قومی و ملی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت (۳)

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

راقم الحروف نے مختلف دوستوں کے سوالات پر تحریک تحفظ ناموس رسالت کی قیادت میں اہل تشیع کی شمولیت کے مسئلے پر اپنے موقف کی وضاحت کی تھی جو روزنامہ اسلام میں ۱۱؍ فروری ۲۰۱۱ء کو ’’نوائے حق‘‘ کے عنوان سے میرے مستقل کالم کی صورت میں شائع ہوئی۔ اس پر محترم جناب مولانا محمد یونس قاسمی نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے جو مذکورہ کالم کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ مولانا قاسمی کی شکایت یہ ہے کہ اکابر کے فیصلے بدلتے رہتے ہیں جبکہ میں نے اس کالم میں ہی اس کے بارے میں عرض کر دیا تھا کہ کسی کو کافر قرار دینے یا مسلمان تسلیم کرنے کا دائرہ الگ ہے اور معاشرتی روابط اور مشترکہ تحریکات میں اشتراک عمل کا دائرہ اس سے مختلف ہے جس کی واضح مثال موجود ہے کہ دور نبوی میں عبد اللہ بن ابی اور اس کے ٹولے کو قرآن کریم کی نص قطعی میں کافر قرار دیے جانے کے باوجود جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرتی طور پر انھیں الگ نہیں کیا بلکہ ان کی تمام تر خرابیوں اور غلط کاریوں کے ہوتے ہوئے بھی انھیں اجتماعی معاملات میں اپنے ساتھ شریک رکھا، اس لیے کہ انھیں معاشرتی طور پر الگ کرنے اور ان کے خلاف کوئی سخت کارروائی کرنے میں اس دورکے حالات میں مصلحت نہیں تھی۔

ہمارے اکابر کا طریقہ بھی یہی چلا آ رہا ہے کہ کفر کے فتووں کے باوجود مشترکہ قومی معاملات اور اجتماعی تحریکات میں اہل تشیع کو اپنے ساتھ شریک رکھا ہے اور اس میں کوئی تعارض اور الجھن کی بات نہیں ہے۔ اس سلسلے میں علماء کرام کے متفقہ ۲۲ نکات، ۵۳ء کی تحریک ختم نبوت، ۱۹۷۳ء کے دستور، ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت، ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی اور ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت کا حوالہ مذکورہ کالم میں دیا جا چکا ہے۔ اس کے ساتھ اس تسلسل میں چند اور تحریکات کا اضافہ بھی کرنا چاہتا ہوں۔

  • بھارت میں مسلمانوں کے شرعی خاندانی قوانین کے تحفظ کے لیے ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘‘ کا مشترکہ پلیٹ فارم موجود ہے جس کے پہلے سربراہ حضرت مولانا قاری محمد طیبؒ ، دوسرے سربراہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ، تیسرے سربراہ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ تھے جبکہ اب اس کے سربراہ حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی مدظلہ ہیں اور اہل تشیع اس بورڈ کا نہ صرف مسلسل حصہ ہیں بلکہ ممتاز شیعہ علما اس کے مرکزی عہدہ دار بھی چلے آرہے ہیں۔
  • ایران میں اہل سنت کے بزرگ عالم دین حضرت مولانا عبد العزیز رحمہ اللہ تعالیٰ جو حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کے تلامذہ میں سے تھے، ایرانی انقلاب کے بعد اس کی مرکزی کونسل اور دستور ساز اسمبلی کے ممبر رہے ہیں اور ایرانی دستور کی تشکیل میں ان کا اہم کردار ہے۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی اور دوسرے علماء کرام کے ساتھ مجھے ۱۹۸۷ء میں ایران جانے کا موقع ملا تو ہم نے ایران میں حضرت مولانا عبد العزیز سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ انھوں نے ایرانی انقلاب اور دستور میں اپنے کردار کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ فرمایا، البتہ یہ شکایت کی کہ اب ایرانی راہ نماؤں کا رویہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے اور وہ ان کی باتوں پر پہلے کی طرح توجہ نہیں دیتے۔
  • افغانستان میں روسی استعمار کے خلاف جہاد میں اہل سنت کی نصف درجن کے لگ بھگ جہادی تنظیموں کے ساتھ ساتھ اہل تشیع کی ’’حزب وحدت‘‘ بھی جہاد افغانستان کا حصہ رہی ہے اور ان تنظیموں کے درمیان اس دور میں اشتراک وتعاون بھی رہا ہے۔
  • دینی مدارس کے تحفظ کے لیے تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کے وفاقوں کے اتحاد ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ میں وفاق المدارس الشیعہ شامل ہے جس کا ذکر محترم مولا نا محمد یونس قاسمی نے بھی اپنے مضمون میں کیا ہے۔

اس لیے مولانا محمد یونس قاسمی صاحب کی خدمت میں گزارش ہے کہ اصل الجھن انھیں صرف اس وجہ سے ہو رہی ہے کہ وہ دونوں الگ الگ دائروں میں فرق نہیں کر پا رہے۔ اگر اس فرق کو وہ سنجیدگی سے محسوس کر لیں تو انھیں اکابر کے طرز عمل میں نہ کوئی تضاد نظر آئے گا اور نہ ہی یہ شکایت ہوگی کہ بزرگوں نے پہلے فیصلوں کے بعد نیا فیصلہ کرنے میں متعلقہ دوستوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اکابر کے فیصلے فتووں کے دائرے میں مسلسل وہی چلے آ رہے ہیں جو پہلے سے موجود ہیں اور معاشرتی روابط اور دینی تحریکات کے دائرے میں بھی ان کے فیصلوں کے تسلسل میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ صرف دائروں کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد کسی دوست کے ذہن میں کوئی الجھن باقی نہیں رہے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

مکاتب فکر

(مارچ ۲۰۱۱ء)

تلاش

Flag Counter