مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نامور عالم دین اور اسلامی سکالر کی حیثیت سے معروف ہیں۔ پاکستان شریعت کونسل کے سربراہ، الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کے ڈ ائریکٹراور جامعہ نصرت العلوم گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ روزنامہ اسلام کے مستقل کالم نگار اور متعد د کتب و رسائل کے مصنف بھی ہیں۔ عالم اسلام میں پائے جانے والے مختلف عنوانات پر اختلافات کے خاتمے کے لیے محققانہ گفتگو اور مکالمہ کو اہمیت دیتے ہیں۔ مولانا موصوف نے روزنامہ اسلام میں ۱۱ فروری کو ’’اکابر کے فیصلوں پر اعتماد کیا جائے‘‘ کے عنوان سے ایک فکر انگیز کالم تحریر فرمایا ہے جس میں انہوں نے تحریک تحفظ ناموس رسالت میں اہل تشیع کی شمولیت کے متعلق اٹھائے جانے والے بعض سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے اور یہ اپیل کی ہے کہ اکابر پر مکمل اعتماد کیا جائے اور ان کے فیصلہ جات کا احترام کیا جائے۔ اکابر پراعتماد اور ان کے فیصلہ جات کا احترام یقیناہم سب پر لازم ہے اور ان فیصلہ جات سے کسی صورت بھی روگردانی نہیں ہونی چاہیے، مگر مشکل اس وقت پیش آتی جب اکابر کی طرف سے نئے فیصلہ جات سامنے آتے ہیں اور سابقہ فیصلہ جات کے ذریعے ایک راستہ اور منزل متعین کر کے جن لوگوں کو اس راستے پر چلایاگیا تھا، انہیں اعتماد میں بھی نہیں لیا جاتا۔ اگر سابقہ فیصلہ جات کی ضرورت اب ختم ہوگئی ہے اوران پر جتنا کام ہونا چاہیے تھا، وہ پورا ہوچکا ہے اور وہ تمام فیصلے اب کالعدم ہوگئے ہیں تو اس بات سے آگاہ کرنا اور اعتماد میں تو لیا جانا چاہیے۔
تحریک تحفظ ناموس رسالت یا اس طرح کی دوسری تحاریک میں قومی ضروریات کو مدنظر رکھ کر اس میں اثناعشری اہل تشیع کی شمولیت کو جائز ثابت کرنے کے لیے قیام پاکستان سے لے کر اب تک مختلف چلائی جانے والی تحاریک کے حوالے دے کر بڑے خوبصورت انداز میں مولانا زاہد الرشدی صاحب نے اپنا مؤقف بیان کیا ہے، مگر ان چند ایک واقعات کے علاوہ اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ سے کوئی ایک واقعہ بھی پیش نہیں کرسکے جس سے یہ ثابت ہو کہ منکرین ختم نبوت کے خلاف چلائی جانے والی تحاریک میں خود منکرین ختم نبوت کو بھی شامل کیا گیا ہو۔ حضرات تابعین کے دور سے یہ فتاویٰ اور فیصلے چلے آرہے ہیں کہ خاتم المعصومین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر، صحابہ کرامؓ کے ایمان کا انکار کرنے والے، شیخینؓ کی صحابیت کا انکار کرنے والے اورقرآن کریم میں تحریف کے قائل لوگوں کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ پھر اہل تشیع اثنا عشری کے متعلق انہی عقائد باطلہ کی وجہ سے وقت کے مقتدر اور محقق علمائے کرام نے تکفیر کا فیصلہ صادر فرمایا اور خود مولانا زاہد الراشدی صاحب اور ان کے والد گرامی امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا بھی یہی فیصلہ اور فتویٰ ہے، جیساکہ مولانا راشدی صاحب کے مذکورہ کالم اور امام اہل سنت ؒ کی کتاب ’’ارشاد الشیعہ‘‘ سے ظاہر ہوتا ہے۔ تحریک تحفظ ناموس رسالت میں اس وقت جتنے اکابر علمائے کرام شامل ہیں، ان سب کے یہی عقائد ونظریات ہیں کیونکہ ان سب حضرات نے اہل تشیع کے متعلق جاری ہونے والے متفقہ فیصلہ پر اپنے تائیدی دستخط ثبت فرمائے ہیں۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس متفقہ فیصلہ کے بعد ایک اور فتویٰ (جسے متفقہ فیصلہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گاکیونکہ اس فتویٰ پر پاکستان،بنگلہ دیش اور برطانیہ کے اکابر علماء ومفتیان کے علاوہ سینکڑوں جید علماء کرام ومفتیان عظام کے دستخط موجود ہیں) چند سال قبل اس وقت سامنے آیا جب اہل تشیع اثنا عشری کو مسلمان قرار دے کر ایک سیاسی مذہبی اتحاد ’’متحدہ مجلس عمل‘‘اور اہل تشیع اثنا عشری کے تعلیمی اداروں کو دینی ادارے قرار دیتے ہوئے دینی مدارس کے اتحاد ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ‘‘ میں شامل کیا گیا۔ اس فتویٰ میں پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’’ان کے ساتھ تمام تعلقات اور دیگر مراسم اسلامیہ رکھنا ہرگز جائز نہیں کیونکہ یہ لوگ اس قسم کے تعلقات سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں،اپنے غلط عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں اور دوسروں کے سامنے ان تعلقات کو بطور دلیل پیش کر کے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ ان کے مذہبی اداروں اور تنظیموں کو دینی واسلامی کہنے سے اپنے ایمان کو خطرہ ہے۔‘‘ یادرہے کہ تحریک تحفظ ناموس رسالت میں اہل تشیع اثنا عشری کی تنظیم کو اسلامی تنظیم قرار دے کر اتحاد میں شامل کیا گیا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک چلائی جانے والی تمام تحاریک میں اہل تشیع شامل رہے ہیں تو اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ ایسے ہر اتحاد اور ہر واقعہ پر کم ازکم دس، دس صفحے لکھے جاسکتے ہیں لیکن انتہائی ادب سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ان تمام’’ حقائق‘‘ سے شیخ المشائخ حضرت خواجہ خان محمدؒ ، فقیہ العصر حضرت مفتی عبد الستارؒ ، امام اہل سنت مولانا سرفراز خاں صفدرؒ ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی امیر، شیخ الحدیث مولاناعبدالمجید لدھیانوی، مفتی عبد القیوم ہزاروی، شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ، شیخ الحدیث مفتی غلام قادر ؒ دارالہدیٰ ٹھیڑی اور حضرت مفتی محمدزرولی خان سمیت دیگرسینکڑوں اکابر علماء اور مفتیان عظام واقف نہ تھے؟ کیونکہ ان تمام اکابر نے علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ کے موقف کی تائید اس وقت فرمائی جب یہ تمام تاریخی واقعات موجود تھے۔ اس سے پہلے دارالعلوم دیوبند میں ۲۹، ۳۰، ۳۱؍اکتوبر ۱۹۸۶ء کو عالمی اجلاس برائے تحفظ ختم نبوت منعقد ہوا تھاجس میں باقاعدہ ایک قرارداد پاس کی گئی جس کا متن کچھ یوں ہے کہ ’’یہ اجلاس اعلان کرتا ہے کہ شیعہ اثنا عشری مسلک جو فی زمانہ دنیا کے شیعوں کی اکثریت کا مسلک ہے اور ایران میں اس مسلک کے ماننے والوں کے ذریعے ماضی قریب میں ایک انقلاب برپا ہوا ہے، جس کو اسلامی انقلاب کہہ کر عالم اسلام کو زبردست دھوکہ دیا جاریا ہے، اس مسلک کا بنیادی عقیدہ، عقیدہ امامت براہ راست ختم نبوت کا انکار ہے۔ اسی بنا پر حضرت شاہ ولی اللہؒ نے صراحت کے ساتھ ان کی تکفیر کی ہے۔لہٰذا یہ اجلاس برائے تحفظ ختم نبوت اعلان کرتاہے کہ یہ مسلک موجب کفر اور ختم نبوت کے خلاف پرفریب بغاوت ہے۔ نیز یہ اجلاس تمام اہل علم سے اس فتنہ کے خلاف سرگرم عمل ہونے کی اپیل کرتا ہے۔‘‘ (ازاداریہ ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ دیوبند، بابت ماہ جنوری ۱۹۸۷)
میری گزارشات کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اکابر علماء کرام کے فیصلوں یا فتاویٰ پر اعتماد سب کرتے ہیں، چند ایک ایسے ہیں جن کے لیے ان فیصلوں میں تمیز کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس فیصلے پر اعتماد کریں۔اہل تشیع اثنا عشری کے متعلق اکابر علماء کرام کے دو متفقہ فیصلے موجود ہیں۔ ان کی موجودگی میں کوئی اورفیصلہ کرنے سے قبل ان دو فیصلوں کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے اور کم ازکم اکابر کے ان دوفیصلوں کی روشنی میں جدوجہد کرنے والی جماعتوں اور شخصیات بلکہ جنھیں اکابر نے یہ جدوجہد کرنے پر آمادہ کیا تھا، ان کو اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے۔ آج جنھیں اکابر کے فیصلوں پر اعتماد نہ کرنے کا طعنہ دیا جا رہا ہے، وہ تو بطریق اولیٰ اکابر کے ان فیصلوں پر اعتماد کر رہے ہیں اور ان فیصلوں کے احترام میں پانچ عظیم المرتبت قائدین، دو ہزار پانچ سوسے زائد افراد کی قربانی پیش کرچکے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اس سے قبل شاید ہی تاریخ اسلامی میں کوئی ایسی تحریک موجود ہو جس نے اکابر کے فیصلوں پر اعتماد کرتے ہوئے اتنی بڑی قربانی دی ہو۔ جو لوگ اتنی بڑی تعداد میں شہید ہونے والوں کے امین اور وارث ہوں، وہ کیسے اپنے قائدین اور کارکنوں کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں اور کیسے اکابر کے ان فیصلوں سے منحرف ہوسکتے ہیں؟ مگر پھر بھی شکوہ انہی سے کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں موجودہ اکابر علماء کرام سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کا ادراک کرتے ہوئے مل بیٹھ کر اتفاق رائے سے فیصلے کریں اور نئے فیصلے کرنے سے قبل اپنے سابقہ فیصلہ جات کو مدنظر رکھیں تاکہ کہیں کو ئی اختلافی صورت حال پیدا نہ ہوسکے۔