(ا)
محترمی جناب محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم
آپ کا مقالہ ’’خروج‘‘ مجھے سہیل عمر صاحب ڈائریکٹر اقبال ایکاڈیمی نے بھیجا ہے جو میں نے بڑے شوق سے پڑھا۔ جب آپ نے اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار یونیورسٹی آف گجرات کے منعقدہ سیمینار پر کیا تھا تو میں موجود نہ تھا۔ اسی طرح میں نے بھی وہاں لکچر ’’وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے‘‘ کے موضوع پر دیا تھا جو اب ایک مقالے کی صورت میں تحریر کر دیا گیا ہے۔ شاید سہیل عمر صاحب اس کا پرنٹ آپ کو ارسال کریں۔ مناسب سمجھیں تو ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں شائع کر سکتے ہیں۔ ’الشریعہ‘ مجھے باقاعدہ ملتا ہے۔ ’’توہین رسالت‘‘ کے موضوع پر آپ کے جرات مندانہ خیالات قابل تعریف ہی نہیں، فقہی اصول کے عین مطابق ہیں۔
خصوصی طو رپر تصنیف وتالیف کے بعض ایسے کام جو حضرت علامہ نہ کر سکے، میں سمجھتا ہوں، ان کی وفات کے بعد، کر سکنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ مثلاً وہ ’’اجتہاد کی تاریخ وارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ ’’فلاحی ریاست کے قرآنی تصور‘‘ کی بنیاد پر بعد میں وجود میں آنے والے پاکستان میں ’’سوشل ڈیما کریسی‘‘ قائم کرنے کا خواب دیکھتے تھے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ حضرت علامہ کے ایسے ارادوں کی تشہیر سے تخلیقی سوچ رکھنے والے اہل علم کو دعوت دی جائے کہ ان کی تکمیل کے ذریعے مسلمانوں کی تہذیبی احیاء کے عمل کو جاری رکھیں؟
خیر اندیش
(جسٹس (ر) ڈاکٹر) جاوید اقبال
(۲)
محترم مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشریعہ کے دسمبر 2011 کے شمار ے میں ’’ الشریعہ‘‘ کی پالیسی پر ایک دفعہ پھر آپ کی تحریر سامنے آئی ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، اپنی اس پالیسی کو آپ نے بتکرار بیان کیا ہے ۔ چند سال قبل میری نظر آپ کے رسالے پرپڑی تو اسی پالیسی نے مجھے ’’الشریعہ‘‘ کا خریدار بنا دیا ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مجھے باقی تمام رسائل و جرائد سے بڑھ کر ’’الشریعہ‘‘ کا انتظار رہتا ہے ۔ میں نے جماعتِ اسلامی آزاد کشمیر کے زعما کے نام یہ رسالہ جاری کروا دیا اور ہم سب کی یہ رائے ہے کہ تمام علمی رسائل میں اس کا پلڑا سب پر بھاری نظر آتا ہے۔
میری نظر سے ’’البرہان ‘‘ بھی گزرتا رہتا ہے ۔ مجھے یقیناًیہ حق نہیں پہنچتا کہ ’’البرہان ‘‘ کے متعلق آپ کے رسالے میں کچھ لکھوں، تاہم اتنا عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ زیر نظر بحث مضمون میں مجھے آپ کے ارشادات سے سو فیصد اتفاق ہے۔ جناب جاوید احمد غامدی صاحب ہوں یا کوئی اور صاحب، ان کے خیالات سے اتفاق بھی کیا جاسکتاہے اور اختلاف بھی، مگر ہمیں کوئی حق نہیں کہ لوگوں کے ایمان کا فیصلہ کرتے پھریں۔
آپ ’’الشریعہ ‘‘ کی موجودہ پالیسی کو جاری رکھیے تاہم احتیاط کے ساتھ! کلمہ حق کی آخری دو سطور میں مذکور آپ کے ارادے سے مکمل اتفاق ہے، تاہم اسلوب مختلف ہوتا تو آپ کی شخصیت اور عمومی طرزِ تخاطب کے مطابق ہوتا ۔
محمد انور عباسی ۔ اسلام آباد
anwarabbasi@hotmail.com
(۳)
محترم و مکرم حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘
اللہ کی ذات سے امید کرتا ہوں کہ آپ، بھائی عمار ناصر صاحب اور جملہ متعلقینِ الشریعہ بخیر و عافیت ہوں گے۔
بحمداللہ مجھے یہاں اپنا دینی یا دنیوی تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن تحدیث بالنعمہ کے طور پر دینی تعارف کی صرف اِس جہت کو ذکر کرنا چاہوں گا کہ ایک بار ایک تبلیغی سفر میں مولانا محمد سرفراز خاں صفدر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور تین دن درسِ حدیث میں شرکت کی اور حضرت سے سندِ حدیث عطا ہوئی۔ میرے ساتھ جماعت میں نکلے ہوئے کئی علماءِ کرام کو بھی یہ نعمت ارزاں ہوئی۔ یہ میرے لیے رہتی دنیا تک سامانِ فخر اور نجاتِ اخروی کا ایک ظاہری سبب ہے۔ حضرت نے بوقت رخصت مجھے سینے سے لگاکر بھینچا تھا جس کی گرمی کا احساس آج بھی اپنے اندر پاتا ہوں اور اِس گرمی کو نجات کے باطنی اسباب میں سے ایک جانتا ہوں۔
بھائی عمار ناصر صاحب کی مجھ ناکارہ سے محبت کے پیچھے کچھ ایسے ہی معاملات ہیں۔ اُنھوں نے ایک بار میرے پاس لاہور تشریف لاکر مجھے عزت بخشی تھی۔ تب سے میں حیرت ناک طور پر اُن کی تربیت میں بھی موقع موقع پر ایسی باتیں دیکھتا ہوں جیسی مجھے میرے والد پروفیسر عابد صدیق صاحب رحمۃ اللہ علیہ میں اولاد کی تربیت کے حوالے سے ملی ہیں۔ میرے والد صاحب نے مجھے کبھی ڈاڑھی رکھنے تک کا نہیں کہا اور نہ کسی جماعت (مثال کے طور پر کہہ لیجیے کہ تبلیغی جماعت) کے لیے کام کرنے کو کہا۔ بس ماحول کچھ ایسا بنادیا کہ ایک طرف تو اللہ کا نام لینے والے سب لوگوں کے لیے محبت اور اکرام دل میں جاگزیں کرنے کی سعی کی اور دوسری طرف ایسے علما کی خدمت میں لے جایا کیے کہ ایک واضح دینی رخ بنتا چلا گیا۔ اللہ والوں میں اٹھنا بیٹھنا اُن کے ہاں کچھ ایسے وفور سے تھا کہ حیرت ہوتی ہے۔ مثلاً یہی کہ میں لاہور میں پیدا ہوا اور میرے کان میں اذان مولانا خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے دلوائی۔ زکریا یونیورسٹی میں ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس کے زمانے میں ایک بار میں نے اباجان کے سامنے قاضی حسین احمد صاحب کے بارے میں کچھ ہلکی باتیں کیں (وجہ؟ اُن دنوں اسلامی فرنٹ اور ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ کا نعرہ بہت لگ رہا تھا) تو اباجان نے نہایت تحمل سے میری لترو سن کر ٹھنڈا سانس بھرا اور امی جان سے کہا کہ چائے بنائیں، مجھے صفوان سے علیحدگی میں کچھ باتیں کرنی ہیں۔ اُنھوں نے میری ایک لمبی کلاس لی جس میں یہ بات بھی فرمائی کہ اللہ کا نام لینے والے ہر ایک کی قدر کیا کرو۔ تم دیکھو گے کہ کچھ عرصے کے بعد اللہ کا محض نام لینے والے لوگ بھی عام نہیں ملیں گے۔ یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیر مسلموں کو مسلمان کیا کرتے تھے اور ہمارے اکثر لوگ مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کا کام کرتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ تم نے قاضی صاحب کی غیبت کی ہے۔ اُنھیں خط لکھ کر معافی مانگو، اور مجھ کھڑکتے ہوئے راجپوت سے اُنھوں نے یہ کرواکے چھوڑا۔
یہ ذکر کرتا چلوں کہ اُن کی غیرتِ دینی کا عالم یہ تھا کہ میری والدہ کے سگے ماموؤں سے، جو لاہور کے مالدار ترین اور نامی گرامی قادیانی ہیں، نہ تو ہم کبھی ملے ہیں اور نہ اُنھیں ہمارے ہاں آنے کی اجازت تھی۔ اُن سے یہ مقاطعہ اباجان کی شادی (۲۳؍ مارچ ۱۹۶۷ء) کی بنیادی شرط تھا اور آج کوئی پینتالیس برس ہونے کو آئے ہیں، یہ مقاطعہ برقرار ہے، بلکہ اباجان کی وفات (۷؍ دسمبر ۲۰۰۰ء) کے گیارہ سال بعد بھی برقرار ہے۔ الغرض، اباجان نے انتہائی بیدار مغزی سے مجھے مختلف دینی نظاموں میں اترنے اور باقاعدہ عملی کام کرنے کے مواقع فراہم کیے تاکہ کوئی حسرت یا کوئی لاعلمی نہ رہ جائے، اور پھر رفتہ رفتہ میرے گرد ایسے لوگوں کا اکٹھ کردیا (بلکہ صاف تر الفاظ میں، مجھے ایسے لوگوں کے باقاعدہ ’’سپرد‘‘ کیا) جس طرف کا میرا اپنا رجحان بنا۔ اور بحمداللہ میں پوری طمانیتِ قلب اور فکری یکسوئی سے ایک طرف کو ہولیا، اِس بنیادی بات کے کامل استحضار کے ساتھ کہ جن لوگوں میں کفر کی ننانوے وجوہ بھی جمع ہوں اور محض ایک وجہ اسلام کی ہو، وہ بھی مسلمان ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کو خوامخواہ کافر کافر کہہ کہہ کر دُر دُر کرنے کی بجائے اُن کی وجہِ انتشارِ فکر اور گم کردہ راہی کو دور کرنے کی پیہم کوشش میں لگے رہنا چاہیے۔ یہی تربیت ہے جس کی وجہ سے میں باطل کی تعریف اپنی خواہشِ نفس سے متعین نہیں کرتا، کہ بزعمِ خود کسی کو باطل قرار دے کر لٹھ لیے اُس کے پیچھے ہولوں اور اُسے اسلام کے دائرے سے باہر نکالنے تک چین سے نہ بیٹھوں۔ واللہ میں کسی کلمہ گو کو کافر نہیں سمجھتا اور اپنی تربیت کی وجہ سے مسلمانوں میں موجود کمیوں کا ذمہ دار دل کی انتہائی گہرائی سے اپنے آپ کو جانتا ہوں کہ اے کاش کبھی لگ کر محنت کی ہوتی تو مسلمان اسلام کی خیروں سے محروم کیوں ہوتے۔
بھائی عمار ناصر نے مجھے (یہاں سے آگے لفظ ’’مجھے‘‘ سے میرا پورا طبقہ مراد لیا جاسکتا ہے) ہر موقع پر نہایت محبت سے ڈیل کیا ہے۔ میرے سمیت بے شمار لوگ ہیں جو اُن سے اپنے تحفظات پورے طور پر بیان کرسکتے ہیں۔ یہ بات آپ کے علم میں ہے کہ مذہبی طبقہ کے لوگوں کی ایک مختصر جمعیت تو قوسِ لمن الملک الیوم بجاتے بجاتے اپنے علم و تقویٰ میں اِتنا آگے بڑھ گئی ہے کہ ہمارا اپناؤ (ہمیں own کرنا) یا ہماری علمی و فکری رہنمائی تو الگ رہی، مجھ جیسے عوام کو محض منہ کھولنے کا حق دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ جب ہماری سنی ہی نہ جائے گی تو ہمارا ذہن سامنے کیسے آئے گا؟ اور جب ہمیں کہنے کی اجازت نہیں ہے تو ہم پر فتویٰ کس بات کا؟ کیا فتویٰ اِسی کھڑپینچی اور لٹھ ماری کا نام ہے؟ کیا ہم پر (یا کسی پر) فتویٰ تھوپا جاسکتا ہے؟ ہم لوگوں پر امت مسلمہ کے بے انتہا وسائل خرچ ہوئے ہیں: وطن عزیز نے ہماری اعلیٰ ترین معیار کی عصری تعلیم کے لیے اپنے وسائل نچھاور کیے ہیں اور آپ جیسے علماءِ کرام اپنا سرمایۂ دعا و توجہ اور گریۂ نیم شبی ہم پر لٹاتے رہتے ہیں۔ ہم لوگ معمارانِ وطن کے اور آپ حضرات کے پروردگان ہیں۔ اور جو بندوں کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتا، وہ اللہ کا شکر بھی کیوں کر ادا کرتا ہوگا! ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے زندہ مسائل کا حل مذہب کو بطورِ افیون یا بطورِ ڈانگ استعمال کرانا نہیں ہے بلکہ پورے نواحی مطالعے اور پوری تیاری کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر برابری کی بنیاد پر مکالمہ ہے۔ اور یہ مسلمانوں کا اجتماعی شعور اور جینئس ہی ہوگا جو اجماعِ امت کی راہ ہموار کرے گا۔ اب یہ بھائی عمار صاحب ہیں جن کے سامنے ہم خود کو بہت ایزی محسوس کرتے ہیں اور اِس راستے واسطے سے ہماری باتیں آپ حضرات کے سامنے آتی رہتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ہمارا محاورہ (Idiom) سمجھتے ہیں اور ہمیں اِسی کرنسی میں جواب دیتے ہیں۔ چنانچہ مکالمہ ہوتا ہے اور پورے زور و شور سے ہوتا ہے۔ الشریعہ میں ہونے والی علمی بحثوں پر ایک نظر ڈالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ، ایک آدھ استثنا کے ساتھ، متانت اور سنجیدہ کلامی کی مقدار زیادہ رہی ہے۔ آپ لوگوں نے مسلمان کے مسلمان سے اختلاف کو اسلام کا اختلاف نہ سمجھا، نہ بنایا اور نہ بنانے دیا۔ واللہ اختلافِ امت کا رحمت ہونا مجھ جیسے کورے لوگوں کو بھی سمجھ میں آگیا۔ یہ الشریعہ کا کریڈٹ ہے۔
مذہبی بحث کا نتیجہ ہمیشہ شرمناک رہا ہے۔ (مثالیں کیا دوں کہ امت مسلمہ کی مذہبی بحثوں کی پوری تاریخ علی العموم اِنہی گندے کپڑوں کی لانڈری رہی ہے)۔ الشریعہ شاید مذہبی دنیا کا واحد فورم ہے جہاں بحث کے بعد بھی دل پھٹتے نہیں ہیں۔ ہمارے دل سے دعا نکلتی ہے اُس بندۂ خدا کے لیے جس نے وقت کی نبض کا بالکل درست مطالعہ کیا اور الشریعہ کی موجودہ پالیسی کی صورت میں درست تر علاج تجویز کیا۔ محمد اظہار الحق صاحب نے بالکل درست فرمایا ہے کہ اِس سب کا کریڈٹ صرف آپ کو جاتا ہے اور یہ آپ کی عین دور اندیشی اور ایک طرح سے مولانا محمد الیاس رحمۃ اللہ علیہ کی ’’آدمی تیار کرنے‘‘ کی پالیسی پر چلنا ہے کہ آپ نے بھائی عمار صاحب کو فرنٹ مین رکھا ہے۔ اگر آپ ہمیں اِس واسطے کی بجائے بلاواسطہ بات کرنے پر لائیں گے تو صاف عرض کرتا ہوں کہ ہم بہت سے ایسے حجابات کا شکار ہوجائیں گے جن میں امت مسلمہ کا تعلیم یافتہ نوجوان اور مقتدر طبقہ عام طور سے پہلے ہی لپٹا ہوا ہے۔ ہمارے لیے آپ سے (مراد طبقۂ علما سے) بلاواسطہ ملاقات کا مطمح نظر صرف حصولِ دعا و برکت ہوتا ہے نہ کہ گفتگو، اور بحمداللہ ہم خوش نصیب ہیں کہ بھائی عمار صاحب سے بلاتکلف گپ شپ کرلیتے ہیں۔ جس اطمینان اور بے تکلفی سے میں آپ سے اپنے جی میں آئی کہہ سکتا ہوں یا جس محاورے میں میں بھائی عمار صاحب سے بات کرسکتا ہوں، عام اہل علم یا اہل دین سے نہیں کرسکتا۔ میں اپنے پورے طبقہ (جدید عصری تعلیم + جدید ترین اور عالمی انڈسٹری + بیوروکریسی) کی نمائندگی کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ للہ ایسے کسی دباؤ میں مت آئیے اور اللہ نے ہم لوگوں کو جو یہ فورم مہیا کیا ہے، اُسے کسی بھی قسم کی Churchiness کی بھینٹ مت چڑھائیے۔
کسی کو الشریعہ پیش کرتے ہوئے ہم بصمیمِ قلب یہ کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی ماہناموں میں کہیں اسلام فی نفسہٖ بھی پایا جاتا ہے، ورنہ یہ ماہنامے ایک مدرسے کے ساختہ (بلکہ پسند فرمودہ) اسلام یا ایک فرقے کی کسی شاخ کے چھوٹے سے ٹھنٹھ سے زیادہ کوئی اوقات نہیں رکھتے۔ الا ماشاء اللہ۔ یہ ذہن کہ ایک ذرا سے اختلاف کی وجہ سے آدمی ہی فارغ کردیا جائے، اُس بچگانہ سوچ کا مظہر ہے جو مثلاً مخصوص مذہبی خیالات رکھنے والے کسی سکول ماسٹر کو ٹرانسفر کرا دینے یا اُس کا ٹرانسفر رکوا دینے والوں کی ہوتی ہے۔ کیا کسی دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے سے مذہبی لگاوٹ میں کمی آجاتی ہے؟ یا جو آدمی ایک جگہ پر ’’کافر‘‘ ہے، وہ دوسرے اسکول میں ٹرانسفر ہونے سے ’’مسلمان‘‘ ہوجایا کرتا ہے؟ نیز یہ بھی توجہ میں رہے کہ کسی مسلک کا پیرو ہونے کا مطلب اُس مسلک سے منسوب فرسودیات کو بھی اٹھائے اٹھائے پھرنا ہے، ایک احمقانہ تر خیال ہے۔ دنیا بہت آگے نکل گئی ہے۔ لوگ جواب مانگتے ہیں، ایسا جواب جس سے نری عقل کو نہ سہی، فہمِ عامہ کو تو اطمینان ہو۔ راقم کی نگاہ میں اللہ نے مسلکِ دیوبند کو قبولِ عام اِسی لیے دیا کہ اِس کے بڑوں میں وسعتِ نظری تھی، اِتنی کہ اپنے دیے ہوئے فتاویٰ سے علی الاعلان رجوع تک کرنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔ حاشا مجھے کسی کی ہیٹی مطلوب نہیں، لیکن اپنے محدود مطالعے کی حد تک میں دیوبند کے اِس مسلک پر صرف الشریعہ کو پاتا ہوں (افسوس کہ اِس مسلک کو میں علما کے ایک بڑے طبقے کے موجودہ طرزِ عمل کی بنیاد پر ’’ٹھیٹھ‘‘ مسلک نہیں کہہ سکتا؛ دیوبند کا قدیم ٹھیٹھ مسلک البتہ یہی رہا ہے) اور یہ اِسی مسلک پر چلنے کی برکت ہے کہ حکومتوں کے آنے جانے سے یا سیاسی درجۂ حرارت کے اونچاؤ نِچاؤ سے الشریعہ کی پالیسی نہیں بدلتی۔ اللہ کے غیر کے اِس شدید تاثر سے شاید ہی کوئی مذہبی جریدہ بچا ہوا ہو، بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ کئی مذہبی پرچوں کی پالیسی کو چندہ دینے والوں کے ساتھ ساتھ بدلتا دیکھنے کا تو میں خود بھی گواہ ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں عورت کی حکمرانی کے پانی میں مدھانی چلانے والے مذہبی جریدوں کو اُن کے سر پر دوپٹہ آنے سے آرام آگیا تھا۔ اور یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ محترمہ کے قتل پر سبھی جریدوں نے ماتمی باجے بجاتے ہوئے اتحاد بین المسلمین چمپیئن شپ ٹرافی میں حصہ لیا تھا تاکہ آنے والے سیاسی منظر نامے میں کلین بولڈ نہ ہوجائیں۔ یہ یقینًا دور رس نتائج رکھنے والا ایک اندوہناک قومی سانحہ تھا، لیکن الشریعہ نے اُس وقت اِس وقتی حادثے پر ایک باوقار رسمی تحریر کے سوا کچھ نہ لکھا تھا۔ وجہ یہ کہ الشریعہ کے پاس ایک سوچی سمجھی پالیسی تھی (اور ہے) جب کہ اکثر جریدوں کے پاس ہمیشہ کی طرح صرف جذبہ ہی جذبہ تھا (جو روز افزوں ہے)۔
یہاں تک کی بات بھائی عمار صاحب کی الشریعہ سے متعلق عمومی خیریت اور موزونی کے بارے میں تھی۔ رہی بات اُن ’’اعتراضات‘‘ کی جن کا ذکر ہوا ہے، جن میں سرِ فہرست ’’غامدیت‘‘ نامی ایک ہوّے کا ہے، یہ بالکل اُس مسلمان والی بات ہے جسے خود کلمہ نہیں آتا تھا اور ایک ہندو کے سینے پر چڑھ کے اُسے کلمہ پڑھنے کو کہہ رہا تھا۔ جس طرح ہر مفکر کے کچھ تفردات ہوتے ہیں، اُسی طرح غامدی صاحب کے بھی ہیں جن سے اُن کا ’’کفر‘‘ بہرحال ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر فکر کی بنیاد پر مفکر کے تفردات نہ ہوں تو وہ مفکر کہلائے ہی کیوں؟ ایسے شخص کو تو بلحاظِ تعریف محقق کہنا چاہیے۔ اور اگر تفردات رکھنا فتنہ ہے تو خاکم بدہن ایک آدھ ماہ میں ’’فتنۂ عماریت‘‘ بھی اشاعت کا دن دیکھ سکتی ہے کیوں کہ آج قلم ٹوتھ پِک سے بھی کم قیمت پر بکتا ہے۔ بھائی عمار صاحب کی براہین میں کئی جگہ پر فکرِ تازہ کے ایسے نظائر ہیں جنھیں اُن حلقوں میں یقیناًتسلیم نہیں کیا جائے گا جو علمی اعتبار سے ابھی اُس دور میں جیتے ہیں جب گلیلیو نے زمین کو پکڑ کر سورج کے گرد گھمانا شروع نہیں کیا تھا۔ مثلًا دیکھیے! DNA ٹسٹ اور الٹرا سونو گرافی کے نتائج عام ہونے سے پہلے کی تمام تفاسیر میں یعلم ما فی الارحام کی شرح میں کیے گئے دعووں کا باطل ہوجانا خدانخواستہ قرآنِ پاک کی کسی آیت کا باطل ہونا نہیں ہے بلکہ اِس سے ہمارے مفسرین قرآن کے مبلغِ علم پر علم انسانی ہونے کی مہر لگی ہے۔ اِن علما کا تقویٰ طہارت اور اپنے دور کے علوم اور اُن کے نتائج تحقیق پر مناسب دسترس سر آنکھوں پر، لیکن اللہ کے کلام کی طرح بندے کی لکھی ہوئی تفسیر بھی اگر قیامت تک کے لیے ناقابلِ تردید یا اصلاح کی ضرورت سے بے نیاز ہوتی تو بندہ بھی تو خدا ہوگیا تھا نا! لہٰذا اِس موضوع پر آج کسی بڑے سے بڑے قدیم متقی و عالم مفسر سے اختلاف نہ کیا جانا حماقت ہوگی۔
میں کمپیوٹر سائنس کا آدمی ہوں۔ ذرا میرے سامنے کوئی اِن پیج کے ٹائپسٹ کو ماہرِ کمپیوٹر تو کہے، میں اُسے گھر تک چھوڑ کے آؤں گا۔ یہ پیروکارانِ اسلام ہی کی سادہ خوئی و خیالی ہے کہ بالکل نان ٹیکنیکل لوگوں کے تفسیرِ قرآن کے نام پر کیے گئے تخمین و ظن کو پہلے تو متن الٰہی (Divine Writ) کے برابر کا درجہ دے دیتے ہیں اور پھر جب الٹی پڑتی ہے تو کھینچ تان کر وحیِ الٰہی کو اپنے مطلب کے معنی پہناتے پھرتے ہیں۔ یہ بھی کیامذاق ہے کہ جس شخص کو حیاتیاتی سائنس کی الف سے بے نہیں آتی، اُس کی لگائی ہوئی گپ کو اور جس کا دوربین استعمال کرنے کا تجربہ ضعف بصارت کی وجہ سے اخبار کو محدب عدسہ کی مدد سے پڑھنے تک محدود ہے، اُس کی تفسیر قرآن میں سماویات کے بارے میں کیے گئے دعووں کو شرحِ کلامِ الٰہی کا درجہ دیا جائے اور پھر جب اِن مزعومہ شارحین کی ہانکی ہوئی بودی ثابت ہو تو تاویل اینڈ سنز کمپنی لمیٹڈ کھول لی جائے۔ پانچ روپے کی پھکی سے ننانوے امراضِ خبیثہ کا شافی علاج کرنے والے ایسے ملا بقل بطوروں سے اللہ ہی امت کی حفاظت فرمائے۔ میں واضح الفاظ میں عرض کرتا ہوں کہ میرے اِن جملوں میں ہدف خدانخواستہ تقویٰ طہارت یا علماءِ سلف نہیں ہیں بلکہ اندھی تقلید اور بزرگوں کے فرامین کو وحیِ الٰہی کا درجہ دے دینے کا عمومی رویہ ہے۔
نئی ٹیکنالوجی کی کچھ تعلیم کی وجہ سے میں پورے استحضار کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وقت گزرے گا تو اِن شاء اللہ براہین کے بارے میں علمی رائے رکھنے والوں اور صحافیانہ رائے رکھنے والوں کا فرق گھوڑے اور گدھے کے سوار کے فرق کی طرح خود ظاہر ہوجائے گا۔ اِس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اِس میں جو بھی بات کی گئی ہے، اُس میں نتائجِ تحقیق کا اظہار تو ملتا ہے، لیکن مبلغِ علم کا اِدّعا نہیں ملتا۔ اور اگر اِس میں درج کردہ باتوں میں سے کوئی بات تحقیقِ مزید سے غلط ثابت ہوگئی تو زمانہ اُس کو اِس لیے قبول نہیں کرے گا کہ مستند ہے مصنف براہین کا فرمایا ہوا۔ مصنف براہین مزاجاً خود بھی ایسی بے سوادی سے اِن شاء اللہ مامون ہے۔ اصلاح کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔ ہاں! کچھ باتوں خصوصًا عصمت صحابہؓ پر بھائی عمار صاحب کے کچھ جملوں کے ذیلی مطالب پر طالب علمانہ تحفظات مجھے بھی ہیں اور یہ ہونے بھی چاہییں کیونکہ میرا زمانۂ طالب علمی ابھی ختم نہیں ہوا (اور اللہ نہ کرے کبھی ایسا ہو! اگر میری سیکھنے کی نیت صادق ہوئی تو اللہ مجھ پر طلبِ علم کا دروازہ بند نہیں کرے گا)۔ گنتی کے اِن چند جملوں کے مطالب پر کوئی دورائی نہیں، لیکن اِنھیں recast کیا جانا بہتر ہوتا۔ البتہ اِن کی وجہ سے میں بھائی عمار ناصر کو جے سالک سے نہیں ملاؤں گا، کبھی نہیں! یہ میری گھریلو تربیت ہی کے خلاف نہیں بلکہ بنیادی اسلامی حقوق، احترامِ انسانیت، میری جماعتی تربیت نیز اسلام کی کافروں تک سے رواداری کے ظاہر بظاہر اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ اللہ ہمیں مسلمان کی بوجہِ اسلام قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ نعمت مانگنے سے ملتی ہے۔
بات کو سمیٹتا ہوں۔ عرض ہے کہ میں کچھ ایسے لوگوں سے بھی رابطے میں ہوں جو الشریعہ کی کھلی گفتگو کی پالیسی پر صرف تحفظات نہیں رکھتے بلکہ اُن کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے گویا آپ نے اُنھیں اپنا پالیسی ڈویلپمنٹ کنسلٹنٹ یا تھنک ٹینک مقرر کیا ہوا ہے یا آپ کی اور الشریعہ کی ’’اصلاح‘‘ کے لیے وہ مامورین من اللہ ہیں۔ اُنھیں شدید دکھ ہے کہ الشریعہ اُن کی خواہشات کے مطابق نہیں چھپتا۔ سارے جہان کا درد چونکہ اُن کے جگر میں ہے، لہٰذا جہاں وہ صدام حسین، کرنل قذافی اور خادمِ حرمین جلالۃ الملک شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو مشورے سپلائی کرتے رہتے ہیں، وہیں جب قومی مسائل کے درد کا دورہ پڑتا ہے تو فی سبیل اللہ، بلکہ فی سبیل الشریعہ، ون سونّے مشورے دیتے ہیں۔ سو باتوں کی ایک بات، اِس قسم کے خدائی خدمتگار ’’عوامی بھائیوں‘‘ کے کہے میں نہیں آنا چاہیے۔ میرے ایک عزیز دوست حضرت جی مولانا محمد یوسف علیہ الرحمہ کا ملفوظ سناتے تھے کہ میرے تبلیغ والے کچھ ساتھیوں میں اللہ نے عقل کی جگہ بھی اخلاص بھر دیا ہے۔ سو یہ ایسے ہی مخلصین ہیں۔ اِن کے اخلاص میں شبہ نہیں، لیکن اِن کے عقل سے پیدل ہونے میں بھی کوئی شک نہیں۔
حافظ صفوان محمد چوہان
hafiz.safwan@gmail.com
(۴)
مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب مدظلہ
السلام و علیکم و رحمۃ اللہ۔ امید ہے خیریت سے ہوں گے۔
آپ کا گرامی نامہ ملا۔ بہت مشکور ہوں کہ آپ نے اس مسئلے کو سمجھنے میں میری رہنمائی فرمائی۔ اللہ رب العزت حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی لحد کو اپنی بے پناہ رحمتوں اور لامحدود انعامات سے بھر دے، انہوں نے اپنی بے پناہ علمی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر امت مسلمہ کی اس دور میں بھی رہنمائی فرمائی اور یقیناًیہ ان کی حقانیت کی دلیل ہے کہ آج بھی ہم جیسے لوگ ان کے نظریات و افکار کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج کے اس دور میں جب لوگوں میں سطحی ذہنیت عام ہو چکی ہے، بہت کم افراد مسئلے کی گہرائی میں جا کر اس کی روح کو پانے کی کوشش کرتے ہیں اور بدقسمتی سے وہ لوگ جو کسی نہ کسی دین کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے مقصد اور اپنے موقف سے مطابقت رکھنے والی رائے عوام الناس کو بتاتے ہیں اور اس کے برعکس آرا کو چھپا کر ایک عامی آدمی کے ذہن کو اس حد تک پہنچادیتے ہیں جہاں وہ اپنی رائے کے خلاف کسی بھی رائے کو سننے و سمجھنے کو تیار بھی نہیں ہوتا۔
اسی طرح کا مسئلہ یہاں بھی موجود ہے۔ آپ کے گرامی نامہ سے میں مکمل اتفاق کرتا ہوں اور اسی طرح کا مزاج بھی رکھتا ہوں، لیکن بات وہیں آجاتی ہے کہ ابن تیمیہ کے جو نظریات و افکار ہیں، وہ یقیناًوہی ہیں جو آپ نے بیان کیے ہیں کہ ’’ ہم نے اس کی نسبت والے پہلو کو قبول کرنا ہے اور اگر اس کے کسی قول یا فعل میں شبہ وتاویل ہے تو اس کو رعایت بھی دینی ہے‘‘۔ مگر ان چیزوں کا لحاظ حضرت نے اپنے فتوے میں کیوں اختیار نہیں فرمایا جو انہوں نے روافض کے خلاف دیا؟ حالانکہ شیعہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نسبت کا اظہار بھی کرتے ہیں، ان کو آخری رسول بھی مانتے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو وہ اس معاملے میں متشدد بھی ہیں کہ وہ اہل بیت کے متعلق جس قسم کے عقائد رکھتے ہیں، ہم وہ نہیں رکھتے۔ مثلاً یہ کہ ائمہ معصوم ہیں اور ان کا مقام حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں سب سے بلند ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ان سب عقائد و نظریات کا سبب نسبت رسول ہی بنا کہ وہ خاندان رسول سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرا پہلو بھی ہے کہ وہ اپنے ہر عقیدے میں کسی نہ کسی شبہہ اور تاویل کا سہارا لیتے ہیں ۔
دوسری بات یہ کہ تاویلات کا دائرہ کس حد تک ہے؟ شیعہ حضرات تحریف قرآن کے عقیدے کو اس بات پر محمول کرتے ہیں کہ ہمارے ائمہ نے اس قرآن کی تصدیق کر دی ہے اور یہ وہی قرآن ہے جو لوح محفوظ میں موجود تھا اور منزل من اللہ ہے، مگرجو لوگ تحریف کے قائل ہیں، عقلی طور پر ایک حد تک وہ درست بھی ہیں کہ قرآن کو جس انداز میں جمع کیا گیا، اس میں تحریف کے بہت احتمال ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو مسجد نبوی کے دروازے پر بٹھا دیا گیا اور منادی کروا دی گئی کی جس شخص کے پاس قرآن کا کوئی حصہ بھی موجود ہے، وہ دو گواہ لے کر آئے۔ اب اگر کسی کے پاس کوئی حصہ موجود ہو، پر گواہ نہ ہو تو وہ حصہ جمع ہونے سے رہ گیا۔ اس بات سے ان کا صحابہ سے بغض واضح نظر آرہا ہے۔ مزید ان کی کتابوں میں کچھ اس طرح کی تحریر بھی پائی جاتی ہے کہ حضرت علی نے بھی قرآن کو جمع فرمایا تھا اور وہ شان نزول کے عین مطابق تھا، لیکن اس قرآن اور حضرت علی کے جمع کردہ قرآن میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں۔ تاہم ایسا عقیدہ رکھنے والے تحریف کے قائل شیعہ گروہ پر کوئی حکم نہیں لگاتے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ اس بارے میں بھی رہنمائی مل جائے کہ کوئی یہ عقیدہ رکھے کہ ہمارے اماموں کا درجہ انبیا سے بلند ہے ما سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے، اگر ہم اس پر کوئی حکم لگائیں تو وہ بے شمار حوالے سنی حضرات اوراہل تصوف کی کتابوں کے دیتے ہیں کہ کہیں نہ کہیں آپ بھی غیر نبی کا مقام نبی کے برابر اور کہیں اس سے بلند بتاتے ہیں۔امید ہے اس معاملے میں اصلاح فرمائیں گے۔
ایک اہم بات مفتیان کرام کے طرز عمل سے تعلق رکھتی ہے۔ اس پہلو کو بھی عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے علما و مفتیان عظام اس مسئلے کو حل کرسکیں۔ اگر یہ جوں کا توں رہا تو کئی مسائل پیدا کرے گا جس میں سب سے سنگین یہ ہے کہ عوام الناس کا علما پر اعتماد اٹھ جائے گا ۔یا تو ان سابقہ فتووں پر نظر ثانی کی جائے اور کوئی متفقہ طرزعمل اختیار کیا جائے تاکہ علما کے قول و فعل میں کوئی تعارض نہ رہے اور عوام الناس کو لزو می اور التزامی کا فرق بتایا جائے، جیسے قومی اسمبلی میں مرزا ناصر پر جرح کے دوران جب اس نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ لوگ بھی ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں اور فتوے بھی موجود ہیں تو اس کے جواب میں مفکر اسلام مفتی محمود رحمہ اللہ نے کفر لزومی اور التزامی کی تشریح کرتے ہوئے واضح کیا کہ مسلمانوں کے فرقوں کا مابین جو کفر کے فتوے ہیں، وہ کفر لزومی کو بیان کرتے ہیں، جبکہ قادیانیت پر کفر کا فتویٰ کفر التزامی کے اعتبار سے ہے۔ ااسی طرح آج بھی اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ان مسائل کو کو عوام کو سامنے لا کر ان کی زہنی الجھنوں کو حل کیا جا سکے۔ اس طرح عوام الناس کے علما پر اعتماد میں اضافہ بھی ہوگااور دینی ماحول بھی صحیح سمت میں ترقی کرے گا۔
میری پے درپے معروضات کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ جواب در جواب اور لاحاصل گفتگو ہوتی رہے۔ امید ہے حسب سابق رہنمائی فرماتے رہیں گے۔ شکریہ!
حافظ محمد فرقان انصاری
۲۴ نومبر ۲۰۱۱
(۵)
مکرمی حافظ محمد فرقان انصاری صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے مسئلے کی تنقیح کے ضمن میں جو مزید سوالات اٹھائے ہیں، وہ بہت مفید ہیں۔ اس حوالے سے میری گزارشات حسب ذیل ہیں:
۱۔ میرے علم کے مطابق ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہیں بھی روافض کے کفر کی بات اس مفہوم میں نہیں کہی کہ وہ ان کو قانونی طور پر مسلمانوں سے الگ، کفار کا ایک گروہ سمجھتے ہیں اور ان پر کفار کے قانونی احکام جاری کرنا چاہتے ہیں۔ ہاں، روافض کے بعض نظریات کے کفر ہونے کی انھوں نے جابجا صراحت کی ہے۔ ان دونوں باتوں میں کوئی تضاد نہیں، اس لیے کہ کسی بات کے فی نفسہ کفر ہونے اور اس کے قائل کو قانونی اعتبار سے کافر قرار دینے میں بہت فرق ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ابن تیمیہ نے بعض مقامات پر یہ لکھا ہے کہ روافض کا مذہب یہود ونصاریٰ کے مذہب سے بھی زیادہ برا ہے، لیکن جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہود ونصاریٰ کو روافض سے بہتر کہنا درست ہے تو انھوں نے جواب میں لکھا کہ:
کل من کان مومنا بما جاء بہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فہو خیر من کل من کفر بہ وان کان فی المومن بذلک نوع من البدعۃ، سواء اکانت بدعۃ الخوارج والشیعۃ والمرجئۃ والقدریۃ او غیرہم فان الیہود والنصاری کفار کفرا معلوما بالاضطرار من دین الاسلام والمبتدع اذا کان یحسب انہ موافق للرسول صلی اللہ علیہ وسلم لا مخالف لہ لم یکن کافرا بہ ولو قدر انہ یکفر فلیس کفرہ مثل کفر من کذب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم (مجموع الفتاویٰ ۳۵/۲۰۱)
’’ہر وہ آدمی جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر ایمان رکھتا ہے، وہ ہر اس شخص سے بہتر ہے جو آپ کا انکار کرتا ہے، چاہے اس ایمان رکھنے ولے میں کسی قسم کی کوئی بدعت پائی جاتی ہو اور چاہے وہ بدعت خوارج کی ہو یا شیعہ اور مرجۂ اور قدریہ کی یا کسی اور گروہ کی۔ یہود ونصاریٰ تو بالکل واضح طور پر کافر ہیں اور اسلام کے منکر ہیں، جبکہ مبتدع جب یہ سمجھتا ہے کہ اس کا عقیدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مطابق ہے نہ کہ اس کے خلاف تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ کا منکر نہیں۔ فرض کر لیا جائے کہ وہ منکر ہے تو بھی اس کا انکار بہرحال اس شخص کے انکارجیسا نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتا ہے۔‘‘
۲۔ اہل تشیع عمومی طور پر اپنے بعض اکابر علما کے موقف سے اتفاق نہیں رکھتے جو تحریف قرآن کے قائل ہیں، تاہم وہ ان حضرات کی تکفیر بھی نہیں کرتے۔ اس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ اس نوعیت کے فتوے شخصیات کے مقام ومرتبہ کو نظر انداز کر کے نہیں لگائے جا سکتے۔ جو حضرات تحریف کے قائل ہیں، وہ اہل تشیع کے صف اول کے اکابر اہل علم ہیں جن کے علمی مقام ومرتبہ کے پیش نظران کی تکفیر کرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے اہل سنت کے ہاں معوذتین کو قرآن مجید کا حصہ تسلیم نہ کرنے پر نہ صرف یہ کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ پر کوئی فتویٰ نہیں لگایا گیا، بلکہ فتاویٰ عالمگیری (جلد ۲، ص ۲۶۷) میں تصریح ہے کہ آج بھی اگر کوئی شخص ابن مسعود کے موقف سے استناد کرتے ہوئے معوذتین کے قرآن ہونے کا انکار کرے تو راجح قول یہی ہے کہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
۳۔ میرے نزدیک اس معاملے میں سب سے بنیادی بات یہ دیکھنے کی ہے کہ اہل تشیع کے نظریات پر تنقید اور ان کے کفریہ ہونے کی تصریحات کے باوجود چودہ صدیوں میں آج تک کہیں بھی ان کو قانونی سطح پر مسلمانوں سے الگ کر کے ان پر کفار کے احکام جاری نہیں کیے گئے، خاص طور پر حج جیسے رکن اسلام کی ادائیگی میں وہ شروع سے اب تک شریک چلے آ رہے ہیں اور کسی نے بھی، حتیٰ کہ ان کے کفر کے فتوے دینے والے مفتیوں نے بھی، آج تک حرمین شریفین کے ارباب حل وعقد سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اہل تشیع کے وہاں جانے پر پابندی لگائی جائے۔ عبادات او ر عام معاشرتی معاملات کی حد تک یہ کسی بھی شخص یا گروہ کا اجتہادی حق ہے کہ وہ اہل تشیع کے ساتھ صحیح العقیدہ مسلمانوں سے مختلف معاملہ کرے اور میرے فہم کے مطابق ان کی تکفیر کے فتوے بھی بنیادی طو رپر اسی دائرے کو سامنے رکھ کر دیے گئے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی امت کی سطح پر یا کسی بھی مسلمان ملک میں ملکی قانون کے دائرے میں انھیں کافر قرار دینے کی بات میرے نزدیک عقل وفہم اور حکمت وبصیرت سے بالکلیہ محروم ہونے کی علامت ہے اور ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے بالکل بجا طور پر اسے عالم اسلام میں ایک ’’ٹائم بم‘‘ رکھ دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔
۴۔ جہاں تک مفتیان کرام کے فتووں کا تعلق ہے تو اصل خرابی یہ ہے کہ ہمارے ہاں دینی وعلمی مواقف بھی اب اصولی علمی ضوابط کی پابندی کرنے کے بجائے سیاسی حالات سے متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور بڑی بڑی معتبر شخصیات اور دار الافتاء بھی اب کسی مسئلے کی دینی وشرعی حیثیت کو واضح کرتے ہوئے یہ دیکھنے لگے ہیں کہ ہوا کا رخ کیا ہے اور کس قسم کی بات اس مخصوص حلقے کے عوامی جذبات سے زیادہ ہم آہنگ ہے جس کی وہ ترجمانی کرنا چاہتے ہیں۔ حالات وواقعات پر نظر رکھنے والا ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اہل تشیع کے خلاف تکفیری فتوے جس فضا میں جمع کیے گئے، اس میں ایران کے شیعہ انقلاب پر سنی دنیا کے سیاسی خدشات وتحفظات کا اظہار بنیادی محرک کی حیثیت رکھتا ہے اور ایرانی انقلاب کے متوقع سیاسی اثرات کا سامنا سیاسی تناظر میں اور سیاسی میدان میں کرنے کے بجائے اس جنگ میں کفر اور اسلام کی بحث کو ایک موثر مذہبی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہی صورت حال توہین رسالت کی سزا کے حوالے سے حالیہ بحث میں بھی سامنے آئی اور اس سے پہلے جہاد اور خروج وغیرہ کی بحثوں میں بھی مسلسل یہی روش دیکھنے کو مل رہی ہے۔
یہ رجحان میرے نزدیک مذہبی وعلمی شخصیات اور اداروں کی آرا کی وقعت اور اعتبار کے لیے، جو ان کی اصل قوت ہے، بے حد خطر ناک ہے۔ علمی رائے ایک امانت ہوتی ہے جسے کسی قسم کا سیاسی یا عوامی دباؤ قبول کیے اور کسی قسم کے تعصب کا شکار ہوئے بغیر بالکل بے لاگ طریقے سے بیان کرنا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ اس وقت اصل ضرورت مذہبی اداروں میں علمی اخلاقیات کی پابندی کا احساس پیدا کرنے کی ہے۔ اگر اہل علم اسی طرح مخصوص گروہی رجحانات یا عوامی جذبات کے یرغمال بنتے چلے گئے تو دینی راہنمائی کامنصب رفتہ رفتہ لوگوں کے جذبات ورجحانات کا تابع مہمل بن کر رہ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ضمیر کے مطابق بلا خوف لومۃ لائم حق بات سمجھنے اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
محمد عمار خان ناصر
۱۶؍ دسمبر ۲۰۱۱ء
(۶)
حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الحمد للہ روزنامہ اسلام کا قاری ہوں۔ آپ کے مضامین پڑھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔ اکثر آپ کے کالم ایسے ہوتے ہیں کہ کسی نہ کسی حوالے سے ہم ان باتوں پر آپس میں تبصرہ کر چکے ہوتے ہیں اور تمنا ہوتی ہے کہ کوئی اس پر بات کرے۔ آپ کے کالم کی صورت میں ہماری ترجمانی ہو جاتی ہے۔ آپ کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے اور اس شہر نے ہر طبقے کی خدمت کی ہے۔ دینی حوالے سے علما اور قرا کی بہت بڑی جماعت نے یہاں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ جماعت تقریباً غربا کی تھی جس نے بے سروسامانی کے عالم میں قرآن وحدیث کی تعلیمات کوعام کیا، مگر اب صورت حال یہ ہوتی جا رہی ہے کہ اہل علم کا بہت بڑا طبقہ درس وتدریس کوچھوڑ کر امور تجارت، خصوصاً رکشا ٹیکسی چلانے کی طرف راغب ہو رہا ہے۔ اس وقت بعض ایسے بہترین مدرسین جو قوم کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے بہترین سرمایہ ہیں اور جنھوں نے کئی سال خدمت کی ہے، وہ رکشے چلا رہے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر دل خون کے آنسووں سے تر ہو جاتا ہے کہ آخر یہ کیوں ہو رہا ہے؟ جب معلومات لیتا ہوں تو ایک بڑی دل خراش داستان سننے کو ملتی ہے۔
کراچی جیسے شہر میں مدرس کی تنخواہ چار ہزار سے لے کر آٹھ ہزار تک ہے۔صبح سے شام تک کی پابندی، مکان کا کرایہ، بلوں کی ادائیگی، بیوی بچوں اور بوڑھے والدین کے اخراجات، خوشی غمی کے معاملات، یہ ساری چیزیں اس کے ساتھ ہیں۔ تھکا ہارا مدرس عصر سے رات گئے تک محلوں میں گھوم پھر کر ٹیوشن پڑھا کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ روزانہ چوبیس میں سے اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہے۔ کچھ عرصے کے بعد صحت بھی متاثر ہو جاتی ہے، مہنگائی کی وجہ سے ذہنی پریشانی اس کی عمر کو کم کر دیتی ہے۔
پھر بد نصیبی کی بات ہے کہ ایک آدمی نے بیس سال تک ایک ادارے میں خدمت انجام دی، ادارہ کے قواعد وضوابط کی معمولی خلاف ورزی یا بد گمانی یا مہتمم اور ناظم کی اولاد کی حرکات کی وجہ سے اس کو تذلیل کر کے ادارہ سے چلتا کر دیا جاتا ہے۔ اب یہ بڑھاپے میں قدم رکھنے والا کہاں جائے اور کیا کرے؟ دنیا کی ہر کمپنی یا ادارے میں کام کرنے والے کی جتنی سروس زیادہ ہوتی جاتی ہے، اتنی ہی اس کی مراعات بڑھائی جاتی ہیں۔آخر میں اس کچھ دے دلا کر بقیہ زندگی کے لیے بھکاری نہیں بنایا جاتا۔ کمی کوتاہی ہر شخص میں ہو سکتی ہے، لیکن تربیت کے فقدان کی وجہ سے اہل علم کی قدر دانی کی ہمارے ہاں بہت کمی ہے۔
آپ مدارس کے لیے ایسے نظام اور قوانین کی بات اٹھائیں اور وفاق المدارس اس کا کوئی ضابطہ تیار کرے، ورنہ خدا نخواستہ دینی اداروں میں اچھے مدرسین ناپید ہو جائیں گے اور نااہل لوگ مسلط ہو جائیں گے۔اب جتنے لوگ تدریس چھوڑ کر بغاوت کر رہے ہیں، کیا ان کے اعمال واخلاق اور کردار ڈرائیوری کر کے اچھے رہیں گے؟ کیا یہ اتنی بڑی جماعت اپنی اولاد کو حافظ قرآن بنائے گی اور آنے والی نسل کی صحیح دینی تربیت کر سکے گی؟ بہت مشکل ہے۔
آپ جب کراچی آئیں تو روڈ پر کھڑے ہو کر خود مشاہدہ کر لیں، آپ کو خوب اندازہ ہو جائے گا۔ ساتھ ہی ارباب مدارس کو بھی متوجہ کریں۔ بعض مقامات پر ادارہ کے طلبہ واساتذہ کا کھانا دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا اور صاحب اہتمام کے بچے قورمے کھا رہے ہوتے ہیں۔ آپ ان معاملات کو مجھ سے بہت بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک طالب علم کی تحریر ہے جو اپنی آواز کو آپ جیسے بے لوث عالم دین تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اور تمام اکابر کی دینی کاوشوں کو قبول فرمائے۔ آمین
عبد الغفور فاروقی
ناظم الامور جامعہ مریم للبنات، کراچی
(۷)
برادرمحترم مولانا محمد عمار خان ناصر صاحب
السلام علیکم۔ مزاج گرامی؟
چند ماہ سے دیکھ رہا ہوں کہ الشریعہ کا معیار بلند سے بلند تر ہو رہا ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔باقی آپ ہوں یا دیگر اہل علم، کسی کی رائے کو حرف آخر قرار دینا ممکن نہیں ہے۔ توہین رسالت کی سزا پر جاری مباحثہ کا ٹھوس انداز میں کوئی علمی فائدہ محسوس نہیں ہوتا، سوائے اس کے کہ ایک دوسرے کی آرا کا علم ہو جائے۔ شاید آپ کی نظر میں مزید فوائد بھی ہوں۔
ماضی میں بعض اوقات الشریعہ اور دیگر جرائد میں درج مباحث کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا رہا ہے کہ قسطنطنیہ کا اسلامی فوجوں نے محاصرہ کر رکھا ہے اور علماے نصاریٰ اس موضوع پر مناظرہ کر رہے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آخری غذا میں جو روٹی کھائی تھی، وہ خمیری تھی یا غیر خمیری؟ واللہ العظیم، احقر کوبعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ وہ دور واپس آ رہا ہے یا بالفاظ دیگر وہ رجحانات دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ تاثر غلط ہو۔
مسائل نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
سطحی ونظری مباحث میں الجھنا اب صرف اہل قلم واہل علم کے ساتھ خاص نہیں رہا۔ ہمارے سیاست دان اس کارواں کا ہراول دستہ ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر جس طرح سیاست دان اور ان کے حواری دیانت اور سچائی کا خون کرتے نظر آتے ہیں، کسی سے مخفی نہیں۔ اسلام اور وطن سے محبت دب کر رہ گئی ہے۔ ایک دوسرے کی مٹی پلید کرنے کا ذوق غالب ہے اور اس ذوق کی تسکین کے لیے وہ وہ کارنامے انجام دیے جاتے ہیں کہ جھوٹ اور دیانت اگر مجسم صورت اختیار کر لیں تو خوشی سے جھوم اٹھیں، بلکہ مسرت کی شدت سے بے ہوش ہو جائیں۔
برادر محترم! الشریعہ کے واسطے سے اپنے ایک درد دل میں قارئین کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ دور حاضر میں بے اعتدالی ہر طبقہ میں ہر اعتبار سے سرایت کر گئی ہے۔ اس کی کچھ نشان دہی محترم مولانا محمد عیسیٰ منصوری صاحب نے فرمائی ہے۔ مولانا راشدی صاحب بھی دو کالم لکھ چکے ہیں۔ احقر بھی ایک پہلو سے کوتاہیوں کی نشان دہی کرنا چاہتا ہے۔
دور حاضر کا ایک سنگین مسئلہ اپنی پسندیدہ شخصیات کے لیے القاب کا بے دھڑک استعمال ہے۔ مفکر اسلام اور خطیب پاکستان تو عام القاب ہیں، اب یہ سلسلہ بہت آگے بڑھ گیا ہے۔ مولانا چنیوٹی مرحوم کو ’’سفیر ختم نبوت‘‘ کا لقب آغا شورش کاشمیریؒ نے دیا تھا اور وہ بجا طور پر اس کے حق دار بھی تھے۔ اب تین چار اور حضرات کو یہ لقب دیا جا رہا ہے۔ اللہ اعلم، ان میں سے کون اس لقب سے زیادہ مشہور ہوتا ہے۔ محبوب العلماء والصلحاء پہلے حضرت پیر ذو الفقار احمد صاحب نقشبندی کا لقب تھا اور وہ اس کے حق دار ہیں۔ اب اس لقب کے دعوے دار اور بھی ہیں۔ شیخ القرآن، جانشین شاہ اسماعیل شہیدؒ ، جانشین امام ابن تیمیہؒ ، غزالی زماں، بوے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، شاہین اسلام، شہزادۂ اہل سنت، شہنشاہ خطابت وغیرہ القاب احقر نے خود اشتہارات میں پڑھے ہیں۔ ایک دفعہ ’’جانشین امیر شریعت‘‘ کے لقب پر قلمی جنگ چھڑ گئی تھی جو کہ بہرحال ناپسندیدہ تھی۔ شیعہ مسلک کے ذاکر حضرات کے القاب اور بھی مضحکہ خیز قسم کے ہوتے ہیں، جیسے بحر المصائب، ام المصائب، مجمع المصائب وغیرہ۔
احقر جب دیکھتا ہے کہ اعلیٰ القاب کسی چھوٹی شخصیت کو دیے جا رہے ہیں تو حیرانی اور صدمے کی شدید کیفیت سے دوچار ہو جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بے تکلف دوست کو فون پر کہا کہ القابات تیزی سے تقسیم ہو رہے ہیں، آپ بھی اپنے لیے کوئی لقب پسند کرلیں، ورنہ محروم رہ جائیں گے۔ استاذ محترم شیخ الحدیث مولانا نذیر احمد صاحب مرحوم (بانی جامعہ اسلامیہ امدادیہ، فیصل آباد) کا فرمان بھی یاد آ رہا ہے ۔ فرمایا کہ ’’میں نے کسی اشتہار میں دیکھا کہ خطیب صاحب کے ساتھ پانچ سات لقب لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا، اتنے تکلف کی کیا ضرور ت تھی! سیدھا نبی لکھ دیتے۔‘‘
بعض مسالک کے حضرات القابات سے نوازنے میں بہت تیز ہیں اور دوسرے مسالک پر سبقت لے گئے ہیں۔ بارہا معتبر ذرائع سے یہ بات سنی گئی ہے کہ بعض خطیب اپنا نام چھوٹے سائز میں لکھا جانے پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ بعض خطیب جلسہ کے منتظمین کو اپنے القاب خود لکھ کر دیتے ہیں۔ خطبا کا اپنے ساتھ پانچ سات مفت خوروں کو لے کر جانا تو اتنا عام ہو گیا ہے کہ منتظمین اسے وبائے عام سمجھ کر خاموش ہو رہتے ہیں۔
حضرت امام غزالیؒ نے فرمایا تھاکہ افسوس کہ طبیب ہی مریض بن گئے، عام لوگوں کا علاج کون کرے گا؟ (تبلیغ دین) کاش ہم سب اجتماعی وانفرادی طور پر میانہ روی سیکھ سکیں۔ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔
مشتاق احمد چنیوٹی
ادارہ مرکزیہ دعوت وارشاد، چنیوٹ
(۸)
محترم ومکرم جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بندہ عرصہ گیارہ سال سے الشریعہ کا ایک ادنیٰ قاری ہے۔ میرے پاس اس کے علاوہ بھی بہت سے مجلات آتے ہیں۔ بندہ دینی جرائد کا ایک خاموش قاری ہے۔ آج تک کسی رسالہ کو خط نہیں لکھا۔ آج پہلی دفعہ خط لکھ رہا ہوں۔
وجہ یہ ہے کہ بلاشبہ الشریعہ دینی حلقوں کاایک آزاد فورم ہے، لیکن ایک بات میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ بعض اوقات اس رسالے میں دفاع صحابہ واہل بیت کے محاذ پر ایک نمایاں اور قابل ذکر کردار ادا کرنے والی جماعت کے موقف کا بہت سختی کے ساتھ رد کیا جاتا ہے، جیسا کہ دسمبر ۲۰۱۱ء کے شمارے میں مولانا عمار خان صاحب نے امام ابن تیمیہ کا فتویٰ نقل کیا ہے کہ بدعتی کے پیچھے نماز جائز ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ شیعہ صرف بدعتی ہے یا کافر بھی ہو سکتا ہے؟ آیا ایک شیعہ قرآن کا منکر ہو کر، صحابہ کا دشمن ہو کر، عائشہ صدیقہ پر تبرا کر کے، امامت کو نبوت سے بلند منصب مان کر اور اذان، کلمہ اور نماز بدل کر بھی صرف بدعتی ہوگا، جبکہ اس پر امت کے اکابرین کے، کفرکے فتاویٰ موجود ہیں؟
سپاہ صحابہ کے طریقہ کار پر تحفظات ہو سکتے ہیں اور کسی کے بھی طریقہ کار پر ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی ہر بات کو باقاعدہ رد کرنا اور ہر بات کو غلط کہنا شاید انصاف نہ ہو اور صرف انھی کے خلاف ہر دفعہ رسالے میں لکھنا شاید مناسب نہ ہو۔ وہ تو پہلے ہی مظلوم ہیں اور اپنوں اور غیروں کے نشانوں پر ہیں۔ اس محاذ پر ان کی اتنی قربانیاں ہیں کہ شاید کوئی دوسری جماعت اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ اس جماعت کو صحابہ کے ساتھ ایمانی تعلق بھی ہے اور انھوں نے جانوں کے نذرانے پیش کر کے اس کو ثابت بھی کیا ہے۔ تحریکوں کے اندر جذباتی لوگ بھی ہوتے ہیں جو بعض اوقات جذبات میں بزرگوں کی شان میں نامناسب بات بھی کہہ جاتے ہیں جو کہ غلط ہے، لیکن یہ سبھی جماعتوں میں ہے۔ صرف سپاہ صحابہ میں نہیں۔ بعض اوقات ایسی باتیں اپنے مشن کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
الشریعہ کے اسی شمارے میں آپ نے برادرم مولانا عمار ناصر صاحب کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’میں نے اسے اس گھنے جنگل میں تنہا اور بے سہارا بھی نہیں چھوڑ رکھا کہ جس کا جی چاہے، اس پر غرانے کی مشق شروع کر دے۔‘‘ اب اس عبارت میں ’’غرانے‘‘ کا لفظ آپ نے لکھا ہے۔ غراتا کون ہے؟ اس کی وضاحت بھی آپ ہی فرمائیں گے، کیونکہ مجھے تو اس لفظ کا استعمال برادرم عمار کے اوپر تنقید کرنے والوں کے لیے عجیب لگا ہے۔ اگر عمار صاحب بے سہارا اور تنہا نہیں ہیں تو کیا صحابہ، امہات المومنین اور قرآن ہی بے سہارا ہیں کہ جو چاہے، ان پر زبان دراز کرتا رہے اور جواب میں اس پر کفر کا فتویٰ نہ لگے اور اس کو اسلام سے خارج نہ کہا جائے اور صرف بدعتی کہہ دیا جائے؟
مختار احمد فاروقی
جامعہ حنفیہ تعلیم القرآن، شکر گڑھ