی ضرورت تھی یہ راہنما علامہ اقبال کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا۔ اقبال نے بالخصوص خطبات میں اپنے عہد کے اہم سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی، یہ سوال کوئی نئے نہیں تھے۔ تاریخ کئی بار ان کے جواب دے چکی تھی لیکن مذہبی فلسفے کا ہر زمانے کی علمی سطح سے تعلق ہوتا ہے۔ جب وہ سطح بدل جاتی ہے تو ان کی عصری قدر و قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ ہم اقبال کے پیش کردہ جوابات سے مطمئن ہو کر بیٹھے رہیں۔ اقبال کو ہم اسی طریقے سے حیاتِ نو دے سکتے ہیں جس طرح انہوں نے اپنے اسلاف کے افکار و خیالات کا تنقیدی محاکمہ کیا تھا ۔ صرف پھولوں کی چادر چڑھانے سے اقبال کو زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔شیخ الجامعہ نے مقالہ نگاروں اور حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرکت پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
فرزندِ اقبال جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ یونیورسٹی آف گجرات کا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم و تدریس دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گجرات جیسے دور دراز علاقے میں ایسی دانش گاہ قومی اور عصری چیلنجوں کو قبول کر کے ان سے عہدہ برآہ ہونے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے ہوئے۔ جسٹس جاوید اقبال نے اقبال اور فلاحی ریاست کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے نامکمل کام مکمل کیے جائیں۔ اقبال فکر قرآن کے حوالے سے تحقیقی کام کے خواہشمند تھے مگر زندگی میں اس پر تحریری کام نہ کر سکے۔ اسی طرح وہ اجتہاد پر کام کے خواہشمند تھے ۔ اقبال کو رخصت ہوئے ۷۳ سال ہو گئے، ہم وہیں کھڑے ہیں ۔علامہ اقبال نے امام غزالی کے بعد ایک ہزار سال میں پہلی مرتبہ واضح کیا کہ تین منفی طاقتیں ہیں جن کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے ۔ مطلق العنان ملوکیت، ملائیت او ر تصوف۔ ان کے خلاف جہادکے ذریعے ہی مسلم معاشرہ وجود میں لایا جاسکتا ہے ۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے مزید کہا کہ صحیح معنوں میں کوئی آئیڈیل سیکولر ریاست یا روحانی جمہوریت ہی فلاحی ریاست ہو سکتی ہے ہے جو دوسرے مذاہب کا احترام کرے تو وہ صرف اقبال کی تجویزہ کردہ جدید فلاحی اسلامی ریاست ہے ۔ اقبال سوشلزم اور کمیونزم کے بھی اتنے ہی خلاف تھے جتنے سرمایہ دارانہ نظام کے کیونکہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے تصور میں یقین رکھتے تھے۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے اجتہاد کی تخلیق ہے۔ یہ روایتی اسلامی تحریکوں کا نتیجہ نہیں تھا۔ پاکستان کو فکر اقبال کے تناظر میں چلانے کے لیے بھی اجتہادی سوچ کی ضرورت ہے ۔ ہماری قوم نے سیاسی آزادی تو حاصل کر لی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ ابھی تک مغلوب ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ابھی تک دوسری اور تیسری صدی کے تقاضوں اور ضروریات کا غلام بنا رکھا ہے ۔ اقبال اور فلاحی ریاست وہ موضوع ہے جس پر ہمیں چودہ اگست ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد ہی غور کرنا چاہیے تھا تاکہ ہم جدید اسلامی ریاست کو قائم کر کے اس کے سیاسی و تہذیبی ارتقاء کے لیے راہ ہموار کر سکتے۔
LUMS کے ڈاکٹر اعجاز اکرم نے ’’فکر اقبال کا پس منظر اور مسلم سیاسی فکر ‘‘کے عنوان سے مقالے میں کہا کہ علامہ اقبال نے فکر اسلامی کو اپنے عصری تقاضوں کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ۔اقبال عصری تقاضوں کو اسلام کے ماضی سے رشتہ توڑ کر نہیں بلکہ اس رشتے کو اور بھی مضبوط کر کے پورا کرنا چاہتے تھے، اس لیے فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے خود فکر اسلامی کے اس تاریخی ارتقا کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو وحی و رسالت کی ساتویں صدی سے چل کر اقبال کی بیسویں صدی تک پہنچتا ہے ۔ یہ بہت طویل اور پیچیدہ سفر ہے گذشتہ پندرہ سو سالوں میں اسلامی فکر مختلف اور متنوع ادوار سے گزری ہے۔
ڈاکٹر محمد سہیل عمر نے ’’مسلم سیاسی فکر اور اقبال کا تصور اجتہاد ‘‘ کے موضوع پر کہا کہ اسلامی تاریخ کے دور جدید میں اقبال ان بلند پایہ اہل بصیرت میں شامل ہیں جو مذہب و سیاست میں اجتہاد کی حمایت کرتے ہیں ۔اقبال کے خیال میں اسلام کا تصورِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے ۔ مسلمانوں کے زوال و انحطاط کا اہم سبب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کی قوت فکر بصیرت و اجتہاد سے محروم ہو گئی ۔ تاہم اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی بند کر سکتا ہے ۔ اقبال کے خیال میں اجتہاد حسن تغیر اور حرکت ارتقا کا وسیلہ ہے۔
خورشید احمد ندیم نے ’’جمہوریت اور فکر اقبال ‘‘کے موضوع پر سیر حاصل مقالے میں کہا کہ اقبال اور جمہوریت دونوں کے بارے میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں کے بارے میں ہمارا علم تا حال ادھورا ہے ۔ علامہ اقبال لبرل ڈیمو کریسی کی بجائے روحانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔ اقبال پوری کائنات کی روحانی تعبیر و تشکیل کرنا چاہتے ہیں، وہ کائنات کی مابعد الطبعیاتی تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی جمہوریت معیشت کی مادری ضروریات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ، جبکہ روحانی جمہوریت کی اساس کہیں اور جاتی ہے ۔ ہمیں جمہوریت کی بھی تعبیر نو کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے جمہوری نظام کی ضرورت ہے جو ظاہر میں مغربی طریقہ ہی ہو مگر اس کی روح روحانی ہو۔
ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے ’’اقبال کا تصور ریاست و حکومت‘‘ کے موضوع پر جامع مقالہ پیش کیا اور کہاکہ اقبال حقیقت میں احیائے اسلام کے شاعر و مفکر ہیں، اس لیے ان کے ذہنی و فکری ارتقا کو تحریک احیائے اسلام کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ صرف برصغیر میں مسلم ریاست کے قیام سے ان کے خواب کی تکمیل نہیں ہوئی۔ وہ تمدن اسلامی کے احیا کے شاعر تھے ۔ بلاشبہ علامہ اقبال کا تصور ریاست و حکومت روحانی جمہوریت اور اجتہاد کے گرد گھومتا ہے ۔
محمد عمار خان ناصر نے ’’خروج کے کلاسیکل اور معاصر موقف، فکر اقبال کے تناظر میں ‘‘ ایک مشکل موضوع کو عام فہم بناتے ہوئے کہاکہ اقبال مسلم ریاست میں اسلامی قانون کی تعبیر و تشریح کے حق کو مذہبی علماء تک محدود رکھنے کے بجائے جدید قانون اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کو شریک کرنے کے قائل ہیں ۔انہوں نے تھیاکریسی کے تصور کی مکمل نفی کرتے ہوئے اجتہاد کا حق مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کو دینے اور پارلیمنٹ کی راہنمائی کے لیے مذہبی علما کو اس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی جسے پاکستان میں عملی طور پر اختیار کیاگیا۔ ریاست و حکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں خروج پر بحث فروعی اور اطلاقی ہے ۔ ایسی فروعی فقہی بحثیں فکر اقبال کا موضوع نہ رہیں تاہم گہری نظر سے دیکھا جائے تو خروج کے موضوع سے اقبال کا تعلق واضح دکھائی دیتا ہے ۔خروج کے معاملے کے تمام فریقین اگر فکر اقبال سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنے رویوں اور طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر لیں تو پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس بحران سے نکالا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے تمام گروہوں میں مثبت ڈائیلاگ کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے ۔
علامہ اقبال کی سیاسی فکر کے حوالے سے منعقدہ اس سیمینار میں مقالہ نگاروں نے جامع اور تنقیدی خیالات کا بھرپور اظہار کیا ۔ بلاشبہ آج پاکستان ایسے ہی متغیر دور سے گزر رہا ہے جو ترکی میں ۱۹۲۴ء میں اختتام پذیر ہوا ۔ پاکستان کے روایت پسند حلقوں نے اپنے پیش رو ترک علماء کی طرح اسلامی تعلیمات کو روایتی فقہ کے نفاد کے مترادف قرار دے رکھا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب تک معاشرہ صنعتی طور پر ترقی کر کے جاگیردارانہ اور استعماری تسلط سے نجات حاصل نہیں کر لیتا اور جب تک مذہبی علوم کی تدریس جدید علوم کی روشنی میں نئے سرے سے نہیں دی جاتی یہ بحث جاری رہے گی ۔ کسی بھی زندہ معاشرے میں جوابات کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی ان سوالات کی جو عالمانہ جرات و بصیرت سے جنم لیں ۔ اس سیمینار میں سنجیدہ اور شعوری بیداری کے حامل سوالات اٹھائے گئے ۔ اقبال کی فکر کے متحرک تصور کو ابھارنے میں یونیورسٹی آف گجرات اور اس کی وژنری قیادت نے فعال کردار ادا کیا جس کو تمام مقررین ، حاضرین اور دانشوروں نے سراہا اور امید کی کہ جامعہ گجرات میں افکار تازہ کا جھونکا قومی فکر و ترقی میں بہار کی نوید ثابت ہو گا ۔
(رپورٹ: شیخ عبد الرشید)