توہین رسالت کے مرتکب کے لیے توبہ کا موقع ۔ حدیث اور فقہ کی روشنی میں

مفتی محمد عیسی گورمانی

(توہین رسالت کی سزا کے قانون کے حوالے سے علمی حلقوں میں جاری بحث ومباحثہ میں یہ پہلو خصوصی طور پر ارباب فکر ودانش کے درمیان زیر بحث ہے کہ توہین رسالت کے مرتکب کے لیے توبہ اورمعافی کی گنجائش ہے یا نہیں؟ ہمارے مخدوم ومحترم بزرگ حضرت مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی مدظلہ العالی نے اس پر اپنا موقف بیان فرمایا ہے جو ارباب علم ودانش کی خصوصی توجہ کا طلب گار ہے۔ اس پر کوئی دوست خالص علمی انداز میں اظہار خیال کا ارادہ رکھتے ہوں تو اس کے لیے ’الشریعہ‘ کے صفحات حاضر ہیں۔ ابو عمار زاہد الراشدی)


بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ الحمد للہ وکفی وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفی۔ اما بعد!

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی اقوام سے واسطہ پڑا۔ مشرکین عرب، یہودی کینہ پرور، دیہاتی، ایسے لوگ جن کی فطرت اور خمیر میں فساد تھا، ان کے رگ وریشہ میں شر کا غلبہ تھا اور خیر کا پہلوناپید۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبر سے حسب وعدہ ان کو ہلاک کر دیا۔ وہ بیماری میں مبتلا ہوئے جیسے ابو لہب، یا میدان جنگ میں مارے گئے جیسے ابو جہل، عتبہ، عتیبہ، شیبہ، امیہ، عقبہ بن ابی معیط وغیرہم۔ چند اپنی زندگی میں ناکامی، رسوائی اور مایوسی کے عالم میں طبعی موت مر گئے، جیسے رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی اور اس کا گروہ۔ یہود مدنی زندگی میں اسلام اور مسلمانوں کی روز افزوں ترقی دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اور صحابہ کرام کے درپے ایذا تھے۔ اس کے لیے باقاعدہ خفیہ محافل قائم کرتے اور باندیوں کو حکم دیتے کہ آپ کی ہجو میں گانے گائیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقار میں کمی آئے تو باذن خداوندی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کے ہاتھوں خفیہ طریقوں سے ان کا کام تمام کر دیا، جیسے کعب بن اشرف اور ابو رافع جن کا قصہ احادیث میں تفصیل سے مذکور ہے۔ صحابہ کرام نے اپنی جان پر کھیلتے ہوئے ان یہودی امرا کو ان کے بلند وبالا محفوظ قلعہ جات میں جا کر قتل کیا۔ اسی موقع کے لیے مولانا ظفر علی خان مرحوم نے کہا:

نماز اچھی، روزہ اچھا، حج اچھا، زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اس کے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا

بعض لوگ خاندانی روایات کے مطابق کبر ونخوت اور انانیت کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھتے تھے اور خدا تعالیٰ کے ہاں ہدایت ان کے مقدر میں نہیں تھی۔ انھوں نے آخر وقت تک اسلام قبول نہیں کیا۔ خدا ورسول کے غیض وغضب کا نشانہ بن گئے اور قتل کیے گئے، جیسے ابن خطل کعبہ کے پردوں سے لپٹا ہوا تھا کہ قتل کر دیا گیا۔ 

اس کے برعکس خدا تعالیٰ کے ہاں جن کی جان بخشی مقدر تھی، رحمت خداوندی نے ان کی یاوری کی، جیسے ابو سفیان اور ان کے رفقا اور وحشی بن حرب۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے ہاتھوں جنگ احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت زخمی ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کے لوگوں کے حق میں بد دعا کرنے سے روک دیا:

لَیْْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْْءٌ أَوْ یَتُوبَ عَلَیْْہِمْ أَوْ یُعَذَّبَہُمْ فَإِنَّہُمْ ظَالِمُونَ (آل عمران ۱۲۸)
’’تیرا اختیار کچھ نہیں۔ یا ان پر رجوع کرے یا ان کو عذاب دے کہ وہ ناحق پر ہیں۔‘‘

اس آیت کی تفسیر میں شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی تحریر فرماتے ہیں:

’’احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ مشرکین نے نہایت وحشیانہ طور پر شہداء کا مثلہ کیا (ناک کان وغیرہ کاٹے)، پیٹ چاک کیے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس لڑائی میں چشم زخم پہنچا۔ سامنے کے چار دانتوں میں سے نیچے کا دایاں دانت شہید ہوا، خود کی کڑیاں ٹوٹ کر رخسار مبارک میں گھس گئیں، پیشانی زخمی ہوئی اور بدن مبارک لہولہان تھا۔ اسی حالت میں آپ کا پاؤں لڑکھڑایا اور زمین پر گر کر بے ہوش ہو گئے۔ کفار نے مشہور کر دیا: ان محمدا قد قتل  (محمد مارے گئے)۔ اس سے مجمع بد حواس ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آیا۔ اس وقت زبان مبارک سے نکلا کہ ’’وہ قوم کیوں کر فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کا چہرہ زخمی کیا جو ان کو خدا کی طرف بلاتا ہے۔‘‘ مشرکین کے وحشیانہ شدائد ومظالم کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رہا نہ گیا اور ان میں سے چند نامور اشخاص کے حق میں آپ نے بددعا کا ارادہ کیا یا شروع کر دی جس میں ظاہر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر طرح حق بجانب تھے، مگر حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ آپ اپنے منصب جلیل کے موافق اس سے بھی بلند مقام پرکھڑے ہوں۔ وہ ظلم کرتے جائیں، آپ خاموش رہیں۔ جتنی بات کا آپ کو حکم ہے (مثلاً دعوت وتبلیغ اور جہاد وغیرہ)، اسے انجام دیتے رہیں۔ باقی ان کا انجام خدا کے حوالے کریں۔ اس کی جو حکمت ہوگی، وہ کرے گا۔ آپ کی بددعا سے وہ ہلاک کر دیے جائیں گے۔ کیا اس کی جگہ یہ بہتر نہیں کہ ان ہی دشمنوں کو اسلام کا محافظ اور آپ کا جاں نثار عاشق بنا دیا جائے؟ چنانچہ جن لوگوں کے حق میں آپ بد دعا کرتے تھے، چند روز کے بعد سب کو خدا تعالیٰ نے آپ کے قدموں پر لا ڈالا اور اسلام کا جاں باز سپاہی بنا دیا۔ غرض لَیْْسَ لَکَ مِنَ الأَمْرِ شَیْْء  میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو متنبہ فرمایا کہ بندہ کو اختیار نہیں، نہ اس کا علم محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ جو چاہے، سو کرے۔ اگرچہ کافر تمھارے دشمن ہیں اور ظلم پر ہیں، لیکن چاہے وہ ان کو ہدایت دے، چاہے عذاب کرے۔ تم اپنی طرف سے بددعا نہ کرو۔‘‘

اللہ تعالیٰ کی شان کریمی دیکھیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کٹڑ دشمن، آپ اور آپ کے صحابہ کے خلاف سازشیں کرنے والے یہودی اور منافق جن کے ہاتھوں آپ بے حد تکالیف اٹھا چکے تھے، انھیں کہا گیا کہ اب بھی دروازے کھلے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوں، اللہ سے معافی مانگیں اور رسول اللہ بھی ان کے حق میں دعا کریں تو ان کے سب گناہوں کی تلافی ہو سکتی ہے۔ وہ اللہ کو بار بار معافی دینے والا مہربان پائیں گے:

وَلَوْ أَنَّہُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَہُمْ جَآؤُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّاباً رَّحِیْماً (النساء ۶۴)
’’اور اگر وہ لوگ جس وقت انھوں نے اپنا برا کیا تھا، آتے تیرے پاس، پھر اللہ سے معافی چاہتے اور رسول بھی ان کے لیے بخشش کی دعا کرتے تو البتہ اللہ کو پاتے مہربان معاف کرنے والا۔‘‘
یا رب تو کریمی ورسول تو کریم
صد شکر کہ ہستیم میان دو کریم

جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے لشکر جرار کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو ابوسفیان کو جان کے لالے پڑ گئے۔ حضرت عباس سے کہا، بچاؤ کی کیا تدبیر ہے؟ انھوں نے کہا، میرے پیچھے سواری پر بیٹھ جاؤ۔ حضرت عمر نے پہچان لیا۔ تلوار لے کر پیچھا کیا۔ حضرت عباس جلدی سے آنحضرت کی اقامت گاہ میں داخل ہو گئے۔ حضرت عمر نے کہا:

یا رسول اللہ صلی اللہ علیک ان اللہ امکنک من عدوک من غیر عقد ولا صلح ودعنی ان اقتلہ، قال عباس: مہلا فانی اجرتہ 
’’یا رسول اللہ، اللہ نے بغیر عقد وصلح کے آپ کے دشمن پر قدرت دی ہے۔ مجھے اس کو قتل کرنے دیں۔ حضرت عباس نے کہا، چھوڑ دو۔ میں نے اسے پناہ دی ہے۔‘‘

حضرت عباس کی فہمائش پر ابو سفیان ایمان لائے۔ آنحضرت نے فرمایا: من دخل دار ابی سفیان فھو آمن۔ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے، وہ امن والا ہے۔ ابو سفیان نے کہا: یا رسول اللہ، میرے گھر میں کتنے لوگ آ سکتے ہیں! اس پر آپ نے فرمایا:

من اغلق الباب علی نفسہ فہو آمن، ومن القی السلاح فہو آمن، ومن تعلق باستار الکعبۃ فہو آمن الا ابن خطل ویعیش بن صبابۃ وقینتین لابن خطل کانتا تغنیان بھجاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ثم جاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی باب الکعبۃ وفیہا رؤساء قریش، فاخذ بعضادتی الباب وقال: ماذا ترون ان صانع بکم؟ فقالوا اخ کریم وابن اخ کریم ملکت فاسجح، فقال صلی اللہ علیہ وسلم: انی اقول لکم کما قال اخی یوسف لاخوتہ: لا تثریب علیکم الیوم، یغفر اللہ لکم، وہو ارحم الراحمین، انتم الطلقاء لکم اموالکم (المبسوط لشمس الائمۃ السرخسی، ج ۱۰ ص ۳۹، ۴۰ طبع دار المعرفۃ بیروت لبنان)
’’جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے، وہ امن والا ہے۔ جو ہتھیار پھینک دے، وہ امن والا ہے۔ جو کعبے کے پردوں سے لپٹ جائے، وہ امن والا ہے، سوائے ابن خطل اور یعیش بن صبابہ اور ابن خطل کی دو لونڈیوں کے جو آپ کی ہجو میں گانا گایا کرتی تھیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے دروازے کے سامنے تشریف لائے۔ اس میں قریش کے امرا موجود تھے۔ آپ نے بیت اللہ کی دونوں چوکھٹیں پکڑ کر کہا، تمھارا کیا خیال ہے، میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ انھوں نے کہا، ہمارے مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے بیٹے ہو۔ تیرا اختیار ہے، پس برتاؤ میں نرمی اختیار کر۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے وہ بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی۔ آج کے دن تم پر کوئی گرفت نہیں۔ اللہ تمھیں بخش دے۔ وہ ارحم الراحمین ہے۔ تم آزاد ہو۔ تمہارے مال تمہارے ہی ہیں۔‘‘

کعب بن زہیر نامی شخص اہل نجد سے، خاندانی شاعر تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی تھی اور مسلمانوں کی عورتوں سے اپنا معاشقہ جتلاتا تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم دیا۔ وہ روپوش ہو گیا۔ اسی حال میں مدینہ حاضر ہوا اور آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور کہا: کعب بن زہیر کے لیے معافی ہے؟ آپ نے اثبات میں جواب دیا تو کہا: میں کعب بن زہیر ہوں۔ اسلام قبول کیا۔ وقتی طور پر آپ کو غصہ آیا۔ آپ نے فرمایا: وقد قلت کذا وکذا؟ تم نے ایسے ایسے کہا ہے؟ اس نے اسی مجلس میں آپ کی اور آپ کے اصحاب کی مدح میں ایک طویل قصیدہ پڑھا جس میں ہے:

انبئت ان رسول اللہ اوعدنی
والعفو عند رسول اللہ مامول
لا تاخذنی بقول الوشاۃ ولم
اذنب وان کثرت فی الاقاویل
ان الرسول لنور یستضاء بہ
وصارم من سیوف اللہ مسلول
’’مجھے بتلایا گیا ہے کہ رسول اللہ نے مجھے دھمکی دی ہے۔ رسول اللہ کے ہاں معافی کی امید کی جا سکتی ہے۔ چغل خور لوگوں کی باتوں پر مجھ سے مواخذہ نہ کیجیے۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا، اگرچہ میرے بارے میں بہت باتیں کہی گئیں۔ (ع یقین کس کس کا تم کرو گے، ہزار منہ ہیں ہزار باتیں)۔ اللہ کے رسول ایسا نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ آپ اللہ کی تلواروں میں سے ایک قاطع تلوار ہیں۔‘‘

امام سبکی الشافعیؒ نے السیف المسلول میں ذکر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبار بن اسود بن عبد المطلب کے قتل کا حکم دیا۔ وہ آپ کی خدمت میں آیا اور کلمہ شہادت پڑھا اور کہا کہ میں آپ کو ایذا اور گالی دینے پر حریص تھا۔ میں شرم سار ہوں، مجھ سے درگزر فرمائیے۔ حضرت زبیر کہتے ہیں، میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آپ نے اس کی معذرت کے باعث سر جھکا لیا اور آپ فرما رہے تھے: قد عفوت عنک والاسلام یجب ما کان قبلہ۔ میں نے تمھیں معاف کیا اور اسلام پہلی غلطیوں کو ختم کر دیتا ہے۔ (تنبیہ الولاۃ، مجموعہ رسائل ابن عابدین ص ۳۴۶)

فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں کے قتل کا حکم دیا۔ ان میں ایک ابن ابی سرح تھا جو کاتب وحی تھا۔ پھر مرتد ہو کر مشرک ہو گیا اور قریش مکہ سے جا ملا۔ کہا کہ میں محمد کو جیسے چاہوں، پھیر لیتا ہوں۔ میں کہتا ہوں: عزیز حکیم  یا علیم حکیم تو وہ کہتا ہے، نعم، کل صواب۔ ہر لفظ صحیح ہے۔ یہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رضاعی بھائی تھا۔ وہ اسے بطور سفارش آپ کے سامنے لائے اور کہا یا رسول اللہ، عبد اللہ کو بیعت کر لیں۔ آپ نے تھوڑی دیر بعد اس کی طرف سر اٹھایا، ہر دفعہ انکار کیا۔ حضرت عثمان کی وجاہت وعظمت کے پیش نظر اوران کے اصرار اور سفارش پر تین مرتبہ انکار کے بعد آپ نے اسے بیعت کر لیا۔ آ پ اپنے اصحاب پرمتوجہ ہوئے اور کہا کہ تم میں کوئی ایسا سمجھ دار اور ہوشیار شخص نہ تھا کہ جب میں نے اپنا ہاتھ بیعت سے روک لیا تو وہ اسے قتل کر دیتا؟ عباد بن بشیرؓ نے کہا، یا رسول اللہ، ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ اشارے سے بتلا دیتے۔ فرمایا، پیغمبر کی یہ شان نہیں کہ اس کی آنکھوں میں خیانت ہو۔ (سنن ابی داود ج ۲ ص ۹)

یہ واقعہ قطعی دلیل ہے کہ سب وشتم کرنے والے کو توبہ کے بعد قتل نہیں کیا جا سکتا۔ 

ان چار میں سے دوسرے عکرمہ تھے جو فتح مکہ کے موقع پر بھاگ گئے۔ ان کی بیوی ام حکیم بنت حارث نے اسلام قبول کر لیا اور اپنے شوہر کو اسلام کی دعوت دی تو وہ اسلام کی طرف راغب ہو کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے مرحبا بالراکب  کہہ کر استقبال کیا۔ 

القصہ انھی لوگوں میں سے بعض نے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگی، کہیں معافی مانگنے والے کی عاجزی اور الحاح وزاری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤف ورحیم ذات کو معاف کرنے پر مجبور کر دیا، کچھ لوگ سفارش لائے اور دیگر لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے امن کا پیغام ملا۔ ان لوگوں نے صدق دل سے اسلام قبول کر لیا اور قتل ہونے سے بچ گئے۔

ائمہ احناف اور جمہور علما کا موقف

جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے یا آپ کو گالی دے، اسے قتل کیا جائے۔ یہ مذہب امام مالک، امام لیث، امام احمد اور امام اسحاق کا ہے اور یہی مذہب امام شافعی کا ہے۔ تاہم ہمارے متقدمین ائمہ احناف نے ردۃ کے باب میں اپنی عام کتب میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور پھر توبہ کر لے تو اس کی توبہ قتل کی سزا معاف کرنے کے حق میں قبول کی جائے گی۔

قال ابو یوسف ایما رجل سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او کذبہ او عابہ او تنقصہ فقد کفر باللہ تعالی وبانت منہ امراتہ فان تاب والا قتل وکذالک المراۃ الا ان ابا حنیفۃ قال لا تقتل المراۃ وتجبر علی الاسلام (تنبیہ الولاۃ، مجموعہ رسائل ابن عابدین ج ۱ ص ۳۲۴، مکتبہ عثمانیہ کوئٹہ)
’’امام ابو یوسف فرماتے ہیں: جو مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہے یا تکذیب کرے یا آپ پر عیب لگائے یا تنقیص کرے، اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کیا۔ اس کی عورت بھی اس سے جدا ہو گئی۔ اگر توبہ کرے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کیا جائے گا۔ اسی طرح عورت کا حکم ہے۔ لیکن امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے اسلام پر مجبور کیا جائے گا۔‘‘

الحاصل دین اسلام، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پر سب وشتم کرنے والے غیر مسلم ذمی کو سزا دی جائے اور اگر علانیہ سب وشتم سے باز نہ آئے اور توبہ نہ کرے تو قتل کیا جائے۔ اسی طرح مرتد کی سزا، جبکہ وہ عاقل بالغ ہو، بالاجماع قتل ہے اور اس کی توبہ قابل قبول ہے۔ مرتد کو اسلام پر مجبور کیا جائے، اگر انکار کرے تو اس کی حد قتل ہے۔ نہ اسے امن دیا جائے گا، نہ اسے غلام بنایا جائے گا اور نہ ہی اس پر جزیہ عائد کیا جائے گا۔ 

اس سے معلوم ہوا کہ قتل کی علت محض کفر نہیں، بلکہ بالخصوص ردۃ ہی اس کی علت ہے۔ قتل ایک عقوبت خاصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے خاص حق کے لیے واجب ہے اور بالخصوص ردۃ پر واجب ہوتی ہے، جس طرح شادی شدہ کے زنا پر رجم ہے۔ مرتد کا قتل کیا جانا حد ہے۔ حد لغت میں منع کو کہتے ہیں، جیسے چوکی دار کو حداد کہتے ہیں کیونکہ وہ گھر میں داخل ہونے سے مانع ہے۔ جیل کے داروغہ کو سجان کہتے ہیں، کیونکہ وہ جیل سے باہر جانے سے مانع ہے۔ عقوبات خاصہ کو حدود کا نام دیا جاتا ہے کیونکہ یہ حدود معاصی کے دوبارہ ارتکاب سے رکاوٹ بنتی ہیں۔ حد ثابت ہو جانے کے بعد ساقط نہیں ہوتی اور نہ ہی اس میں سفارش چل سکتی ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید کو زجر فرمایا جب انھوں نے مخزومیہ عورت کی، جس نے چوری کی تھی، سفارش کی۔ فرمایا: اتشفع فی حد من حدود اللہ؟ کیا تو اللہ کی حدود میں سے کسی حد میں سفار ش کرتا ہے؟ فی الحقیقت حدود، ارتکاب معاصی سے پہلے مانع اور ارتکاب کے بعد زاجر ہیں یعنی معاصی کی طرف لوٹنے سے باز رکھتی ہیں۔ (تنبیہ الولاۃ مع الاختصار ص ۳۱۸)

فقہ / اصول فقہ

(مارچ ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter