’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘

پروفیسر محمد فاروق حیدر

سماجی بہبود عصر حاضر کا ایک اہم موضوع ہے جس پر تصنیف وتالیف کے علاوہ عملی طور پر کی جانے والی کوششیں نمایاں ہیں۔ خاص طور پر مغرب اور اس کے زیر سایہ تنظیمیں (NGOs) جو ظاہری طور پر انسانیت کی فوز وفلاح، ترقی اور خدمت میں مصروف عمل دکھائی دیتی ہیں، گزشتہ چند سالوں سے ان کے انسانیت سوز مظالم سے ان کا چھپا ہوا گھناؤنا روپ اب کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہا، کیونکہ سماجی بہبود کا جو جذبہ ان میں کارفرما ہے، اس کی بنیاد نام ونمود اور دوسروں کے وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر اپنے ملکی وقومی مفادات جیسے عزائم ہیں۔ لیکن خدمت انسانیت، سماجی بہبود، رفاہ عامہ اور فلاح انسانیت کے ہم معنی موضوعات اہل اسلام کے لیے نئے نہیں ہیں، بلکہ اس کی علمی اور عملی بنیادیں سرور عالم، غریبوں کے والی، آقاے دو جہاں محمد مصطفی کی سیرت سے ملتی ہیں جن کو عملی شکل دے کر مسلمانوں نے ایک تاب ناک تاریخ رقم کی ہے۔ فاضل مولف ڈاکٹر ہمایوں عباس شمس جو جی سی یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، کی زیر نظر کتاب ’’سماجی بہبود تعلیمات نبوی کی روشنی میں‘‘ خدمت انسانیت کے لیے ٹھوس فکری وعملی بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ سیرت نبوی کے ایک خاص پہلو یعنی سماجی بہبود کو اس میں موثر انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔ کتاب کے عنوانات کی فہرست حسب ذیل ہے:

باب اول میں رفاہ عامہ اور سماجی بہبود کے معنی ومفہوم اور اس سے متعلق بنیادی امور پر بحث کی گئی ہے۔ باب دوم میں رفاہ عامہ کے سلسلے میں نبی کریم ﷺ کے عملی اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں دیگر مباحث کے علاوہ معجزات نبوی سے سماجی بہبود کا استخراج ایک دل چسپ پہلو ہے جو مصنف کی تخلیقی سوچ کا آئینہ دار ہے۔ باب سوم میں رفاہ عامہ کی اہمیت قرآن کریم کی روشنی میں بیان کی گئی ہے اور ’کان خلقہ القرآن‘ کو بنیاد بنا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی روشنی میں موضوع کی وضاحت کی گئی ہے۔ باب چہارم میں احادیث کی روشنی میں رفاہ عامہ کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے اور کتب حدیث کے مختلف ابواب کو سماجی بہبود کی بنیاد بتایا گیا ہے، مثلاً باب الاصلاح بین الناس، باب التحذیر من ایذاء الصالحین والضعفۃ والمساکین، باب الاحسان الی الیتیم والارملۃ والمساکین وغیرہ۔ پانچویں اور آخری باب میں سماجی بہبود کے دیگر مختلف پہلوؤں کو تعلیمات نبوی کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ آخر میں سماجی بہبود میں صوفیا کے کردار کا ضمیمہ لگا کر کتاب کی اہمیت کو دوچند کر دیا گیا ہے۔ 

مذکورہ عنوانات کتاب کے موضوع سے گہرے طور پر متعلق ہیں اور مصنف نے ان کو علمی انداز میں موضوع بحث بنایا ہے۔ اس طرح سیرت نبوی کے مطالعہ اور ایک اہم سماجی مسئلے کے حوالے سے فکری تربیت کا یہ حسین امتزاج یہ نہ صرف عام قارئین بلکہ علمی وتحقیقی ذوق رکھنے والے افراد کے لیے بھی دل چسپی کا باعث ہوگا۔ کتاب کے پیغام کو مزید بہتر بنانے کے لیے مناسب ہوگا کہ آئندہ ایڈیشن میں سماجی بہبود کے حوالے سے صحابہ اور علماے سلف کی خدمات کا باب بھی شامل کر لیا جائے۔ اسی طرح عصری تنظیموں کے اہداف ومقاصد اور ان کے کردار کا جائزہ لیتے ہوئے اسلامی تعلیمات سے ان کا موازنہ کیا جائے اور سماجی بہبود کے حوالے سے صوفیا کی خدمات کو مزید مثالوں سے واضح کیا جائے۔ 

تعارف و تبصرہ

(مارچ ۲۰۰۵ء)

تلاش

Flag Counter