مکاتیب

ادارہ

(۱)

محترم جناب عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا۔

یوگندر سکند کے آپ کے والد ماجد سے سوالات اور مولانا محترم کے جوابات ارسال کرنے کا بہت بہت شکریہ!

دیوبند میں ہوئی کشمیر کانفرنس کے حوالے سے جب آپ کے رسالہ کی کسی قریبی اشاعت میں ایک مضمون شائع ہوا تھا تو آپ کو اس کی بابت کچھ لکھنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اب اس انٹرویو میں بھی اس کا تذکرہ دیکھ کر خیال ہوا کہ سردست چند سطریں ہی آپ کی خدمت میں ارسال کر دی جائیں۔

۱۔ یہ کانفرنس جمعیۃ علماء ہند نے منعقد کی تھی، دار العلوم دیوبند نے نہیں۔

۲۔ یہ کانفرنس دار العلوم دیوبند میں نہیں ہوئی تھی، بلکہ دیوبند کے ایک میدان میں ہوئی تھی۔

۳۔ اس کانفرنس کا کوئی رسمی یا غیر رسمی تعلق دار العلوم سے نہیں تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ماضی میں دار العلوم اور جمعیۃ ’یک جان دو قالب‘ جیسے بنا دیے گئے تھے، لیکن پچھلے برسوں میں جب جمعیۃ میں اختلافات ہوئے تو دار العلوم کی انتظامیہ نے دار العلوم اور جمعیۃ کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی، یہاں تک کہ جمعیۃ کے دونوں دھڑوں کے سربراہان مولانا ارشد مدنی اور مولانا عثمان صاحب کو بالترتیب دار العلوم کے اعتماد تعلیم اور نیابت اہتمام سے معزول کر دیا گیا تھا۔

۴۔ اس کاففرنس کو جمعیۃ کے ایک دھڑے نے صرف اسی لیے دیوبند میں منعقد کیا تھا تاکہ اس کو دار العلوم کی کانفرنس کہا جا سکے اور ایسا ہی ہوا۔ میڈیا نے اسے دار العلوم کی کانفرنس کہا اور یہ باور کرایا کہ یہ دار العلوم کے اندر ہوئی ہے، ورنہ اس عالمی مسئلہ پر ہونے والی کانفرنس کو ایک چھوٹے سے قصبہ میں منعقد کرانے کی کیا تک تھی؟

۵۔ دار العلوم کا اس کانفرنس اور اس کی تجاویز سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہاں تک کہ ماضی کی روایات کے بالکل برخلاف اس کانفرنس میں دار العلوم کے ذمہ داران میں سے کوئی شریک بھی نہیں ہوا، لہٰذا اس کی بابت یہ خیال کرنا کہ یہ کانفرنس دار العلوم نے اپنے گرد وپیش کے حالات سے مجبور ہو کر منعقد کی تھی، صحیح نہیں ہے۔ ہندوستان کی حکومت کا کشمیر کے سلسلہ میں جو رویہ رہا ہے، یہاں کے مسلمانوں نے ہمیشہ اس پر حکومت کی سخت تنقید کی ہے۔

۶۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یوگیندر سکند صاحب نے بھی اس کانفرنس کو دار العلوم کے اندر منعقد ہوا بتایا۔ یہ جمعیۃ کے ایک دھڑے کی سیاسی بازی گری تھی، اور کچھ نہیں۔ افسوس کہ اس حوالہ سے دار العلوم کو بے جا بدنام کیا جا رہا ہے۔

مولانا محمد الیاس نعمانی

(ماہنامہ الفرقان، لکھنو)

(۲)

محترم المقام جناب عمار خان ناصر صاحب

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مجلہ الشریعہ کا دسمبر ۱۰ء کا شمارہ میرے سامنے ہے۔ اس میں شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد صاحب مدظلہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے: ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اور حکومت کا نیا معاہدہ‘‘۔ مجھے اس مضمون کے عنوان سے اختلاف ہے۔ چند سال قبل دینی مدارس کے پانچ بورڈوں کا مشترکہ ایک پلیٹ فارم بنا تھا جس میں مختلف چار مسالک کے دینی مدارس کے بورڈ تھے اور ایک بورڈ شیعہ مذہب کا تھا۔ ان پانچ بورڈوں کے متحدہ پلیٹ فارم کا نام ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ ‘‘تجویز کیا گیا۔ بندہ نے اس دور میں فیصل آباد سے شائع ہونے والے رسالہ ماہنامہ ’’خلافت راشدہ‘‘ میں اس عنوان پر بہت کچھ لکھا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ سپاہ صحابہؓ کے سربراہ علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ اورسپاہ صحابہؓ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر خادم حسین ڈھلوں نے اس عنوان پر ان تھک محنت کی اور اس اتحاد کے ذمہ داران سے مسلسل ملاقاتیں کی جس کے نتیجہ میں لفظ ’’دینیہ‘‘ اس فورم کے نام سے الگ ہوگیا۔اب اس فورم کانام صرف’’ اتحاد تنظیمات مدارس‘‘ ہی ہے جس کی تصدیق اس فورم کے ذمہ داران بھی کرتے ہیں اور ان کا چھپنے والا لٹریچر بھی اسی نام سے چھپتا ہے جس میں’’ صرف اتحاد تنظیمات مدارس‘‘ ہی لکھا جاتا ہے۔

اہل تشیع کے عقائد کفریہ کی بنا پر تمام علماء محققین کا شیعہ کی تکفیر پر اجماع اور اتفاق ہوچکا ہے۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: امداد الفتاویٰ،جلد ۴صفحہ ۵۸۴ اور احسن الفتاویٰ،جلد ۱صفحہ ۷۳ تا ۱۰۶،نیز ’’خمینی اور اثنا عشریہ کے متعلق علماء کرام کا متفقہ فیصلہ‘‘بھی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔اس لیے جب ان کے متعلق سب کچھ معلوم ہو اور ان کے کفریہ عقائد ظاہر ہوچکے ہوں، اس کے بعد بھی ان کے مذہبی اداروں اور تنظیموں کو دینی واسلامی کہنا اپنے ایمان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتاہے،بالخصوص جبکہ اہل تشیع اس قسم کے تعلق اور ایسے اتحاد سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے غلط عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں اور دوسروں کے سامنے ایسے تعلقات اور ایسے اتحادکو دلیل کے طور پر پیش کرکے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ یہ سب میری تیار کی ہوئی باتیں نہیں بلکہ اکابر علماء کرام کے ایک فتویٰ کی رو سے میں نے یہ سب باتیں لکھی ہیں اور اس فتویٰ پر ملک کے جیدمفتیان اور علمائے کرام کے دستخط موجود ہیں۔اس لیے میری آنجناب کے ذریعہ سے حضرت مفتی زاہد صاحب مدظلہ سے گزارش ہے کہ وہ آئندہ ’’اتحاد تنظیمات مدارس ‘‘کے ساتھ لفظ دینیہ لکھنے سے گریز کریں تاکہ دشمنان اسلام کو اس سے غلط فائدہ اٹھانے اور عوام کو اس سے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کا موقع نہ مل سکے۔

امید ہے کہ حضرت مفتی صاحب میری ان معروضات پر ضرور غور فرمائیں گے۔

محمد یونس قاسمی 

(۳)

مکرمی ومحترمی شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب زید مجدکم، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان

ومولانا محمد حنیف جالندھری صاحب، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان

ودیگر ارکان مجلس عاملہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

باعث تحریر یہ کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی مجلس عاملہ کے اجلاس منعقدہ ۳؍ صفر المظفر ۱۴۳۲ھ میں جو فیصلے ہوئے، ان میں سے ایک یہ ہے:

’’دوران امتحان نقل اورمتبادل کے رجحان کے سدباب کے لیے داخلہ فارم کے ساتھ طالب علم کی تین تازہ تصاویر جو کہ مہتمم یا ناظم جامعہ کی تصدیق شدہ ہوں، بھیجنا لازمی ہے۔‘‘

اس فیصلے کے متعلق آپ حضرات کی خدمت میں بندہ چند انتہائی مودبانہ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہے:

۱۔ تصاویر کی حرمت میں صرف بخاری شریف کے ایک باب میں دس احادیث موجود ہیں اور بخاری کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں جو احادیث آئی ہیں، وہ مزید برآں ہیں۔ اس لیے تصویر کشی اور تصویر کے استعمال کی حرمت پر پوری امت کے علماء حق متفق ہیں۔ آج سے ۹۶ سال پہلے یعنی ۱۳۳۶ھ میں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فوٹو گرافی کی شرعی حیثیت پر ایک مفصل مضمون لکھا جو ماہنامہ ’’المعارف‘‘ اعظم گڑھ میں کئی قسطوں میں شائع ہوا جس میں انھوں نے فوٹو کے جواز کا عندیہ ظاہر کیا تھا۔ چونکہ یہ مسلک صریح احادیث کے خلاف تھا، اس لیے اس کی تردید میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ نے ایک تحقیقی مقالہ لکھا اور اسے ماہنامہ ’’القاسم‘‘ دار العلوم دیوبند میں شائع کرایا۔ بعد میں وہ مقالہ کتابی شکل میں ’’تصویر کے شرعی احکام‘‘ کے نام سے چھپا جس میں مفتی صاحب نے مولانا ندوی صاحب کے شکوک وشبہات کا ازالہ کیا ہے اور یہ بات قوی دلائل سے ثابت کی ہے کہ شریعت محمدیہ میں تصویر بنانا، بنوانا اور استعمال کرنا سب حرام ہے۔ یہ مقالہ پڑھنے کے بعد مولانا ندوی صاحب نے بھی اپنے مسلک سے رجوع کر لیا تھا۔

۲۔ نقل ومتبادل کا سدباب واقعی ضروری ہے مگر جائز طریقوں سے، ناجائز سے نہیں۔ تصویر کی حرمت منصوص ہے اور نقل کرنا اورمتبادل بٹھانا احتمالی معاملہ ہے، تو ایک احتمالی عمل کی روک تھام کے لیے منصوص حرام کو کس طرح حلال کیا جا سکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ نقل ومتبادل کی روک تھام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر وفاق المدارس العربیہ کے منتظمین حتی الوسع جائز تدابیر کریں، پھر بھی چند افراد یہ ناجائز کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو کیا وفاق المدارس کے منتظمین گناہ گار ہوں گے؟ میرے ناقص علم کے مطابق وہ بالکل ماخوذ عند اللہ نہیں ہوں گے، کیونکہ یہ بات ان کے اختیار سے باہر ہے۔

۳۔ طلبہ کے لیے امتحان کے دوران تصویر لازم ہونے سے صرف متبادل امیدوار کو روکنے میں کامیابی کا امکان ہے، اس سے نقل کی روک تھام نہیں ہو سکتی، حالانکہ نقل کا رجحان بھی متبادل سے زیادہ ہے اور اس کا نقصان بھی۔ جب فوٹو لازم کرنے سے نقل کا رجحان ختم نہیں ہوتا تو پھر اتنا عظیم گناہ کروانے سے کیا فائدہ؟ پھر یہ کہ اس طریقے سے متبادل کی روک تھام بھی نہیں ہو سکتی، کیونکہ اگر کسی نے دھوکہ دہی کا تہیہ کر رکھا ہو تو اس کا راستہ بند کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اگر ایک راستہ بند کیا جائے گا تو وہ دوسرا راستہ نکال لے گا۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں بہت پہلے سے تصاویر لازم ہیں، مگر جس پیمانے پر وہاں نقل اور متبادل کا طریقہ عام ہے، وفاق المدارس کے امتحان میں اس کا عشر عشیر بھی نہیں ہوتا۔ اگر دل میں تقویٰ اور خوف خدا نہ رہے تو جعل سازی کے لیے بے شمار طریقے نکالے جا سکتے ہیں۔ پھر یہ کہ نقل کرنے اور متبادل بٹھانے والے زیادہ سے زیادہ سو میں پانچ ہوں گے۔ باقی پچانوے طلبہ جن کا دامن اس فعل شنیع سے پاک ہے، ان سے اس گناہ کبیرہ کا ارتکاب کس جرم میں کروایا جائے گا؟ 

۴۔ وفاق المدارس کی تنظیم یوم تاسیس سے لے کر آج تک سارے ادوار میں بڑے بڑے شیوخ الحدیث، متقی اورمتبحر علماء کرام کی سرپرستی میں رہی ہے، اس لیے اس ادارے نے نہ صرف مدارس ومساجد کا تحفظ کیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا بھی تحفظ کیا ہے۔ اس بنا پر عام مسلمان اس ادارے کے ہر فیصلے کو حجت شرعیہ سمجھتے ہیں۔ جب ان کو یہ معلوم ہوگا کہ وفاق نے دوران امتحان مدارس کے طلبہ کے لیے تصویر کو لازم قرار دیا ہے تو ان کا یہ اعتماد ختم ہو جائے گا۔ وہ کہیں گے کہ چودہ سو تیس سال تک علما ہمیں یہ بتاتے رہے کہ فوٹو کھینچنا اور استعمال کرنا منع ہے، اب انھوں نے اپنے لیے اسے جائز کر لیا ہے۔ دین سے بے زار لوگ اس فیصلے کو عوام میں اس طرح اچھالیں گے کہ حرام صرف عوام کے لیے ہے، علما کے لیے کوئی چیز حرام نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس فیصلے کے بعد بے دین لوگ ہر قسم کے فوٹو کو ہر وقت جائز سمجھیں گے اور دلیل یہ پیش کریں گے کہ پھر طلبہ کے لیے اللہ تعالیٰ کے گھر میں کیوں جائز ہے؟

۵۔ وفاق المدارس کے زیر انتظام جیسے بنین کے امتحانات لیے جاتے ہیں، اسی طرح بنات کے امتحانات بھی لیے جاتے ہیں۔ جس بات کو فوٹو کے جواز کے لیے سبب بتایا گیا ہے، وہ بنات کے امتحانات میں بھی موجود ہے تو کچھ عرصے کے بعد ان کے لیے بھی تصاویر کو لازمی قرار دیا جائے گا۔ خدانخواستہ اگر وفاق المدارس نے امتحان کے دوران بنات کے لیے بھی تصاویر کو لازم قرار دیا تو اس دن یہود ونصاریٰ کی این جی اوز جو مسلمانوں میں بے حیائی وفحاشی پھیلانے کے لیے کوشاں ہیں، خوشی سے مٹھائیاں تقسیم کر رہی ہوں گی۔

۶۔ وفاق المدارس کے امتحانات اکثر مساجد کے اندر لیے جاتے ہیں اور مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر اورفرشتوں کا مرکز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مکان میں تصویر ہو، وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔ جب مسجد میں سیکڑوں ہزاروں تصویریں جائیں گی تو اس سے اللہ تعالیٰ کی نورانی مخلوق فرشتوں کا داخلہ ممنوع ہو جائے گا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ بدبودار چیز (پیاز یا لہسن) کھائے تو جب تک اس کے منہ سے بدبو زائل نہ ہو جائے، مسجد میں نہ آئے، کیونکہ فرشتوں کو بدبو سے اذیت ہوتی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ جس امتحان کے دوران فرشتے وہاں نہیں آ سکیں گے، اس علم میں کتنی برکت ہوگی؟

۷۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین۔ تبذیر کی تفسیر آپ حضرات سے ہی یہ سنی ہے کہ مال کو ناجائز کام پر خرچ کیا جائے تو یہ تبذیر ہے اور اگر جائز مصرف پر ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے تو اسراف ہے۔ اب اندازہ لگائیں کہ ایک طالب علم کے تین تصاویر بنانے پر کم از کم چالیس روپے خرچ ہوں گے اور وفاق المدارس کے امتحان میں ایک لاکھ سے زائد طلبہ امتحان میں شریک ہوتے ہیں۔ یوں ایک سال کے امتحان میں چالیس لاکھ روپے تصاویر پر خرچ ہوں گے۔ اتنی خطیر رقم شاید تین چار متوسط مدارس کے سالانہ اخراجات کے لیے کافی ہوگی۔ غور کی بات ہے کہ صرف ایک سال میں چالیس لاکھ روپے فی سبیل الشیطان لگانا اور ایک لاکھ طلبہ کو شیطان کے بھائی بنانا یہ دن کی کون سی خدمت ہے؟

۸۔ ممکن ہے آئندہ سالوں میں یہ فیصلہ بھی صادر کر دیا جائے کہ کوئی طالب علم امتحان گاہ میں پگڑی، قمیص اور شلوار کے ساتھ نہ آئے، بلکہ ننگے سر اور کوٹ پتلون پہن کر آئے کیونکہ پگڑی، قمیص اور شلوار میں نقل کا مواد چھپائے جانے کا امکان زیادہ ہے۔ مظلوم طلبہ مجبوراً اس فیصلے کی بھی تعمیل کریں گے۔

۹۔ امتحان کے لیے تصویر بنوانے کو کرنسی، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ پر قیاس کرنا صحیح نہیں، کیونکہ ان چیزوں کے بارے میں دو قسم کے لوگوں کا حکم الگ الگ ہے۔ اصحاب اقتدار کے لیے کرنسی میں فوٹو چھاپنا اور شناختی کارڈ وپاسپورٹ میں تصویر کو لازم قرار دینا حرام ہے کیونکہ یہ ان کے اختیار میں ہے کہ ان چیزوں سے فوٹو کو ختم کر دیں، مگر رعایا کے لیے ان چیزوں میں تصویر لگانا اور ان چیزوں کو گھر میں اور جیبوں میں رکھنا جائز ہے، کیونکہ وہ بے چارے مجبور ہیں۔ چونکہ ہمارے حکمران یہود ونصاریٰ کے غلام ہیں، وہ شرعی احکام کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ صرف امریکہ وبرطانیہ کے اشاروں پر چلتے ہیں، اس لیے وہ حرام کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مگر آپ حضرات تو امت مسلمہ کے مقتدا ہیں، پوری امت کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں۔ آپ حضرات کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے، کیونکہ آپ کی معمولی سی غلطی سے پوری امت غلطی میں پڑ جائے گی۔ ہمیں یہ وہم وگمان بھی نہ تھاکہ آپ حضرات صریح نصوص کے خلاف فیصلہ صادر فرمائیں گے۔ آپ کو تو یہ چاہیے کہ اصحاب اقتدار سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ کرنسی اور شناخی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ سے تصویر کو ختم کریں، مگر صد افسوس کہ آپ نے خود تصویر کو لازم قرار دے دیا۔

چوں کفر از کعبہ برخیزد کجا ماند مسلمانی

ایک حدیث میں آیا ہے کہ من سن فی الاسلام سنۃ سیءۃ فعمل بہا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بہا (مسلم ج ۲ ص ۳۴۱) اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ آپ کا فیصلہ اس حدیث کا مصداق بن جائے۔

۱۰۔ تقریباً پچاس سال سے وفاق المدارس کے زیر اہتمام سالانہ امتحانات لیے جا رہے ہیں۔ اس پورے عرصے میں ہمارے اکابر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا محمد ادریس، حضرت مولانا عبد الحق، حضرت مولانا مفتی محمود رحمہم اللہ نے ضرورت کے باوجود تصویر کو لازم کرنا تو دور کی بات، اس کی اجازت تک نہیں دی۔ آج بھی ان حضرات پر اعتماد کر کے ان کی پیروی انتہائی ضروری ہے۔

ان سب وجوہ کی بنا پر آپ حضرات سے انتہائی مودبانہ عرض اور التجا ہے کہ خدا کے لیے اس فیصلے کو واپس لیجیے۔ یہ آپ کا علما، طلبہ، عوام الناس اور پوری امت پر بڑا احسان ہوگا اور ہم قیامت تک آپ کے لیے دعائیں کرتے رہیں گے۔ 

اگر اس خط میں نادانستہ ایسے الفاظ درج ہو گئے ہوں جن سے آپ کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں اس پر ہزار دفعہ معافی مانگتا ہوں۔ واللہ، میرے دل میں آپ حضرات کے ساتھ عقیدت میں کوئی کمی نہیں۔ یہ خط خالصتاً خیر خواہی کی بنا پر لکھا ہے۔

سخی داد خوستی، ژوب

مکاتیب

(مارچ ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter