جامع مسجد نور کی تاسیس کا پس منظر

الحاج ظفر علی ڈار

روزنامہ اسلام کے ایک ذیلی رسالہ ’’بچوں کا اسلام‘‘ کے شمارہ نمبر ۴۹۵، مورخہ ۱۸؍ دسمبر ۲۰۱۱ء میں محمد معاذ نامی ایک صاحب کا مراسلہ بعنوان چھپڑ والی مسجد شائع ہوا ہے۔ مراسلہ نگار نے اپنی غلط اور گمراہ کن معلومات کی بنیاد پر، جو اس نے اپنے والد مسمی سیف الرحمن قاسم سے شنید کی ہیں، اس مسجد کی تاسیس کا سہرا اپنے پردادا کے سر باندھا ہے۔ چونکہ معاذ صاحب کی یہ تحریر بڑی غلط فہمیوں کو جنم دینے کا سبب بن سکتی ہے، اس لیے راقم الحروف نے اس مسجد کی تاسیس کے بارے میں درست حقائق کو معرض تحریر میں لانا ضروری سمجھا تاکہ تاریخ کا ریکارڈ درست رہے۔

اس مسجد کی تعمیر کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اس مسجد کے جنوب میں سڑک کی دوسری جانب دو مساجد موجود تھیں جن میں سے ایک مسجد میں مولانا عبد القیوم ہزاروی صاحب امام وخطیب تھے اور دوسری، دائرے والی مسجد میں مولانا محمد یوسف ہزاروی امام تھے۔ اس زمانے میں یہ سارا علاقہ بریلوی حضرات کی اکثریت سے آباد تھا۔ یہ دونوں حضرات یعنی مولانا عبد القیوم صاحب اور مولانا محمد یوسف صاحب، مفتی عبد الواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور اس علاقے میں مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کرانے کی اجازت مانگی۔ مفتی صاحب مرحوم نے ان دونوں حضرات کو ہدایت کی کہ یہ علاقہ ابھی مولانا غلام اللہ صاحب کی تقریر کا متحمل نہیں ہے، اس لیے ابھی وہ لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کریں، چنانچہ مفتی صاحب نے ان کو انکار کر دیا۔

بدقسمتی سے دوسرے سال انھوں نے مفتی صاحب مرحوم سے رابطہ کیے بغیر ہی مولانا غلام اللہ خان صاحب کی تقریر کا پروگرام بنا لیا۔ مولانا غلام اللہ کی تقریر ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ بریلوی حضرات نے ان ہر دو علما کا سامان مسجد سے نکال کر باہر پھینک دیا۔ یہ دونوں حضرات رات ہی کو مفتی عبد الواحد صاحب مرحوم کے پاس آئے اور ساری روداد سنائی۔ مفتی صاحب نے سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو بہت ملامت کی کہ انھوں نے بلاوجہ ان مساجد کو ضائع کر دیا۔ بہرحال جس جگہ پر اب مسجد نور آباد ہے، یہاں ایک بہت بڑا چھپڑ تھا جو کہ میونسپل کمیٹی کے زیر انتظام وانصرام تھا۔ مفتی صاحب مرحوم نے وہ ساری رات کرب کے ساتھ گزاری۔ صبح کی نماز کے بعد مفتی صاحب مرحوم نے راقم الحروف کو اس اندوہ ناک صورت حال سے آگاہ کیا اور فیصلہ کیا کہ اگر ہمیں میونسپل کمیٹی سے اس چھپڑ میں مٹی ڈال کر مسجد کی تعمیر کی اجازت مل جائے تو ہماری اس محرومی کا مداوا ہو جائے گا۔

مفتی صاحب نے شیخ عاشق حسین صاحب کو، جو اس وقت میونسپل کمشنر تھے، بلایا اور اپنے ارادہ کا اظہار کیا اور ان سے حکماً کہا کہ وہ کل تک میونسپل کمیٹی سے اس مسجد کی تعمیر کا اجازت نامہ لے کر دیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ عاشق حسین صاحب مرحوم ومغفور کو اپنی شان کے مطابق جزائے خیر عطا فرمائیں کہ انھوں نے اگلے دن ۱۲ بجے کے قریب اجازت نامہ حاصل کر کے مفتی صاحب کے سپرد کر دیا۔ اس دن مفتی صاحب اپنے گاؤں پنڈی گھیب جا رہے تھے۔ وہاں سے واپسی پر انھوں نے حاجی علم دین صاحب اور دوسرے ہم نوا حضرات کو ترغیب دی کہ وہ اس چھپڑ میں ایک طرف مٹی دلوا دیں۔ چنانچہ انھوں نے مفتی صاحب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مٹی ڈلوانے کاکام شروع کر دیا اور تھوڑے ہی دنوں میں مسجد تعمیر کر دی۔ صوفی عبد الحمید صاحب علیہ الرحمۃ اس زمانے میں نوشہرہ روڈ پر طبابت کی دکان کرتے تھے۔ کافی بعد میں مفتی صاحب کے ایما پر ہی صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ یہاں تشریف لے آئے۔

اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بجز مفتی صاحب مرحوم کے اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنا کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ یہ امر واقعہ ہے کہ مفتی صاحب کی اس رات کی بے چینی اور کرب وغم اور بارگاہ الٰہی میں گریہ وزاری اللہ رب العزت کو پسند آ گئی اور مولانا عبد القیوم صاحب اور مولانا محمد یوسف سے لوگوں نے جو بدسلوکی کی تھی، اس کے بدلے میں اتنی عظیم الشان مسجد اور ادارہ کو اللہ نے وجود بخشا۔ یقینی طور پر یہ مفتی عبدالواحد صاحب کے اعمال صالحہ میں سے ایک بہت بڑا عمل بطور صدقہ جاریہ وجود پذیر ہوا۔ اللہ کی بارگاہ صمدیت میں التجا ہے کہ وہ اس مسجد اور ادارہ کو لحظہ بہ لحظہ ترقی عطا فرمائے۔


تعلیم و تعلم / دینی مدارس

(جنوری ۲۰۱۲ء)

تلاش

Flag Counter