یادش بخیر! ۲۹۵۔سی کے حوالے سے ہم پہلے بھی اپنی نپی تلی رائے دے چکے ہیں کہ پاکستان کی اقلیتیں خصوصاً مسیحی اس کی روح اور نفاذکے قطعی خلاف نہیں کیونکہ اس قانون کا نفاذ واطلاق اہل اسلام کے دینی اور قلبی جذبات واحساسات کا انتہائی حساس مسئلہ ہے اور شایدا سی لیے جب پہلے پہلے قومی اسمبلی نے اس کی منظوری دی اور پھر بعدا زاں شریعت کورٹ نے اس جرم کی کم از کم سزا موت قرار دی تو اقلیتی حلقوں نے اس سے کوئی تعرض نہ کیا بلکہ اس وقت کے اقلیتی ایم این اے عمانوئیل ظفر نے کریمنل لاء امینڈمینٹ بل ۱۹۸۶ء کی منظوری کے دوران جو وزیرمملکت برائے عدل وپارلیمانی امور میر نواز خان سومرو نے پیش کیا تھا، اس قانون کو متفقہ طور پر پاس کرنے پر اسپیکر قومی اسمبلی کو مبارک باد بھی دی، کیوں کہ ظاہر ہے کہ ۹۵ فی صد سے بھی زائد مسلم اکثریت کے ملک میں کوئی پاگل اور فاتر العقل شخص ہی دانستہ ۲۹۵۔سی کے جرم کا ارتکاب کر سکتا ہے یا اس کی مخالفت کر سکتاہے او ر غالباً یہی وجہ ہے کہ اس وقت وطن عزیز کے کسی حلقے کی طرف سے بھی اس قانون کی مخالفت نہیں کی گئی، کیوں کہ بادی النظر میں دیکھا جائے تو صحیح الدماغ شخص، وہ خواہ کسی مذہب و عقیدہ یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو، اس کا مرتکب ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن یہ صورتحال گھمبیر اس وقت ہوئی جب اس قانون کی آڑ میں ذاتی، مسلکی اور سیاسی دشمنیوں اور اختلافات کے تحت کثرت سے مقدمات درج ہونے لگے اور پھر اسے مذہبی سے زیادہ جذباتی اور سیاسی مسئلہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔ ہم آج بھی صدق دل سے ۲۹۵۔سی کی حقیقی روح کے حق میں ہیں۔ کسی بھی شخص کو بانی اسلام رسول کریم کی شان میں گستاخی کی معافی نہیں دی جا سکتی۔ خواہ کوئی بھی اس کا مرتکب ہو یا کسی کے بھی مذہبی جذبات مجروح کرنے کا باعث ہو، اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، لیکن ہماری تو صرف یہ گزارش ہے کہ آج تک جتنے بھی مقدمات اس قانون کے تحت درج ہوئے، ان کے ملزموں کو وطن عزیز کی عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ نے باعزت بری کر دیا، کیوں کہ ان پر یہ الزام جھوٹا اور ذاتی یا مسلکی دشمنی ثابت ہوا، لہٰذا اسی بنیاد پر مطالبہ کیا جانے لگا کہ اس قانون میں ترمیم کر کے جھوٹا الزام لگانے والوں کو بھی یہی سزا دی جائے، کیوں کہ لامحالہ یوں یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ الزام لگانے والوں اور استغاثہ نے جو کہانی گھڑی تھی، اس کے تحت وہ خود توہین کے مرتکب ہوئے ہیں۔ یعنی ترمیم کا مطالبہ اس قانون کی روح کو ختم کرنانہیں، بلکہ اس قانون کے غلط اور ناجائز استعمال کو روکنا اور بے گناہ کو موت کے پھندے سے بچانا ہے اور دنیا کا کوئی انصاف پسند شخص اور خدائے برحق پر ایمان رکھنے والا کبھی نہیں چاہے گا کہ کسی بے گناہ کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے یا اسے سرعام قتل کر دیاجائے، لہٰذا اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ترمیم کا مطالبہ اقلیتوں کا ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی، روشن خیال حلقوں بلکہ جید علماء کرام بھی اس کے حق میں ہیں کہ کسی بے گناہ کو ناکردہ گناہ کی سزا نہیں ملنا چاہیے۔
گورنر سلمان تاثیر بھی اس قانون کے غلط استعمال کو روکنے اور کسی بے گناہ کو سزا نہ دینے اورحق وانصاف کا بول بالا کرنے کی پاداش میں قتل کر دیے گئے۔ اگر چہ ہم سمجھتے ہیں کہ گورنر سلمان تاثیر کی نیک نیتی اور انسانی ہمدردی کے جذبات اپنی جگہ قابل تحسین ہیں، لیکن ان کا آسیہ بی بی کی سیشن کورٹ ننکانہ سے سزائے موت کے فیصلہ کے خلاف صدر سے رحم کی اپیل بہت قبل از وقت تھی۔ ابھی تو عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ میں محترمہ آسیہ بی بی کے بارے میں کیس موجود تھا اور ہے۔ اسی طرح ہم پاپائے اعظم بینی ڈکٹ اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ کی طرف سے آسیہ بی بی کی رہائی اور ۲۹۵۔سی کی منسوخی کے مطالبہ کو بھی بے محل، بے موقع اور لاحاصل سمجھتے ہیں، کیوں کہ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ آسیہ بی بی کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ پھر سپریم کورٹ میں بھی اپیل کی جا سکتی ہے۔ اس صورت حال میں ان بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جب کہ موجودہ معروضی صورتحال میں ٹھنڈے دل سے مذہبی یا جذباتی نہیں بلکہ متوازن فکر، اعتدال پسندی اور خالص انسانی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کو حل کرنے اور طرفین کو قائل کرنے کی ضرورت ہے۔
مندرجہ بالا حقائق وواقعات کی روشنی میں ہماری گزارش ہے کہ عموماً مقدمہ کے اندراج اور سیشن جج کی حد تک ۲۹۵۔سی کے ملزموں کو سزادینے کے لیے پولیس اور عدالت پر مقامی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال سیشن کورٹ ساہیوال میں ایوب مسیح کا کیس بھی ہے جسے مقامی پریشر کی بنیاد پر سیشن کورٹ سے سزا ئے موت دی گئی جس کے فیصلے کے خلاف ڈاکٹر جان جوزف پی ایچ ڈی کا تھولک بشپ آف فیصل آباد نے سیشن کورٹ کے سامنے احتجاجاً خود کشی کر لی تھی، لیکن تاریخ گوا ہ ہے کہ ایوب مسیح کو سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا تھا۔ اس موقعہ پر بشپ ڈاکٹر جان جوزف کا خود کشی کا اقدام بھی ’’جذباتی‘‘ اور قبل از وقت سمجھا گیا۔ یہاں ایک اور واقعہ بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ سیشن کورٹ کا پریشر مزید سنگین صورت اختیار کر گیا جب لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عارف اقبال حسین بھٹی نے توہین رسالت کے ملزموں سلامت مسیح اور منظور مسیح کو مقامی لاء جیورسٹ کی معاونت سے کیس کی مکمل چھان بین کے بعد بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا جب کہ اس کا ساتھی منظور مسیح عدالت کے فیصلے سے قبل ہی ماورائے عدالت، تاریخ پیشی بھگتنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے باہر گیٹ پر قتل کر دیا گیا تھا۔ بعدا زاں اس حق وانصاف پر مبنی فیصلہ کی ’’پاداش‘‘ پر جسٹس عارف اقبال بھٹی کو ان کے چیمبر، نر نر روڈ لاہور پر دن دیہاڑے اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جس وقت ملکہ برطانیہ لاہورکے دورے پر مال روڈ پر گزر رہی تھی۔ جب صورت حال یہ ہو تو پھر کون جج حق وانصاف کے تحت بے گناہ ملزموں کے حق میں فیصلہ کرنے کا رسک لے گا؟ جب کہ جھوٹا مقدمہ درج کرانے والوں کے لیے قانون میں کوئی سزا نہیں ہے۔ اس طرح تو جب جس کا جی چاہے، اپنے ذاتی مخالف کو تختہ دار پر پہنچا دے، اس کابال بھی بیکا نہ ہوگا۔ پھر یہ نکتہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ -295سی کا کیس درج کرتے وقت مکمل چھان بین، حزم واحتیاط اور تحقیق صحت مقدمہ کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے قانون سازی ہونا چاہیے کیوں کہ اس الزام کے بعد ملزم اگر عدالت سے بری بھی ہو جائے تو اس کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی اور اسے ہجرت کرنا پڑتی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے گزشتہ چیئرمین کے دور میں خود اسلامی نظریاتی کونسل بھی اس میں اس نوع کی ترمیم کی سفارش کر چکی ہے جس کی اس وقت کسی نے مخالفت نہ کی، بلکہ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے حوالے سے ان سفارشات کو سراہا گیا تھا۔
۲۹۵۔سی کے غلط استعمال کے خلاف جب بھی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو ہرقانون کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قتل کی دفعہ ۳۰۲ اور دیگر پینل کوڈ کے بڑے بڑے جرائم سے متعلق قوانین کا حوالہ دیاجاتاہے اور کہا جاتا ہے کہ کیا ان کو بھی منسوخ کر دیا جائے یا ان میں بھی ترمیم کی جائے؟ بظاہر یہ دلیل بذات خود خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے، لیکن ۲۹۵۔سی اور ۳۰۲ اور دیگر سنگین دفعات میں خاصا فرق ہے۔ اول یہ کہ ۳۰۲ میں سزائے موت کے علاوہ عمر قید اور قصاص ودیت کے تحت معافی کی بھی گنجائش ہے جب کہ ۲۹۵۔سی میں کم از کم سزا موت ہے اور اس میں کوئی معافی یا تلافی کی گنجائش نہیں۔ پھر جب یہ الزام کسی غیر مسلم پر لگایاجاتا ہے تو نہ صرف وہ شخص ماورائے عدالت بھی قابل گردن زدنی سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کے خاندان اور بعض حالتوں میں اس کی پوری کمیونٹی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے جس کی مثال گوجرہ اور کوریاں کا المناک واقعہ ہے جس میں قرآن پا ک کی بے حرمتی کے ایک شخص پر جھوٹے الزام کی بنیاد پر پوری بستی کو نذر آتش کر دیا گیا جس میں کئی جانیں اور مقدس بائبل کی کئی جلدیں بھی جل کر خاکستر ہو گئیں۔ اسی طرح شانتی نگر، سانگلہ ہل، باہمنی والہ قصور کے تازہ واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں جس کی عدالتی تحقیقات میں یہ الزام کسی پر ثابت نہ ہو سکا، لیکن جھوٹا الزام لگانے والے آج بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ اس جھوٹے الزام کی پاداش میں کتنے گھر تباہ وبرباد ہوئے، کتنے مذہبی جذبات مجروح ہوئے، اس کی ہائی کورٹ کے جج نے تحقیقات بھی کیں جسے آج تک منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ لیکن نہ تو شانتی نگر، نہ ہی سانگلہ ہل اور نہ ہی گوجرہ کے المناک واقعات میں ملوث ملزموں کو سزا ملی جب کہ جو گرجہ گھر اور عبادت گاہیں جلاد ی گئیں، بائبل مقدس کو خاکستر کر کے اس کی بے حرمتی کی گئی، لوگوں کی املاک تباہ ہوئیں اور عزت وناموس پامال ہوئی اور سب سے بڑھ کرجو وطن عزیز کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی اور خود مذہب اسلام پر جو حرف آیا، اس کے مرتکبین آج بھی سزا سے ماورا ہیں۔ اس تمام تفصیل سے صرف اتنی عرض ہے کہ ۲۹۵۔سی کے غلط محرکات، جھوٹے مقدمات اور الزامات کی سنگینی کو واضح کریں اور حق وانصاف کے ان تمام تقاضوں اور دعووں کے حوالے سے یہ گزارش کریں، جن پر تمام اہل مذاہب کا اتفاق ہے کہ بے گناہ اور معصوم جانوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا نہیں ملنی چاہیے۔ اس قانون کے تحت صرف غیر مسلم ہی ستم رسیدہ نہیں بلکہ کئی اہل اسلام بھی اس کے تحت ذاتی دشمنی، مسلکی اور سیاسی اختلافات کی نذر ہو چکے ہیں اور آج بھی پابند سلاسل ہیں، جب کہ کوئی مسلمان گستاخ رسول ہو ہی نہیں سکتا جس کی تازہ مثال گورنر سلمان تاثیر ہیں اورماضی قریب میں گوجرانوالہ کے حافظ قرآن فاروق احمد ہیں جنہیں قرآن مجید کی توہین کے جھوٹے الزام کی پاداش میں نہایت ذلت اور تذلیل کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور ان کی لاش کو موٹر سائیکل کے پیچھے باندھ کر گھسیٹا گیا جب کہ وہ قاری اور حافظ قرآن مجید بھی تھے۔ بقول علامہ اقبالؒ
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
لیکن ان کے قاتلوں کو بھی کوئی سزا نہ دی گئی۔ یوں نادانستہ طورپر جھوٹا الزام لگانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی۔ اس تمام تر بحث کے بعد ہماری علمائے اسلام سے اتنی سی گزارش ہے کہ ہم ۲۹۵۔سی سمیت تمام قوانین کا اور ان کے جذبات کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں، لیکن ان سے حق وانصاف کے مسلمہ اصولوں اور تمام بانیان دین حق کے نام پر اپیل کرتے ہیں کہ وہ بھی اپنی کٹر رائے پر نظر ثانی کریں اور اس قانون کے غلط اور جھوٹے الزام لگانے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے آواز بلندکریں اور توہین رسالت کے مرتکب کاذب اور مفتری کو بھی اسی سزا کا مستحق قرار دے کر بے گناہوں اور ناکردہ گناہوں کی سزا پانے والوں کی داد رسی کا پیغمبرانہ کردار ادا کریں۔ یوں یہ امرخدائے عزوجل کی خوشنودی حاصل کرنے اور فلاح انسانیت کا باعث بھی ہوگا، خواہ اس کے لیے الگ قانون سازی ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اس طرح ملک وقوم مزید انتشار اور عالمی سطح پر بدنامی سے بھی بچ جائیں گے اور وطن عزیز میں تمام اہل وطن سکھ کا سانس لیں گے اور اس اقدام اور صحت مندرویے سے اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرنے والوں، جھوٹا الزام لگانے والوں اور اس الزام کے تحت قانون ہاتھ میں لینے والوں کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس الزام بلکہ کسی بھی الزام کے تحت ماورائے عدالت قتل توہین انسانیت اور قتل انسانیت کے مترادف ہے، کیوں کہ کسی کو بھی یہ اختیار نہیں دیاجا سکتا کہ وہ قتل کے بدلے خود قتل کرے اور کسی بھی ملزم کو ماورائے عدالت قتل کر دے۔
مقام افسوس ہے کہ یہ روایت چل پڑی ہے، مدعی خود ہی منصف بن بیٹھے ہیں بلکہ ’’خود ذبح بھی کرے ہیں اور لیں ثواب الٹا‘‘ اور اگر یہی صورتحال رہی تو وطن عزیز میں جنگل کا قانون رائج ہونے کے امکانات ہیں۔ آج اقلیتی حلقوں میں گورنر تاثیر کے قتل کے بعد خوف وہراس، عدم تحفظ، بے اطمینانی، بے دلی اور مایوسی کی فضا پھیل گئی ہے جسے دور کرنے کے لیے ان کے تحفظات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ دیگر اہل وطن کے شانہ بہ شانہ حسب سابق ملک وقوم کی سالمیت اور استحکام کے لیے اپنا کردار بلاخوف وخطر ادا کرتے رہیں۔ امید ہے ہماری گزارشات کے حوالے سے اس مسئلہ کا مثبت حل تلاش کرنے کی طرف جلد پیش رفت ہو گی اور ارباب بست وکشاد اور علمائے کرام اسے محض مذہبی مسئلہ نہ سمجھتے ہوئے اس کے انسانی پہلوؤں پر بھی توجہ دیں گے کہ شرف انسانیت ہر دین کی بنیاد ہے۔
(بشکریہ ماہنامہ شاداب، لاہور)