الحمد للہ ، و الصلاۃ و السلام علی رسول اللہ ، و علی آلہ و اصحابہ و من والاہ ۔
زیر نظر مسئلے پر بحث کے دوران یہ بات مسلسل مد نظر رہے کہ کسی شخص کو باقاعدہ عدالتی کاروائی کے بغیر محض سنی سنائی بات پر یا محض الزام کی بنیاد پر ’’گستاخ رسول ‘‘ نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ (۱) پس پہلا سوال یہ ہے کہ کسی شخص کو عدالت میں گستاخ رسول ثابت کرنے کے لیے ضابطہ اور معیار ثبوت کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب معلوم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ متعین کیا جائے کہ توہین رسالت کے جرم کی نوعیت کیا ہے کیونکہ جرم کی نوعیت کے مختلف ہونے سے اس کے اثبات کا طریقہ بھی مختلف ہوجاتا ہے ؟ (۲)
’’توہین رسالت ‘‘کے جرم کی دو مختلف صورتیں
فقہاے احناف کا موقف یہ ہے کہ ملزم کے مسلمان یا غیر مسلم ہونے سے اس جرم کی نوعیت پر فرق پڑتا ہے ۔ اگر کسی مسلمان نے اس شنیع جرم کا ارتکاب کیا تو وہ مرتد ہوجاتاہے اور اس فعل پر ان تمام احکام کا اطلاق ہوگا جو ارتداد کی صورت میں لاگو ہوتے ہیں ، جبکہ غیر مسلم چونکہ مرتد نہیں ہوسکتا اس لیے اگر غیر مسلم اس فعل کاارتکاب کرے تو اس کے اثرات بھی مختلف ہوں گے ۔ (۳)
ارتداد کے قانونی اثرات
پہلے اس شخص کا معاملہ لیجیے جو پہلے مسلمان تھا لیکن توہین رسالت کے نتیجے میں مرتد ہوگیا ۔
۱ ۔ ارتداد کے احکام میں ایک اہم حکم یہ ہے کہ ارتداد کی سزا چونکہ حد ہے (۴) اس لیے اس کے اثبات کے لیے ایک مخصوص ضابطہ ہے ، جو آگے ذکر کیا جائے گا ۔ اس مخصوص ضابطے کے سوا کسی اور طریقے سے اس جرم کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
۲ ۔ حد کی سزا شبھۃ سے ساقط ہوتی ہے ۔ (۵) اب چونکہ حد ارتداد تکفیر کے بعد ہی نافذ کی جاسکتی ہے اس لیے کسی بھی ایسے قول یا فعل کی بنیاد پر یہ سزا نہیں دی جاسکتی جس کے کفر ہونے یا نہ ہونے میں اہل علم کا اختلاف ہو ۔ (۶) اسی طرح اگر کسی قول یا فعل کی ایک سے زائد تعبیرات ممکن ہوں اور ان میں کوئی تعبیر ایسی ہو جس کی رو سے اسے کفر نہ قرار دیا جاسکتا ہو تو اسی تعبیر کو اپنایا جائے گا ۔ (۷) چنانچہ ملزم سے پوچھا جائے گا کہ اس قول یا فعل سے اس کی مراد کیا تھی، الا یہ کہ وہ کفر بواح کا مرتکب ہوا ہو ۔ (۸) اگر ملزم کفر سے انکاری ہو تو اس کے انکار کو قبول کیا جائے گا خواہ اس کے خلاف گواہ موجود ہوں کیونکہ اس کے اس انکار کو رجوع اور توبہ سمجھا جائے گا ۔ (۹)
۳ ۔ اگر اقرار یا گواہی کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچے کہ ملزم کا متعلقہ قول یا فعل ارتداد کے زمرے میں آتا ہے تو عدالت اسے توبہ کے لیے تلقین کرے گی اور سوچ بچار کے لیے تین دن کی مہلت دے گی ۔ (۱۰) اگر وہ اس کے بعد بھی اپنے اس قول یا فعل سے رجوع کرکے اس سے مکمل براء ت کا اظہار نہ کرے تب عدالت اسے سزا سنائے گی اور یہ سزا ناقابل معافی ہوگی ۔ (۱۱) پوری امت کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس سزا کو نافذ کرے۔ (۱۲)
۴ ۔ چونکہ ارتداد کی سزا حد ہے اس لیے اس کا نفاذ افراد کاکام نہیں ، بلکہ حکومت کا کام ہے ۔ اس کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے ۔
۵ ۔ کسی شخص کے مرتد ثابت ہوجانے کے بعد اس کی عائلی زندگی پر بھی دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ مثلاً اس کی بیوی اس کے لیے حرام ہوجاتی ہے (۱۳) اور ارتداد کے بعد وہ جس مال کا مالک بنا ہو وہ اس کی موت کے بعد اس کے ورثا کو نہیں ملے گا ۔ (۱۴)
اگر ذمی توہین رسالت کا ارتکاب کرے
اگر ملزم غیر مسلم ہو تو اس فعل کو کفر میں اضافہ کہا جائے گا لیکن ظاہر ہے کہ اس کو ارتداد نہیں کہا جاسکتا ۔ (۱۵) چنانچہ فقہا اس مسئلے کو ارتداد کے بجائے نقض ذمہ کے عنوان کے تحت ذکر کرتے ہیں اور یہ متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذمی کے اس فعل سے اس کا عقد ذمہ ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں۔
فقہاے احناف کا مسلک یہ ہے کہ ذمی کے اس فعل سے اس کا عقد ذمہ نہیں ٹوٹتا ۔ (۱۶) تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس فعل شنیع کے ارتکاب پر ذمی کو سزا نہیں دی جاسکے گی ۔ بہ الفاظ دیگر ان کا موقف یہ ہے کہ اس فعل سے ذمی کادار الاسلام میں سکونت کا حق ختم نہیں ہوجاتا لیکن چونکہ یہ فعل دار الاسلام کے ملکی قانون کے تحت جرم ہے اس لیے اسے سزا دی جاسکے گی ۔ اس قسم کی سزا کو فقہاے احناف سیاسۃ کہتے ہیں۔ (۱۷)
حد اور سیاسۃ میں فرق
حد اور سیاسۃ میں کئی فروق ہیں ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں چند اہم فروق واضح کیے جائیں ۔
اسلامی قانون کی اصطلاح میں حد کی سزا کا تعلق حق اللہ سے ہے۔ (۱۸) حق اللہ قرار دینے کے کئی اہم نتائج ہیں :
۱ ۔ حد کی سزا قیاس و رائے سے نہیں بلکہ نص کے ذریعے مقرر کی گئی ہے جس میں کمی و بیشی کا اختیار ریاست کے پاس نہیں ہے ۔ (۱۹)
۲ ۔ حد کی سزا شبھۃ سے ساقط ہوجاتی ہے اور شبھۃ سے مراد صرف یہ نہیں کہ جرم کے ثبوت کے متعلق جج کے ذہن میں کوئی ابہام پایا جاتا ہے جس کا فائدہ (Benefit of the Doubt ) وہ ملزم کو دے دیتا ہے ، بلکہ یہ بھی ہے کہ اگر ملزم کے ذہن میں اس فعل کے قانونی جواز کے متعلق کوئی ابہام ، حقیقۃً یا فرضاً ، پایا جاتا تھا تو اس کی وجہ سے اسے حد کی سزا نہیں دی جاسکے گی ۔ (۲۰)
۳ ۔ حد کی سزا کے اثبات کے لیے صرف دو ہی طریقے ہیں ، کسی تیسرے طریقے سے اس جرم کو ثابت نہیں کیا جاسکتا : ایک مجرم کی جانب سے عدالت کے سامنے آزادانہ اقرار جرم اور دوسرا اس کے خلاف گواہی جو ایک مخصوص نصاب کے مطابق ہو ۔ (۲۱) وہ مخصوص نصاب یہ ہے کہ حد زنا کے ماسوا تمام حدود میں کم سے کم دو ایسے مسلمان عاقل بالغ مرد گواہی دیں جن کا کردار بے داغ ہو ۔ (۲۲) حد زنا کے اثبات کے لیے باقی شروط تو یہی ہیں لیکن گواہوں کی تعداد چار ہونی چاہیے ۔ (۲۳)
۴ ۔ حد کی سزا کی معافی کا اختیار نہ متاثرہ فرد کے پاس ہے اور نہ ہی حکومت یا ریاست کے پاس ۔ (۲۴)
سیاسۃ کی سزا کو اسلامی قانون کی اصطلاح میں حق الامام کہتے ہیں ۔ (۲۵) حق الامام قرار دینے کے اہم نتائج یہ ہیں :
۱ ۔ اس سزا کی کوئی کم یا زیادہ حد شریعت نے مقرر نہیں کی ہے بلکہ اس کی حد مقرر کرنے کا اختیار حکومت کو دیاہے اور حکومت اس کی بعض شنیع صورتوں میں سزاے موت بھی مقرر کرسکتی ہے ۔ (۲۶)
۲ ۔ یہ سزا فعل کے قانونی جواز کے متعلق ملزم کے ذہن میں پائے جانے والے ابہام کی بنا پر ساقط نہیں ہوسکتی ۔ (۲۷)
۳ ۔ اس جرم کے اثبات کے لیے کوئی مخصوص ضابطہ نہیں ہے بلکہ جس طرح کا ثبوت عدالت کو فعل کے وقوع کے بارے میں مطمئن کردے وہ قابل قبول ہے اور اس کی بنا پر مناسب سزا دی جاسکتی ہے ۔ (۲۸)
۴ ۔ اس سزا کی معافی کا اختیار حکومت کے پاس ہے ۔ (۲۹)
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ گستاخ رسول کی سزا ایک صورت میں حد ہے اگر فعل کا مرتکب اس فعل کے ارتکاب سے پہلے مسلمان ہو ، اور دوسری صورت میں سیاسۃ اگر اس فعل کا مرتکب پہلے ہی سے غیر مسلم ہو ۔
اب آئیے توہین رسالت کے جرم کی ہر دو صورتوں کی سزا کے نفاذ کی طرف ۔
حدود کا نفاذ حکمران کا حق ہے
فقہا نے تصریح کی ہے کہ حدود کا استیفاء حکمران کا حق ہے ۔ اس لیے اصولی طور پر حدود کا نفاذ حکمران کے ماسوا کوئی اور شخص نہیں کرسکتا۔ (۳۰)
اسی اصول پر طے کیا گیا ہے کہ اگر ملک کا سب سے برتر حکمران حد کے جرم کا ارتکاب کرے تو اسے حد کی سزا نہیں دی جاسکے گی کیونکہ وہ خود اپنے اوپر حد کا نفاذ نہیں کرسکتا اور کسی اور کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ حد نافذ کرے ۔ (۳۱)
تاہم اگر عدالت میں ثابت ہوجائے کہ کسی شخص نے حد کے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور اس کے بعد کوئی اور شخص اپنی جانب سے اس مجرم پر سزا کا نفاذ کرے تو اس صورت کو فقہا افتیات کے عنوان کے تحت ذکر کرتے ہیں ۔ افتیات سے مراد یہ ہے کہ اس شخص نے اپنی جانب سے حد کا نفاذ کرکے حکمران کا حق ضائع کردیا ہے اور اس طرح فساد کا مرتکب ہوا ہے۔ (۳۲)
اس کی تعبیر کے لیے آج کل ہم ’’ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا ‘‘ کی ترکیب استعمال کرتے ہیں ۔
قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر حد کی سزا کا نفاذ
اگر کسی شخص نے قانون اپنے ہاتھ میں لے کر حد کے مجرم کو سزا دی تو فقہا یہاں دو صورتیں ذکر کرتے ہیں :
ایک یہ کہ اس نے حد کے بجائے کچھ اور سزا دی تو ظاہر ہے کہ وہ فساد کا مرتکب ہوا اور اس لیے مناسب سزا کا مستحق بھی ہے ؛ (۳۳)
دوسری صورت یہ ہے کہ اس نے حد کی مقررہ سزا ہی دی اور سزا کے نفاذ کی شروط کا لحاظ رکھا ، تب بھی افتیات کے مرتکب اس شخص کو حق الامام کی پامالی ، یا بہ الفاظ دیگر فساد کے ارتکاب ، پر حکمران مناسب سزا دے سکتا ہے ۔ (۳۴)
یہ سزا چونکہ حق الامام میں دی جائے گی اس لیے اس پر ان تمام احکام کا اطلاق ہوگا جو سیاسۃً دی جانے والی سزا کے لیے ہیں۔(۳۵)
واضح رہے کہ یہ حکم وہاں ہے جہاں پہلے سے ہی ثابت ہو کہ قانون ہاتھ میں لے کر جس شخص کو سزا دی گئی اس نے حد کے جرم کا ارتکاب کیا تھا ۔ اگر پہلے یا بعد میں اس کا جرم ثابت نہیں کیا جاسکا تو پھر قانون ہاتھ میں لینے والا یہ شخص اس عدوان کے لیے الگ سزا کا مستحق ہوگا جو اس نے اس شخص پر کیا تھا ۔ (۳۶)
گستاخ رسول کے معاملے میں چونکہ حد ارتداد کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے مقررہ حد سزاے موت ہے ۔ پس اگر افتیات کے مرتکب شخص نے کسی شخص کو گستاخ رسول سمجھ کر قتل کردیا اور اس نے عدالت میں مقررہ ضابطے پر ثابت کردیا کہ مقتول واقعی گستاخ رسول تھا ، تو اس صورت میں اسے قصاصاً سزاے موت نہیں دی جاسکے گی کیونکہ مقتول مرتد ہونے کی وجہ سے مباح الدم تھا ۔ البتہ افتیات کے ارتکاب کی وجہ سے قاتل کو مناسب تادیبی سزا دی جاسکے گی ۔
اگر مقتول کو مقررہ ضابطے پر گستاخ رسول اور مرتد ثابت نہ کیا جاسکا تو قاتل کو مومن کے قتل عمد کا ذمہ دار ٹھہرا کر قصاصاً سزاے موت دی جائے گی ۔ نیز اسے فساد کے ارتکاب کی وجہ سے سیاسۃً کوئی اور مناسب سزا بھی دی جاسکے گی ۔
سیاسۃ کا نفاذ بھی حکمران کا حق ہے
سیاسۃ کی سزا چونکہ حق الامام میں دی جاتی ہے اس لیے اس کا استیفاء بھی حکمران ہی کا حق ہے ۔ (۳۷)
جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ، اگر توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والا پہلے ہی سے غیر مسلم تھا تو اسے دی جانے والی سزا حد ارتداد نہیں ، بلکہ سیاسۃ ہے ۔ یہ بھی مذکور ہوا کہ سیاسۃً دی جانے والی سزا کی کوئی مقررہ حد نہیں ہے بلکہ اسے حکمران اور عدالت کی صوابدید پر چھوڑا گیا ہے ، اس لیے ضروری نہیں کہ اس غیر مسلم کو سزاے موت ہی دی جائے ۔ باقی اصول وہی ہیں جو اوپر حد کے سلسلے میں ذکر ہوئے ۔
چنانچہ اگر کسی شخص نے کسی غیر مسلم کو گستاخ رسول قرار دیتے ہوئے قتل کردیا تو دیکھا جائے گا :
اگر مقتول کا جرم ثابت تھا اور اسے سزاے موت سنائی گئی تھی تو اس کے قاتل سے قصاص نہیں لیا جاسکے گا لیکن قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر اسے مناسب تادیبی سزا دی جاسکے گی ۔
اگر مقتول کا گستاخ رسول ہونا ثابت نہیں کیا جاسکا ، یا اسے سزاے موت کے بجائے کوئی اور سزا دی گئی تھی ، یا اس کی سزا میں تخفیف یا معافی کی گئی تھی ، اور اس کے باوجود اسے قتل کردیا گیا ، تو ان تمام صورتوں میں چونکہ وہ مباح الدم نہیں تھا اس لیے اس کے قاتل سے قصاص لیا جائے گا اور اسے سیاسۃً مزید سزا بھی دی جاسکے گی ۔
خلاصۂ بحث
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مباحث کا خلاصہ چند نکات کی صورت میں پیش کیا جائے :
۱ ۔ کسی شخص کو اس وقت تک ’’گستاخ رسول ‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک مقررہ شرعی ضابطے پر اس کا جرم ثابت نہ ہو ۔
۲ ۔ اگر گستاخ رسول اس جرم سے پہلے مسلمان تھا تو اس کے اس جرم پر ارتداد کے احکام کا اطلاق ہوگا اور اگر وہ پہلے ہی غیر مسلم تھا تو پھر اس فعل پر سیاسۃ کے احکام کا اطلاق ہوگا ۔
۳ ۔ حد ارتداد کو ملزم کے اقرار یا دو ایسے مسلمان مردوں کی گواہی ، جن کا کردار بے داغ ہو ، سے ہی ثابت کیا جاسکتا ہے ، جبکہ سیاسۃ کو عورتوں اور غیر مسلموں کی گواہی ، نیز قرائن اور واقعاتی شہادتوں سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے ۔
۴ ۔ پہلی صورت میں سزا بطور حد موت ہے لیکن سزا کے نفاذ سے پہلے عدالت مجرم کو توبہ کے لیے کہے گی اور اگر عدالت اس کی توبہ سے مطمئن ہو تو اس کی سزا ساقط کردے گی ۔ دوسری صورت میں کوئی مقررہ سزا نہیں ہے بلکہ جرم کی شدت و شناعت اور مجرم کے حالات کو دیکھتے ہوئے عدالت مناسب سزا سنائے گی ، جو بعض حالات میں سزاے موت بھی ہوسکتی ہے ۔ سیاسۃً دی جانے والی سزا کو حکومت معاف کرسکتی ہے اگر مجرم کا طرز عمل تخفیف کا متقاضی ہو ۔
۵ ۔ حد ارتداد حق اللہ ہے اور سیاسۃ کی سزا حق الامام ہے ، اور حنفی فقہا کے مسلمہ اصولوں کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق الامام دونوں سے متعلق سزاؤں کا نفاذ حکومت کا کام ہے ۔
۶ ۔ اگر کسی شخص نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر ایسے شخص کو قتل کیا جو پہلے مسلمان تھا لیکن توہین رسالت کے نتیجے میں مرتد ہوگیا تھا اور اس کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت ہوا تھا ، تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر اس قاتل کو سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم مقررہ ضابطے پر ثابت نہیں ہوا تھا تو سیاسۃ کے علاوہ قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی ۔
۷ ۔ اگر مقتول پہلے سے ہی غیر مسلم تھا اور اس کے خلاف الزام ثابت نہیں ہوا تھا ، یا اسے عدالت کی جانب سے سزاے موت نہیں سنائی گئی تھی ، یا اس سزا میں تخفیف کی گئی تھی ، تو قاتل کو قصاص کی سزا بھی دی جائے گی اور سیاسۃً کوئی اور مناسب سزا بھی سزا بھی دی جاسکے گی ۔ اگر مقتول کا جرم بھی ثابت تھا اور اسے سزاے موت بھی سنائی گئی تھی ، تو قاتل کو قصاص کی سزا نہیں دی جائے گی لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر تادیب کے لیے اسے سیاسۃً مناسب سزا دی جاسکے گی ۔
ھذا ما عندی ، و العلم عند اللہ ۔ اللھم أرنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ ، و أرنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ ۔
حواشی
۱ ۔ یہ اسلامی قانون کا مسلمہ ضابطہ ہے کہ جب تک باقاعدہ عدالتی کاروائی کے نتیجے میں کسی شخص کے خلاف دعوی ثابت نہ ہوجائے اسے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ الأصل براء ۃ الذمۃ ۔ ( شہاب الدین السید أحمد بن محمد الحموی ، غمز عیون البصائر شرح کتاب الأشباہ و النظائر ( بیروت ۔ دار الکتب العلمیۃ ، ۱۹۸۵ م ) ۔ ج ۱ ، ص ۲۰۳ ۔ در اصل یہ قاعدہ ایک اور بنیادی قاعدے الیقین لا یزول بالشک کا لازمی نتیجہ ہے ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : مصدر سابق ۔ ص ۱۹۳ ۔ ۲۴۵ ۔
۲ ۔ جیسا کہ آگے ہم واضح کریں گے ، اسلامی قانون کی رو سے حدود ، قصاص ، تعزیر اور سیاسۃ میں سے ہر ایک کے اثبات کے لیے مختلف نصاب وضع کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ان میں سے ہر جرم اقرار سے ثابت ہوتا ہے لیکن حد زنا میں اقرار کا طریقہ دیگر جرائم میں اقرار کے طریقے سے کسی قدر مختلف ہے ۔ پھر ان میں سے ہر جرم شہادت سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن شہادت کا نصاب مختلف جرائم کے لیے مختلف ہے ۔
۳ ۔ اس موضوع پر خاتمۃ المحققین علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی کی معرکہ آرا تحقیق کے لیے ان کا رسالہ دیکھیے : تنبیہ الولاۃ و الحکام علی أحکام شاتم خیر الأنام أو أحد أصحابہ الکرام علیہ و علیہم الصلاۃ و السلام ۔ انھوں نے اس رسالے میں اس مسئلے کے ہر پہلو پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور متعدد متون ، شروح اور فتاوی کا تجزیہ کرکے یہی نتیجہ نکالا ہے۔ ( مجموعۃ رسائل ابن عابدین (دمشق : المطبعۃ الھاشمیۃ ، ۱۳۲۵ ھ ) ۔ ج ۱ ، ص ۳۱۳ ۔ ۳۷۰ ۔
۴ ۔ علامہ ابن عابدین نے ارتداد کی سزا کے حد ہونے پر بھی مدلل بحث کی ہے ۔ (مجموعۃ رسائل ابن عابدین ۔ ج ۱ ، ص۳۱۸ ۔ ۳۱۹)
۵ ۔ فقہا جب شبھۃ کے نتیجے میں حدود سزاؤں کے سقوط کی بحث کرتے ہیں تو اس سے وہ ’’شک کا فائدہ‘‘ (Benefit of the Doubt) مراد نہیں لیتے ، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس سے ان کی مراد فعل کے مرتکب کو امر قانونی یا امر واقعی کے سمجھنے میں لاحق ہونے والی خطا (Mistake of Law or of Fact ) ہوتی ہے ۔ ( تفصیل کے لیے دیکھیے : Imran Ahsan Khan Nyazee, General Principles of Criminal Law: Western and Isalmic (Islamabad: Advanced Legal Studies Institute, 1998), 142-43))
۶ ۔ علامہ علاؤ الدین محمد بن علی الحصکفی فرماتے ہیں :
لا یفتی بکفر مسلم أمکن حمل کلا مہ علی محمل حسن ، أوکان فی کفر ہ اختلا ف ، ولو روا ےۃ ضعیفۃ (رد المحتار علی الدر المختار (القاھرۃ : مصطفی البابی الحلبی ، تاریخ ندارد ) ۔ ج ۳ ، ص ۳۱۶ )
[مسلمان کے کفر کا فتوی نہیں دیا جائے گا اگر اس کے کلام کی بہتر تاویل ممکن ہو ، یا اس کے کفر میں اختلاف ہو ، خواہ اختلاف ضعیف روایت سے مروی ہو ۔ ]
علامہ خیر الدین الرملی نے وضاحت کی ہے کہ اگر کسی بات کے کفر ہونے کے متعلق ہمارے مسلک میں کوئی اختلافی روایت نہ ہو لیکن کسی دوسرے مسلک میں وہ کفر کی موجب نہ ہو تب بھی کفر کا فتوی نہیں دیا جائے گا ۔ اس کی تائید میں ابن عابدین تکفیر کے لیے اس مسلمہ شرط کا ذکر کرتے ہیں :
و یدل علی ذلک اشتراط کون ما یوجب الکفر مجمعاً علیہ ۔ ( ایضاً )
[اس کی دلیل یہ ہے کہ کسی بات کے موجب کفر ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس پر اجماع ہو۔]
۷ ۔ ملا علی القاری فرماتے ہیں :
المسئلۃ المتعلقۃ با لکفر اذا کان لھا تسع و تسعون احتمالاً للکفر ، وا حتمال واحد فی نفیہ ، فا لأولی للمفتی والقاضی أن یعمل بالاحتمال النافی ، لأن الخطاء فی ابقاء ألف کافر أھون من الخطا ء فی افناء مسلم واحد (شرح الفقہ الأکبر (کراچی : محمد سعید اینڈ سنز ، تاریخ ندارد ) ۔ ص ۱۹۵ )
[ کفر سے متعلق مسئلے میں اگر ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک احتمال کفر کی نفی کا ہو تو مفتی اور قاضی کو چاہیے کہ کفر کی نفی کے احتمال پر عمل کرے کیونکہ ایک ہزار کافروں کے باقی چھوڑنے کی غلطی ایک مسلمان کے قتل کرنے کی غلطی کی بہ نسبت ہلکی غلطی ہے ۔ ]
۸ ۔ چنانچہ جن نصوص میں قرار دیا گیا ہے کہ کفر کی موجب کوئی بات کہنے والے شخص یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا کہ اسے اس بات کے کفر ہونے کا علم نہیں تھا ، بلکہ اسے تجدید ایمان کے لیے کہا جائے گا ، ان کا محل یہی ہے کہ جب بات بالکل صریح اور قطعی طور پر موجب کفر ہو ، اور اس کی بہتر تاویل ممکن نہ ہو ، تو اسے کفر ہی سمجھا جائے گا ۔ ( رد المحتار ۔ ج ۳ ، ص ۳۱۶ )
۹ ۔ کمال الدین محمد ابن الھمام الاسکندری نے صراحت کی ہے :
اذا شھدوا علی مسلم بالردۃ، وھو منکر، لا یتعرض لہ، لا لتکذیب شھود العدول، بل لأن انکارہ توبۃ ورجوع ( فتح القدیر علی الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدی (القاھرۃ : دارالکتب العربیۃ ، ۱۹۷۰ء ) ۔ ج ۵، ص ۳۳۲ )
[اگر گواہ کسی مسلمان کے ارتداد کی گواہی دیں ، اور وہ اس سے انکاری ہو ، تو اس کے خلاف کاروائی نہیں کی جائے گی ، اس لیے نہیں کہ سچے گواہوں کو جھوٹا سمجھا جائے گا ، بلکہ اس لیے کہ ملزم کے انکار کو توبہ اور رجوع سمجھا جائے گا۔]
۱۰ ۔ ابن عابدین نے تفصیل سے احناف کا یہ موقف واضح کیا ہے کہ مسلمان توہین رسالت کا ارتکاب کرے تو اس پر ارتداد کے احکام لاگو ہوتے ہیں جن میں ایک حکم یہ ہے کہ اسے توبہ کے لیے کہا جائے گا اور اگر اس نے توبہ کی تو وہ مقبول ہوگی ۔ (مجموعۃ رسائل ابن عابدین ۔ ج ۱ ، ص ۳۲۰ ۔ ۳۴۸ ) انھوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ توبہ کی قبولیت سے مراد یہ ہے کہ اسے دنیوی سزا نہیں دی جائے گی ، باقی رہی آخرت کی سزا تو وہ اللہ اور اس کا معاملہ ہے ۔
معنی قبول التوبۃ عندنا سقوط القتل عنہ فی الدنیا ، و نجاتہ من العذاب فی الآخرۃ ان طابق باطنہ ظاھرہ (ایضاً۔ ص ۳۲۴)
[توبہ کی قبولیت کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس سے دنیا میں سزاے موت ساقط ہوجائے گی اور آخرت میں وہ نجات پائے گا ، اگر اس کاباطن اس کے ظاہر کے مطابق ہو ۔ ]
و أما الحکم الأخروی فانہ مبنی علی حسن العقیدۃ و صدق التوبۃ باطناً ، و ذلک مما یختص بعلمہ علام الغیوب جل و علا ۔ ( ایضاً )
[جہاں تک اخروی حکم کا تعلق ہے تو وہ باطنی طور پر صحیح عقیدے اور سچی توبہ پر منحصر ہے ، جس کا علم صرف خفیہ رازوں کے جاننے والے بزرگ و برتر ذات کے پاس ہے ۔ ]
۱۱ ۔ حق جس کا ہوتا ہے اسی کے پاس معافی کا اختیار بھی ہوتا ہے ۔ کسی کام کو حق اللہ قرار دینے کا قانونی نتیجہ یہ ہے کہ اس میں معافی کا اختیار اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں ہوتا ، حتی کہ معاشرہ یا حکمران بھی اسے معاف نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ ملک العلماء علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی یہ ثابت کرنے کے بعد کہ قذف یا تو خالصتاً حق اللہ ہے یااس میں حق اللہ غالب ہے ، قرار دیتے ہیں :
واذا ثبت أن حد القذف حق اللہ تعالی خالصاً أو المغلب فیہ حقہ فنقول : لا یصح العفو عنہ ، لأن العفو انما یکون من صاحب الحق ، و لا یصح الصلح و الاعتیاض ، لأن الاعتیاض عن حق الغیرلا یصح ، و لا یجری فیہ الارث ، لأن الارث انما یجری فی المتروک من ملک أو حق للمورث ۔۔۔ و لم یوجد شیء من ذلک فلا یورث ، و یجری فیہ التداخل ۔ (بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع ، تحقیق علی المعوض و عادل أحمد عبد الموجود ( بیروت : دار الکتب العلمیۃ ، ۲۰۰۳ء )۔ ج ۹ ، ص ۲۵۰ )
[اور جب یہ ثابت ہوا کہ حد قذف اللہ تعالیٰ کا خالص حق ہے ، یا اس میں غالب حق اللہ کا ہے تو ہم کہتے ہیں ( کہ اس کے نتائج یہ ہیں) : کہ اس کا معاف کرنا صحیح نہیں ہے ، کیونکہ معافی صاحب حق کی طرف سے ہوتی ہے ۔ اسی طرح اس میں صلح یا عوض قبول کرنا بھی صحیح نہیں ، کیونکہ کسی اور کے حق کا عوض لینا (یا کسی اور کے حق پر صلح کرنا) صحیح نہیں ۔ اور اس میں وراثت جاری نہیں ہوتی، کیونکہ وراثت تو مورث کی چھوڑی ہوئی ملکیت یا حق میں جاری ہوتی ہے ...اور اس قسم کی کوئی چیز یہاں نہیں پائی جاتی ، اس لیے اس میں وراثت نہیں ہوتی ۔ اور اس میں تداخل جاری ہوتی ہے (یعنی ایک ہی نوعیت کے کئی جرائم کے ارتکاب پر ایک ہی سزا ملتی ہے ) ۔ ]
۱۲ ۔ انگریزی قانون میں حقوق کو بنیادی طور دو قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے : انفرادی حق (Private Right) اور اجتماعی حق (Public Right)۔اس تقسیم سے لاشعوری طور پر متاثر ہونے کے سبب سے کئی لوگوں نے قرار دیا کہ اسلامی قانون میں حق العبد سے مراد Private Right اور حق اللہ سے مراد Public Right ہے ۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ بعض اوقات فقہا حق السلطان یا حق الامام کی بھی بات کرتے ہیں تو انہوں نے قرار دیا کہ حق الامام اور حق اللہ ایک دوسرے کے مترادف ہیں ۔ یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے جو دیگر کئی سنگین غلطیوں کا باعث بنی ہے ۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا، حق جس کا ہوتاہے، اسے جرم کی معافی کا بھی اختیار ہوتا ہے۔ اگر حقوق اللہ اور حقوق الامام ایک ہی ہوتے تو پھر جن جرائم کو حقوق اللہ سے متعلق سمجھا جاتاہے (حدود) ان میں ریاست کے پاس معافی کا اختیارہوتا۔
۱۳ ۔ امام ابوحنیفہ کے ممتاز شاگرد امام ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم نے تصریح کی ہے :
و أیما رجل مسلم سبّ رسول اللہ ﷺ، أو کذّبہ، أو عابہ ، أو تنقصہ ، فقد کفر باللہ تعالیٰ ، و بانت منہ امرأتہ ۔ فان تاب ، و الا قتل ۔ ( کتاب الخراج ( بیروت : دار المعرفۃ للطباعۃ و النشر ، ۱۹۷۹ م ) ۔ ص ۱۸۲ )
[جو مسلمان رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے ، یا ان کی تکذیب کرے ، یا ان کی عیب جوئی کرے ، یا ان کی شان میں تنقیص کرے ، تو اس نے اللہ تعالیٰ کے کفر کا ارتکاب کیا اور اس کی بیوی بائن ہوگئی ۔ پس اگر اس نے توبہ کی تو بہتر ، ورنہ اسے سزاے موت دی جائے گی ۔ ]
۱۴ ۔ برہان الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر المرغینانی ، الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی ( بیروت : دار احیاء التراث العربی ، ۱۹۹۵ م ) ۔ ج ۱ ، ص ۴۰۷ ۔
۱۵ ۔ امام کاسانی فرماتے ہیں :
لو سبّ النبی ﷺ لا ینتقض عھدہ لأن ھذا زیادۃ کفر علی کفر ، و العقد یبقی مع أصل الکفر فیبقی مع الزیادۃ ۔ ( بدائع الصنائع ۔ ج ۹ ، ص ۴۴۷ ۔ ۴۴۸)
[ اگر ذمی نے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کی تو اس کا عقد ذمہ نہیں ٹوٹتا کیونکہ یہ کفر پر مزید کفر کا اضافہ ہے ، اور عقد جب اصل کفر کے ساتھ باقی تھا تو اضافے کے ساتھ بھی باقی رہے گا ۔ ]
۱۶ ۔ صاحب ہدایۃ کے الفاظ قابل غور ہیں ۔
ان سبّ النبی ﷺ کفر ، و الکفر المقارن لا یمنعہ ، فالطارئ لا یرفعہ ( الھدایۃ ۔ ج ۱ ، ص ۴۰۵ )
[رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کفر ہے ، اور جب عقدذمہ کے وقت موجود کفر اس عقد کے انعقاد سے مانع نہیں تھا تو عقد کے بعد طاری ہونے والا کفر اس عقد کو ختم بھی نہیں کرسکتا۔]
علامہ ابن الہمام نے حنفی مذہب کے اس موقف سے مختلف رائے اپنائی ہے ۔ وہ کہتے ہیں :
و الذی عندی أن سبّہ ﷺ أو نسبۃ ما لا ینبغی الی اللہ تعالیٰ ان کان مما لا یعتقدونہ کنسبۃ الولد الی اللہ تعالیٰ و تقدس عن ذلک اذا أظھرہ یقتل بہ ، و ینتقض عھدہ وان لم یظھر ولکن عثر علیہ وھو یکتمہ فلا ( فتح القدیر ۔ ج ۵ ، ص ۳۰۳)
[میری رائے یہ ہے کہ اگر وہ علانیہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی یا اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی بات کی نسبت کرے جو ان اعتقاد کا حصہ نہ ہو ، جیسے اللہ کی طرف بیٹے کی نسبت حالانکہ اس کی شان اس سے اونچی اور پاک ہے ، تو اسے قتل کیا جائے گا اور اس سے اس کا عہد ٹوٹ جائے گا ۔ اور اگر وہ اس کا اظہار نہ کرے بلکہ اسے ایسی حالت میں پکڑا گیا جب کہ وہ چوری چھپے یہ کررہا تھا تو نہیں ۔ ]
اس پر نقد کرتے ہوئے خیر الدین الرملی کہتے ہیں :
ان ما بحثہ فی النقض مسلّم مخالفتہ للمذھب ، و أما ما بحثہ فی القتل فلا ۔ ( علامہ محمد امین ابن عابدین الشامی، رد المحتار علی الدر المختار (القاھرۃ : مصطفی البابی الحلبی ، تاریخ ندارد ) ۔ ج ۳ ، ص ۳۰۵ )
[جو تحقیق اس نے عہد ٹوٹ جانے کے متعلق کی ہے اس کا مذہب حنفی کے خلاف ہونا مسلم ہے ، البتہ جو تحقیق اس نے سزاے موت کے متعلق کی ہے وہ مذہب حنفی کے خلاف نہیں ہے۔]
ابن عابدین نے ابن الہمام کے دفاع میں اس قول کی تاویل اس طرح کی ہے کہ اظھار سے مراد یہ ہے کہ وہ اسے عادت بنالے یا کھلے عام گستاخی کا ارتکاب کرکے متمرد اور مفسد بن جائے ۔ ( ایضاً ، ص ۳۰۶ ) تاہم اس تاویل کے باوجود ابن الہمام کا قول حنفی مذہب کے مطابق نہیں ہے کیونکہ بات اگر صرف قتل کے جواز تک ہوتی تو ٹھیک تھی لیکن وہ عقد ذمہ ٹوٹ جانے کے بھی قائل ہیں ۔ اسی وجہ سے الخیر الرملی کی بات صحیح ہے کہ عقد ذمہ ٹوٹنے کی بات درست نہیں ہے ، البتہ قتل کے جواز کی بات صحیح ہے ۔
۱۷ ۔ علامہ ابن عابدین شامی سیاسۃ اور تعزیر کے تصورات میں موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
قلت : و الظاھر أن السیاسۃ و التعزیر مترادفان ۔ و لذا عطفوا أحدھما علی الآخر لبیان التفسیر ، کما وقع فی الھدایۃ و الزیلعی و غیرھما ۔ بل و اقتصر فی الجوھرۃ علی تسمیتہ تعزیراً .... و قالوا ان التعزیر موکول الی رأی الامام ۔ فقد ظھر لک بھذا ان باب التعزیر ھو المتکفل لأحکام السیاسۃ ....وبہ علم أن فعل السیاسۃ یکون من القاضی أیضاً ، و التعبیر بالامام لیس للاحتراز عن القاضی ، بل لکونہ ھو الأصل و القاضی نائب عنہ فی تنفیذ الأحکام ۔ ( ایضاً )
[میری رائے یہ ہے کہ بظاہر سیاسۃ اور تعزیر مترادف ہیں ۔ اسی وجہ سے بیان تفسیر کے طرز پر ان کو ایک دوسرے پر عطف کیا جاتا ہے ، جیسے ہدایۃ ، زیلعی اور دوسری کتابوں میں ہوا ہے ۔ بلکہ الجوھرۃ میں تو اسے صرف تعزیر کہنے پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ....اسی طرح کہا جاتا ہے کہ تعزیر امام کی رائے کے سپرد ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ باب تعزیر ہی سیاسۃ کے احکام پر متضمن ہے اور امام کا ذکر قاضی سے احتراز کے لئے نہیں کیا جاتا ، بلکہ اس وجہ سے کیا جاتا ہے کہ امام ہی قاضی کے اختیارات کی اصل ہے اور احکام کے نفاذ میں قاضی اس کا نائب ہے ۔ ]
ابن عابدین بہت بڑے فقیہ تھے اور انہیں بجا طور پر خاتمۃ المحققین کہا جاتا ہے مگر ہماری ناقص رائے میں سیاسۃ اور تعزیر کو مترادف قرار دینے میں ان سے تسامح ہوا ہے ۔ ان کی یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ تعزیر اور سیاسۃ کے الفاظ توسعاً ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ تاہم اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہ مترادف ہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعزیر حقوق العباد میں دی جاتی ہے اور سیاسۃ حقوق الامام میں ، اور امام چونکہ امت کا وکیل ہوتا ہے اس لیے حقوق الامام سے مراد دراصل امت کے اجتماعی حقوق ہیں ۔ پس تعزیر اور سیاسۃ دونوں در حقیقت حقوق العباد میں ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ان دونوں میں کوئی بھی سزا شبھۃ کی بنا ساقط نہیں ہوسکتی کیونکہ شبھۃ کی بنا پر صرف حقوق اللہ سے متعلق سزائیں ( حدود اور قصاص ) ساقط ہوتی ہیں۔ ان کی یہ بات بھی صحیح ہے کہ قاضی کے اختیارات کے لیے اصل امام ہے اس لیے اگر سیاسۃ کو امام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے تو اس سے لازم نہیں آتا کہ قاضی کے پاس سیاسۃ کا اختیار نہیں ہوتا ، بلکہ درحقیقت قاضی کا اختیار سیاسۃ کے قاعدے میں شامل ہوتا ہے ۔ تاہم اس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ یہ دونوں مصطلحات مترادف ہیں ۔مخصوص اصطلاحی مفہوم میں ان دونوں کے درمیان کچھ اہم فروق پائے جاتے ہیں ۔
الف ۔ تعزیر چونکہ فرد کے حق سے متعلق ہوتی ہے اس لئے معافی ، صلح اور ابراء کا حق متاثرہ فرد ہی کے پاس ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس سیاسۃ کا تعلق چونکہ امام کے حق سے ہوتا ہے اس لئے دیگر حقوق بھی امام کے پاس ہوتے ہیں ۔ شمس الائمۃ أبو بکر محمد بن أبی سہل السرخسی نے تصریح کی ہے کہ حکمران کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ فرد کے حقوق کی معافی کرے ۔
لیس للامام ولایۃ اسقاط حقوق العباد ۔ ( المبسوط ، تحقیق محمد حسن اسماعیل الشافعی ( بیروت : دار الکتب العلمیۃ ، ۱۹۹۷ م ) ۔ ج ۱۰ ، ص ۱۳۹ )
[امام کے پاس بندوں کے حقوق ساقط کرنے کا اختیار نہیں ہے۔]
ب ۔ تنہا عورت کی گواہی یا واقعاتی شہادتوں اور قرائن کی بنیاد پر تعزیری سزا نہیں دی جاسکتی ۔ چنانچہ فقہا نے تصریح کی ہے کہ گواہوں کی تعداد کے لحاظ سے شہادت کے تین مراتب ہیں :
حد زنا کے اثبات کے لئے چار مرد گواہ چاہئیں ؛
باقی حدود اور قصاص کے اثبات کے لئے دو مرد گواہ درکا ر ہیں ؛ اور
تعزیر کے اثبات کے لئے وہی معیار ثبوت ہے جو مالی حقوق کے اثبات کے لئے ہے ، یعنی دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی ۔ (المبسوط ۔ج ۱۶ ، ص ۱۳۴ ؛ الھدایۃ ۔ ج ۳ ، ص ۱۱۶۔۱۱۷ )
اسی لیے حقیقت یہ ہے کہ تعزیر کا دائرۂ کار حد سے کچھ وسیع ہونے کے باوجود درحقیقت نہایت محدود ہے۔ سیاسۃ کے اثبات کے لیے ایسی کوئی قید نہیں ہے ، بلکہ قاضی واقعاتی شہادتوں اور قرائن کی بنیاد پر بھی سزا سنا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر عہد رسالت میں ایک یہودی کا سر کچلنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ اس نے ایک عورت کا سر بھاری پتھر سے کچل دیا تھا ۔ فقہاے احناف اس سزا کو سیاسۃ کہتے ہیں اور یہ سزا اقرار یا شہادت پر نہیں بلکہ قرائن اور واقعاتی شہادتوں کی بنیاد پر دی گئی تھی ۔ ( المبسوط ۔ ج ۲۶ ، ص ۱۲۶ )
ج۔ تعزیر اگر ایسے جرم میں دی جارہی ہے جس کی جنس میں حد کی سزا مشروع ہو مگر وہ شبھۃ کی بنا پر یا کسی شرط کے فقدان کی وجہ سے نہ دی جاسکتی ہو تو تعزیر کی مقدار حد سے کم ہوگی ۔ چونکہ حدود میں کم سے کم سزا غلام کے لیے شرب خمر، چالیس کوڑے، کی ہے ، اس لیے امام ابو حنیفہ کا کہنا ہے کہ تعزیر کی زیادہ سے زیادہ مقدار انتالیس کوڑے ہے ۔ ( بدائع الصنائع ۔ ج ۹ ، ص ۲۷۱) ایسی کوئی قید اس سزا کے لئے نہیں ہے جو سیاسۃً دی جائے ۔ چنانچہ سیاسۃً سزاے موت بھی دی جاسکتی ہے ، بلکہ اس سزاے موت کے لئے کوئی عبرتناک طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے جیسا کہ اوپر یہودی کی سزا کا ذکر ہوا ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے : محمد مشتاق احمد ، ’’ آبرو ریزی کے جرم کی شرعی تکییف ‘‘ ، معارف اسلامی ، ج ۹ ، نمبر ۱ (جنوری ۔ جون ۲۰۱۰ ء ) ۔ ص ۷۳ ۔ ۸۰۔
۱۸ ۔ امام کاسانی نے حد کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
عقوبۃ مقدرۃ واجبۃ حقاً للہ تعالیٰ ۔ ( ایضاً ۔ ص ۱۷۷)
[ ایسی مقررہ سزا جس کا نفاذ بطور حق اللہ واجب ہے ۔ ]
۱۹ ۔ امام سرخسی فرماتے ہیں :
الحد بالقیاس لا یثبت ۔ ( المبسوط ۔ ج ۹ ، ص ۱۱۰ )
[حد قیاس کے ذریعے ثابت نہیں ہوتی ۔ ]
۲۰ ۔ Nyazee, General Principles of Criminal Law, 142-43.
۲۱ ۔ امام کاسانی فرماتے ہیں :
الحدود کلھا تظھر بالبینۃ و الاقرار ، لکن عند استجماع شرائطھا ۔ ( ج ۹ ، ص ۲۲۹ )
[ تمام حدود بینہ اور اقرار سے ثابت ہوتے ہیں لیکن اسی وقت جب اس کی تمام شرائط پوری ہوں ۔ ]
آگے وہ واضح کرتے ہیں کہ بینۃ سے مراد شہادت ہے اور یہ کہ حدود میں شہادۃ علی الشہادۃ ، کتاب القاضی اور علم القاضی وغیرہ قابل قبول نہیں ہیں ۔
۲۲ ۔ نیز اگر ملزم مسلمان ہو تو گواہ کا مسلمان ہونا بھی ضروری ہے ۔ ( بدائع الصنائع ۔ ج ۹ ، ص ۵۶ ) عورت یا غیر مسلم کی گواہی پر حد کی سزا نہیں دی جاسکتی ۔ یہ خواتین یا غیر مسلموں کے ساتھ زیادتی نہیں بلکہ ملزم کے ساتھ تخفیف ہے ۔
۲۳ ۔ المبسوط ۔ج ۱۶ ، ص ۱۳۴ ؛ الھدایۃ ۔ ج ۳ ، ص ۱۱۶۔۱۱۷ ۔
۲۴ ۔ اوپر ہم نے امام کاسانی کے حوالے سے حدود کی صفات ذکر کی ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ حد چونکہ حق اللہ ہے اس لیے اس میں معافی کا اختیار نہ متاثرہ فرد کے پاس ہے ، نہ ہی حکمران کے پاس ۔ (بدائع الصنائع ۔ ج ۹ ، ص۲۵۰ )
۲۵ ۔ المبسوط ۔ ج ۹ ، ص ۹۱ ۔
۲۶ ۔ چنانچہ مثال کے طور پر عادی چور ، داعی زندیق ، جادوگر ، ہم جنس پرستی کے عادی شخص اور دیگر مفسدین کی سزاے موت کو فقہاے احناف سیاسۃ ہی کہتے ہیں ۔ ( المبسوط ۔ ج ۹ ، ص ۹۰ ۔ ۹۱ ؛ الھدایۃ ۔ ج ۲، ص ۳۴۶۔۳۴۷ ؛ رد المحتار ج ۳ ، ص ۱۶۲ )
۲۷ ۔ سیاسۃ چونکہ حق اللہ نہیں ہے اور نیز تعزیر کے وسیع مفہوم میں داخل ہے ، اس لیے تعزیر کی طرح یہ بھی شبھۃ یعنی فعل کے قانونی جواز کے متعلق ملزم کے ذہن میں پائے جانے والے ابہام کی بنا پر ساقط نہیں ہوگی ۔
۲۸ ۔ چنانچہ سیاسۃ کی سزا تنہا خواتین کی گواہی ، غیر مسلموں کی گواہی ، شہادۃ علی الشہادۃ ، کتاب القاضی بلکہ واقعاتی شہادتوں اور قرائن کی بنیاد پر بھی دی جاسکتی ہے ۔
۲۹ ۔ چونکہ معافی کا اختیار صاحب حق کے پاس ہوتا ہے اور سیاسۃ کی سزا حق الامام میں دی جاتی ہے اس لیے حکمران کے پاس معافی کا اختیار ہوتا ہے ۔
۳۰ ۔ امام سرخسی نے تصریح کی ہے : استیفاء الحد الی الامام ۔ ( المبسوط ۔ ج ۹ ، ص ۱۲۱)
[حد کا استیفا امام کا کام ہے ۔ ]
۳۱ ۔ البتہ حق العبد سے تعلق رکھنے والے امور (مثلاً اموال و تعزیر ) میں حکمران پر عدالتی فیصلہ نافذ کیا جائے گا ۔ یہی حکم قصاص کا بھی ہے کیونکہ اس میں بھی حق العبد غالب ہے ۔ (المبسوط ۔ ج ۹ ، ص ۱۲۱)
۳۲ ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے : افتیات کے عنوان سے مقالہ : الموسوعۃ الفقھیۃ ( الکویت : وزارۃ الأوقاف و الشؤن الاسلامیۃ ، ۱۹۸۶ء ) ۔ ج ۵ ، ص ۲۸۰ ۔ ۲۸۱ ۔
۳۳ ۔ رد المحتار ۔ ج ۳ ، ص ۱۷۶ ۔
۳۴ ۔ ایضاً۔ فقہاے احناف کا مسلمہ اصول ہے کہ کسی شخص کا فعل اگر فی نفسہ شرعاً جائز بھی ہو لیکن اس سے حکمران کے حق کا افتیات ہوتا ہو تو حکمران اسے مناسب تادیبی سزا سنا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر فقہاے احناف کا موقف یہ ہے کہ غیر مسلم مقاتل کو جب قیدکیا جائے تو جیسے اسے میدان جنگ میں قتل کیا جاسکتا تھا ایسے ہی اسے قید کیے جانے کے بعد بھی قتل کیا جاسکتا ہے ( أبو بکر محمد بن أبی سہل السرخسی ، شرح کتاب السیر الکبیر ، تحقیق محمد حسن اسماعیل الشافعی ( بیروت : دار الکتب العلمیۃ ، ۱۹۹۷ م ) ۔ ج ۳ ، ص ۱۲۴) کیونکہ وہ مرتد کی طرح مباح الدم ہوتا ہے ( ایضاً ۔ ص۱۲۶ ) لیکن انھوں نے یہ بھی صراحت کی ہے کہ کوئی شخص اسے حکمران کی اجازت کے بغیر قتل نہیں کرے گا ۔ ( ایضاً ۔ ج ۲ ، ص ۱۹۷ ) پھر اگر کسی نے اسے حکمران کی اجازت کے بغیر قتل کیا تو اسے حکمران مناسب تادیبی سزا دے سکتا ہے کیونکہ وہ افتیات کا مرتکب ہوا ۔ (ایضاً ۔ ج ۳ ، ص ۱۲۶)
۳۵ ۔ چنانچہ مثال کے طور پر اس سزا میں کمی بیشی اور معافی کا اختیار حکمران کے پاس ہے ۔
۳۶ ۔ رد المحتار ۔ ج ۳ ، ص ۱۷۵ ۔ ظاہر ہے کہ جسے حد کی سزا دی گئی اس کا جرم ثابت نہیں ہوا تو وہ معصوم اور بری تھا ۔ اس لیے اس کے خلاف کیا جانے والا اقدام عدوان ہی ہے خواہ اسے حد کا نام دیا گیا ہو ۔ چنانچہ عدوان کی ماہیت کو دیکھتے ہوئے اس پر قصاص ، دیت ، ارش یا حکومۃ عدل ( جسے مجموعۂ تعزیرات پاکستان میں ’’ضمان ‘‘ کہا گیا ہے ) کے احکام کا اطلاق ہوگا ۔
۳۷ ۔ اس کی وجہ واضح ہے ۔ یہ سزا حق الامام میں دی جاتی ہے ۔ اس لیے حکمران ہی کے پاس استیفاء کا حق ہے ۔ اس کے برعکس تعزیر چونکہ حق العبد میں دی جاتی ہے اس لیے بنیادی طور پر اس میں استیفاء کا حق متاثرہ فرد یا اس کے قانونی وارث کے پاس ہوتا ہے اور حکمران کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اس متاثرہ شخص کے حق کے استیفاء میں اس کی مدد کرے اور اسے اپنے حق سے تجاوز نہ کرنے دے ۔ ( بدائع الصنائع ۔ ج ۹ ، ص ۲۵۳ ) یہی حکم قصاص کا بھی ہے کیونکہ اس میں بھی حق العبد غالب ہوتا ہے ۔ ( ایضاً ۔ ج ۱۰ ، ص ۲۷۳ ۔ ۲۷۸ )